پِیش پِیش پِیش ازسعید اشعر افسانہ اردو ادب کی ایک بہترین تخلیق ہے
اس بار جو میرے دائیں بازو میں درد ہوا اس نے میری چیخیں نکال دیں۔ اس سے پہلے میں داڑھ اور گردے کے درد کے تجربات سے گزر چکا تھا۔ یہ ان دونوں سے بہت ہی آگے کا کوئی معرکہ تھا۔ اگر بائیں ٹانگ کو بھی ہلاتا تو دائیں بازو میں سے درد کی ٹیس اٹھتی۔ بیٹھنے یا لیٹنے کی کسی حالت میں بھی درد میں ذرا کمی واقع نہ ہوتی۔ البتہ دن کے کچھ اوقات میں درد معجزاتی طور پر خود بخود کم ہو جاتا۔
آہستہ آہستہ میری اس حالت کی خبر پاکستان پہنچ گئی اور وہاں سے پھر ہر طرف پھیل گئی۔ چھوٹا بھائی سلیمان دمام میں کام کرتا ہے۔ اڑتا ہوا پہنچا۔ اس کے پاس جلے ہوئے موبل آئل جیسا کوئی حکیمی تیل تھا۔ پہلے تو اس نے رجھ کے میرے بازو کی مالش کی۔ فائدہ ہونا تو دور کی بات ہر طرف مرے ہوئے کتے کی بو پھیل گئی۔
“لگتا ہے کسی کتے کی دم سے یہ تیل کشید کیا گیا ہے۔”
میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
“پچھلے دنوں میں لاہور گیا تھا۔ کسی نے مجھے وہاں کے ایک سنیاسی کے بارے میں بتایا ہوا تھا۔ یہ تیل اس نے دیا تھا۔ بہت ہی فائدہ مند ہے۔”
اتنے میں اس کی نظر پاس بیٹھے مصعب کے گنجے سر پر پڑ گئی۔ مصعب میرا بڑا بیٹا ہے اور یہاں میرے ساتھ ہی رہتا ہے۔
“مجھے یاد پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں تم نے ہیئر ٹرانسپلانٹ کروایا تھا۔ لیکن تم تو ابھی تک ویسے کے ویسے گنجے ہو۔”
“بال اگنے میں تین چار ماہ لگ جاتے ہیں۔”
مصعب نے اختصار سے کام لیا۔
سلیمان دوبارہ میری طرف گھوم گیا۔
“آپ اس تیل کی بو کی بات کرتے ہیں۔ میں آپ کو ایک ٹوٹکے کے بارے میں بتاؤں تو کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے۔”
“اچھااااا۔ کیسا ٹوٹکا؟”
“آپ کو ڈوڈی تو یاد ہوگا۔ مصعب کے ماموں کا لڑکا۔”
“ہاں ہاں۔ بڑا خوش طبع اور سوشل ہے۔”
“ایک دن وہ ماجد کے پاس بیٹھا تھا۔ ماجد بھی گنجا ہے۔”
“اور اس کا سر بہت بڑا ہے۔ میرے جیسے دو بندوں کے سر ملا کے اس کا ایک سر بنتا ہے۔”
“ڈوڈی نے اسے رازداری سے کہا۔
“گنجے پن کا ایک بڑا ہی زبردست ٹوٹکا معلوم ہوا ہے۔ جس نے مجھے بتایا پہلے وہ خود بھی گنجا تھا۔ اب اس کے بالوں پر رشک آتا ہے۔ لیکن یہ کافی مشکل ہے۔”
ماجد اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا اس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا۔
“نومولود بچے کی پہلی سُو سُو اگر گنجی جگہ پر براہِ راست پڑے تو ایک ہفتے میں بال اگ آتے ہیں۔ بظاہر اس میں کوئی لاجک نظر نہیں آتی۔ لیکن آزمودہ ہے۔ البتہ ایک احتیاط کی سخت ضرورت ہے۔ سُو سُو کے قطرے سر کے علاوہ بدن کے دوسرے حصوں پر نہ گریں۔ ورنہ ادہر بھی بال اگنے شروع ہو جائیں گے۔”
ماجد نے اپنے دل کے سب سے نمایاں مقام پر ڈوڈی کا بتایا ہوا یہ ٹوٹکا نہ صرف نقش کر لیا بلکہ اسے آزمانے کے لیے سنجیدگی سے سوچ بچار بھی شروع کر دی۔ بظاہر یہ ایک آسان نظر آنے والا ٹوٹکا انتہائی مشکل ہدف کا حصول تھا۔ اس نے تمام رشتہ داروں اور تعلق داروں میں سے آنے جانے والوں پر تصوراتی نظر ڈالی۔ اسے کہیں سے کوئی مثبت سگنل نہیں ملا۔ کوئی ایک گھر بھی ایسا نظر نہ آیا جہاں سے امید کی کوئی کرن ابھر رہی ہو۔ اگلے دن سے اس نے کئی رشتہ داروں کے گھروں میں کسی نہ کسی بہانے تانک جھانک شروع کر دی۔ اس کھوج میں پورا ایک ہفتہ گزر گیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔ الٹا ایک کزن نے اس پر پھبتی بھی کس دی۔
