Afsana MASK by Saeed Ashar

Afsana-MASK-by-Saeed-Ashar.webp
Afsana-MASK-by-Saeed-Ashar-2.webp

Afsana MASK by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.

ماسک 

چکن گریوی بنار ہا تھا۔ ابھی صرف لہسن، ادرک اور پیاز ہی کاٹ سکا تھا کہ وٹس ایپ پر میسج آنے کی مخصوص کھنٹی بجی۔ سدرہ کا میسیج تھا ” میری آج کل بڑی سخت پڑھائی چل رہی ہے۔ میں ڈرائنگ روم میں ہوتی ہوں۔ گرمی سے بری حالت ہو جاتی ہے۔ ممی کے گھر اگر کوئی چھوٹا سافالتو کولر ہو تو دے دیں۔ پھر واپس بھجوادوں گی۔ صرف ایک ماہ کے لیے چاہیے ۔“ ممی اس کی سوتلی ماں ہے۔ مجھے کال کرو ۔ جواباً میں نے مختصر سا میسج بھیج دیا۔ سدرہ کا میڈیکل کالج میں فرسٹ ایئر مکمل ہونے والا تھا۔ کرونا کی وجہ سے کالج تو بند تھا لیکن آن لائن کلاسز ہو رہی تھیں۔ دو تین منٹ بعد وٹس ایپ پر اس کی کال آگئی۔ اس وقت تک میں وی پی این آن کر کے ڈرائنگ روم میں اپنی فری نشت پر بیٹھ چکا تھا کھانا بعد میں تسلی سے بنایا جاسکتا تھا۔ السلام علیکم ! کیا حال ہے پاپا ؟ کیا کر رہے ہیں؟“ و علیکم السلام ! میں تو ٹھیک ہوں ۔ چکن گریوی بنارہا ہوں ۔ پھر تو ہادی بھائی کے مزے ہیں ۔ ہادی میر ا سب سے بڑا بیٹا ہے ۔ میرے ساتھ ہی یہاں الخبر میں رہتا ہے۔ میں ہیڈ آفس میں ہوتا ہوں اور وہ ہماری ہی کپنی کی ایک فیکٹری میں آفس سیکرٹری ہے۔

اتفاق سے اسی وقت ہادی اپنے کمرے سے نکلا اور میرے سامنے سے ہوتا ہوا باہر چلا گیا۔ شاید اسے کسی کی کال آئی تھی۔ اچھا اس طرح ہے کہ امی کے پاس کوئی فالتو کولر نہیں ۔ بلکہ اسے بھی ایک مزید چاہیے ہے۔ پچھلے سال جب میں پاکستان گیا تھا۔ خریدتے خریدتے رہ گیا تھا۔ تم ایسا کرو قاسم بھائی سے کہو کہ بازار میں کوئی اچھا سا کولر دیکھے اور اس کی قیمت معلوم کرے ۔ زیادہ بڑا نہ ہو شور کرے گا۔ بس تمھاری ضرورت کے مطابق ہو۔ جسے تم با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکو میں پیسے بھیج دوں گا۔“ ٹھیک ہے۔ میں کل ہی بھائی کے ذمہ لگاتی ہوں ۔ چھوٹا سا ہو۔ میں شور سے تنگ ہوتی ہوں ۔ ایک آدھ مہینے کی بات ہے۔ پھر ہمارے ایگزیمز ہو جائیں گے۔ اور گرمی بھی کم ہو جائے گی ۔ اچھا ایک اور طریقہ بتاؤں وہ بھی کر لو ۔ آپ لوگوں کا گھر سنگل سٹوری ہے۔ چھت گرم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پنکھا گرم ہوا پھینکتا ہے ۔ بہتر ہے کہ چھت پر سفیدی کرلو۔ بڑا آسان ہے۔ چونا گھول کے وائپر کی مدد سے چھت پر پھیلا لوں میں نے خود یہ تجربہ کیا ہوا ہے ۔ جب میں تمھاری دادی کے گھر میں رہتا تھا۔ میرا کمرہ بھی چھت پر تھا۔ ہر طرف سے دھوپ پڑتی تھی میں نے چھت پر چونا گھول کے پھیلا دیا۔ ایسا لگا کہ کمرے کا موسم بدل گیا ہو ۔ اصل میں روشنی منعکس ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے چھت گرم نہیں رہتی ۔ یہ تو بڑا آسان طریقہ ہے میں بھی کر کے دیکھتی ہوں ۔ ضرور کرو۔ نا قابل یقین حد تک فرق پڑتا ہے۔ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ کولر نہ لو۔ وہ بھی ضرور لو ٹھیک ہے۔ اور سنائیں وہاں کرونا کی کیا صورت حال ہے۔ جاب کیسا ہے ۔ خوف ہے۔ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سب نے ماسک پہنا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ میں تو روزانہ دس بجے آفس جاتا ہوں ۔ ایج فیکٹر کی وجہ سے ڈر لگتا ہے۔ صبح رش ہوتا ہے اس لیے احتیاط کرتا ہوں ۔ آفس میں جگہ جگہ سینیٹائزر رکھے ہوئے ہیں۔ 

وزیٹرز کا آنا منع ہے ۔ یہ تو بہت اچھا کر رہے ہیں آپ ۔ ہمارے ہاں تو لوگ پرواہی نہیں کرتے ۔“ یہاں قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جاتا ہے ۔ ہم کسی بھی سٹور میں جائیں اندر داخل ہونے سے پہلے ٹمپریچر چیک کرتے ہیں۔ ڈسپوزیبل گلوز دیتے ہیں ۔ تین دن پہلے میں کارنیش کی طرف سے گزر رہا تھا سگنل پر کچھ دیر رکنا پڑا۔ ایک جوان بغیر ماسک کے جاگنگ کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پولیس والے نے اس پر فائن کر دیا۔ کم از کم ہزار ریال تو ہوا ہو گا۔ یہاں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ ہر ایک کی مرضی ہے ماسک پہنے یانہ پہنے “ آپ لوگ لاپرواہی نہ کرنا۔ فالتو ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں ۔ باہر جائیں تو ماسک پہنیں۔ دوسروں سے فاصلہ رکھیں۔ زیادہ گھلنے ملنے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں ہمارا ایک دوست کرونا کی وجہ سے وفات پا گیا ہے ۔ بیسں دن پہلے اس کی والدہ بھی اسی بیماری کا شکار ہوئی تھیں ۔ ایک اور دوست بھی ہاسپٹل میں ہے۔ اور بڑی افسوس ناک خبریں ہیں ۔ اللہ سب کو سلامت رکھے۔ بھائی کے ایک دوست کے والد صاحب بھی آج کل قرنطینہ میں ہیں ۔ اچھا یہ بتاؤ تمھاری آن لائن کلاسز تو ٹھیک ہو رہی ہیں نا۔ اللہ کا شکر ہے۔ آن لائن کلاسز ٹھیک ٹھاک ہورہی ہیں لیکن کیا فائدہ ۔ یہ تو صرف تھیوراٹیکل ہیں ۔ آن لائن پریکٹیکل تو نہیں ہو سکتے۔ ان کے بغیر تو ہم کچھ بھی نہیں انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے “ ”ہاں یہ بات تو بالکل درست ہے ۔ وڈیوز کی مدد سے پریکٹیکل ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات بیچ میں ہی رہ گئی ۔ وی پی این بند ہونے کی وجہ سے کال ختم ہوگئی۔ اتنے میں مجھے باہر سے کسی کی آواز سنائی دی۔ کوئی میرے پڑوسی ایوب کے بیٹے ابوذر کو بلا رہا تھا۔ ہمارا فلیٹ تیسری منزل پر ہے۔ اس منزل پر کل چار فلیٹ ہیں۔ میں نے دروازہ کھول کے دیکھا۔ ایوب کے دروازے کے سامنے ایک جوان لڑکا کھڑا تھا۔ ماسک کی وجہ سے اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا فلیٹ کا دروازہ آدھا کھلا تھا۔ دروازے کے اندر اور باہر سامان کے بہت سارے شاپر رکھے ہوئے تھے ۔ ابو ذر کا دو سالہ بھائی ایان دروازے میں کھڑا تھا۔ ابوذر۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوذر 

اس نے پھر ابوذر کو آواز دی۔ مجھے لگا ایوب گھر نہیں ہے اور یہ سامان اس نے آن لائن سروس کے ذریعہ منگوایا ہو گا۔ خیریت ! کیا مسئلہ ہے؟ میں نے اس سے استفسار کیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں احتیاط سے پکڑے ہوئے ایک شاپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ ابوذر کو دینا ہے ۔ ابوذر کدھر ہے؟ اس کا کوئی پتہ نہیں ۔ یہ شاپر یہاں سائڈ پر رکھ دو۔ وہ آئے گا تو اٹھا لے گا۔ یہ انڈے ہیں۔ یہاں نہیں رکھ سکتا۔ یہ چھوٹا توڑ دے گا۔ اس نے ایان کی طرف اشارہ کر کے اپنی مجبوری ظاہر کی۔ اس طرح کرو مجھے دے دو میں انھیں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں ۔ ایوب آئے گا تو اسے دے دوں گا۔ میں نے شاپر میں لپیٹی انڈوں کی ٹرے اس کے ہاتھ سے لے کر داخلی کمرے میں رکھی میز پر رکھ دی ۔ کھلے دروازے سے وہ بھی کمرے میں داخل ہو گیا۔ شاید اسے ایوب سے پیمنٹ وصول کرنی ہوگی اس لیے یہ کچھ دیر یہاں انتظار کرنا چاہتا ہے ۔ میرے ذہن میں اس کے بارے میں یہ خیال پیدا ہوا۔ میں کمرے میں رکھی کرسیوں کی طرف بڑھا تا کہ کسی ایک کرسی پر سے بکھرے ہوئے کاغذ اور پن سمیٹ کر اس کو بیٹھنے کے لیے کہوں لیکن وہ میری طرف دھیان دینے کے بجائے گھر کے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے اسے پیچھے سے دیکھا تو اس کے کندھوں کی وجہ سے اسے پہچان گیا۔ ۔۔۔ ہادی اپنے کمرے میں غائب ہو گیا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website.
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *