اتفاق رائے

محلے کی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی نے محلے کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا تھا۔ دو بنیادی مقاصد تھے۔ ایک تو مسجد کی چار دیواری کے ساتھ اہل محلہ نے جو گندگی کا ڈھیر بنارکھا تھا اس کو مستقل طور پر ختم کرنے کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جاسکے ۔ دوسرا مقصد تھا کہ وضو گاہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے اخراجات کا تخمینہ لگانا اور اس کا مناسب انتظام کرنا۔ یہ میٹنگ مسجد کے صحن میں ہو رہی تھی۔ مولانا کے ساتھ انتظامی کمیٹی کے جملہ ارکان وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ کافی دیر تک انہوں نے انتظار کیا۔ دو تین افراد کے علاوہ محلے کا کوئی بھی اہم فرد وہاں نہیں آیا۔ ویسے بھی مولانا نے رسمی طور پر ان سب کو بلایا تھا۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان لوگوں نے نہیں آتا۔ البتہ نہ بلانے کی صورت میں ہر ایک کو اعتراض کا موقع مل جاتا۔ مولانا نے کچھ دیر مزید انتظار کیا۔ ایسا وہ حجت پوری کرنے کے لیے کر رہے تھے۔ ورنہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حسب معمول محلے کے افراد اجلاس میں حاضری نہیں دیں گے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے اجلاس شروع کر دیا۔ فیصلہ ہوا کہ مسجد کی دیوار پر نئے سرے سے گندگی پھینکنے والوں کے لیے چاکنگ کی جائے ۔ اس بار بجائے اس کے کہ : صفائی نصف ایمان ہے ۔ یہ لکھنے کا فیصلہ ہوا۔ گندگی پھینکنے والوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ منجانب : ” مسجد انتظامیہ چونکہ دو ماہ بعد رمضان کا مہینہ بھی آنے والا تھا۔ اس لیے وضو گاہ کے حوالے سے سب
نے اتفاق کیا کہ رمضان کے ہر جمعہ المبارک میں لوگوں کو اس طرف راغب کیا جائے ۔ اجلاس کا اختتام دعائے خیر پر ہوا۔
محلے کے باہر چھوٹے بازار میں ایک زرگر کی دکان میں چوری ہوگئی۔ چوروں نے دکان کی چھت میں سوراخ کیا اور دکان کا صفایا کر دیا۔ سنیارے نے رپورٹ کی تو پولیس نے پہلے ہلے میں شہر کے تمام نامی گرامی چوروں کو تھانے میں حاضر کر کے ابتدائی تفتیش شروع کر دی۔ تھانے میں اس محلے کے دو چوروں کے بھی فوٹو لگے ہوئے تھے ۔ ان دونوں میں بڑا اتفاق تھا۔ چوری کے علاوہ ان کے باقی مشاغل میں بھی بڑی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ دونوں چرس کے عادی تھے اور ایک ہی جگہ جوابھی کھیلتے۔ محلے میں کم کم نظر آتے ۔ ایک آدھ مہینہ آزاد رہتے ۔ پھر کسی چوری کے ارتکاب پر چھ مہینے کے لیے ایک ساتھ اندر ہو جاتے تھے۔ بڑی موٹی چمڑی تھی دونوں کی۔ پولیس مار مار کے تھک جاتی لیکن انھوں نے اپنے منہ سے کبھی کسی جرم کا اقرار نہیں کیا۔ وہ تو ان کی بد قسمتی سے ہر بار مسروقہ مال ان سے برآمد ہو جاتا۔ ایک کا نام کلو تھا۔ محلے کے کنویں کے جنوب کی طرف اس کا گھر تھا۔ اس کا تعلق ایک مہاجر فیملی سے تھا۔ اس کے خاندان کے باقی تمام کے تمام افراد انتہائی شریف اور محنت مزدوری کرنے والے تھے ۔ آج دن تک کبھی کسی کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی ۔ دوسرے کا نام میدہ تھا۔ اپنے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ۔ اس کا بوڑھا باپ محلے کی جامع مسجد کا خادم تھا۔ اس کا گھر کنویں کے شرقی جانب بازار کو نکلنے والی گلی میں تھا۔ تھانے کے اہلکاروں نے جب شہر کے پیشہ ور چوروں کی حاضری لگائی تو یہ دونوں غائب تھے ۔ انھیں ہر ممکنہ جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آئے ۔ ان کا اس بات پر یقین ہو گیا کہ یہ چوری ان دونوں نے ہی کی ہوگی جو مال مسروقہ لے کر کہیں روپوش ہو گئے ہیں۔ تین چار دن پولیس مسلسل انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے نڈھال ہوگئی لیکن ان کا کہیں نام و نشان موجو د نہیں تھا۔
محلے کا کنواں انگریزوں کے زمانے کا تھا کنویں کے ارد گرد اچھی خاصی جگہ خالی تھا۔ ایک طرف برگد کا بڑا درخت سایہ فگن تھا اور دوسری طرف بہت ہی اونچے پیپل کے دو درخت تھے۔ سارا سارا دن محلے کے بچے اس برگد کے نیچے بلور اور دوسرے کھیل کھیلتے کنویں کے پاس ہی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی جو کنویں کے لیے بطور کنٹرول روم استعمال ہو رہی تھی۔ کلو کا چھوٹا بھائی اس کا آپر یٹر تھا۔ وہ مخصوص اوقات میں پانی کی موٹر آن اور آف کرتا۔ کبھی کبھی وہ موٹر آن کر کے خود نہیں نکل جاتا جس کی وجہ سے پانی ٹینگی کے اوپر سے بہنا شروع کر دیتا۔ موت مرگ اور کسی کی شادی کی صورت میں اہل محلہ یہاں چار پائیاں بچھا دیتے تا کہ لوگ آرام سے یہاں بیٹھ سکیں۔ اس کنویں کا پانی نہ صرف پورے محلے کی ضرورت پوری کرتا بلکہ پاس پڑوس کے دو تین گاؤں کے لوگ بھی یہاں سے پانی بھر کے لے جاتے۔ کمزور دل آدمی اس میں جھانکتے ہوئے بھی ڈرتا تھا۔ اس کی گہرائی بہت زیاد تھی ۔ حفاظتی مقاصد کے لیے اس کے گرد باقائدہ ایک مضبوط دیوار موجود تھی۔ جس میں ایک چھوٹا سا لکڑی کا دروازہ بھی تھا کنویں میں اترنے کے لیے اس دروازے سے اندر جانا پڑتا تھا۔ عام حالات میں دروازے پر کنڈا لگا رہتا۔ اس کے اندروہی لوگ اترتے جنہیں کنویں میں موجود موٹر یا پمپ میں سے کسی کی مرمت کرنی ہوتی مہینوں میں کبھی کبھار اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اتفاق سے ان دنوں کنویں کی موٹر خراب ہو گئی ۔ بلدیہ کے تین لوگ اپنا ساز و سامان لے کر وہاں آگئے کنویں سے اگر موٹر کا کوئی حصہ او پر لانا پڑ جائے تو اس مقصد کے لیے ان کے پاس ایک بہت ہی مضبوط رسہ اور چرخی تھی کنویں میں اترنے والے کے لیے الگ سے اوزاروں کا ایک تھیلا ہوتا جسے وہ کنویں میں اترتے وقت اپنے کندھے سے لگا لیتا۔ جب بھی کنویں کی موٹر میں کوئی خرابی ہوتی وہ لوگ مسلسل دو تین دن لگا کے اسے ٹھیک کرتے ۔ موٹر کے ٹھیک ہونے تک سارا دن وہ وہیں اپنا ڈیرہ جمائے رکھتے مکمل تیاری کے بعد ایک آدمی اپنے کندھے سے اوزار کا تھیلا لنگا کے چیکنگ کے لیے کنویں میں اترنے لگا تھوڑی ہی دیر کے بعد کنویں میں سے اس کی آواز گونجی۔ محمود محمود!” محمود او پر سے نیچے کنویں میں جھانک رہا تھا۔ ہاں ہاں ! میں موجود ہوں ۔ کیا ہوا؟” ارے بھائی! نیچے چبوترے پر دو بندے بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ میں واپس آرہا ہوں ۔“ ٹھیک ہے واپس آجاؤ ۔ تھوڑی دیر کے بعد کنویں میں اترنے والا لکڑی کے دروازے سے باہر آگیا۔ سب نے اوپر سے باری باری آوازیں دیں۔ نیچے کون ہے بھئی ؟“ کنویں کے اندر سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ وہ جو کوئی بھی تھے اندردبک کے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سے ہر گزرنے والا کھڑا ہو کے قیاس آرائیوں میں شامل ہونے لگا۔ جب کافی دیر گزر گئی تو مجبوراً انہیں پولیس کو بلانا پڑا تھوڑی ہی دیر میں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ انہوں نے بھی اوپر سے خوب آوازیں دیں لیکن کنویں کے اندر سے کوئی بھی جواب نہ آیا۔ پولیس نیچے اترنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ ٹھیک ہے۔ اگر تم لوگ
جواب نہیں دے رہے تو ہم اوپر سے گرم پانی پھینکنے لگے ہیں ۔“ ایک پولیس والے نے بظاہر سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ اتنی بلندی سے ابلتا ہوا پانی بھی نیچے گرایا جاتا تو بھی وہ راستے میں ہی ٹھنڈا ہو جاتا۔ اللہ کا نام ہے گرم پانی نہ پھینکنا۔ میں میدہ ہوں اور میرے ساتھ کلو ہے۔“ شاید ان دونوں نے بھی دماغ سے کام نہیں لیا تھا۔ ٹھیک ہے۔ ہم پانی نہیں پھینک رہے ۔ انسان کے بچے بنو اور او پر آجاؤ ۔ نہیں نہیں ۔ ہم او پر نہیں آرہے ۔ آپ لوگ ہمیں ماریں گے۔
وہ کنویں سے باہر آنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ میں کہتا ہوں ۔ باہر آجاؤ خنزیر کے بچو! ورنہ ہم نیچے آکے تم دونوں کا برا حشر کریں گے ۔“ تھانیدار بے قابو ہو گیا۔ کافی دیر دونوں فریقوں میں مذاکرات ہوتے رہے لیکن میدہ اور کلو باہر آنے کے لیے راضی نہ ہوئے۔ مجبوراً محلے کے چند معززین نے ان کو تسلی دی۔ تب وہ باہر آنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ کچھ دیر بعد جب وہ چھوٹے سے دروازے سے باہر نکلے تو کنویں کے ارد گرد سینکڑوں لوگ کھڑے ان کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ وہ پانچ دن سے کنویں کے اندر موٹر والے لکڑی کے چبوترے پر قیام پذیر تھے ۔ انہوں نے اپنے پاس پورے ہفتے کی ضرورت کے مطابق پھل، بسکٹ اور کھانے کی دوسری چیزیں رکھی ہوئی تھی۔ تھانے میں جب ان دونوں سے اچھی طرح تحقیق ہوئی تو پتہ چلا زرگر کی دکان میں ہونے والی چوری سے وہ بھی بے خبر ہیں ۔ وہ تو دراصل ایک سبزی فروش کے تھیلے سے چوری کر کے کنویں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ سبزی والے نے تھانے میں اس کی رپورٹ بھی نہیں کی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ تھانے والوں کو اپنے ہونے والے نقصان سے زیادہ کھلانے پلانے میں خرچ ہو جائے گا۔ پورے محلے کا ہر خاص و عام کنویں کے گرد رکھی چار پائیوں پر بیٹھا تھا۔ کچھ سرکرد لوگوں نے اس جرگے کا بندو بست کیا تھا۔ عصر کی نماز پڑھا کے مولانا بھی تشریف لا چکے تھے۔ بہت سارے افراد جن کو جگہ نہیں ملی تھی سائیڈوں پر کھڑے تھے ۔ آج تو ایک اخبار کا نمائندہ خصوصی بھی ایک جگہ بیٹھا ہوا نظر آرہا تھا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس موقع پر کیا کہیے۔ البتہ بہت سارے چہرے غصے کی شدت سے لال بھبوکا کا ہو رہے تھے ۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ دو دن پہلے کسی نے محلے میں افواہ پھیلا دی تھی کہ یہ جو دو چور پچھلے ہفتے مسلسل پانچ دن کنویں میں رہے ہیں ۔ یہ وہاں اندر ہی پانی میں ہگتے اور موتتے رہے ہوں گے ۔ جس کی وجہ سے کنویں کا پانی تو لازمی پلید ہو گیا ہوگا۔ اس پانی سے وضو کر کے پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا بنے گا۔ اس کے علاوہ اتنے دن تمام لوگ گندگی ملا پانی پیتے رہے ہیں ۔ اس زمانے میں گھروں میں فلٹر لگوانے کا تصور تک نہیں تھا۔ ملی واٹر بھی بہت بعد میں بازار میں آیا تھا۔ گھروں میں بور کروانے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ محلے کے ہر خاص و عام کا انحصار صرف اور صرف اس کنویں کے پانی پر تھا۔ جب کسی طرف سے کوئی معقول بات سامنے نہ آئی تو مولانا نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھا لیے۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ بلند کر لیے ۔ یا اللہ ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ یہ جو ہم انجانے میں پلید پانی سے نمازیں پڑھتے رہے ہیں ۔ ہماری کوتاہی کو درگزر فرما اور ہماری ٹوٹی پھوٹی نمازوں کو قبول فرما۔ تو بے نیاز ذات ہے۔ ہمارے اعمال کو نہ دیکھ ۔ بلکہ ہماری نیتوں کو دیکھ ” آمین — آمین — آمین اکثر لوگوں نے با آواز بلند کہا۔ دعا کے بعد محلے کے ایک عمر رسیدہ ملک نے ایک عدد قرارداد پیش کی جس میں بلدیہ سے اپیل کی گئی کہ کنویں میں اترنے والے دروازے پر مستقل تالا لگایا جائے اور اس کی چابی کسی ذمہ دار آدمی کے پاس ہو، تاکہ کوئی غیر متعلقہ آدمی آئندہ اس میں نہ اتر سکے ۔ سب لوگوں نے اتفاق رائے سے وہ قرارداد منظور کی۔