“خیر تو ہے آج کل بڑے سوشل سوشل ہو رہے ہو۔ تم تو سال ہا سال سے کسی رشتہ دار کے ہاں نہیں گئے تھے۔”
بجائے بھڑکنے کے اس نے اپنے چہرے پر خوش طبعی کا موڈ طاری کر لیا۔
شام کے وقت وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ شرقی سرکولر روڈ پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک میٹرنٹی ہوم سنٹر کے بورڈ پر پڑی۔ ایک جھماکا سا اس کے دماغ کے اندر ہوا۔ اس کا پڑوسی ایوب اسی سنٹر میں چوکیدار تھا۔ شام کے وقت وہ اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔
“ایوب بھائی آپ سے ایک کام ہے۔”
“اللہ خیر کرے۔ حکم کریں جی۔ میرے لائق اگر کوئی خدمت ہے تو۔”
“آئیں باہر جا کے ہوٹل میں بیٹھتے ہیں۔ وہیں بات کریں گے۔”
وہ دونوں مین بازار کے ایک ہوٹل میں اندرونی صحن میں بچھی چارپائیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
دودھ پتی اور پانی آنے کے بعد ماجد نے اپنے اندر ہمت مجتمع کی۔
“ایوب بھائی سمجھ نہیں آ رہی کیسے بات کروں۔”
“ارے صاحب ایسا بھی کیا ہے۔ آپ کھل کے بات کریں۔”
“اچھا پہلے آپ وعدہ کریں کسی کو یہ بات نہیں بتائیں گے۔”
“آپ بے فکر ہو کے بات کریں۔ سمجھیں آپ نے اپنی بات ایک اندھے کنویں میں پھینک دی ہے۔”
“اصل میں میں چند گھڑیاں کسی ایسے بچے کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں جس کی پیدائش کو ہوئے کم سے کم وقت گزرا ہو۔ اللہ کے ایک بندے نے مجھے میری بہتری کے لیے چند الفاظ پڑھنے کے لیے دیے ہیں۔ ساتھ کہا ہے پاس کوئی ایسا ہو جس سے ابھی تک کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو۔ ایک نومولود بچے سے بڑا معصوم کون ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر آپ چاہیں تو میری مدد کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ آپ سنٹر میں ہیں۔ مجھ سے جس قدر ممکن ہو سکے گا میں آپ کی خدمت کروں گا اور شکر گزار بھی رہوں گا۔”
“نا نا صاحب۔ میری اتنی اوقات نہیں کہ ایسا کوئی کام کر سکوں۔ ایک دم پکڑا جاؤں گا۔ نوکری تو جائے گی ہی ساتھ میں پولیس والوں نے مار مار کے میرا بھرکس نکال دینا ہے۔ بعد میں لوگ بھی میرا جینا حرام کر دیں گے۔ مجھے تو اس سلسلے میں معذور ہی سمجھیں۔”
ایوب بھی بڑا کائیاں تھا۔ اڑتی چڑیا کے پر گن سکتا تھا۔ اس نے بات کو آگے بڑھنے سے پہلے ہی اپنی جان چھڑا لی۔ ہوٹل سے باہر نکلتے وقت ماجد کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے کسی چار سال کے بچے سے کوئی اس کا لولی پاپ لے کے بھاگ گیا ہو۔ ایوب کو اس کی اس حالت پر رحم آ گیا۔
“آپ ایسا کریں۔ بلقیس دائی سے مل لیں۔ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتی ہے۔ وہ ضرور کوئی حل نکال لے گی۔”
ماجد کے مردہ وجود میں ایک بار پھر جان پڑ گئی۔
اگلے روز وہ موقع ملتے ہی بلقیس دائی کے دروازے پر جا پہنچا۔ بلقیس دائی نے اسے اندر بلا لیا۔ اس وقت اس کے علاوہ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے پوری تسلی سے ماجد کی بات سنی۔
“تجھے شاید پتہ نہ ہو تُو بھی میرے ان ہاتھوں میں پیدا ہوا تھا۔ یقین نہ ہو تو جا کے اپنی ماں سے پوچھ لے۔ سچ سچ بتا اصل بات کیا ہے۔”
“خالہ ہم پڑوسی ہیں۔ تُو میرے بارے میں ایک ایک بات سے آگاہ ہے۔ تجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ہم کتنے شریف لوگ ہیں۔ میری بات پر یقین کر۔ میں نے ذرا غلط بیانی سے کام نہیں لیا۔”
“ٹھیک ہے۔ میں تیری بات پر یقین کر لیتی ہوں۔ ذرا مجھے جائزہ لینے دو۔ کوئی صورت نظر آئی تو میں تجھے بتا دوں گی۔ اب تو جا۔”
ایک امید کے ساتھ ماجد وہاں سے اٹھا۔ تشکر آمیز نظروں سے دائی بلقیس کو دیکھا اور گھر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔
پورا ہفتہ انتظار میں گزر گیا۔ دائی بلقیس کی طرف سے اسے کوئی اشارہ نہ ملا۔ اس دوران وہ کئی بار اس کے دروازے کے قریب سے بھی گزرا۔ وہاں اسے ایک پراسرار خاموشی محسوس ہوتی۔ گنجا پن اس کے حواس پر جیسے سوار ہو گیا ہو۔ اسے لگتا جیسے ہر آدمی اس کی جانب تمسخر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا ہو۔ آئنہ اس کا منہ چڑانے لگا تھا۔ جوں ہی کوئی کم بالوں والا اس کے پاس سے گزرتا بے اختیار اس کا ایک ہاتھ سر کی طرف بڑھ جاتا۔ اسی کشمکش میں اس بار جو وہ دائی بلقیس کے دروازے کے پاس سے گزرا تو وہ اسے گلی میں مل گئی۔
“ماجد بات سن۔ میں دو تین روز سے تجھے تلاش کر رہی تھی۔ آ میرے ساتھ۔”
وہ اس کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔
“تیرے فلیٹ کے سامنے کلثوم کا گھر ہے۔ کل کسی بھی وقت اس کے ہاں ڈیلیوری ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے اس کا میاں اس وقت موجود نہ ہو۔ جوں ہی میں اشارہ کروں تو نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچے کو لے کر چھت پر چلے جانا ہے۔ تجھے اشارہ کرنے کے بعد میں کچن میں چلی جاؤں. گی۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو میں کسی قسم کی ذمہ دار نہیں ہوں گی۔ تجھے قسم ہے میرا نام نہ لینا۔ باقی تیری قسمت۔
“خالہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ تُو بے فکر رہ۔”
وہ دائی بلقیس کے ہاتھ پر ہزار کا نوٹ رکھ کے گھر سے باہر نکل آیا۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
“اللہ کا شکر ہے۔”
اگلے روز وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنی بیٹھک میں بیٹھ گیا۔ فرسٹ فلور پر اس کا فلیٹ تھا۔ اس لیے کھڑکی کھول کے بیٹھنے میں اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ سامنے والے فلیٹ میں اسے دائی بلقیس اور کلثوم کے میاں قاسم کی آمد و رفت بھی نظر آ رہی تھی۔
گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ دائی بلقیس نے اسے سامنے والے فلیٹ کے دروازے سے اشارہ کیا۔ اس نے تیزی سے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور بغیر آہٹ پیدا کیے سامنے والے فلیٹ میں داخل ہو گیا۔ دائی بلقیس کچن میں جا چکی تھی۔ قاسم پانچ منٹ پہلے کسی کام سے نیچے اترا تھا۔ ایک کمرے اور ایک بیٹھک پر مشتعمل فلیٹ تھا۔ سٹنگ ایریا سے ہوتا ہوا وہ سیدھا کمرے کی طرف بڑھا۔ اندر جھانکا تو اسے اطمینان ہوا۔ کلثوم نے اپنے منہ پر بھی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کا دل ڈھول کی طرح بج رہا تھا۔ اور سانسیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ نومولود بچہ ایک طرف ایک چھوٹے سے بے بی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ دائی بلقیس نے اسے ایک کپڑے سے لپیٹ رکھا تھا۔ اس نے بڑی احتیاط سے بچے کو اٹھایا۔ تاکہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ گولی کی طرح فلیٹ سے نکل کر چھت پر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ ساتھ ساتھ دل میں دعا بھی کرتا جا رہا تھا۔
“یا اللہ۔ ابھی تک اس نے سُو سُو نہ کی ہو۔ ورنہ ساری محنت رائگاں جائے گی۔”
چھت پر پہنچتے ہی اس نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے بچے کے جسم کا مطلوبہ حصہ کپڑے سے آزاد کیا۔ کپڑا خشک تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور بچے کو اپنے سر کے اوپر کر لیا۔
“پِیش پِیش پِیش”
اس سے پہلے کہ مرادوں کی بدلیاں بنجر زمین پر مہربان ہوتیں۔ قاسم اس کے سامنے آن موجود ہوا۔ چھت پھٹ جاتی تو ماجد اس میں گر کے خود کو چھپا لیتا۔
ماجد حوالات کی سلاخوں کے پیچھے ایک طرف زمین پر خاموشی سے بیٹھا تھا۔ اگرچہ اس کے بدن کے مختلف حصوں سے اٹھنے والی درد کی ٹیسیں کم ہو چکیں تھیں۔ لیکن اس کا دماغ ابھی تک ماؤف تھا۔ یہ سب کچھ اسے ایک ڈراؤنا خواب سا لگ رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ قاسم اتنی بری طرح بھی اس کی دھنائی کر سکتا ہے۔ اس دوران اگر وہاں پولیس نہ پہنچتی تو اس کی روح کب کی پرواز کر چکی ہوتی۔ اس کی بائیں آنکھ کے گرد بنا ہوا کالے رنگ کا حلقہ، سوجھی ہوئی ناک اور کٹے ہوئے ہونٹ دیکھ کے دوسرے حوالاتیوں نے پوچھنے کی کافی کوشش کی۔
“خیر تو ہے؟ کیا ہوا؟ کسی کے ساتھ جھگڑا ہو گیا تھا کیا؟”
“کچھ نہیں۔”
اس سے زیادہ وہ کسی کو کچھ نہ بتا سکا۔ ایس ایچ او بھی اس سے پوچھتا ہی رہ گیا تھا۔ اس نے اسے بھی انتہائی مختصر جواب دیے۔
“تم پر ایک نومولاد بچے کے اغوا، اس پر کالا جادو کرنے اور ارادہِ قتل کا الزام ہے۔ اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟”
“ایسا کچھ نہیں۔ وہ بچہ معصوم ہے۔”
پہلے تو اس کے جواب سے ایس ایچ او کچھ نہ سمجھا۔ پھر اس نے ایک بلند قہقہہ لگانے کے بعد اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔
“او کسی کھوتے دے پتر۔ زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہ کرو۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ تم کس مصیبت میں پھنس چکے ہو۔ تم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو۔ یہ کوئی مذاق نہیں۔”
“سر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ وہ معصوم ہے۔ میں اس کے پاس کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔”
“رشید ابھی اس کو لے جاؤ۔ لگتا ہے کٹ کھانے کی وجہ سے اس کا دماغ ہل گیا ہے۔ کچھ دیر بعد اسے دیکھیں گے۔”
ایس ایچ او شاید جلدی میں تھا۔ رشید نے اسے لے جا کر سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا۔ جب سے وہ ایک ہی جگہ صم بکم بیٹھا تھا۔
کافی دیر بعد رشید آیا اور اسے ایک بار پھر ایس ایچ او کے آفس لے گیا۔ وہاں اس کا بڑا بھائی اشرف، ڈوڈی اور ڈوڈی کے والد پہلے سے بیٹھے تھے۔ ڈوڈی کا والد ایک مشہور حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اثر سیاسی اور سمجاجی شخصیت بھی تھا۔
“بہت بہت شکریہ قاضی صاحب۔ اجازت دیں۔ میرے لائق کبھی کوئی خدمت ہو تو ضرور یاد کیجیے گا۔”
“ٹھیک ہے حکیم صاحب آپ اسے لے جائیں۔”
ایس ایچ او نے اس پر ایک قہر آلود نظر ڈالنا ضروری سمجھی۔
واپسی پر وہ چاروں کافی دیر خاموش رہے۔ پھر ڈوڈی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
“کامیابی ہوئی۔”
“نہیں۔”
اس کے منہ سے ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس نکل گئی۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.