Jungle Drama By Noor ul Huda Shah Review

Jungle Drama By Noor ul Huda Shah Review

1986 کی بات ہے، جب سڑکین ویران ہو جاتی تھیں، دوکانیں جلدی بند ہو جاتی تھیں، سب کو بس رات 8 بجے کا انتظار شدت سے ستانے لگتا تھا تو سمجھ جائیں۔۔۔کہ ڈرامہ سیریل “جنگل” کی قسط نشر ہونے والی ہے۔۔۔!!!

یہ روایت ڈرامہ “جنگل” سے ہی شروع ہوئی تھی۔۔ ایسا شاندار ڈرامہ کسی اور نے نہیں بلکہ نامور افسانہ نگار، ناول نگار، شاعرہ اور ڈرامہ نویس “نور الہدیٰ شاہ” نے لکھا تھا!!!

نور الہدیٰ شاہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔۔۔ ڈرامہ سیریز “جنگل” سے پہلے بھی وہ بہت زیادہ مشہور تھیں۔۔۔ لیکن صرف صوبہ سندھ میں۔۔۔ “جنگل” ڈرامے نے ان کواور انکی قابلیت کو پورے پاکستان سے متعارف کروایا۔

ان کی وجہ شہرت سندھی زبان کے افسانوں کا مجموعہ “جلا وطن” بنی۔۔۔ جو انہوں نے شاید اسی کی دھائی میں لکھا ہوگا۔۔۔ اس مجموعے میں انہوں نے دل ہلادینے والے افسانے لکھ کر سندھی ادب میں اپنی مخصوص جگہ بنالی۔

جنگل ڈرامہ نور الہدیٰ شاہ کی اردو لکھنے کے حوالے سے پہلی کوشش تھا اور اس کے بعد انہوں نے بیشمار اردو ڈرامہ سیریز لکھے جن کو چوٹی کے ہدایت کاروں نے پیش کیا۔۔۔۔ ان کا لکھا ہر ایک ڈرامہ اپنے آپ میں ایک مثال بن گیا:

آسمان تک دیوار، تپش، ماروی، اب میرا انتظار کر، ذرا سی عورت، تھوڑی سی محبت، بے باک، فاصلے، سمي، حوا کی بیٹی، میری ادھوری محبت، عجائب گھر، عشق گمشدہ، ادھورا ملن، چند خطوط چند تصویریں، بادلوں پہ بسیرا، اور نہ جانے کتنے ڈرامے ہیں جو اس شاندار ادیبہ نے لکھے ہیں۔

کتاب “جلا وطن” کے علاوہ بھی ان کی سندھی زبان میں کئی کتابیں چھپ چکی ہیں!!

نور الہدیٰ شاہ 1951 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں تھیں اور سندھ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ شادی سے پہلے ان کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔۔۔ جنگل ڈرامے سے پہلے ہم نے ان کا صرف نام ہی سنا تھا کبہی ان کی کوئی تصویر نہ دیکھی۔۔۔

کتاب “جلا وطن” میں ہم نے سندھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف ان کے غصے کی شدت کو محسوس کیا اور کچھ افسانوں نے تو ان دنوں ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے!!! جلاوطن کتاب نے حویلیوں کی اونچی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا اور نور الہدیٰ شاہ کو ایک “باغی” افسانہ نگار کے طور پر اجاگر کیا۔

یہ قابل ادیبہ اردو میڈیا میں بے انتہا نام کمانے کے بعد صرف ڈرامے لکھنے تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ مختلف ٹی وی چینلرز پر بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہیں۔ ان چینلز میں جیو ٹی وی، ہم ٹی وی، بول، اے پلس اور ہم ستارے شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے ڈراموں کی نہیں بلکہ دوسرے ڈرامہ نویسوں کے ڈراموں پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں اور ان کو مارکیٹنگ کے فن کا بھی مکمل علم ہے۔

2013 کی نگراں حکومت میں اس بے مثال رائیٹر کو صوبائی وزیر اطلاعات کا قلم دان سونپا گیا جو ایک باغی رائیٹر کیلیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ ان کا لکھا ایک مشہور iconic مکمالمہ تو سب نے پڑھا ہوگا کہ،

“سیاست بازار حسن کی تنگ گلیوں سے گذرتی ہے یہ تو معلوم تھا، لیکن سیاست ایک دن کوٹھا کھول کر بیٹھ جائے گی یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا”

ان کی ایک اور چھوٹی سی آزاد نظم بھی پیش خدمت ہے:

میرے رب!

تیرے اور میرے درمیان سے

فتویٰ فروشوں کو ہٹا دے

یہ میری بندگی میں مُخل ہوتے ہیں

جس لکھاری نے حویلیوں میں رہتے ہوئے حویلیوں سے بغاوت کی ہو، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے انہوں نے عورتوں کے حقوق کیلیے کام نہ کیا ہو؟؟

شاہ صاحبہ نے ہمیشہ زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر معاشرے میں پسی ہوئی عورتوں کیلیے اپنی آواز اور قلم کے ساتھ ایک NGO کے ذریعے کام کیا، وہ غیر سرکاری تنظیم Johns Hopkins University USA کے تعاون سے بنائی گئی تھی۔

انہوں نے سندھی کتابوں کے ساتھ کئی ساری اردو کتابیں بھی لکھیں، جن می کھلتے ہیں گل یہاں، چاہت کی جیت، چاندنی گنگنانے لگی، عجیب ہیں یہ سلسلے وغیرہ شامل ہیں۔

ان کی لکھی کتاب “موسم موسم” 1990 میں مذہبیات اور فلسفے کے موضوع پر تھی۔ یہ کتاب اور ان کے لکھے کئی افسانے آپ کو “ریختہ” پر با آسانی مل سکتے ہیں۔

ایسے شاندار کارناموں کی وجہ سے ، 2008 میں حکومت پاکستان نے ان کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

نورالہدیٰ شاہ کے ڈرامہ سیریز “جنگل” کے بارے میں ایک اخبار کے کالم کا ایک چھوٽا سا حصہ لکھ کر آپ سے اجازت چاہوں گا🙏

“نورالہدیٰ شاہ” کے ڈرامہ سیریل جنگل کو خاص طور پر عوامی مقبولیت حاصل ہوئی جس میں نورالہدیٰ شاہ نے سندھ کے وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ سماج کو اس انداز میں بے نقاب کیا کہ ڈرامہ دیکھنے والوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس ڈرامے میں نور الہدیٰ شاہ نے سندھ کی حویلیوں کو ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں لا کھڑا کیا۔ یہ ڈرامہ نورالہدیٰ شاہ کے ہی کیرئیر کا نہیں بلکہ سرکاری ٹی وی کی تاریخ کا بھی ایک مقبول کلاسک ڈرامہ سمجھا جاتا ہے۔”

گلاب راۓ لوہانہ / Film Walay فلم والے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *