Best Afsana by Saeed Ashar

Best-Afsana-by-Saeed-Ashar-2.webp
Best-Afsana-by-Saeed-Ashar-2.webp

صادق اینڈ برادرز الیکٹرانکس is one of the best Best Afsana by Saeed Ashar

 جونہی سیکنڈ ایئر کا امتحان قریب آیا چاچا صادق کراچی بھاگ گیا۔ وہاں اس نے دو کام کیے ایک تو کسی کی دکان پر جا کے ریڈیو ٹھیک کرنے کا کام سیکھا۔ دوسرا اپنی ایک دور پار کی کزن سے کامیاب عشق لڑایا۔ کوشش کے باوجود باقی ساری زندگی ان دونوں کاموں نے پھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ ڈھائی سال بعد جب اسے ریڈیو مکینک کا سرٹیفکیٹ ملا اور عشق منگنی میں بدل گیا تو وہ ہری پور واپس لوٹ آیا۔ اس زمانے میں مین بازار میں کرائے پر دکان بآسانی مل جاتی تھی۔ کرایہ بھی برائے نام ہوتا۔ پگڑی کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ دو چار ہزار روپوں میں آپ اپنی من پسند دکان خرید سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے والد صاحب سے ان کے کسی جاننے والے نے دو تین ہزار روپے قرض لیے تھے۔ وہ قرض چکانے سے معذور تھا۔ اس نے ہمارے والد صاحب سے کہا۔ حاجی صاحب ! شیرانوالہ چوک میں میری دو دکانیں ہیں ۔ آپ وہ لے لیں ۔ ”ہم نے دکانوں کا کیا کرنا ہے ۔ والد صاحب نے انتہائی بیزاری سے کہا۔ اس نے وہ دکانیں کسی اور کو بیچ کے میرے والد صاحب کا قرض چکایا۔ اب وہاں ایک دکان پچیس کروڑ میں بھی کوئی بچنے کے لیے آمادہ نہیں ۔ چاچا نے چھتی گلی سے ذرا پہلے کمیٹی چوک کی سمت ایک دکان کرائے پر لے لی۔ کیا زمانہ تھا اکثر دکانوں کے آگے بیس  سے تیس فٹ تک جگہ خالی ہوتی تھی جہاں ٹاہلی کے درخت لگے ہوتے ۔ دور دراز کے مسافر اکثر ان کے نیچے سستا رہے ہوتے ۔ مضافات کے دکاندار بار برداری کے لیے اپنے ساتھ گدھے بھی لے آتے ۔ ان گدھوں کو درختوں کے سائے میں باندھ کر وہ بے فکری سے پورے بازار میں گھومتے اور خریداری  کرتے۔ چاچا نے اپنی دکان کا نام ” صادق اینڈ برادرز الیکٹرانکس رکھا۔ افتتاح پر 

اردگرد کے پانچ سات دکاندار

 اکٹھے ہو گئے شکر پاروں پر دعا کی گئی۔ شروع میں تو بالکل کوئی کام نہیں تھا۔ چاچا نے فارغ بیٹھنے کے بجائے ایک بینڈ کا ریڈیو بنایا۔ تا کہ سب لوگوں کو ان کی قابلیت کا 

اندازہ  ہو سکے۔ پھر اکا دکا ٹرانزسٹر اور ٹیوب والے ریڈیو ٹھیک ہونے کے لیے آنے لگے ۔ اس زمانے میں پورے ہری پور شہر میں بمشکل آٹھ دس بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رہے ہوں گے۔ ٹیپ ریکارڈ کا دور دور تک تصور بھی نہیں تھا۔ موسیقی کے شوقین ریڈیو یا مختلف ہوٹلوں میں بجنے والے گرامافون سے اپنے ذوق سلیم کی تسکین کا سامان کرتے ۔ ہمارے گھر کے پاس کاغان نام کی ایک کیفی تھی ۔ فارغ لوگ گھنٹوں کے حساب سے وہاں بیٹھ کے اپنی پسند کے گانے سنتے ۔ چاچا نے دکان میں کچھ سامان گھروں کی وائرنگ کے لیے بھی رکھ لیا تھا۔ سارا دن دو ایک گاہک ہی آتے۔ اس کے علاوہ چاچا نے کرائے پر دینے کے لیے دو تین جوڑیاں لاؤڈ سپیکروں کی رکھی ہوئی تھیں۔ دو تین ایمپلی فائر بھی تھے۔ کبھی کبھی وہ کسی ایک کو آن کر کے گرامافون سے گانے لگا دیتا۔ دور دور تک گانے کی آواز جاتی۔ بعض اوقات کسی شادی میں ریکارڈ بجانے کا آرڈر بھی آجاتا۔ جس کے لیے چاچا دو تین دن کے لیے دکان بند کر دیتا۔ عام طور پر چھٹی کے دن وہ گرامافون گھر لے آتا اور گھنٹوں طلعت محمود کے گیت سنتا۔ میں اکثر عصر کے بعد اس کی دکان پر جاتا۔ چا چا مجھے کہتا۔ استاد کیوں نہ چائے پی جائے ۔ میں چوک میں بنے ایوب ہوٹل میں ایک پیالی چائے کا آرڈر دے کے آتا۔ اگر چہ وہ چھوٹا سا ہوٹل تھا مگر اس کی چائے پورے علاقے میں مشہور تھی۔ ہوٹل کے مالک کو سب یوبا کہتے۔ سارا دن گرم چائے چکھ چکھ کے اس کے دانت سوئیوں جیسے نو کیلے ہو گئے تھے۔ وہ دو خالی پیالیوں کے ساتھ چینک میں چائے لاتا ۔ جسے ہم چسکیاں لے لے کر پیتے ۔ دکان پر اتنا زیادہ کام تو تھا نہیں ۔ میرے وہاں آنے کے بعد چاچا کہیں نہ کہیں نکل جاتا۔ اس دوران اگر کوئی مانگنے والا فقیر آجاتا ۔ کام کے پھٹے پر ہمیشہ ایک پیسے کے کچھ سکے رکھے ہوتے ۔ میں ان میں سے ایک اٹھا کے اس کی تھیلی پر رکھ دیتا۔ زیادہ تر میں سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو خاموشی سے دیکھتا رہتا۔ یہ میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک آدھ ٹانگے والا یا سائیکل سوار گزرتا ظہر کے وقت تو بازار بالکل سنسان ہوتا۔ پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ دکان پر ایک گاہک آیا۔ اسے اپنا ریڈیو ٹھیک کروانا تھا۔ چاچا نے اسے کھول کے اچھی طرح دیکھا۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہفتے بعد لے جائیں ۔ چاچا نے اسے کہا میں دربنداں سے آیا ہوں ۔ ہفتے بعد دوبارہ نہیں آسکتا۔ کافی دور ہے کل میں ادھر ہی ہوں ۔ پرسوں صبح واپس چلا جاؤں گا۔ آپ مہربانی کریں کل شام تک ٹھیک کر دیں ۔ چاچا راضی ہو گیا۔ ریڈیو کے اوپر سے جو سبز رنگ کا ریشمی غلاف چاچا نے اتارا تھا وہ اس کے حوالے کیا۔ یہ آپ اپنے پاس رکھ لیں یہاں گم ہو جائے گا۔ گا ہک پیسے پوچھ کے چلا گیا۔ چاچا اپنے کام میں جٹ گیا اور اگلے دن ظہر سے پہلے پہلے ریڈیو ٹھیک کر لیا لیکن شام کو وقت مقررہ پر وہ گاہک نہ آیا۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ اس کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ ہفتہ اور پھر مہینہ گزر گیا۔ مزید کچھ وقت گزرا تو چاچا کا ایک دوست تقاضا کرنے لگا۔ یہ ریڈیو مجھے دے دیں۔ مجھے نہیں لگتا اب اس کا مالک بھی آئے گا۔ اورا گروہ واپس آگیا تو پھر میرا جلوس نکالے گا۔ میں وہ جلوس لے کے تمھارے گھر کی طرف آجاؤں گا۔ کچھ شرم کرو ۔ دوسروں کی چیزوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ حتی کہ چھ مہینے گزر گئے۔ چاچا ریڈیو کو سنبھال سنبھال کے اکتا چکا تھا۔ اس کا دوست بھی مسلسل اس ریڈیو کے پیچھے پڑا رہا۔ ایک دن تنگ آکے چاچا نے وہ ریڈیو اسے بیچ دیا۔ اس کے آٹھ دس دن بعد کیا دیکھتے ہیں ریڈیو کا مالک دکان کے آگے بنے ہوئے تھلے پر چلتا ہوا ہماری طرف آرہا تھا۔ میں اور چاچا حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ ٹھیک کروانے چھوڑ گیا تھا ۔ السلام علیکم! آپ نے مجھے پہچانا۔ کافی عرصہ پہلے میں آپ کے پاس اپنا ایک ریڈیو چھوڑ گیا تھا 

 وعلیکم السلام  پہچان تو لیا ہے لیکن آپ اتنی جلدی واپس کیسے آگئے؟“ چاچا نے جملہ چست کیا۔ آپ ناراض نہ ہوں ۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ میں جس دن یہاں سے اٹھ کر گیا تھا دربند اڈے میں میرا ایک آدمی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ پولیس ہم دونوں کو پکڑ کر لے گی تھی۔ میں چھ مہینے جیل کے اندر رہا ہوں کل ہی میری ضمانت ہوئی ہے ۔  میں وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ ریکارڈنگ کے لیے ایک گاہک آگیا کسی گاؤں کا خان لگ رہا تھا ۔ تین دن کے لیے ریکارڈنگ کرنی ہے ۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس زمانے میں ریکارڈ بجانے کے عمل کو ریکارڈنگ کیوں کہا جاتا تھا۔ چاچا نے اس کے ساتھ سارے معاملات طے کر لیے ۔ دو دن کے بعد جانے کا وقت مقرر ہوا۔ جب و ہ خان کچھ بیعانہ دے کر دکان سے چلا گیا تو میں نے چاچا سے کہا۔ ” چاچا! اس بار مجھے بھی ساتھ جانا ہے ۔“ استاد ! تم نے وہاں کیا کرنا ہے؟ میں تو وہاں تین دن ایک جگہ بیٹھا ریکارڈ بجاتا رہوں گا میری تو مجبوری ہے ۔ مجھے چاچا کی بات میں کچھ خاص دم نظر نہیں آیا۔ کوئی بات نہیں۔ میں پھر بھی جاؤں گا۔“ میں بضد رہا۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ جانے کی کوئی وجہ بھی تو ہو ۔ بس مجھے جانا ہے۔ میرا جی چاہ رہا ہے ۔ میں نے زور دے کر کہا۔ ٹھیک ہے۔ پھر تیار رہنا۔ چاچا نے رضامندی ظاہر کر دی۔ مجھے کون سے نئے سوٹ سلوانے تھے یا نئی چپلیاں لینی تھی۔ مقررہ دن صبح صبح دھلے ہوئے کپڑے پہن کے میں بابو بن کے چاچا کی دکان پر پہنچ گیا۔ خیر تو ہے آج اتنی جلدی دولہا بن کے آگئے ہو ۔“ ” آج پارٹی کے ساتھ نہیں جانا؟” اچھا اچھا تو یہ اس کے لیے اتنی تیاری ہے ۔ چاچا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر بعد پارٹی آگئی۔ چاچا نے ان کے لیے ایوب ہوٹل سے دودھ پتی منگوائی ۔ ان کے پاس کھلے چھت والی نئی جیب تھی۔ لاؤڈ سپیکر ایمپلی فائر، گرامافون توے ( ریکارڈ )، بیٹری اور تاروں کے بنڈل طریقے کے ساتھ گاڑی میں رکھ دیے گئے ۔ چاچا نے دکان بند کی۔ ڈرائیور کے ساتھ خان بیٹھ گیا۔ ہم دونوں پیچھے سامان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ جیپ دربند اڈے سے گزر کے سکندر پور کی طرف گھوم گئی۔ سکندر پور میں داخل ہونے کے بجائے پھر اس کا رخ دریائے دوڑ کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے گاؤں ڈھیری کی طرف ہو گیا۔ اس علاقے میں ابھی دریائے دوڑ پر کوئی پل نہیں بنا تھا۔ دوڑ میں پانی زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے جیپ مزے سے اس میں سے گزرنے لگی۔ اکا دکا لوگ پیدل بھی آجا رہے تھے۔ جن دنوں برسات ہوتی دوڑ اس قدر بپھری ہوئی ہوتی تھی کہ پیدل لوگ تو دور کی بات گاڑیاں بھی نہیں گزر پاتی تھیں۔ ایسے میں ٹریکٹر والوں کی موجیں لگ جاتیں ۔ وہ اپنی مرضی کا کرایہ لے کر لوگوں کو آر پار لے جاتے۔ بعض دفعہ دوڑ دس دس دن چڑھی رہتی ۔ دونوں طرف کی بیس اپنی اپنی طرف چلتیں اور دوڑ کے کنارے سواریوں کو اتار دیتیں۔ اس سے پہلے میں صرف یہاں تک آیا تھا۔ جیپ دوڑ پار کر کے ایک کچے راستے پر بھاگ رہی تھی۔ کافی دنوں سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ زمین خشک تھی اس لیے ہمارے پیچھے گرد کے بادل  اٹھ رہے تھے ۔ یہ سارا علاقہ میرا کہلاتا تھا۔ یہاں کی زمینیں بارانی تھیں۔ وقت پر بارش ہو جاتی تو پھر اچھی فصل حاصل ہوتی دوسری صورت میں کبھی کبھی زمیندار اگلی فصل کے لیے بیچ حاصل کرنے سے بھی قاصر ہوتے ۔ جدھر جدھر سے ہم گزر رہے تھے لوگ کھڑے ہو کر جیپ کو دیکھ رہے تھے۔ شاید مارچ کا مہینہ تھا۔ ابھی کھتیوں میں گندم کا رنگ سبز تھا۔ ہوا اور دھوپ کا امتزاج بہت پر لطف لگرہا تھا۔ آگے ایک جگہ سڑک کی ایک طرف برگد کا بہت ہی بڑا درخت آیا۔ ڈرائیور نے وہاں گاڑی روک دی۔ یہاں ایک چھوٹا سا کام ہے بس تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔ پھر آگے چلتے ہیں ۔ خان یہ کہہ کے جیپ سے نیچے اتر گیا۔ اس کی پیروی میں ہم بھی نیچے اتر گئے ۔ اس نے ڈرائیور کو کچھ سمجھایا۔ وہ پیدل ایک طرف جانے لگا۔ جب تک یہ واپس نہیں آتا میں آپ کو کچھ گیت سناتا ہوں ۔“ چاچا نے جیپ سے گرامافون اور ریکارڈ نیچے اتارے ۔ ہم سب برگد کے نیچے بیٹھ گئے۔ برگد کی ایک طرف پانی کی کافی بڑی بن ( تالاب ) تھی۔ بارش کا پانی اس میں اکٹھا ہوتا۔ گاؤں کے لوگ اپنے مویشیوں کو یہ پانی پلاتے تھے۔ اس کے علاوہ کپڑے اور برتن دھونے کے لیے بھی یہ پانی استعمال ہوتا۔ چاچا نے مختلف ریکارڈ بجا کے خان کو سنائے۔ اب میں آپ کو اپنا پسندیدہ گیت سناتا ہوں ۔ اس نے ایک ریکارڈ ڈھونڈ کے گرامافون پر رکھ دیا۔ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا میں تو گیا مارا آکے یہاں رے یہ گیت مجھے بھی بہت اچھا لگا۔ خان نے جیپ میں سے ایک ایسی مشین نکالی جو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے ٹیپ ریکارڈر کہ رہا تھا۔ اس کے کئی بٹن تھے۔ ایک بٹن اس نے دبایا تو اس میں سے گانے نشر ہونے لگے ۔ کیا اسے ہم ایمپلی فائر کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں؟“ نہیں اس کا بندو بست موجود نہیں ۔ آپ پہلے بتاتے تو میں دکان سے ساتھ رکھ لیتا۔ چاچا نے اسے مطمئن کیا۔ وہ چاچا کو اس کے بارے میں بتانے لگا۔ اس کی گفتگو سے اندازہ ہور ہا تھا یہ ٹیپ ریڈ وہ خود کسی باہر کے ملک سے لایا تھا۔ اتنے میں ڈرائیور بھی واپس آگیا۔ گرامافون اور ریکارڈ دوبارہ گاڑی میں رکھ کے ہم سب اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔ جیپ آگے بڑھنے لگی ۔ آدھے گھنٹے بعد ایک ڈھلوان آئی جیپ اس سے نیچے اتری تو ہم ایک بہت ہی بڑے برساتی نالے میں تھے۔ جس کا نام سبڑاں والا سیتھ تھا۔ سیتھ کے بیچوں بیچ ایک راستہ بنا ہوتا۔ جب سیتھ میں پانی آتا یہ راستہ بھی ختم ہو جاتا۔ بعد میں ڈرائیوروں کو نئے سرے سے راستہ بنانا پڑتا۔ سال میں یہ راستہ کئی بار بنتا اور مٹتا۔ جیپ مسلسل مشرق کی جانب بڑھ رہی تھی۔ جہاں راستہ زیادہ ناہموار ہوتا ہمیں خوب جھٹکے لگتے ۔ پورا وجود چھلک کے رہ گیا تھا۔ کافی آگے جا کے راستہ دو شاخوں میں بٹ گیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سبڑاں والے سیتھ سے ایک اور چھوٹا سا برساتی نالہ مل رہا تھا۔ اسے کڑچھاں والا سیتھ کہتے ہیں۔ سرائے نعمت خاں یہاں سے دائیں طرف ہے ۔ کافی دیر بعد خان نے خاموشی توڑی۔ جیپ تیزی سے چھوٹے برساتی نالے میں داخل ہو گئی۔ دو تین منٹ گزرے ہوں گے ہمارے بائیں جانب ایک ڈھیری آگئی اس پر اوپر نیچے بہت سارے مکان بنے ہوئے تھے۔ چاچا! یہ کیسے مکان ہیں ان کی ہر طرف گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہیں ۔ میں بڑا متعجب تھا۔ یہ کمہاروں کی بستی ہے۔ یہ لوگ برتن بناتے ہیں اور دوسرے علاقوں میں جاکے بیچتے ہیں ۔ چاچا کے بجائے مجھے خان نے سمجھایا۔ مجھے لگ رہا تھا میں ایک بہت ہی پر اسرار سفر پر ہوں ۔ جس طرح کے سفر میں نے شہزادوں اور پریوں کی کہانیوں میں سنے تھے ۔ یا شاید ابھی میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ جیپ اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ برساتی نالہ کہیں تو بہت زیادہ چوڑا ہو جاتا اور کہیں تنگ – ایک تنگ جگہ سے ڈرائیور نے اچانک اپنا اسٹیئرنگ بائیں طرف گھما دیا۔ جیپ برساتی نالے سے نکل کر ایک چھوٹی سی پہاڑی چڑھنے لگی ۔ اگر چہ چڑھائی سخت تھی لیکن راستہ قدرے ہموار تھا۔

ہم بآسانی او پر پہنچ گئے ۔ چند قدموں کی دوری پر ہماری منزل تھی۔ ہم جیپ سے نیچے اتر آئے ۔ وہاں موجود دو تین بندوں نے جیپ سے سارا سامان نکالا۔ یہ ایک کھلا سرسبز میدان تھا۔ شاید کسی گاؤں کے باہر کوئی چراگاہ تھی۔ چھوٹے بڑے کچھ لوگ ہمارے گرد اکٹھے ہو گئے اور قیاس آرائیاں کرنے لگے ۔ گانے بجانے والے ہیں ۔ نہیں یہ گانے والے ہوتے تو ان کے پاس تبلے اور ہارمونیم ہوتے ۔ یہ کچھ اور ہیں ۔ ان کے پاس ایک چھوٹا سا باجا ہے جس میں گانے لگائیں گے اور ان بھیکوں سے آواز نکلے گی۔ اچھا اچھا بالکل اسی طرح جیسے ہری پور اڈے میں ایک ہوٹل میں ایک چابی والا باجا ہے اس پر کتے کے منہ والا توا رکھتے ہیں تو بھپکوں میں سے گانے کی آواز آتی ہے ۔ کچھ لوگ وہاں تبو اور ٹینٹ لگانے میں مصروف تھے۔ انھوں نے جلدی جلدی ایک خیمہ تیار کیا۔ کہیں سے دو چار پائیاں ، بستر اور میز آگئے ۔ ہمارا سامان اس خیمے میں رکھ دیا گیا۔ یہ خیمہ ہمارے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ ہم نے کچھ دیر ہی وہاں آرام کیا ہوگا کہ بیکری کے کھلے بسکٹوں کے ساتھ چائے آگئی ۔ ساری تھکاوٹ دور ہوگئی ۔ چاچا نے اپنا کام شروع کیا۔ صادق صاحب ! چاروں طرف زیادہ سے زیادہ فاصلے پر سپیکر لگائیں تا کہ دور دور تک آواز جائے ۔“ چاچا نے چاروں سمت کافی دور تک تاریں پھیلا کے ان کے ساتھ لاؤڈ سپیکر جوڑ دیے۔ خان نے چاچا کی مدد کے لیے دو مدد گار بھی دے رکھے تھے۔ انھوں نے پھرتی کے ساتھ لاؤڈ سپیکر درختوں کے اوپر بلند جگہوں پر باندھ دیے۔ لاؤڈ سپیکروں کارخ خان کی ہدایت کے مطابق رکھا گیا۔ تاریں زمین پرتو نہیں چھوڑی جاسکتی تھیں آتے جاتے لوگوں کے پاؤں سے الجھتیں۔ انھیں بھی مختلف درختوں اور عارضی ستون کھڑے کر کے ان کے اوپر باندھ دیا گیا۔ یہ ایک سخت اور مشکل کام تھا۔ پھر چاچا نے سارے لاؤڈ سپیکر، بیٹری اور گرامافون کو ایمپلی فائر سے جوڑ دیا۔ ایک میز پر گرامافون اور ریکارڈ سلیقے سے رکھے۔ جوں ہی پہلار ریکارڈ بجا ہر طرف لوگ حیران ہو گئے۔ پورے پہاڑی سلسلے میں گانا گونج رہا تھا۔ اتنے میں خان کہیں سے نمودار ہوا۔ اگر ہم یہ لاؤڈ سپیکر ساتھ والی پہاڑی پر لگادیں تو آواز کافی دور تک جائے گی ۔ ایسا کرنے سے آواز بالکل ختم ہو جائے گی۔ یہ بہت زیادہ فاصلہ ہے ۔ جہاں ہم نے سپیکر لگائے ہیں یہ آخری حد ہے۔ یہاں سے ہم جتنا آگے بڑھیں گے اسی حساب سے آواز کم ہوتی جائے گی ۔ چاچا نے اس سے پیچھا چھڑایا۔ ویسے بھی ہم اتنی لمبی تارکہاں سے لاتے ۔ سارا دن میں اور چاچا باری باری ریکارڈ بدلتے رہے۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارا گرامافون چابی والا نہیں۔ ورنہ سارا دن ہر ریکارڈ کے بعد ہم اس کی چابی بھرتے اور سوئیاں بدلتے رہتے۔ اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ چاچا ! وہ ریکارڈ کدھر ہے؟ جو آپ نے راستے میں سنایا تھا۔ اس نے سارے ریکار ڈ الٹ پلٹ کے دیکھ لیے۔ اگر ہوتا تو مل جاتا۔ استاد لگتا ہے وہ ریکارڈ ہم وہیں بھول آئے ہیں ۔ ہمارے خیمے کے باہر لڑکے کھڑے ہو کر ہمیں اس طرح حیرت سے دیکھتے جیسے ہم کوئی خلائی مخلوق تھے ۔ سارا دن یونہی گزرگیا۔ جونہی شام کا ہلکا سا اندھیرا ہوا ہر طرف کیروسین کے گیس والے ہنڈولے جلا کر لٹکا دیے گئے ۔ دن کا کھانا، شام کی چائے اور رات کا کھانا سب کچھ انتہائی شاندار تھا ۔ ہمارے لیے بہترین بستروں کا بندو بست کیا گیا تھا۔ رات دیر گئے ہم نے موسیقی کا کام بند کیا۔ رات ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ نرم نرم رضائی بہت ہی سکون آور تھی۔ بڑے مزے کی گہری نیند آئی ۔ گاؤں میں صبح ذرا جلدی ہوتی ہے۔ خاص کر ان علاقوں میں جو بلند تر ہیں اور ان کا رخ مشرق کی جانب ہے ۔ ہم صبح سویرے جاگ اٹھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ تھی۔ نیم گرم پانی سے ہاتھ منہ دھویا اور کلی کی۔ نئے تولیے سے منہ صاف کیا۔ اتنے میں خالص گھی کے ترتراتے ہوئے پردوں والے پر اٹھے اور ہری مرچ کے ساتھ بنی ہوئی آملیٹ ، دودھ پتی چائے کسی نے میز پر سجا دیے تھے۔

ہم نے ڈٹ کے ناشتہ کیا۔ اس کے بعد پھر وہی موسیقی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دس بجے کا وقت ہو گا کہیں سے زنانہ لباس میں کچھ کھسرے وہاں آٹپکے ۔ ان میں سے ایک کے پاس ڈھولک تھی۔ اس نے بجانی شروع کر دی اور باقی ناچنے اور گانے لگے ۔ خان وہیں موجود تھا۔ بند کرو یہ اور چلو یہاں سے “ خوشی کا موقع ہے ۔ خان صاحب ہم کہاں جائیں ۔ ہم بھی آپ کی خوشی میں شریک ہوں گی ۔ ہم نے موسیقی کا بہت اچھا بندو بست کیا ہوا ہے ۔ آپ لوگوں کی فیالحال ضرورت نہیں ۔ چلو نکلو یہاں سے ۔ خان نے سختی سے کہا ایک تو یہ نئی بیماری پتہ نہیں کہاں سے آگئی ہے۔ ہماری روزی روٹی پر لات مارنے ان کا بیڑا غرق ہو۔ خان صاحب نے دو روپے دے کر ان سے جان چھڑائی ۔ باقی سارا دن پر سکون گزرا۔ مغرب سے ذرا پہلے بیٹری ختم ہوگئی ۔ خان ہمارے سر پر آدھمکا ۔ آپ لوگوں نے ریکارڈنگ کیوں روک دی ؟“ خان نے پوچھا۔ بیٹری جواب دے گئی ہے۔ مسلسل دو روز سے خرچ ہوتی رہی ہے۔ آپ نے جس بیٹری کا کہا تھا وہ کدھر ہے؟“ میں پتہ کرتا ہوں ۔ خان تھوڑی دیر میں واپس آگیا۔ ”ہمارے پاس جو بیٹری ہے وہ تو چارج ہی نہیں کی ہوئی ۔ اب کیا ہوگا ؟ ہمارے سارے پروگرام کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ۔ آپ کو ایک بیٹری اور رکھنی چاہیے تھیں ۔ خان صاحب یہ بات تو شروع میں ہی طے کی گئی تھی کہ دوسری بیٹری آپ دیں گے اس میں ہمارا کیا قصور۔ خان بڑبڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔  صبح چاچا نے خان کے ایک آدمی کی مدد سے تمام لاؤڈ سپیکر اور تاریں درختوں اور ستونوں سے اتار کے ایک جگہ اکٹھی کیں ۔ خان نے ایک آدمی کو کہا۔ قیوم مہمانوں کو نیچے سیتھ میں چھوڑ آؤ۔” اس نے بیس روپے بٹوے سے نکال کے چاچا کو اس طرح دیے جیسے احسان کر رہا ہو ۔ خان صاحب ! یہ تو آدھے پیسے بھی نہیں ۔ بہت ہی تھوڑے ہیں ۔ جب کہ اس میں ہماری کوئی غلطی بھی نہیں ۔ میں اب کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے ۔ پورے علاقے میں اتنی بےعزتی اس سے پہلے کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہوگی ۔ یہ کہہ کے وہ ایک خیمے کے اندر غائب ہو گیا۔ آس پاس کھڑے تمام لوگ ہمیں قہر آلود نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ جیسے ہم اچھوت بن گئے ہوں تھوڑی ہی دیر میں قیوم بھی آگیا۔ اس کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا۔ جس پر تھڑے باندھے ہوئے تھے۔ اس نے ہمارا سارا سامان طریقے سے اس پر لادا۔ آگے آگے وہ دونوں پیچھے پیچھے ہم دونوں چاچا بھتیجا۔ دھوپ ہو چکی تھی۔ مجھے تو چہرے پر سوئیاں چھنے لگی تھیں۔ قیوم مزے سے پہاڑی سے نیچے اتر رہا تھا۔ میری نظر گدھے پر پڑی تو لاؤڈ سپیکروں پر لکھا ہوا ۔ صادق اینڈ برادرز الیکٹرانکس کچھ زیادہ ہی چمکتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آدھے پونے گھنٹے میں ہم سیتھ میں پہنچ گئے۔ قیوم نے سارا سامان اتار کے ریت پر رکھا۔ تھوڑی دیر میں گاڑی آجائے گی۔ آپ یہیں انتظار کریں ۔ وہ شنگڑی سے ہو کے واپس آتی ہے۔ اور اب مجھے اجازت دیں ۔ وہ جانے لگا تو چاچا نے اسے روکا۔ اپنے جیب میں ہاتھ ڈال کے بیس روپے نکالے اور اسے دیتے ہوئے کہا۔ یہ خان صاحب کے کچھ پیسے میرے پاس رہ گئے تھے۔ میں انھیں دینا بھول گیا تھا۔ یاد سے انھیں دے دینا۔ چند ہی گھڑیوں میں قیوم اور اس کا گدھا دونوں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ کافیدیر ہم وہاں خاموش کھڑے رہے۔ پھر میں نے اپنی طرف سے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ شاید ہمیں ان کھسروں کی بددعا لگی ہے ۔ چاچا نے قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا۔ تم اپنی بکواس بند کرو ۔ میں نے شنگڑی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک بس دھول اڑاتی ہوئی ہماری طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *