Afsana KHILOONA by Saeed Ashar

Best-Afsana-by-Saeed-Ashar-2.webp
Afsana-KHILOONA-by-Saeed-Ashar-2.webp

Afsana KHILOONA by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.

کھلونا


سیکنڈ ایئر کی کلاس فرسٹ فلور پر تھی ۔ خالدہ سیکنڈ ایئر اردو کا پیریڈ مکمل کر کے سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اسے شاہدہ بلوچ مل گئی۔ ہمیشہ کی طرح چست کپڑے پہنے ہوئے ۔ جن کی وجہ سے اس کا غیر ضروری موٹا پا چھپنے کے بجائے چھل چھل کرتا باہر آرہا تھا۔ اس کا اب مطالعہ پاکستان کا پیریڈ تھا۔ تمھیں ایک زبردست لنک بھیجا ہے ۔ شاہدہ بلوچ اکثر اسے انسانوں اور حیوانوں کے الٹے سیدھے وڈیوز بھیجتی رہتی ۔ وہ انھیں دیکھنے کے بعد بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے ڈیلیٹ کر دیتی کئی بار اس کا جی چاہا کہ وہ اپنے کچھ دوستوں کو بھی اس میں حصہ دار بنائے لیکن کچھ سوچ کر اپنا ارادہ ترک کر دیتی ۔ اس کے اگلے دو پیریڈ خالی تھے۔ گراؤنڈ فلور پر قدم رکھتے ہی اس نے سٹاف روم کا رخ کیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ کھڑکیوں والی سمت میں بیٹھ گئی ۔ آج کا اخبار سامنے میز پر بے ترتیبی سے پڑا ہوا تھا۔ چند گھڑیاں ستانے کے بعد اس نے اخبار کاپہلا صفہ اٹھالیا۔ تمام خبریں کل ہی کی تھیں۔ اس نے اخبار واپس میز پر رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں۔ خالدہ کے والدین کا تعلق دلی سے تھا وہ تقسیم ہند کے چند سالوں بعد یہاں پاکستان آئے تھے۔ اس کی زبان میں موجود شائستگی، شتنگی اور سلیقہ اسے وراثت میں ملا تھا۔ ناک نقشہ ، قد بت اور صاف سرخ سفید رنگت دیکھ کے دنیا اس کے پیچھے پاگل ہوگئی تھی۔ اوپر سے موٹی موٹی غزالی آنکھوں نے اسے سچ مچ کی قیامت بنادیا تھا۔ میٹرک کرنے سے پہلے ہی رشتے آنے شروع ہو گئے ۔ انٹر کے بعد تو جیسے تانتا بندھ گیا۔ اس کے والدین کو ایسی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اکلوتی اولاد تھی۔
اتنی جلدی اپنے دل کے ٹکڑے کو کیسے خود سے جدا کر دیتے ۔ اس نے مزے سے ایم اے اردو کر لیا نمبر اچھے تھے اس لیے گورنمنٹ کالج میں لیکچرر شپ آسانی سے مل گئی طبیعت موزوں پائی تھی اس لیے کبھی کبھار کوئی شعر یا نظم کہہ لیتی ۔ ایک آدھ افسانہ بھی لکھ لیتی کسی مشاعرے میں رضوان احمد کا اس سے آمنا سامنا ہو گیا۔ ایک دم لٹو ہو گیا۔ سی ایس ایس افسر تھا۔ رشتہ ہونے میں کچھ خاص دقت پیش نہیں آئی ۔ چٹ منگی پٹ بیاہ ہنی مون کے چونچلے ختم ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی ان دونوں کو ۔ جیسے احساس ہو گیا کہ اس تعلق میں وہ شدت نہیں پائی جاتی جس کا وہ سنتے آئے تھے۔ رضوان احمد کب گھر آتا ہے، کتنا گھر رہتا ہے، کیا پہنتا ہے، اس کا پسندیدہ کھانا کون سا ہے، کسی دوست کے ہاں اس کا آنا جانا زیادہ ہے کون ہے جس کے ساتھ ٹیلیفون پر لمبی لمبی گپیں ہورہی ہیں۔ خالدہ کو ان باتوں سے قطعا کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ یہی حال رضوان کا بھی تھا۔ اسے بالکل پروا نہیں تھی کہ خالدہ کالج سے کس وقت لوٹتی ہے۔ کھانے کی میز پر اس کا انتظار نہیں کرتی۔ بن سنور کر اس کے سامنے نہیں بیٹھتی یا اس کی پسند کا بھی کوئی کھانا نہیں بناتی۔ دونوں اپنے اپنے حصار میں ایک دوسرے سے لا تعلق سے ہوتے چلے گئے ۔ دونوں کو ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے درمیان کوئی نفرت کی دیوار کھڑی ہو گئی ہو ۔ بظاہر گھر کے باقی سارے معاملات نارمل تھے۔ اس دوران دو بچے بھی ہو گئے کرن اور فارس۔ پھر بھی ماحول پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا کبھی کبھار بچوں کی وجہ سے گھومنے پھرنے چلے جاتے ۔ ایک ساتھ پیزا یا بروسٹ کھا لیتے ۔ باقی دنوں میں پھر وہی معمول ۔ بچے کھیل کے کمرے میں کھیلتے ، ٹی وی پر کارٹون دیکھتے ہوم ورک کرتے ۔ اگلی صبح بیگ اٹھاتے اور سکول وین میں بیٹھ کے سکول پہنچ جاتے۔ خالدہ نے بھی اس دوران ایم فل کر لیا۔ پتہ ہی نہیں چلا شادی کو پندرہ سال گزر گئے۔ اس سٹیج پر ایک ان ہونی ہو گئی۔ جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔ میں کوئی جھوٹ بولے یا کسی لگی لپٹی کا سہارا لیے بغیر اعتراف کرتا ہوں کہ میں اور سعد یہ شادی کرنے والے ہیں ۔ اس معاملے کو اچھالنے کے بجائے ہمیں بات چیت سے اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ اگرتم چاہو تو جس طرح کا ہم دونوں کے بیچ تعلق موجود ہے بغیر کی کمی بیشی کے جاری رہ سکتا ہے۔ اور اگر تم علیحدگی اختیار کرنا چا ہو تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ ٹھیک ہے اگر تم حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہوتو ہمیں الگ ہو جانا چاہیے ۔ خالدہ کا کوئی بہن بھائی تو تھا نہیں ۔ ماں باپ بھی گزر چکے تھے۔ طلاق کے بعد کہاں جاتی۔ ایسی صورت میں ہاسٹل سب سے مناسب جگہ تھی۔ وارڈن کی جگہ خالی تھی وہ ادھر منتقل ہوگئی۔ رضوان نے اسے بچے دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ورنہ کوئی فلیٹ کرائے پر لے لیتی۔ اکیلی عورت عدالتوں میں کہاں دھکے کھاتی پھرتی۔ ویسے بھی فیصلہ ہونے تک بچے شادی شدہ ہو چکے ہوتے ۔ اس لیے اس نے صبر کا راستہ اختیار کر لیا۔ اس سانحے کو گزرے ابھی چھ سات ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک دن سٹاف روم میں شاہدہ بلوچ نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ کب تک یوں ہی تنہا رہو گی۔ پتہ ہی نہیں چلے گا بوڑھی ہو جاؤ گی۔ اسٹنٹ پروفیسر ہو اور خوبصورت بھی۔ آسانی سے اچھا رشتہ مل جائے گا کہ تو یہ کام کسی کے ذمے لگاؤں۔“ اگلا پورا ہفتہ وہ دونوں اس موضوع پر سرگوشیوں میں مصروف رہیں ۔ آخر رشتے کرانے والی ماسی ایک ایسا رشتہ لے آئی جس پر خالدہ نے ہاں کر دی سمیر اس سے پانچ سال چھوٹا تھا۔ گاؤں میں زمینداری کے علاوہ شہر میں اس کا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی تھا۔ پڑھا لکھا خود مختار لمبا چوڑا گندمی رنگ اور خوش شکل ، اسے بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ سمیر نے کراچی کمپنی کے قریب ایک مکان کے اوپر والا حصہ کرائے پر لیا ہوا تھا۔ سادہ سی ایک تقریب میں نکاح کے بعد وہ اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کے وہاں لے گیا۔ کمرے میں پہنچ کر خالدہ نے شال اتاری تو اس کا خیال تھا کہ اس کے جمال سے سمیر کی آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی۔ وہ اس کے الوہی حسن کے قصیدے پڑھے گا۔ میں اسے ایک دم اپنے قریب نہیں آنے دوں گی تا کہ کچھ دیر تڑپتا رہے ۔ ابھی وہ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے منصوبہ بندی بھی نہ کر پائی تھی کہ سمیر نے اس پر جھپٹا مار کے اسے بستر پر پٹخ دیا۔ اسے سانس لینے کا موقع تک نہیں ملا تسخیر ہوتی چلی گئی۔ صبح اٹھی تو اس کا ایک ایک جوڑ دکھ رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ رات بھر اسے کوئی ایسے پیٹتا رہا جیسے کھدر کی چادر کو کوئی دھوبی گھاٹ پر پٹختا ہے۔ اس کے وجود کے اندر کے وہ حصے بھی چور چور تھے جو دو بچوں کی پیدائش کے باوجود ابھی تک محفوظ تھے۔ پورا ایک ہفتہ اس اکھاڑ پچھاڑ میں گزر گیا۔ کالج سے لی ہوئی چھٹیاں ختم ہوئیں تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔ سمیر بھی ایک ہفتے کے لیے اپنی زمینوں کی طرف نکل گیا۔ اب یہ معمول بن گیا کہ ہفتے میں وہ ایک بار آتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر ہوتا جس میں تکے کباب سیخ کباب یا کڑہائی گوشت طرز کا کوئی کھانا ہوتا ۔ جسے وہ ڈٹ کے کھاتا اور رات بھر اسے مصالحہ کوٹنے کی مشین بنا کے رکھتا۔ اس کے علاوہ گھر کی تمام تر ذمہ داریاں خالدہ کے گلے کا پھندا تھیں۔ مکان کا کرایہ بجلی اور گیس کے بل گھر کا تمام سودا سلف اور باقی تمام متفرق اخراجات اس کی تنخواہ کے مرہون تھے۔ کبھی کبھار سمیر بھی اس سے دس پندرہ ہزار مینٹھ لیتا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس بد ذائقہ بلکہ ضرر رساں زندگی کے بدلے وہ اس خون پینے والی جونک کے ساتھ کیوں کر رہ رہی ہے ٹھیک نو مہینے اور پانچ دن کے بعد ماجدہ پیدا ہوگئی۔ خالدہ کے پاؤں کی زنجیر کھلنے کے بجائے مزید بھاری ہو گئی سمیر کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ہفتہ کی شام کو اپنی پسند کے کھانے کا شاپر ساتھ لے آتا اور کچھ دیر بعد ریچھ بن جاتا۔ البتہ مہینے میں ایک آدھ بار وہ ان دونوں کو تھوڑی دیر کے لیے اپنی گاڑی میں گھمانے لے جانے لگا۔ ساجدہ اب دو سال کی ہونے والی تھی۔ وہ ایسے موقع پر اپنے والد سے خوب کھیلتی ۔ اس وقت وہ اپنی ماں کے ساتھ لیڈی گارڈن میں جھولا جھول رہی تھی۔ سمیر قدرے فاصلے پر سکون سے بیٹھا تھا۔ میڈم ! وہ بھائی آپ کے کیا لگتے ہیں؟“ خالدہ نے مڑ کے دیکھا تو ایک دیہاتی حلیے کی عورت اس کے پاس کھڑی تھی۔ وہ میرے میاں ہیں، کیوں خیریت ۔ اچھا۔۔۔ وہ ہمارے گاؤں کے ہیں۔ وہاں بھی ان کی ایک بیوی اور دس بارہ سال کی بیٹی ہے۔ وہ دونوں ان کی ماں کے ساتھ رہتی ہیں ۔ خالدہ کو لگا جیسے وہ کسی گھومنے والے جھولے پر بیٹھ گئی ہو ۔ کیوں کسی دن آپ کے گاؤں چلیں؟ کھیتوں میں بھی گھومیں گے ۔ واپسی پر اس نے سمیر کو ٹٹولا۔ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں تمام زمینوں کا کسی کے ساتھ سودا کرنے والا ہوں کسی دن ایوبیہ چلتے ہیں ۔ کمال مہارت سے اس نے موضوع بدل دیا۔ خالدہ اتنی جلدی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ کالج کا ایک ملازم سمیر کے گاؤں کے پاس کسی جگہ رہتا تھا۔ اس نے بآسانی سمیر کا کھرا پتہ نکال لیا۔ اس عورت کی بات سچ ثابت ہوئی۔ اس کی ماں کو آپ کے بارے میں مکمل معلومات ہیں ۔ اس نے سمیر کو صاف صاف کہا ہوا ہے کہ اگر اپنی دوسری بیوی کو ادھر لے کر آئے تو ہم اس کا سر مونڈھ کے واپس بھیجیں گے۔“ وہ خاموش رہی۔ اب رات دن اس کی کھوپڑی میں ایک ہی ہانڈی پکتی کہ وہ اس دھوکے باز کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ گھر میں اس کا آنا اس کے لیے نا قابل برداشت ہو تا جار ہا تھا۔ اس بد ذات سے کیسے پیچھا چھڑاؤں ۔۔۔۔۔ کیا یہ مناسب رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ساجدہ کی زندگی برباد ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ میں اکیلی عورت ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔ ریچھ کا بچہ۔۔۔ خبیث ۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ پھٹنے لگتا۔ وہ سر کو جھٹک کر اپنے خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتی۔ مشکل سے پانچ منٹ گزرے ہوں گے۔ موبائل کی گھنٹی نے اسے انھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ سلام کیسی ہیں۔ اگلے مہینے کے شمارے کے لیے ابھی تک آپ کے غیر مطبوعہ افسانے کا انتظار ہے ۔ وعلیکم السلام ۔ آپ ناراض نہ ہونا میں اس وقت کالج میں ہوں شام کو بھیجتی ہوں ۔ بہت شکریہ اس کے ساتھ ہی اس نے کال منقطع کر دی ۔ دو سال پہلے اس کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ چھپ چکا تھا اور اب افسانوں کا مجموعہ پروف ریڈنگ کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے شاہدہ بلوچ نے کسی لنک کا ذکر کیا تھا۔ اس نے موبائل ان لاک کر کے لنک کو ٹچ کیا تو ایک بالکل نیا جہان اس کے سامنے آگیا۔ شاہدہ بلوچ بڑی ہی کمینی ہے ۔ یہ آن لائن سیکس ٹوائیز خریدنے کی ویب سائیٹ تھی۔ اس نے موبائل آف کیا اور اسے ہینڈ بیگ میں رکھ کے دوبارہ اپنی آنکھیں موند لیں ۔ اس کا دماغ اس وقت مختلف آوارہ خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ویک اینڈ کی وجہ سے پھر اس کی سوچ کا رخ اپنے گھر کی طرف ہو گیا۔ اوہ ویک اینڈ خراب کرنے شام کو وہ ریچھ بھی آجائے گا۔ پھر اس کے دماغ میں ایک جھماکا ہوا۔ ریچھ کھلونا یہ دو الفاظ بے اختیار اس کے منہ سے نکل گئے۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ سٹاف روم میں کوئی نہیں تھا جو سن لیتا۔ اس کے چہرے کی ہلکی ہلکی زردی سرخی میں بدلنے لگی۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *