ہندوستانی سینما میں مزاحمت کو عموماً جذباتی نعرہ بنا دیا جاتا ہے یا پھر سطحی میلو ڈرامہ مگر سینمائی دنیا میں کچھ فلمیں اپنی کہانی سے نہیں، اپنے مزاج سے ہمارے دِل میں جگہ بناتی ہیں۔ ہمارے لیے یہ ویسی فلم ہے۔ کوئی نعرہ نہیں، کوئی narrative arc نہیں، کوئی grand finale نہیں۔ بس جیسے صبح سویرے نیم تاریک یونیورسٹی کوریڈور میں کوئی شوخ لڑکی چاک سے دیوار پر بڑا بڑا لکھ دے:
“If you must rebel, make it beautiful.”
ارون دھتی رائے کی فلم :
In Which Annie Gives It To Those Ones
Year :1989
فلم اک آرکیٹیکچر انسٹیٹیوٹ پر ہے ۔کہانی کیا ہے، اصل میں یہ ہندوستانی دماغوں کی تھکان کی روداد ہے۔ جہاں کردار حقیقت میں نہیں، نوٹس بک کے حاشیے پر جیتے ہیں۔ یہ ان کلاسوں کی سوانح ہے جن میں خواب نہیں دیکھے جاتے۔ وہ نصاب جن سے محبت نہیں ہوتی اور وہ پروفیسرز جن کے دماغوں کے مفلوج خلیوں میں بس ایک ہی اصول کاڑھا گیا ہوتا ہے:
” Don’t think; just submit! “
اور پروفیسرز بھی کیسے کیسے، حضرتِ یمدوت جیسے!! صاحب باوجود ہیڈ ہونے کے ہیڈ لیس ہیں۔ اپنے ہی سسٹم کے قیدی ! اس کے مکالمے کسی lexiconسے نہیں، بلکہ نظام کے stomachسے نکلتے ہیں۔ اسے لفظوں سے نہیں، ترتیب سے محبت ہے۔ بس سر تا پا ایسی مستقل ڈس اپوائنٹمنٹ جو سالہاسال تک طالبعلموں کے ذہنوں پر کوڈل نوٹس کی طرح چپک کر رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ پروفیسر یمدوت کس طرح کی بلا ہیں ؟ اجی اک کلاسیفائیڈ حاکم ہیں بلکہ یوں کہیے کہ سسٹم کا قابلِ قدر فوسل ہیں! انسٹیٹیوٹ کے وہ خودساختہ برہما جنھوں نے سلیبس کے پرانے گھسے پٹے اشلوک خود لکھے اور اب ہر سال انہی کو پڑھ پڑھا کر گویا طلباء پر احسان کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ذہانت خطرہ ہےاور تخلیق بیماری۔ گر کوئی طالب علم ہٹ کر کچھ پوچھ لے تو وہ اُسے پرسنلٹی ڈس آرڈر گردانتے ہیں ، یوں چڑ جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کے کھانے میں سوشلزم ڈال دیا ہو۔ پکار اٹھتے ہیں: “ Mister! Lady! You are not here to be creative, you are here to be correct.” پھر جب سٹوڈنٹ کے ماڈلز دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہر طالبعلم کا ماڈل تھیسس نہیں بلکہ ڈیتھ سرٹیفکٹ دیکھ رہے ہوں ۔۔ “This is not a railway station, Miss Rukmini, you can’t arrive on Platform 3 and start painting your ideology on the walls!” خیر چھوڑیے انھیں فلم کی خاص الخاص نبضیں تو رادھا اور اینی ہیں ۔
رادھا پڑھی لکھی سرپھری سی لڑکی ہے۔ یوں سنبھلی ہوئی جیسے کوئی دیوی مسکنت میں ڈھلی ہو ۔ اس کی آنکھوں میں بغاوت کی اٹھتی بجھتی چنگاریاں ہیں۔ وہ جانتی ہے، سمجھتی ہے، مگر کبھی کبھی بے قابو ہو جانا بھی اس کے شعور کا حصہ ہے۔ اس کی مسکراہٹ میں دلآویز تنہائیاں ہیں، ایسی تنہائیاں جو برسوں انسٹیٹیوٹ کی دیواروں، بینچوں، پرچوں اور استادوں کی گفتار اور سگریٹ کے دھوئیں میں گھل کر خوشبوئیں بن چکی ہوں۔ وہ سلجھی اس لیے نہیں کہ کسی نے اسے تمیز سکھائی بلکہ اس لیے کہ وہ زندگی کے اس موڑ پر آ چکی ہے کہ اب بکھرنا اسے زیب نہیں دیتا۔ بگڑی وہ اس لیے نہیں کہ نخرے نشرے دکھانا جانتی / چاہتی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے اندر تہذیب کی پوری لغت لے کر چلتی ہے۔ وہ خاموشی سے چیختی ہے اور چیخنے میں بھی حسن رکھتی ہے۔ گویا اس نے اپنے ہیجانوں کو خوشبوؤں میں بدلنے کا ہنر سیکھ رکھا ہے۔
