Afsana PAPA Phir Say by Saeed Ashar

Afsana-pap-phir-say-by-Saeed-Ashar-featured-image-1.webp

Afsana PAPA Phir Say by Saeed Ashar:
A Heartfelt Reflection

This blog post discusses the emotional experiences surrounding Afsana PAPA Phir Say by Saeed Ashar, showcasing the deep bonds between parents and children.

احمد شروع سے ہی کم گو سنجیدہ اور قناعت پسند واقع ہوا ہے۔ ہر وقت مجھ سے چپکا رہتا یا خاموشی سے گود میں بیٹھا رہتا۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی فرمائشی پروگرام نہیں تھا۔ اگر غلطی سے میں اسے نظر انداز کر بیٹھتا تو آواز لگاتا۔ ٹن ٹنٹا۔ میں سمجھ جاتا کہ اب یہ مجھے خود کو اٹھانے کا کہہ رہا ہے۔

اس کے ماتھے پر ہر وقت شکنیں ہوتیں۔ اگر کوئی اس کی طرف زیادہ دیر تک دیکھتا تو اس کے منہ سے ایک بھاری آواز برآمد ہوتی۔ ہووووں۔ ابھی اس نے نیا نیا گھسٹنا سیکھا تھا۔ اس کی ماں اسے کھیلنے کے لیے کچھ چیزیں دے کر چند لمحوں کے لیے کچن میں چلی گئی۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پیچھے سے یہ کوئی واردات ڈال دے گا۔ اس نے بڑے مزے سے برآمدے سے نکل کر صحن کا سفر طے کیا۔ سامنے چھت کی سیڑھی تھی۔ یہ چھت پر پہنچ گیا۔ شاید پھر یہ واپسی کا راستہ بھول گیا تھا۔

واپس تو آنا تھا۔ یہ ریلنگ کے ایک سوراخ سے نیچے کھسک گیا۔ میں اس وقت ڈیوٹی پر تھا۔ اچانک اس کی ماں کی کال آگئی۔ احمد چھت سے گر گیا ہے۔ اسے سول ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ اس سے زیادہ بات سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔

پتہ نہیں کیسے میں سول ہسپتال پہنچا۔ ایمر جنسی روم کے دروازے سے میں نے اندر جھانکا تو احمد کو دیکھ لیا۔ یہ وہاں رکھے ہوئے واحد بیڈ پر بالکل چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ میں مزید ڈر گیا۔ یا اللہ خیر، کہیں اس کے دماغ پر تو کوئی اثر نہیں پڑ گیا۔ اتنے میں اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ یہ چیخ کے رویا۔ “پاپا!

اس کے ماتھے پر ہر وقت شکنیں ہوتیں۔ اگر کوئی اس کی طرف زیادہ دیر تک دیکھتا تو اس کے منہ سے ایک بھاری آواز برآمد ہوتی۔ ہووووں” ابھی اس نے نیا نیا گھسٹنا سیکھا تھا۔ اس کی ماں اسے کھیلنے کے لیے کچھ چیزیں دے کر چند لمحوں کے لیے کچن میں چلی گئی۔

” ڈاکٹر طارق میرا تعلق دار تھا۔ اس نے مجھے تسلی دی۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے کرم کیا۔ بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ چہرے پر ایک دو چھوٹے چھوٹے کٹ لگے ہیں۔ ہم نے ٹانکے لگا دیے ہیں۔ آپ یہ سیرپ اس کو دیں اور احتیاطً دو دن بعد دوبارہ چیک کروالیں۔

ان دنوں میرے پاس موٹر بائیک تھی۔ میں جدھر جاتا یہ اس کی ٹینکی پر خاموشی سے بیٹھ کے ہینڈل پکڑ لیتا۔ کبھی کبھار جب یہ زیادہ مزے میں ہوتا تو ہارن کا بٹن دبا دیتا۔

دور سے دیکھنے والے کو یہ مغالطہ ہو سکتا تھا کہ بائیک کی ٹینکی پر کوئی سفید رنگ کا خرگوش بیٹھا ہوا ہے۔ اسی دوران میں اسے ایک مشاعرے میں لے گیا۔ بڑے سکون اور توجہ کے ساتھ اس نے مشاعرے کی تمام کاروائی دیکھی۔ اگلے دن میں نے دیکھا احمد اپنے آپ سے کچھ کہ رہا ہے۔

کپ کپ کپ کپ صنم پٹ

لپ لپ لپ لپ صنم پٹ

مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔ “پاپا! یہ کہتا ہے پھر سے وہ سب کچھ ہو۔ دوبارہ گاڑی آئے اور نہر میں گرے۔ مصعب نے وضاحت کی۔ میں نے احمد کی طرف دیکھا۔ وہ تائید میں سر ہلارہا تھا。

پانی میں ہر طرف وی سی آر کی کیسٹیں بہہ رہی تھیں۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ ویگن کیسٹوں سے بھری ہوئی تھی اور اس کے مسافر شاید سمگلر تھے۔ ہم واپس آگئے۔ جب موٹر بائیک کے پاس پہنچے تو احمد وہاں کھڑا ہو گیا۔ “پاپا! پھر سے۔ کیا مطلب؟”

میں نے احمد کی شلوار اوپر کی۔ پھر ہم تینوں چلتے ہوئے حادثے کی جگہ پہنچ گئے۔ نہر میں زیادہ پانی نہیں تھا۔ ویگن اس میں الٹی حالت میں جا کر گری تھی۔ لوگوں نے ویگن کے دروازے کھول کے ڈرائیور کے علاوہ ایک مرد اور دو تین عورتیں باہر نکالیں۔ ان کو معمولی زخم آئے تھے۔

“ میں وہیں کھڑے کھڑے چلایا۔ پاپا! سب لوگ بھاگ کے ادھر جا رہے ہیں۔ اس لیے میں بھی ادھر بھاگا۔ پتر! باقی لوگ تو ویگن کے مسافروں کی امداد کے لیے بھاگ کر جا رہے ہیں۔ تم نے کیا کرنا ہے؟

ارد گرد کے لوگ اس کی امداد کے لیے اس طرف بھاگ کر جانے لگے۔ کیا دیکھتا ہوں، مصعب بھی بھاگتے ہوئے ادھر جارہا ہے۔ اوئے کھوتے دے پتر! کدھر بھاگ رہے ہو؟

میں نے اس کی شلوار نیچے کی اور سامنے کھڑا ہوگیا۔ کچھ جگہ مصعب نے گھیر لی۔ ہم دونوں بے دھیانی سے جی ٹی روڈ کو دیکھنے لگے۔ اتنے میں ایک ویگن جو ایبٹ آباد والی سائر سائیڈ سے آرہی تھی، بے قابو ہو کر ہماری سائیڈ پر بنی ہوئی نہر کی منڈیر سے ٹکرا کے نیچے نہر میں جا گری۔

اچھا، کوئی بات نہیں۔ دیوار کے ساتھ بیٹھ کے کرلو۔ لیکن وہ آمادہ نہیں ہوا۔ اسے شرم آرہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا ہر آتا جا تا اسے دیکھے گا۔ ایسا کرتے ہیں میں اور مصعب سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، تم ہمارے پیچھے بیٹھ کے شاب کر لو۔ وہ راضی ہو گیا۔

راستے کی ایک طرف مکانوں کی قطار ہے اور دوسری طرف نہر۔ پانچویں یا چھٹے نمبر کا مکان ہماری پھپھو کا ہے۔ میں نے بائیک وہاں روک کر اسے سٹینڈ پر کھڑا کر کے لاک کیا۔ احمد آہستہ سے کچھ بڑبڑایا۔ میں نے اپنا کان اس کے منہ کے آگے کر دیا۔ شاب آیا ہے۔

پیچھے سے مصعب نے آواز دی۔ ٹھیک ہے بچھے بیٹھ جاؤ۔ مین بازار میں بہت ہی کم ٹریفک تھی۔ جی ٹی روڈ پر بھی اکاد کا گاڑی نظر آئی۔ علی خان نہر پر پہنچتے ہی ہم دائیں طرف نہر کے ساتھ ساتھ جانے والے کچے راستے پر ہو گئے۔

میں نے اس کی ماں سے کہا۔ زرا دیکھنا یہ کیا کہ رہا ہے۔ کچھ نہیں کہہ رہا، کل مشاعرہ جو سن کے آیا ہے۔ اب شعر پڑھ رہا ہے۔ اس کی ماں نے ہنستے ہوئے کہا۔ کچھ دنوں بعد بڑی عید آگئی۔ مجھے چھوٹی پھپھو کے گھر جانا تھا۔ یہ حسب معمول موٹر بائیک کی ٹینکی پر بیٹھ گیا۔ پاپا! میں بھی جاؤں گا۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پیچھے سے یہ کوئی واردات ڈال دے گا۔ اس نے بڑے مزے سے برآمدے سے نکل کر صحن کا سفر طے کیا۔ سامنے چھت کی سیڑھی تھی۔ یہ چھت پر پہنچ گیا۔ شاید پھر یہ واپسی کا راستہ بھول گیا تھا۔

واپس تو آنا تھا۔ یہ ریلنگ کے ایک سوراخ سے نیچے کھسک گیا۔ میں اس وقت ڈیوٹی پر تھا۔ اچانک اس کی ماں کی کال آگئی۔ احمد چھت سے گر گیا ہے۔ اسے سول ہسپتال لے کر گئے ہیں ۔ اس سے زیادہ بات سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔

پتہ نہیں کیسے میں سول ہسپتال پہنچا۔ ایمر جنسی روم کے دروازے سے میں نے اندر جھانکا تو احمد کو دیکھ لیا۔ یہ وہاں رکھے ہوئے واحد بیڈ پر بالکل چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ میں مزید ڈر گیا۔ یا اللہ خیر کہیں اس کے دماغ پر تو کوئی اثر نہیں پڑ گیا۔ اتنے میں اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی ۔ یہ چیخ کے رویا۔ “پاپا!

” ڈاکٹر طارق میرا تعلق دار تھا۔ اس نے مجھے تسلی دی۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے کرم کیا۔ بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ چہرے پر ایک دو چھوٹے چھوٹے کٹ لگے ہیں۔ ہم نے ٹانکے لگا دیے ہیں ۔ آپ یہ سیرپ اس کو دیں اور احتیاطً دو دن بعد دوبارہ چیک کروالیں ۔

ان دنوں میرے پاس موٹر بائیک تھی۔ میں جدھر جاتا یہ اس کی ٹینکی پر خاموشی سے بیٹھ کے ہینڈل پکڑ لیتا کبھی کبھار جب یہ زیادہ مزے میں ہوتا تو ہارن کا بٹن دبا دیتا۔

دور سے دیکھنے والے کو یہ مغالطہ ہو سکتا تھا کہ بائیک کی ٹینکی پر کوئی سفید رنگ کا خرگوش بیٹھا ہوا ہے۔ اسی دوران میں اسے ایک مشاعرے میں لے گیا۔ بڑے سکون اور توجہ کے ساتھ اس نے مشاعرے کی تمام کاروائی دیکھی۔ اگلے دن میں نے دیکھا احمد اپنے آپ سے کچھ کہ رہا ہے۔

کپ کپ کپ کپ صنم پٹ

 لپ لپ لپ لپ صنم پٹ

 میں نے اس کی ماں سے کہا۔ زرا دیکھنا یہ کیا کہ رہا ہے ۔ کچھ نہیں کہہ رہا کل مشاعرہ جو سن کے آیا ہے ۔ اب شعر پڑھ رہا ہے ۔اس کی ماں نے ہنستے ہوئے کہا۔ کچھ دنوں بعد بڑی عید آگئی۔ مجھے چھوٹی پھپھو کے گھر جانا تھا۔ یہ حسب معمول موٹر بائیک کی ٹینکی پر بیٹھ گیا۔ پاپا! میں بھی جاؤں گا۔ پیچھے سے مصعب نے آواز دی ۔ ٹھیک ہے بچھے بیٹھ جاؤ” مین بازار میں بہت ہی کم ٹریفک تھی۔ جی ٹی روڈ پر بھی اکاد کا گاڑی نظر آئی۔ علی خان نہر پر پہنچتے ہی ہم دائیں طرف نہر کے ساتھ ساتھ جانے والے کچے راستے پر ہو گئے ۔ راستے کی ایک طرف مکانوں کی قطار ہے اور دوسری طرف نہر ۔ پانچویں یا چھٹے نمبر کا مکان ہماری پھپھو کا ہے۔ میں نے بائیک وہاں روک کر اسے سٹینڈ پر کھڑا کر کے لاک کیا۔ احمد آہستہ سے کچھ بڑبڑایا۔ میں نے اپنا کان اس کے منہ کے آگے کر دیا۔ شاب آیا ہے ۔ اچھا کوئی بات نہیں۔ دیوار کے ساتھ بیٹھ کے کرلو۔ لیکن وہ آمادہ نہیں ہوا۔ اسے شرم آرہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا ہر آتا جا تا اسے دیکھے گا۔ ایسا کرتے ہیں میں اور مصعب سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں تم ہمارے پیچھے بیٹھ کے شاب کر لو ۔ وہ راضی ہو گیا۔ میں نے اس کی شلوار نیچے کی اور سامنے کھڑا ہوگیا۔ کچھ جگہ مصعب نے گھیر لی ہم دونوں بے دھیانی سے جی ٹی روڈ کو دیکھنے لگے ۔ اتنے میں ایک ویگن جو ایبٹ آباد والی سائر سائیڈ سے آرہی تھی ، بے قابو ہو کر ہماری سائیڈ پر بنی ہوئی نہر کی منڈیر سے ٹکرا کے نیچے نہر میں جا گری۔ ارد گرد کے لوگ اس کی امداد کے لیے اس طرف بھاگ کر جانے لگے ۔ کیا دیکھتا ہوں مصعب بھی بھاگتے ہوئے ادھر جارہا ہے۔اوئے کھوتے دے پتر ! کدھر بھاگ رہے ہو؟“ میں وہیں کھڑے کھڑے چلایا۔ پاپا ! سب لوگ بھاگ کے ادھر جا رہے ہیں ۔ اس لیے میں بھی ادھر بھاگا۔ پتر ! باقی لوگ تو ویگن کے مسافروں کی امداد کے لیے بھاگ کر جا رہے ہیں ۔ تم نے کیا کرنا ہے؟ میں نے احمد کی شلوار او پر کی۔ پھر ہم تینوں چلتے ہوئے حادثے کی جگہ پہنچ گئے۔ نہر میں زیادہ پانی نہیں تھا۔ ویگن اس میں الٹی حالت میں جا کر گری تھی۔ لوگوں نے ویگن کے دروازے کھول کے ڈرائیور کے علاوہ ایک مرد اور دو تین عورتیں باہر نکالیں ۔ ان کو معمولی زخم آئے تھے۔ پانی میں ہر طرف وی سی آر کی کیسٹیں بہہ رہی تھیں ۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ ویگن کیسٹوں سے بھری ہوئی تھی اور اس کے مسافر شاید سمگلر تھے۔ ہم واپس آگئے۔ جب موٹر بائیک کے پاس پہنچے تو احمد وہاں کھڑا ہو گیا۔ “پاپا! پھر سے ۔ کیا مطلب ” مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔ “پاپا! یہ کہتا ہے پھر سے وہ سب کچھ ہو ۔ دوبارہ گاڑی آئے اور نہر میں گرے ۔ مصعب نے وضاحت کی۔ میں نے احمد کی طرف دیکھا۔ وہ تائید میں سر ہلارہا تھا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *