Afsana Zindabad Saeed Ashar

Afsana “Zindabad” by Saeed Ashar is one of the best afsana ever.

Afsana-Zindabad-Saeed-Ashar-blog-post-image

 لڑکیاں مجھے ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی ہیں۔ اس وقت میں نرسری کلاس میں تھا۔ جب مجھے پہلی لڑکی پسند آئی۔ وہ میری ٹیچر تھی۔ کچھ دنوں بعد اس کی شادی ہوگئی ۔ پھر وہ ایک مہینے بعد اپنی کولیگز سے ملنے آئی ۔ وہ پری لگ رہی تھی ۔ میں تیسری کلاس میں پہنچا تو میری کلاس میں دولڑ کیاں تھیں ۔ شازیہ اور فروا شروع شروع میں  نے ان کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں دیا۔ پھر مجھے فروا اچھی لگنے لگی۔ اس کے پاس بیٹھنے سے مجھے ایک بے نام سی مہک محسوس ہوتی تھی۔ اگر چہ اس کا رنگ ذرا سا سانولا تھا، پھر بھی مجھے لگتا جیسے اس کے وجود سے اجالا پھوٹ رہا ہو ۔ ہم پانچویں کلاس تک ساتھ رہے۔ میں نے کبھی اس کے سامنے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے اُسے یا کسی اور کو شک گزرتا کہ وہ مجھے اچھی لگتی ہے ۔ اگر چہ یہ ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے۔ یہاں میں ایک بالکل مختلف معاملہ پیش کرنے لگا ہوں۔ ابھی میں پانچویں کلاس میں ہی تھا کہ ایک دن شام کے وقت میرا دوست اجمل مجھے ملنے آیا۔ پوری گلی میں کوئی نہیں تھا۔ ہم دونوں چلتے ہوئے گلی کے آخر میں موجود بوڑھے برگد کے گرد بنے تھڑے پر بیٹھ گئے۔ مشہور تھا کہ یہ درخت صدیوں پرانا ہے۔ پہلے اس کی جسامت بہت بڑی تھی لیکن اس کے گرد آبادی پھیلنے کی وجہ سے یہ آدھا رہ گیا تھا۔ جس تیزی سے آبادی پھیل رہی تھی یہ آدھاد درخت بھی زیادہ دیر تک قائم رہتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں چڑیاں کہاں جائیں گی۔

جانے ایسا کیا ہے شام کے وقت آس پاس کی ساری چڑیاں 

ارد گرد کے باقی پیڑوں کو چھوڑ کے صرف برگد پر آ کے بیٹھتی ہیں کیا یہ کوئی منت ہے کہ زندہ بچ جانے والی چڑیاں اس کی شاخوں اور پتوں کو اپنے گیتوں کے نذرانے پیش کریں گی اڑوس پڑوس میں رہنے والے اپنے اندر کا خالی بن ان آوازوں سے بھرتے ہیں اجمل کافی اتاولا لگ رہا تھا۔ یار جنید ! ایک مزے کی بات بتانی ہے ۔“ میں نے اپنی ساری توجہ اس کی طرف مبذول کر دی ۔ ایک لڑ کا راضی ہو گیا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے ۔ اس کی بات سن کے پہلے تو مجھے بڑا عجیب لگا۔ کیوں کہ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ مجھے بھی اس طرح کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اچھا اااا کون ہے؟“ شوکت کا چھوٹا بھائی امان لیکن پیسے مانگتا ہے ۔

کیا کہتا ہے؟“ پورے دو روپے مانگ رہا ہے “ یہ تو بہت زیادہ ہیں ۔ ” چلو کچھ تم کرو اور کچھ میں کرتا ہوں ۔ ہم دونوں وہاں سے اٹھ گئے ۔ سردی کا موسم تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جیسے کانوں کو کاٹتی ہوئی گزر رہی تھی۔ دو تین دن گزر گئے ۔ ہم دونوں سے مطلوبہ پیسوں کا بندوبست نہ ہو سکا۔ اتوار آگیا۔ چھٹی کا دن تھا۔ صبح صبح امی نے مجھے بازار سے کچھ سامان لانے کے لیے دو روپے دیے۔ میں بازار جانے کے بجائے سیدھا اجمل کے دروازے پر پہنچ گیا۔ پہلی دستک پر ہی وہ باہر آگیا۔ بچے ! میں نے پیسوں کا بندو بست کر لیا ہے ۔ اب باقی کا کام تمہارا ہے ۔ میں نے فاتحانہ انداز سے کہا۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ تم عصر سے ذرا پہلے برگد کے نیچے آجانا۔ میں امان کو وہاں لے آؤں گا۔ میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ میرے دل میں خوف تھا کہ امی کہیں سامان لانے کے بارے میں نہ پوچھ لیں کوئی معقول بہانہ بھی ذہن کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھا۔ گھر پہنچا تو سکون کا سانس لیا۔ امی کسی کام کے سلسلے میں چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کے میری چھوٹی پھپھو کے گھر جا چکی تھیں۔ شام سے پہلے اب ان کی واپسی ممکن نہیں تھی۔ میں نے اپنی تمناؤں کی چھوٹی سی تھیلی ایک طرف رکھی اور بستر پر لیٹ کے عمر و عیار کے کردار پر مبنی کوئی ناول پڑھنے لگا۔ سب نے دیکھا عمرو کی زنبیل میں

ہیرے اور موتی تھے قارون کا خزانہ تھا اک خواہش کی دوری پر ہر دروازے کی کنجی تھی آگے ہاتھ بڑھانا تھا لیکن ہر تدبیر کی خاطر اپنا ذہن لڑانا تھا  مقررہ وقت پر میں برگد کے نیچے پہنچ گیا۔ وہ دونوں وہاں پہلے سے موجود تھے ۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں ہوا کی مخالف سمت چلنے والے لوگ دوسروں کی نسبت وقت کی زیادہ قدر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہ کیوں آیا ہے؟ میرا تو صرف تم سے معاملہ طے ہوا تھا۔ امان نے قدرے ناراضگی سے اجمل سے کہا۔ ناراض کیوں ہوتے ہو ۔ یہ پیسے لایا ہے۔ میرے پاس تو ہیں نہیں ۔ اب تمہاری مرضی ہے ۔ میں نے اسے اپنی جیب سے دو روپے نکال کے دکھائے۔ میرے انداز میں قدرے تکبر تھا۔ پیسہ ہر دور اور ہر موقع پر اپنے اندر فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے تھوڑی سی تکرار کے بعد اجمل نے ایک بار پھر اسے شیشے میں اتار لیا۔ ہم تینوں روڈ کراس کر کے آبادی کی مغربی جانب پھیلے کھیتوں میں اتر گئے ۔ آسمان صاف تھا۔ دھوپ کی حدت مزہ دے رہی تھی کھیتوں میں چار پانچ انچ تک اگی ہوئی گندم کا ہرا رنگ منظر کی دلکشی کو سحر انگیز بنارہا تھا۔ ہم مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے جیسے سبزے کے سمندر میں اترتے چلے جارہے تھے کھیتوں کی ایک جانب آبادی اور دوسری جانب آلو بخارے ، امرود 

اور لوکاٹ کے باغات تھے۔ مشہور تھا کہ ان باغات میں شہر کے بد چلن اور آوارہ لوگ نشہ کرتے ہیں اور جوا کھیلتے ہیں۔ جو بھی اپنے اندر داخل ہوتا ہے جنگل، پہاڑ اور دریا اس کی پیشوائی کو آگے بڑھتے ہیں صحرا کی تپتی پیشانی پر اس کے نام کی تختی آویزاں ہوتی ہے چاروں موسم ایک ہی طشت کی زینت بنتے ہیں بانیچے کے سبزے پر ہرن کا بچہ کلانچیں بھرتا ہے نہر میں بہنے والے شیشہ پانی میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تیرتے ہیں جانے والا اب بھی تیری منشا کا قیدی ہے تو جو چاہے باغ میں کھلنے والے سب سے اچھے پھول اس کی خاطر مالا بن سکتے ہیں ورنہ صحرائی ریت میں اکثر رستہ بھولنے والوں کی بڑیاں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں۔

ہم تھوڑا آگے پہنچے تو سامنے سے لالی اپنے تین چار آوارہ دوستوں کے ساتھ آتا ہوا نظر آیا۔ اس کے بارے میں عمومی رائے انتہائی بری تھی ۔ مجھے لگا ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ گئی ہو ۔ دیکھو! ان میں سے اگر کوئی پوچھے کہ یہاں کیا کر رہے ہو تو اسے کہنا ہم ویسے ہی یہاں گھومنے کے لیے آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ اجمل نے دھیمی آواز میں امان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لالی نے پاس پہنچتے ہی امان پر یلغار کر دی۔ کیا ہو رہا ہے امان کے بچے؟“ ” ہم ویسے ہی یہاں گھومنے آئے ہیں ۔ امان کے لہجے کی گھبراہٹ نے لالی کے شک کو یقین میں بدل دیا۔ مجھے سب پتہ ہے تم لوگ یہاں کیا کرنے آئے ہو۔ میں واپس جا کے سب کچھ تمہارے بھائی کو بتاؤں گا۔ پھر تم جانو اور تمہارا بھائی شوکت ۔ لالی کا یہ وار کار گر ثابت ہوا۔ امان نے ایک دم اپنے ہتھیار پھینک دیے۔ ” خدا کے لیے میرے بھائی کو کچھ نہ بتانا تم جیسا چاہو مجھے منظور ہے ۔ لالی کی مفت میں لاٹری نکل آئی۔ امان کو لالی کے پاس چھوڑ کر ا جمل اور میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ تین دن گزر گئے ۔ چوتھے دن میں اپنے محلے کی ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک امان کا بڑا بھائی شوکت میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اگر چہ وہ میری ہی عمر کا تھا لیکن مجھ سے کافی تگڑا اور زور دار نظر آرہا تھا۔ اس دن تم اور اجمل مل کے میرے چھوٹے بھائی کو بہلا پھسلا کے کھیتوں کی طرف لے گئے تھے۔ تم کیا سمجھتے ہو مجھے پتہ نہیں چلے گا۔ میں اندر سے ڈر رہا تھا کہیں وہ مجھے مارنا نہ  شروع کر دے۔

ایسا کچھ بھی نہیں ۔ ہم تو وہاں ویسے ہی گھومنے گئے تھے ۔ میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ زیادہ چالاکیاں دکھانے کی ضرورت نہیں تم نے پھر اسے دو روپے بھی نہیں دیے۔ میں تم دونوں کو دیکھ لوں گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرے سامنے سے ہٹ گیا۔ اس واقعے کو گزرے کئی دہائیاں ہو چکی ہیں۔ آج بلدیاتی الیکشن تھے ۔ باہر گلی میں لوگ جیتنے والے وارڈ ناظم کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ امان خان — زنده باد امان ہمارا شیر اے۔۔۔ اور مجھے بچپن کا یہ واقعہ یاد آگیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *