Afsana PHEREE WALA PATHAN by saeed Ashar

Afsana-Pheree-wala-pathan-by-Saeed-Ashar-featured-image.webp
Afsana-Phtree-wala-pathan-by-Saeed-Ashar

Afsana PHEREE WALA PATHAN by saeed Ashar: A Heartfelt Reflection

پھیری والا پٹھان

 ن ڈیڑھ بجے کا وقت ہو گا …. مجھے ہری پور جانا تھا۔ میں گاڑی آنے سے پہلے پہلے کوبالہ بالا پہنچ گیا۔ دیر ہونے کی صورت میں پھر مجھے پیدل چھ کلو میٹر واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف جانا پڑتا۔ سردی کا موسم تھا۔ دھوپ مزہ دے رہی تھی۔ میں روڈ کی بلندی والی سائیڈ پر بنے چائے کے واحد ڈھابے کے باہر بچھی ہوئی ایک چار پائی پر بیٹھ گیا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی ڈھابے کے مالک نے میرے سامنے رکھی ہوئی میز پر چائے کی پیالی لا کے رکھ دی۔ میں بھی آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ ابھی پیالی میں چائے کی کچھ مقدار موجود تھی کہ لورہ کی طرف سے آنے والی گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ اس زمانے میں سواریوں کو بلانے کا یہ ایک مروجہ طریقہ کار تھا۔ جب بھی کوئی گاڑی کسی بستی یا سٹاپ کے قریب پہنچتی تو ہارن بجاتی تا کہ گرد و نواح کی سواریاں گاڑی کے قریب پہنچ آئیں۔ میں نے جلدی جلدی چائے ختم کی اور سڑک کے کنارے آگیا۔ وہاں پہلے سے دو تین سواریاں موجود تھیں ۔ اتنے میں بس بھی وہاں پہنچ گئی۔ خوش قسمتی سے مجھے اگلی سیٹوں میں بائیں جانب ایک دو میٹر پر جگہ مل گئی۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ پچھلی سیٹوں پر ایک تو اتر نے چڑھنے والوں کی کھپ ہوتی ہے۔ دوسرا پچھلے دروازے میں سے بے حساب گرد و غبار اندر داخل ہو کے نہ صرف کپڑے گندے کرتا ہے بلکہ مسافر کا حلیہ بھی بگاڑ دیتا ہے۔ کھڑکی کی طرف پہلے سے ایک مسافر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کے لباس اور باڈی لینگویج کا جائزہ لیا تو مجھے سمجھنے میں ذرا

دیر نہیں لگی کہ و مختلف دیہاتوں میں چھوٹی موٹی چیز میں بیچنے والا بیوپاری ہے ۔ جسے ہم عام طور پر پھیری والا پٹھان کہتے ہیں ۔ اس لیے اس کے ساتھ دعا سلام یا راہ و رسم کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میرے دائیں ہاتھ تھری سینٹر پر دو خواتین اور ایک چھ سات سالہ بچہ تھا۔ ایک عورت پردادار تھی جو کھڑکی کی جانب بیٹھی ہوئی تھی۔ درمیان میں پچاس یا پچپن سال کی ایک عورت تھی۔ بچہ میری طرف بیٹھا ہوا تھا۔ میرے لیے خاموشی میں ہی عافیت تھی۔ یہ آج سے قریب قریب چالیس سال پہلے کی بات ہے ۔ دیہاتی روڈوں پر عام طور پر چھوٹی بسیں چلتی تھیں تاکہ سڑک پر موجود مشکل موڑ مڑنے کے لیے انھیں روڈ کی تنگی کی وجہ سے کسی قسم کی دقت نہ ہو ۔ ابھی بسوں اور ویگنوں میں سگریٹ نوشی پر بھی پابندی نہیں لگی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے سے اگلی سیٹ پر بیٹھے شخص نے سگریٹ سلگا لیا۔ میں خود بھی چین سموکر تھا۔ اس سے پہلے کہ میں جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے برابر والے تھری سیٹر پر درمیان میں بیٹھی ہوئی عورت نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ریڈ اینڈ وائٹ کی ڈبیا میں سے ایک سگریٹ نکالا۔ مجھے اپنی طلب بھول گئی۔ بھائی ! یہ سگریٹ بھی سلگا دینا۔ اس عورت نے سگریٹ پینے والے شخص کو مخاطب کیا۔ تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ “بھائی! یہ سگریٹ بھی سلگا دونا میرا بیٹا چھوٹا ہے۔ یہ چلتی ہوئی گاڑی میں سگریٹ نہیں سلگا سکے گا۔ عورت کی بات سن کے میں مزید حیران ہوا۔ میں کبھی اس کو اور کبھی اس کے سات سالہ بیٹے کو دیکھنے لگا کسی نے کہا۔ بہن جی ! یہ بہت چھوٹا بچہ ہے ۔ اسے سگریٹ نہ دیں۔ بیمار ہو جائے گا۔ اسے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ اللہ لوک ہے ۔ اس عورت نے دلیل پیش کی ۔ سب خاموش ہو گئے ۔ سگریٹ پینے والے شخص نے عورت کے ہاتھ سے سگریٹ لے کے سلگایا اور واپس کر دیا۔ عورت نے وہ سگریٹ اس بچے کی انگلیوں میں پھنسا دیا۔ بچہ مزے سے سوٹے مارنے لگا ۔ گاڑی جگہ جگہ رکتی اور پھر آگے بڑھتی رہی۔اب تک کچھ سواریاں چھت پر بھی چڑھ کے بیٹھ چکی تھیں ۔ ہمارے ہاں یہ بات بہت اچھی  ہی ہے کہ جب بھی کوئی عورت یا بوڑھا سوار ہوتا تو سیٹوں پر پہلے سے بیٹھے ہوئے افراد کھڑے ہو جاتے۔ سفر مختصر ہونے کی صورت میں وہ گاڑی کے اندر ہی کھڑے رہتے لیکن اگر سفر طویل ہوتا تو چھت پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔ میں خاموشی سے اپنا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ ایک جگہ گاڑی پھر رک گئی ۔ ہماری کھڑکی کی جانب باہر کچھ سواریاں کھڑی تھیں۔ گاڑی کی دوسری طرف کافی گہرائی میں ایک دریا بہہ رہا تھا۔ چونکہ گاڑی کے اندر مزید گنجائش نہیں تھی اس لیے نئی سواریاں اپنے سامان سمیت چھت پر چڑھا کے بیٹھ گئیں۔ سواریوں کو رخصت کرنے والے وہاں جو تین چار لوگ آئے ہوئے تھے۔ ان میں ایک سانولے رنگ کی ایک جوان لڑکی بھی تھی۔ اس لڑکی میں عجیب ہی کشش تھی۔ میں بے اختیاری کی حالت میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مسلسل بس کی چھت پر بیٹھے کسی مسافر کی طرف متوجہ تھی۔ جب تمام سواریاں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ چکیں تو گاڑی چل پڑی ۔ جوں ہی گاڑی اپنی جگہ سے ہلی۔ اس لڑکی نے چھت پر موجود کسی شخص کو آنکھ ماری ۔ اگلے ہی لمحے میں اور پھیری والا پٹھان ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ بلا ارادہ میں نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے سامنے کر دیا۔ اس نے بھی اسی شدت سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ خدائی قسم ! اگر یہ لڑکی اس گاڑی کو آنکھ مارد دیتا تو یہ گاڑی دریا میں جا گرتا” وہ پھیری والا پٹھان مجھے کبھی نہیں بھولا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *