Afsana MANCHI by Saeed Ashar

Afsana-MANCHI-by-Saeed-Ashar.webp
Afsana-MANCHI-by-Saeed-Ashar.webp

Afsana MAnchi by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.

مانچی


”اوئے الو کے پٹھے ! اس کو کہاں سے اٹھالائے ہو، اسے کون پالے گا، یہ مر جائے گی۔“ فائزہ نے ولید کو ڈانٹا۔ میں کیا کرتا گلی میں بچے اس کو مار رہے تھے، میں اٹھالایا۔ آپ فکر نہ کریں میں اس کو پال لوں گا۔ ولید نے اپنے عمل کا جواز پیش کیا۔ فائزہ نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔ اس کے نحیف بدن میں ہلنے جلنے کی سکت تک نہیں تھی ۔ فائزہ نے اسے اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس نے ہلکی سی آواز میں میاؤں کی ۔ وہ مشکل چند دنوں کی تھی۔ گود میں لے کے فائزہ نے چھوٹی چمچ سے نیم گرم دودھ کے چند قطرے اس کے منہ میں ڈالے لو جی ! آج سے فائزہ اس کی بھی ماں بن گئی۔ جوں ہی اس کے بدن میں دودھ کے قطروں سے ذراسی توانائی آئی تو پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ اب وہ مہربان ہاتھوں میں ہے۔ اگر چہ شدید گرمی کا موسم تھا لیکن اے سی کی ٹھنڈک کی وجہ سے کمرے کا فرش ٹھنڈا تھا۔ اسے ٹھنڈا فرش اچھا لگا تو وہ وہیں سوگئی ۔ فائزہ نے اسے نرم ہاتھوں سے اٹھا کر ولید کے ساتھ لٹا دیا۔ بھوک ختم ہونے کے بعد وہ محبت کی گرماہت میں کچھ دیر تک سوئی ۔ جب اٹھی تو ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ میں کہاں ہوں کہیں کوئی خواب تو نہیں جو ختم ہو گیا ہو لیکن اس نے فائزہ کے مہربان ہاتھ پہچان لیے ۔ وہ اسے دودھ کے برتن کے قریب لے کر آئی ۔ وہ بھی چپ چاپ اس کے پاس بیٹھ گئی۔ ابھی اسے پینا نہیں آرہا تھا۔ فائزہ نے دودھ کا برتن ہاتھ میں لے کر اسے گود میں بٹھایا اور برتن کو اس کے منہ کے سامنے کیا۔ اس نے اپنی ننھی سی زبان نکال کر دودھ میں ڈالی۔ وہ دودھ کو محسوس کر کے بار بار زبان اس میں ڈالتی رہی ۔ اس دوران وہ اپنی نئی ماں کو بھی دیکھتی رہی ۔شام کو فرید خان بھائی آئے تو اس وقت بھی فائزہ اسے دودھ پلانے میں مصروف تھی۔ ارے اس کی حالت تو بہت خستہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کل تک زندہ بچے۔“ فرید خان بھائی نے خدشے کا اظہار کیا۔ کیا کروں بھائی ؟ اللہ کو منظور ہوا تو بچ جائے گی باقی ہمارا زور تو ہے نہیں ۔ فائزہ اس کے علاوہ کیا کہہ سکتی تھی۔ وہ کمزور ترین بلی تھی جسے فائزہ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد دودھ دیا تا کہ اس کے جسم میں کچھ توانائی آئے ۔ اگلے دن صبح صبح وہ فائزہ کے بستر کے پاس کھڑی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ فائزہ نے مجھے بتایا۔ میں جلدی سے اٹھی اور اسے دیکھ کر کہا اوشونی مانو میری مانو، میری مانچی، ابھی دودھ لائی ۔ اور مانچی فائزہ کی ایک پیاری لاڈو بن گئی۔ اس کا معمول ہو گیا دودھ پینا اور جہاں فائزہ وہاں وہ یہ کچن میں وہ بھی کچن میں، جہاں جہاں یہ صفائی کروارہی ہوتی تھی وہ بھی وہیں ساتھ ساتھ پہنچی ہوتی۔ یہ گھر سے باہر جانے لگتی وہ گیٹ میں بیٹھ جاتی اور جب واپس آتی تو وہ دوڑ کر ٹانگوں سے لیپٹ جاتی ۔ مانچی اس گھر کا ایک اہم فرد بن گئی تھی۔ ہر آنے والا پہلے پوچھتا ” مانچی کدھر ہے“۔ فائزہ آواز لگاتی۔ مانچی — مانچی!” اور مانچی سامنے آموجود ہوتی۔ دو ماہ کی مانچی نے بہت پر پرزے نکال لیے تھے ۔ ولید، فائزہ اور مانچی گھر کے تین کردار تھے۔ سارا دن فائزہ کبھی ولید کو آواز دیتی اور کبھی مانچی کو۔ ایک دن شام کے وقت ولید جب گھر آیا تو اس کے ہاتھ پیچھے تھے ۔ وہ چپ چاپ اپنی ماں کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا۔ فائزہ کی چھٹی حس نے اپنا کام دکھایا۔ کیا ہے ولید ؟” “مما ! میں اکیڈمی سے آرہا تھا نا۔ ” تو ؟ ” فائزہ ایک دم اس کی طرف گھومی ۔ کیا ہوا؟ بولو راستے میں سب ٹھیک تھا نا ؟“ جی مما کچھ نہیں ۔ تو کیا ہوا بولو ؟“ اس نے ہاتھ آگے کیا۔ ایک چھوٹا ننھا منا سا براؤن کلر میں کانپتا ہوا بلی کا بچہ اسے نظر آیا۔ ولید! اسے کہاں سے اٹھا لاتے ہو؟ باہر چھوڑو، اس کی ماں پریشان ہو رہی ہوگی، چلو چھوڑ کر آؤ ۔ مگر ولید چپ چاپ کھڑا رہا۔ ولید سنتے نہیں ؟ چلو چھوڑ کر آؤ ” مما ! اسے کہاں چھوڑوں ؟ اس کی مما مرگئی ہے اور اس کے بہن بھائیوں کو بچوں نے مار دیا ہے، اسے بھی مار رہے تھے کہ میں نے اسے اٹھالیا۔ وہ اللہ ! یہ بچوں کی کیسی تربیت کرتے ہیں ماں باپ ان کے دل میں رحم کا جذبہ ہی نہیں ڈالتے ۔ اوہو! یہ تو زخمی بھی ہے ۔ فائزہ کے ہاتھ میں آتے ہی وہ مچلا اور نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے کیا ہوا؟” فائز سمجھ گئی، سامنے مانچی کے دودھ کا برتن تھا۔ اس نے جوں ہی اسے چھوڑ اوہ بھوکے پیٹ دودھ کے برتن کے نزدیک پہنچا۔ مانچی نے پیچھے سے اسے پنجہ مارا اور غرائی۔ ”اوہ ! یہ کیا“ فائزہ نے مانچی کو اٹھا کر پیار کیا۔ مانچی بونی مانچی دیکھنا چھوٹو ں ہے بالکل چھوٹا سا بھوکا بھی ہے دودھ پینے دونا. میری اچھی مانچی مانچی فائزہ کی گود میں دبک کر اسے دودھ پیتے دیکھتی رہی۔ یوں اس گھر میں چھوٹو کا اضافہ ہو گیا۔ مانچی خود بخود اس کی نگران بن گئی تھی اس کے ہر الٹے کام پر اس کے سر پر پنجہ مار کر اسے سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کرتی۔ یوں اس کی گھر میں رہنے کی تربیت کرنے کی ذمہ داری جیسے مانچی نے اپنے سر لے لی ہو۔ رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ لڑائی جھگڑا، مارکٹائی اور بھاگ دوڑ جیسے کاموں میں چھوٹو سب سے تیز تھا۔ اکثر وہ مانچی کو مار کر اپنی مما فائزہ کے پیچھے چھپ جاتا اور مانچی اس انتظار میں رہتی کہ کب وہ مما کے پیچھے سے نکلے بعض اوقات وہ دونوں فائزہ کی چار پائی کے ارد گر داڑتے اور بے خوفی سے اس کے اوپر سے چھلانگیں لگاتے ہوئے دوڑتے۔ مانچی رات کو فائزہ کے ساتھ ہوتی تھی اور چھوٹو تاک میں رہتا کہ مانچی کہیں ادھر ادھر ہو تو وہ دوڑ کر اس کی جگہ پر قابض ہو ۔ مانچی کی موجودگی میں چھوٹو ولید کے پاس جا کر سو جاتا۔ اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی جب چھوٹو کو لگتا کہ مانچی اپنی جگہ پر موجود نہیں ۔ حالانکہ مانچی وہاں موجود ہوتی۔ وہ اسے دیکھتے ہی دوڑ کر واپس ولید کے پاس جا کر سو جاتا۔ بار با ایسا بھی ہوتا کہ مانچی فائزہ کے پہلو میں اور چھوٹو اس کے پاؤں پر سر رکھے سویا ہوتا۔ ان کی موجودگی میں نماز ادا کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا کیونکہ جائے نماز بچھاتے ہی چھوٹو جہاں بھی ہوتا دوڑتا ہوا آتا اور جائے نماز کے ایک کونے پر آبیٹھتا ۔ پھر مانچی دوڑتی ہوئے آتی اور اسے وہاں سے مار بھگاتی ۔ ان حالات میں بھلا کیسے اور کہاں نماز کی ادائیگی ممکن تھی ۔ جائے نماز کو ان دونوں نے کبڈی کا میدان بنا رکھا تھا۔ آخر کار ان دونوں میں ایک معاہدہ طے پا گیا۔ دونوں آگے آکر بیٹھ جاتے۔ اب سجدہ کہاں ہو ۔ ایسے میں سجدے کے لیے جگہ ہی نہ بچتی۔ بعض اوقات سجدے میں جاتے جاتے فائزہ کو انھیں ہاتھ سے ہٹا کر جگہ بنانی پڑتی۔ سلام پھیر کر پھر ان دونوں کو ایک ایک چپیٹ لگاتی، وہ دونوں سیڑھیوں سے اوپر بھاگ جاتے ۔ انگلی رکعات کی نیت کرتے ہی دونوں واپس آکر اپنی اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتے ۔ فائزہ اگر ولید کو آواز دیتی۔ ولید بیٹا! نماز ادا کر رہی ہوں ان کو کہیں دوسری طرف لے جاؤ ۔مجال ہے یہ ولید کی طرف دھیان دیں یا اس وقت جائے نماز سے اٹھ کر جائیں۔ سکول سے واپس آکے فائزہ اگر کبھی تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ جاتی اور اتفاق سے اس کی آنکھ لگ جاتی تو دونوں خاموشی سے اس کے دائیں بائیں آکے سو جاتے ۔ مانچی اگر پہلے ۔ جاگ گئی تو اس کا پنچہ چھوٹو کے منہ پر جاتا کہ اٹھو ماما کے پاس سے۔ مگر اب چھوٹو بھی پر پرزے نکال چکا تھا واپس مانچی پر چھلانگ لگا دیتا اور دونوں کافی دیر گتھم گتھا رہتے ۔ فائزہ نے مجھے بتایا۔ سکول سے واپسی پر میں ان کی آنکھ سے اوجھل کسی صورت نہیں رہ سکتی تھی۔ کمرے میں ہوتی تو وہ با قاعدہ دروازہ بجاتے اور آواز دیتے کہ ہمیں بھی اندر لے جاؤ۔ مانچی جب دو ماہ کی ہوئی تو میری بھانجی ڈاکٹر نمرہ اسلام آباد سے آئی ۔ مانچی صرف دو افراد کی عادی تھی۔ اس وقت تک چھوٹو بھی نہیں آیا تھا۔ یہ تیسرا افرد کہاں سے آیا۔ اس کے آتے ہی مانچی نے اسے کاٹنے کے لیے اس پر چھلانگ لگا دی اور اسے پنجے مارے کہ نکلو ہمارے گھر سے۔ نمرہ اسے گود میں لے کر پیار کرنے لگی لیکن مانچی اسے مارنے سے باز نہ آئی۔ نمرہ نے منہ بسور کر فائزہ سے کہا۔ لالہ ! یہ چوہڑی مجھ سے پیار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن کچھ ہی دن گزرے کہ مانچی کو علم ہو گیا کہ یہ بھی اپنا ہی بندہ ہے ۔ اب وہ اس سے کھانا لینے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ گھومنے لگی۔ کچھ عرصہ بعد مانچی اور چھوٹو دونوں اس سے مانوس ہو گئے۔ ان کی مانوسیت اتنی ہو گئی کہ ایک بار جس دن وہ واپس گئی ۔ سارے گھر میں اسے تلاش کرتے رہے اور آواز دیتے رہے۔ آخر مانچی نے کسی نہ کسی طرح اس کے کمرے میں جانے کا سوچا۔ چھوٹو نے دروازے میں گردن پھنسائی مانچی اس ادھ کھلے دروازے سے چھلانگ لگا کر اندر دوڑتی اس کے بیڈ تک پہنچ گئی مگر اسے نہ دیکھ کر بھی اوپر نیچے دوڑتی پھرتی اور آواز دیتی رہی۔ باقی احوال فائزہ کی زبانی پیش کرتا ہوں۔ مانچی فطرتاً بہت ہی صاف ستھری تھی اس نے پہلے دن سے ہی واش روم استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ چھوٹو آیا تو اس نے صحن میں پیشی کر دی ۔ مانچی بیٹھی دیکھ رہی تھی ۔ اس نے چھوٹو کے سر پر زور سے پنجہ مارا اور اسے پنجے مارتی ہوئی واش روم لے گئی۔ جس طرح وہ خود واش روم استعمال کرتی تھی اسے بیٹھ کر دکھایا۔ چھوٹو بھی ایسا سمجھدار تھا کہ پہلی بار ہی سمجھ گیا کہ واش روم کیسے استعمال کرنا ہے۔ پھر وہ جہاں کہیں بھی ہوتا ضرورت پڑنے پر واش روم کے لیے دوڑ پڑتا اور واپس آکر میرے پاؤں کے ساتھ لگ کے میاؤں میاؤں کر کے مجھے بتاتا کہ ماما میں واش روم سے ہو آیا ہوں ۔ تا کہ میں پانی گرا سکوں۔ مانچی کی محبت اس سے دن دگنی رات چوگنی ہوتی جارہی تھی۔ دونوں آپس میں کھیلتے دوڑتے بھاگتے اور سارا سارا دن ان کا آپس میں مستیاں کرتے گزر جاتا۔ چھوٹو کی کوشش ہوتی کہ وہ مما کے ساتھ چپک کر سو جائے اور جیسے ہی موقع ملتا وہ فوراً دوڑ کر میرے پاس آتا مگر مانچی اس ساری محبت کے باوجود مما کی محبت اس سے بانٹنے کے لیے آمادہ نہیں تھی۔ اس لیے وہ جب بھی میرے پاس آتا ما نچی سے مار کھاتا تھا۔ ایک دن چھوٹو نے کمال ہی کر دیا۔ میرے پاس آیا اور زور سے چھلانگ لگا کر میری گردن میں جھول گیا۔ میں نے ساتھ لپٹایا اور کہا۔ چھوٹو ! جب ہم اللہ کے پاس جائیں گے نا تو اللہ میاں کو بتانا میں تمھاری مما ہوں ۔ اس نے میری طرف بہت غور سے دیکھا۔ مجھے لگا میں اس کی آنکھوں میں تحلیل ہو جاؤں گی۔ پھر اس نے اگلی ٹانگیں اٹھا کر میرے منہ پر پیار سے پھیریں اور ساتھ ساتھ میاؤں کیا جیسے سب کچھ سمجھ کے تصدیق کر رہا ہو۔ میں نے اس کا منہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اس نے بھی اپنی اگلی دونوں ٹانگوں سے میرے منہ کو تھام لیا۔ اس دن جیسے ہم دونوں میں کوئی اقرار ہو گیا تھا۔ پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن کے لیے ٹیسٹ دینے مجھے ملتان جانا تھا واپسی میں بہت دیر ہوگئی۔ میں نے ارشد بھائی کو کال کی۔ بھائی مانچی اور چھوٹو کو گوشت کھلا دو۔ کچھ دیر بعد بھائی کی کال آگئی۔ ناجی نا۔ یہ میرے بس سے باہر ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ کہنے لگا۔ ان کا منہ کھول کھول کر اس میں بوٹیاں ڈال رہا ہوں مگر یہ نہیں کھار ہے ۔ مانچی تو زور لگا کر چھت پر دوڑ گئی ۔ چھوٹو کو پکڑا ہوا ہے مگر وہ نہیں کھا رہا۔ اچھا بھائی میں آکے دیکھتی ہوں ۔ رات دس بجے میری واپسی ہوئی گیٹ کھولتے ہی چھوٹو نے میری گردن پر چھلانگ لگا دی اور مانچی جیسے پاگلوں کی طرح آگے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ میں نے سب سے پہلے ان کے لیے گوشت نکالا – مانچی گود میں بیٹھ گئی اور چھوٹو میرے سامنے ۔ دونوں ایسے بھوکوں کی طرح کھانے لگے جیسے سارا دن انھیں کسی نے کھانا نہیں دیا تھا۔ میری زندگی میں یہ دو کردار بہت ہی اہمیت اختیار کر چکے تھے۔ دو افراد، دو افراد خانہ ۔ مانچی۔ چھوٹو !” سارا دن یہی آواز گھر میں گونجتی اگرچہ گھر میں ایک رشین بلا بھی آپ کا تھا۔ مگر مانچی اور چھوٹو کا جیسے اس سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ وہ دونوں آپس میں ہی کھیلتے ۔ یہ ان کو بڑی حسرت سے کھیلتے ہوئے دیکھتا رہتا کبھی کبھی چھوٹو اس کا کان اپنے منہ میں دبا کر اسے چھیڑتا اور بھاگتا تو مجھے بڑی ہنسی آتی۔ رشین بلا جب سونے کی تیاری کرتا تو چھوٹو اس کی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کرتا۔ جوں ہی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو وہ اس کے اوپر چھلانگ لگاتا اور بھاگ کر چھت پر چلا جاتا تھوڑی دیر بعد سیڑھیوں میں بیٹھ کر دوبارہ اس کی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کرتا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ اکثر رات کے وقت مانچی اور چھوٹو آپس میں لڑتے تھے یا کھیلتے تھے۔ بس گھتم گتھا رہتے تھے ان کی لڑائی کسی قسم کی کوئی آواز نکالے بغیر ہوتی تھی۔ صرف ان کے دوڑنے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی سر گرمی میں مشغول ہیں۔ رات کے کسی بھی پہر جب میری آنکھ کھلتی وہ دونوں میرے ارد گرد آن موجود ہوتے تھے ۔ سکول سے واپسی پر میرے کمرے میں پہنچتے ہی وہ فوراً دروازے پر پہنچ جاتے اور اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا کر مسلسل اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ۔ جب میں نظر آتی تو زور زور سے بولتے ۔ دروازہ کھلتے ہی دونوں اندر کی جانب لپکتے ۔ ڈریسنگ ٹیبل، بیڈ اور صوفے پر چھلانگیں لگاتے کبھی میرے دائیں بائیں چہلیں کرتے ۔ جب تھک جاتے تو بیڈ پر آ کے بیٹھ جاتے۔ چھوٹو کو کمرے میں آنے کا اتنا شوق تھا کہ اگر دروازے سے میں نظر نہ آتی تو اپنی ٹانگیں اٹھا کر کمرے میں جھانکتا ۔ پھر بھی نظر نہ آتی تو وہ ساتھ پڑے ڈائننگ ٹیبل پر چڑھ جاتا اور زور زور سے آوازیں نکالتا جیسے بتا رہا ہو کہ میں ادھر ہوں مجھے اندر بلالو ۔ ایک صبح جب میں جاگی تو مانچی میری طرف بھاگ رہی تھی اور چھوٹو سو رہا تھا۔ چھوٹو چھوٹو آجاؤ” مگر وہ نہیں آیا۔ میں نے پھر بلایا تو وہ اٹھا تھوڑا سا چلا اور لیٹ گیا۔
ولید ولید چھوٹو کو دیکھو کیا ہوا ہے اسے
مانچی جو مزے سے گوشت کھارہی تھی گوشت چھوڑ کر چھوٹو کی طرف مڑی ۔ چھوٹو اسے مار رہا تھا اور نہ گوشت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے کیا ہوا اللہ خیر اٹھایا تو جسم گرم ۔ ولید! اسے تو بخار ہے فوراً ہسپتال لے کر جانا ۔ بے شک سکول سے چھٹی کر لینا ۔ اس نے کہا ” اوکے “ ڈاکٹر کی دی ہوئی دوا سے شام تک بخار کم ہوا۔ اس نے آنکھ کھولی ۔ میں نے اسے تھوڑا سا دودھ پلایا۔ وہ پھر سو گیا۔ بے چین مانچی اس کے ارد گرد گھومتی رہی ۔ اس نے بہت ہی کم گوشت
کھایا۔ آخر چھوٹے صوفے پر اسے گود میں ایسے بھر کر بیٹھ گئی جیسے کوئی متاع حیات سمیٹتا ہے ۔ چھوٹو خاموش رہا۔ پھر اسے قے ہونے لگی۔ میرے دل کو کچھ ہونے لگا۔ یہ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟“ اس کے سامنے نیم گرم پانی رکھا تو وہ پی کر میرے کمبل میں آگیا۔ قے ہونے لگی تو باہر دوڑ گیا ۔ کافی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ساری رات میں اور مانچی اس کے پاس رہے۔ صبح ہوتے ہی مانچی نے اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا۔ میں نے مانچی کو پیار کیا اور چھوٹو کو اپنی چھاتی سے لگا کے ہسپتال لے گئی۔ اللہ چھوٹو تو ٹھیک تھا پھر کیا ہوا اسے۔ میری آنکھیں مسلسل بھیگ رہی تھیں ڈاکٹر نے فوری طور پر انجکشن منگوا کے لگائے اور کہا۔ اس کا ٹمپریچر بہت کم ہے فوراً زیادہ ہونا ضروری ہے ۔ میں وہیں اس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ چھوٹو چھوٹو بیٹا ” ولید سسکنے لگا تو اسے ڈانٹا۔ کچھ نہیں ہو رہا چھوٹو کو ” مگر وہ تو ہاتھ سے نکل رہا تھا ٹمپر یچر کی طرح بھی نہیں بڑھ رہا تھا۔ کیوں چھوٹو۔ ۔ کیوں ٹھیک ہو جانا! مما کو دیکھو۔ دیکھونا ۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ تھاما۔ چھوٹو نے ایک لمحہ کے لیے مجھے دیکھا جیسے کہ رہا ہو ۔ ہاں یک دم اس نے دو تین جھٹکے لیے میں پیچھے پلٹی اور ڈاکٹر کو کہا۔ پلیز دیکھو ۔ ۔ ۔ اسے کیا ہوا ۔ ” میم! آپ پیچھے ہو جائیں میں دیکھتا ہوں ۔“ دو لمحوں کے بعد ولید چیخا۔ مما ! چھوٹو اور چھوٹو چلا گیا۔ اپنے ماموں کو کال ملائی۔ میری سسکیوں اور ولید کی چیخوں سے ہاسپٹل گونجنے لگا ولید نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ماموں میرا چھوٹو گیا ۔ ولید چیخ رہا تھا۔ ماموں ۔۔ ماموں ۔ ارشد بھائی اسے اور مجھے اپنے ساتھ لگائے چپ چاپ ساکت کھڑے تھے۔ پھر اسے بہت پیار سے چادر میں لپیٹ کر بازوؤں میں اٹھایا اور مجھے کہا۔ تم دونوں اب گھر چلے جاؤ ۔ آنکھوں میں شدت کی برسات لیے گھر پہنچے تو گیٹ کھولتے ہی مانچی گیٹ کے ساتھ انتہائی بے قرار بیٹھی نظر آئی۔ اس نے ہمیں دیکھا تو ہمارے گرد چکر لگایا۔ گود میں دیکھا۔ مگر چھوٹو نہیں تھا۔ وہ سب کچھ سمجھ گئی۔ سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی چھت پر چلی گئی۔ میں بھی دوڑتی ہوئی اس کے پیچھے گئی۔ سامنے برآمدے میں اسے تیز آواز میں روتے اور زور زور سے زمین پر پنجے مارتے دیکھا۔ میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو وہ بھاگ گئی۔ میں اپنے آنسوؤں کو پیتے ہوئے نیچے آگئی۔ کچھ دیر بعد پھر مانچی کے کرلانے کی آواز آئی۔ میں جلدی سے او پر گئی۔ اسے گود میں لیا اور نیچے لے آئی۔ ولید سے کہا۔ جاؤ ولید اسے ڈاکٹر کو دکھاؤ ، اسے کیا ہو گیا ہے؟“ ولید کے ساتھ بھتیجے کو بھیجا۔ ڈاکٹر نے کہا۔ اسے کچھ بھی نہیں ہوا بس شدید ٹینشن کا شکار ہے کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائے گی۔ اسے کچھ کھلائیں ۔ جب اسے کھلانے کی کوشش کی تو اس نے منہ میں کچھ بھی نہیں ڈالا سکڑ سی گئی۔ سارا دن اسی طرح گزرا۔ ایک چھوٹو کا دکھ، دوسرا مانچی کا کچھ نہ کھانا اذیت بڑھارہا تھا۔ شام کے وقت اسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے بھوک کا سیرپ لکھ دیا۔ اسے آدھا چمچ دیں بھوک لگے گی تو خود کھائے گی ۔ دوسرا دن بھی گزر گیا مانچی نے منہ میں کچھ بھی نہ ڈالا۔ واپس ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ اس نے کہا۔ یہ بیمار نہیں بس بھوکی ہے اسے کھلانے کی کوشش کریں ۔ مگر مانچی نے تو جیسے قسم کھائی تھی کہ منہ کھولنا ہی نہیں ۔ ایک بار پھر شام سے رات ہوگئی رات کے آخری پہر اسے قے ہونی شروع ہوگئی۔ اسی ڈاکٹر کو میسج کیا تو اس نے کہا۔ تین دن سے بھوکی ہے اس کا معدہ اب بھوک سے الٹ رہا ہے کوشش کریں کہ کچھ کھالے ۔“ صبح ہوتے ہی مانچی کو لے کر ایک بار پھر ہسپتال پہنچ گئی۔ بظاہر اسے کوئی بیماری نہیں تھی ٹمپر یچر تک نارمل تھا۔ بھلا علاج کیا ہو۔ بھوک کا علاج تو کھانا تھا۔ جس کے لیے وہ آمادہ نہیں تھی۔ ڈاکٹر کہنے لگا۔ اسے بہت ہی زیادہ ڈپریشن ہے۔ اگر یوں ہے۔ جب تک کچھ کھائے گی نہیں بہتری ممکن نہیں۔ انجیکشن بھی لگا دیے ہیں۔ ڈرپ کی کوشش کی تو اس نے پنجہ مار کر سب کچھ نکال دیا۔ مانجی بے سدھ ہوگئی ۔ ڈاکٹر نے کہا اسے گھر لے جائیں اور کوشش کریں کسی بھی طریقے سے پانی گلوکوز اور دودھ اس کے پیٹ میں جائے ۔“ ولید بے چارہ اس کوشش میں بے حال ہو چکا تھا۔ بار بار اس کامنہ کھولتا کبھی تھوڑا سا گلوکوز ملا پانی اور کبھی دودھ، سرنج کی مدد سے اس کے منہ میں چپکا تا۔ آخر مانچی بھی اپنا سر زمین پر ڈال کر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں تین دن کی بھوک نے اسے گرادیا تھا۔ مانچی ۔۔ مانچی ۔۔! میرا بیٹا کچھ کھالو۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اس کا منہ چوم کر کہا۔ اس نے اپنی پوری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اگلی دونوں ٹانگوں سے میرے ہاتھ کو لپیٹ لیا۔ سر میرے بازوؤں کے ساتھ لگا دیا۔ مانچی، مانچی مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔ مانچی تم اور چھوٹو میری تنہائی کے ساتھی ہونا۔ مجھ سے باتیں کرنے والے دونوں میرے لاڈلے۔ چھوٹو گندہ بچہ تھانا، وہ چلا گیا۔ تم تو میری بیٹی ہو ۔ مانچی نے اپنا آپ میرے ساتھ لگا دیا۔ مجھے لگا مانچی اب بہتر ہو جائے گی۔ رات ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا کہ مانچی کی طبیعت کچھ بحال نظر آنے لگی۔ ولید نے سرنج کی مدد سے اسے دودھ دیا۔ اس نے کچھ نہ کچھ پی لیا۔ ساتھ ہی میرے منہ سے نکلا۔ اللہ تیرا شکر تیرا احسان ” نمرہ کو شام کے وقت جوں ہی پتہ چلا کہ مانچی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے وہ اسلام آباد سے مانچی کے لیے نکل پڑی۔ کہہ رہی تھی۔ مانچی بیمار ہے۔ لالہ میں صبح چھ بجے تک گھر پہنچ جاؤں گی ۔ مما ” رات دو بجے کے قریب ولید نے مجھے پکارا۔ میں جو روم میں جارہی تھی ایک دم پلٹی کمبل میں دیکھا مانچی بار بار کراہ رہی تھی۔ میں نے اسے فوراً کمبل سے نکال کر اپنی گود میں لیا۔ ولید نے اسے مجھ سے چھین کر اپنی گود میں لے کر پیار سے کہا۔ مانچی اور مانچی اس کے ساتھ ہی ساکت ہو چکی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مانچی کیسے چلی گئی۔ بنا بیمار ہوئے ۔ چھوٹو کے غم میں بھوکی مانچی چھوٹو کے پاس جا چکی تھی۔ ولید نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے ماموں کو کال کی۔ ماموں مانچی اور ارشد بھائی سمجھ گئے ۔ چند لمحوں میں وہ ہمارے گھر تھے۔ جس کمبل میں مانچی سورہی تھی اسی کمبل میں ۔ بہت پیار کے ساتھ ارشد بھائی نے مانچی کو اٹھایا۔ اپنے ساتھ لگایا اور کہا۔ کیوں اتنا دکھ چھوٹو کا لے لیا کہ اس کے پیچھے ہی چلی گئی ہو ۔“ ولید کا وہ حال کہ جیسے سارا رونا اس نے مانچی کے لیے ہی بچا کے رکھا ہوا تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے وجود سے کوئی دل نکال کر لے گیا ہو۔ میں خالی ہو گئی تھی۔ گھر میں سناٹا رہ گیا تھا۔ کہیں چھوٹو اور مانچی کی کوئی آواز نہ تھی۔ میں اب بھی کسی کسی وقت مانچی اور چھوٹو کو آواز دینے لگتی ہوں ۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *