محمد علی، منوج کمار اور “کلرک”
یہ کوئی فلمی مکالمہ نہیں، بلکہ حقیقت کا وہ باب ہے جو برسوں سچائی کے پردے میں چھپا رہا۔ جب برصغیر کے شہنشاہِ جذبات، محمد علی، بھارتی سرزمین پر اترے، تو یہ محض ایک فنکار کا سفر نہ تھا—یہ ایک امید تھی۔ فن کی سرحدوں سے بالاتر، زبان، جذبات، اور مشترکہ ورثے کی امید۔
استقبال صرف شائقین نے نہیں کیا، بلکہ خود بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے اُس وقت کے صدرِ پاکستان، جنرل ضیاء الحق سے خواہش کا اظہار کیا کہ محمد علی بھارتی فلم میں جلوہ گر ہوں۔ اور کیوں نہ ہوتے؟ محمد علی وہ فنکار تھے جن کی آنکھیں مکالمے بولتی تھیں اور آواز دل میں اتر جاتی تھی۔
بھارتی فلم انڈسٹری کے معتبر نام، منوج کمار، نہ صرف محمد علی سے متاثر تھے بلکہ کئی بار لاہور آ کر ان کے مہمان بھی رہے۔ زیبا اور محمد علی کی مہمان نوازی، ڈرائنگ روم کی چائے، قہقہے، اور ہر ملاقات میں ایک ہی خیال گردش کرتا رہا:
“مشترکہ فلمیں بننی چاہییں… پاک بھارت کو قریب لانا ہوگا۔”
لیکن جو کچھ بعد میں ہوا، وہ کسی فلمی اسکرپٹ کا نہیں، ایک تلخ حقیقت کا منظر تھا۔
منوج کمار نے اپنی فلم “کلرک” کے لیے محمد علی اور زیبا کو مدعو کیا۔ علی صاحب نے حسبِ روایت بھرپور اور مؤثر اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ سیٹ پر موجود تمام افراد ان کے فن کے معترف ہو گئے۔ مگر جب فلم ریلیز ہوئی، تو سنیما کا پردہ ایک تلخ انکشاف بن کر اٹھا—نہ صرف محمد علی کے بیشتر مناظر کاٹ دیے گئے، بلکہ فلم کا اصل اسکرپٹ بھی تبدیل کر دیا گیا۔
ابتدائی اسکرپٹ میں دونوں ملکوں کے درمیان محبت، بھائی چارے، اور انسان دوستی کا پیغام تھا، جبکہ فلم کا انداز ایکشن اور رومانوی تھا۔ لیکن ریلیز کے بعد فلم کی کہانی اس قدر مسخ کر دی گئی کہ وہ ایک قوم پرست بیانیے میں ڈھل گئی، اور ولن کو پاکستانی ایجنٹ کے روپ میں پیش کیا گیا۔
یہیں کہانی کا ایک اور افسوسناک رخ سامنے آیا: منوج کمار نے محمد علی کی واپسی کے بعد کئی مناظر خود پر شوٹ کروائے، اور حیرت انگیز طور پر ان میں مکالمے محمد علی کی آواز میں شامل کیے گئے! یعنی نہ اعتماد اتنا کہ خود مکالمے بول سکیں، نہ ظرف اتنا کہ عظیم فنکار کے مقام کو قائم رکھا جا سکے۔
منوج کمار کی “بھائی چارے” کی کہانی، افسوس کہ خود ایک “ڈرامہ” نکلی۔ محمد علی کا کردار محدود کر کے ان کی فنکارانہ عظمت کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔ مگر علی صاحب نے کبھی شکایت نہ کی—وہ نہ صرف بڑے فنکار تھے، بلکہ بڑے انسان بھی تھے۔ انہوں نے یہ تلخ داستان صرف اپنے چند قریبی دوستوں سے ہی بیان کی۔ انہیں منوج کمار کی اس حد درجہ منافقت پر ہمیشہ ایک کسک سی رہی۔
یہ واقعہ پاک-بھارت فلمی تعلقات میں ایسی خلیج ڈال گیا جسے نہ سفارت کار پاٹ سکے، نہ فنکار۔
پردہ گر گیا، کہانی ختم ہوئی، مگر ایک سوال آج بھی پردے کے پیچھے گونجتا ہے:
جب بھارت سے آنے والے ہر فنکار کو پاکستان میں بے مثال عزت، محبت اور پذیرائی ملی—تو کیا پاکستان سے جانے والے فنکاروں کو بھی بھارت میں وہی سلوک ملا؟