رادھا کے مکالمے، اس کی سوچیں فکریں، اس پر فلمایا ہوا اک اک سین جب وہ صرف سن رہی ہوتی ہے یا جب وہ ناز و ادا سے بولتی ہے۔ ان سب فریموں میں فلم ہم پر اپنے سب سے خوبصورت رنگ کھولتی ہے۔ رادھا کسی انقلاب کی سردار نہیں مگر وہ ان سب عورتوں کی نمائندہ ہے جو اپنے دل کے گلشن دانوں میں طرح طرح کے ارمانوں اور خوابوں کو سجانے سے نہیں ڈرتیں۔
رادھا اپنی جنس کو ڈسپلے نہیں کرتی۔ نہ فلرٹ کرتی ہے نہ passiveہوتی ہے۔ وہ کسی tropeمیں نہیں آتی۔ اُس کا سکوت، اُس کی خودمختاری، اُس کی نگاہیں ، اس کی بڑی بڑی افلاطونی باتیں یہ سب ایک non-verbal sensuality کا حصہ ہیں۔ اس کا وجود کوئی خالی pauseنہیں بلکہ وہ قالب ہے جس میں پوری کائنات جھلملاتی ہے۔ وہ فیمنسٹ نہیں مگر عورت ہے۔ وہ ایکٹیویسٹ نہیں مگر changeہے۔ وہ احتجاج نہیں کرتی مگر اس کا سارا وجود آپ اپنے میں اک counter-narrative ہے۔ وہ ویدوں پرانوں والی رادھا نہیں ۔آج کے ماڈرن دور کی سوشلسٹ رادھا ہے جو حقیقتوں میں زندہ رہنا جانتی ہے، صرف قصوں میں نہیں۔
اور ANNIE؟؟
وہ ایک designer of dissent ہے ۔جو آرکیٹیکچر نہیں، احتجاج ڈیزائن کرتا ہے۔ جو انسٹیٹیوٹ کا وہ anomaly ہے جس کے پاس اسائنمنٹ کی بجائے Insights ہوتی ہیں۔ اس کے پریشاں بال، اس کی تھکی ہوئی چال ، اس کی آڑھی ترچھی سوچیں ، اس کی سنگیتا سے الفت اور اک رقاصہ سے فلسفیانہ محبت ، یہ سب اُس کی ذات کی وہ تعبیریں ہیں جنھیں یمدوت جیسے لوگ ہضم نہیں کر پاتے۔
یمدوت کو سب سے زیادہ چڑ Annieسے ہی ہے کیونکہ وہ نہ کوئی انقلابی ہے نہ سیاسی۔ وہ تو فائنل ائیر کا ناکام پاگل فلسفی ہے جو ریل کی پٹڑیوں کے دونوں جانب پودے اگا کر urbanizationپر فل سٹاپ لگانا چاہتا ہے۔ ایسا جنونی جو کنکریٹ میں دراڑیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ اینی کو بار بار فیل کرتا ہے ۔ وہ اس کی ذات سے نہیں، اُس کی آزادی سے خائف ہے۔ کیونکہ اینی سوچتا ہے اور سوچنا اس انسٹیٹیوٹ کی روایت نہیں۔
“He doesn’t disrespect the institution… he just doesn’t believe it exists.”
اینی کے لیے اس کا جرم یہ نہیں کہ وہ بار بار فیل ہو رہا ہے۔ جرم یہ ہے کہ وہ مسکرا کر فیل ہو رہا ہے۔ وہ شکست کو اپنی aesthetic بنا رہا ہے۔ لیکن یمدوت کے لیے اینی اور رادھا بس چلتی پھرتی disruption ہیں۔
“Annie is an idea… and ideas are dangerous.”
“He does not respect authority.”
“He comes late, speaks early, and leaves before the point.”
“He dreams in English but submits in graffiti!”
“He’s not incompetent, he’s infectious.”
اینی کی fruits and toilet thesis کو وہ ایسے دیکھتا ہے جیسے کوئی آرکیٹیکچرل دہشتگردی ہو۔
“Toilets for the poor? This is not architecture.”
“Exactly. That’s why it needs to be.”
“You don’t make toilets with poetry, Annie!”
اس کے نزدیک Annie کو کوئی چائے کا سٹال کھولنا چاہیے جہاں وہ رات گئے نئی سوسائلسٹ بربادیوں پر تبصرے کرے
اور سٹوڈیو کے بجائے کسی انارکی کے آنگن میں خوابوں کے اسکیچ بنائے۔
پاپے، ارجن، کازوسی، مین کائنڈ اور بلگرامی — سب شور میں بولتے ہیں لیکن سب کی آواز الگ ہے۔ جیسے کسی maze کے کیریکٹرز ہوں، جو باہر سے ماڈرن اور سارکیسٹک ہیں پر اندر سے پوری طرح سے خالی اور ready to break۔
سب chaos کے شہزادے ہیں۔ ان کے ڈائیلاگ شور نہیں، مزاحمت ہیں۔ وہ اپنے وجود سے ثابت کرتے ہیں کہ ڈس آرڈر بھی جمالیاتی ہو سکتا ہے ۔ revolt بھی خوبصورت ہو سکتا ہے، بس اس میں wit ہونا چاہیے۔
“The whole damn country is one big emergency ward.”
یہ لوگ زندگی کے فلسفے کو فقط پڑھتے نہیں، جیتے ہیں۔ ان کے ڈائیلاگ طنزیہ ہیں جیسے عام آدمی کے خواب ہوں جن پر دھول جمی ہو مگر چمک اب بھی باقی ہو۔ وہ ناسٹلجیا ہیں، روایت ہیں، مگر passive نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کلاس ٹیسٹ میں فیل ہو کر بھی زندگی کے ہر بڑے امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں پہنچ رہے پھر بھی راستے کو خوبصورت بنا رہے ہیں اپنی گرافیٹی سے، پراگندہ سوچوں سے، الجھے ہوئے سوالوں سے ، چٹکلوں سے، فلسفیانہ رنگینیوں سے، آرکیٹیکچرل حاشیوں سے اور سب سے بڑھ کر اس خیال سے کہ اصل زندگی ناکامی کے بعد شروع ہوتی ہے۔
یہ پلاٹ کی نہیں، pause کی فلم ہے۔ طنز یہاں احتجاج ہے، خاموشی یہاں زبان ہے اور جملے مائیکرو مینی فیسٹوز ہیں۔اس فلم کا کمال حسن وہ گرافیٹی ہے جو کرداروں اور مکالموں میں نہاں ہے۔ ہر بات میں ایک مذاق۔ ہر مذاق اک سچ اور ہر سچ میں موجود ٹریجڈی۔ وہ المیے جن سے ہم روز گذرتے ہیں مگر ان پر تھیسس لکھنے کی جرات نہیں کرتے۔ فلم کی Hinglish زبان گویا اک زبردست تجربہ ہے۔ ہندی انگلش کا ایسا ہائبرڈ جس میں ایمرجنسی کے بعد کی جنریشن کی طرف سے رئیل انڈیا اور اس کے ان رئیل اکیڈمک ورلڈ پر کنفیوزڈ اظہار موجود ہے۔ جو مارکس کو کوٹ بھی کرتی ہے اور اپنی slang کے اندر بھی wisdom ڈالنے سے نہیں چوکتی۔
فلم کی ویژول گریمر کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پوری فلم میں روشنی صرف یمدوت کے دفتر اور اس کے لیکچر ہال میں ہے، باقی سب فریموں اور جگہوں پر تاریک دھند چھائی رہتی ہے جیسے اس سب کا یہ مطلب ہو کہ خواب دھند میں دیکھے جاتے ہیں اور اصول روشنی میں سکھائے جاتے ہیں _ پھر سٹوڈنٹس کی باتوں کے دوران وہ Soft Bluish Tone دراصل انفارمل لرننگ کا اک حوالہ ہے۔ اسی طرح فلم میں کیمرہ اکثر مروج قوانین توڑتا ہے۔ کردار آگے چلتے رہتے ہیں اور وہ پیچھے کسی کھائی میں پڑا رہ جاتا ہے۔ چہرہ پورا نہیں دکھاتا، دھندلاتا رہتا ہے، آدھے مکالمے سنائی نہیں دیتے۔ بنیادی طور پر یہ Visual Shutter ، سٹوڈنٹس کی بغاوتوں کا ایک اجمالی طریقہ اظہار ہے۔ جب پروفیسر یمدوت کلاس میں داخل ہوتا ہے، کیمرہ اسے کچھ اس زاویے سے دکھاتا ہے جیسے بلیک بورڈ کے سامنے وہ کوئی عقیدہ رقم کرنے آیا ہو۔ اس کے برعکس جب اینی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوتا ہے تو کیمرہ handheld ہو جاتا ہے۔ فلم کی ویژول گریمر میں جگہیں بھی کردار ہیں۔ ہوسٹل روم ایک تخلیقی chaos ہے ۔ لگتا ہے ذہن کی اندرونی ڈسٹرکشن کو مادی شکل دی گئی ہو۔ کوریڈور اور کلاس روم وہ liminal space ہیں جہاں ہنگامے ہیں ،شور ہے، اختلاف ہے، مگر یہی تو زندگی ہے۔ کتنا ironic ہے ! فلم نہ ختم ہوتی ہے نہ مکمل ہوتی ہے۔ جیسے میرؔ کے اشعار میں ایک مصرعہ اگلے مصرعے کی پیش گوئی نہیں کرتا، ویسے ہی ہر شاٹ، ہر کٹ، ہر pause __ کسی نئے سوال کو جنم دیتا ہے۔ سب خواب پورے نہیں ہوتے، بس ان کے تھوڑے تھوڑے ٹکڑے حقیقتوں کے خلا میں معلق رہ جاتے ہیں۔ “Are you guys still giving it to them… or are they giving it to you now?” ” Abhi they’ll do it for MARKS. Bad main they’ll do it for money no difference! “
کاشف مشتاق / Film Walay فلم والے

Year 1989 fim review
