
Afsana HA HA HA by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.
ہاہاہا
ٹھیک آٹھ بجے احمد نے دو بار دروازے کی گھنٹی بجائی۔ میں ابھی اپنے بستر پر کمبل میں گھسا ہوا تھا۔ اے سی نے کمرے کو کاغان بنایا ہوا تھا۔ بھاگ کر دروازے پر پہنچا۔ ایک منٹ میں آیا کلی کرلوں ۔ او کے میں پیچھے گاڑی کے پاس جا کے کھڑا ہوتا ہوں ۔ جلدی پہنچیں ۔ ہم دونوں نے رات کو طے کیا تھا کہ صبح جتنی جلدی ممکن ہو کسی ورکشاپ میں جائیں گے۔ کئی مہینوں سے میری گاڑی کی آگے والی پیسنجر سیٹ کے دروازے کا لاک خراب تھا۔ دروازہ کھلنے کے بعد بند نہیں ہوتا تھا۔ کرونا کی وجہ سے کئی مہینوں تک میں نے دروازہ ایک ڈوری کی مدد سے سیٹ کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ وہ تو اللہ نے خاص کرم کیا کہ چالان نہیں ہوا۔ ایک ہفتہ پہلے میں اور احمد تقبہ کے دو تین ڈنٹرز کو گاڑی دکھا چکے تھے ۔ سب نے کہا گاڑی کا لاک بدلنا پڑے گا۔ سپیئر پارٹس کی دکان سے پتہ کیا تو نیا لاک اچھا خاصا مہنگا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ کباڑیوں کے پاس سیکنڈ ہینڈ لاک تلاش کیا جائے ۔ تین دن پہلے میں اپنے دفتر میں زاہد خان کے سامنے بیٹھا تھا۔ زاہد صاحب ! انڈسٹریل سٹی ٹو کی طرف گاڑیوں کے کباڑ خانے ہیں ۔ آپ کو کوئی معلومات وغیرہ ہیں ۔ ہاں ایک دو بار وہاں جا چکا ہوں ۔ کیوں خیریت ؟“میری گاڑی کے ایک دروازے کا لاک خراب ہے۔ نیا بہت مہنگا ہے اور بکنگ کے کئی دنوں بعد ملے گا۔“ کوئی نہیں۔ ابھی دس بجے ہیں۔ تین بجے آفس سے نکل جائیں گے۔ ویسے آپ کی گاڑی بہت پرانی ہوگئی ہے۔ بہتر ہے اس کو بیچ کے کوئی دوسری لے لیں ۔ آج کل گاڑیوں کی قیمت بہت گری ہوئی ہے ۔ زاہد صاحب ! دو ہزار ایک ماڈل اس کو کون خریدے گا۔ میرا کام چل رہا ہے ۔ اب ویسے بھی واپس جانے کا منصوبہ ہے ۔ سچ کہوں تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ۔ جو تنخواہ ملتی ہے گھر کے خرچ اور بچوں کی تعلیم میں پوری ہو جاتی ہے۔ دعا کریں اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ۔ پانچ منٹ کے اندر تیار ہو کر میں نیچے گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ احمد کے لیے پچھلی سیٹ کا درواز کھولا۔ گاڑی سٹارٹ کی اور سٹریٹ سیون سے الخبردمام ہائی وے پر آئے تھوڑی دیر کے بعد یوٹرن لے لیا۔ کس طرف سے جاؤں ۔ مکہ سٹریٹ یا لولو کی طرف سے؟” میں نے احمد کو مخاطب کیا۔ لو لو کی طرف سے جائیں۔ دوسری طرف سگنلز بہت ہیں ۔ احمد نے حکمیہ انداز میں کہا۔ حاجی صاحب ! دو باتیں کرنی ہیں لیکن آپ نے ناراض نہیں ہونا” ” ہاں ہاں کرو۔ اس میں ناراضگی کی کون سی بات ہے ۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ جو میں نے آپ سے واشنگ مشین لی ہے اس کے پیسے اگلی تنخواہ پر دوں گا۔ ہاتھ بڑا تنگ ہو گیا ہے ۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ۔ کوئی بات نہیں ۔ مجھے اندازہ ہے یہ مہینہ تمھارے لیے بہت ہی سخت ہو گا تم نے بچوں کے میڈیکل انشورنس کے پیسے دیے ہیں ۔ اچھی خاصی رقم ہے۔ چلو اس بات کو چھوڑو ۔ یہ بتاؤ دوسری کیا بات ہے؟“ حاجی صاحب ! آپ نے کسی کے ساتھ یہ بات نہیں کرنی۔ میرے لیے مسئلہ پیلا ہو جائے گا۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ کا بیٹا ساجد ایک آدھ ہفتے میں نوکری سے استعفی دینے والا ہے۔ اسے اپنی جگہ سمجھائیں۔ پاکستان جاکے کیا کرے گا۔ آج کل وہاں کے حالات زیادہ ٹھیک نہیں ۔ اسے نہ پتہ چلے کہ میں نے آپ سے یہ بات کی ہے۔ مجھ سے ناراض ہو گا ۔ احمد ! تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ابھی اس کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔ اس وقت وہاں اسے دس ہزار کی نوکری بھی نہیں ملے گی۔ اور واپس آنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات اسے خود سوچنی چاہیے۔ میرے اوپر پہلے ہی بہت ذمہ داریاں ہیں۔ اگر یہ میرا بوجھ کم نہیں کر سکتا تو کم از کم اپنا بوجھ تو اٹھائے ۔ جونہی میں جیل کے پاس سے گزرا تو احمد نے مجھے یاد کروانا ضروری سمجھا۔ دوسرے کٹ سے سامنے چلے جائیں ۔ اسی ڈنٹر کے پاس چلتے ہیں جس نے پچھلی بار لاک ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ میں نے تجویز دی۔ ابھی آگے جائیں۔ وہ سبز رنگ کا بورڈ اسی ورکشاپ کا ہے ۔ میں نے گاڑی ورکشاپ کے کشادہ گیٹ سے اندر کر کے کھڑی کر دی کسٹمر کی آمد و رفت میں شاید ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ایک بنگالی لڑ کا گیٹ کے قریب ہی جھاڑو دینے میں مصروف تھا۔ بھائی ذرا بات سنو میں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ پچھلی بار جب ہم آئے تھے تو ایک لڑکے نے ہماری گاڑی کا لاک چیک کیا تھا۔ وہ کدھر ہے؟“ میں دیکھ کے بتاتا ہوں ۔ یہ کہہ کے وہ ورکشاپ کے ہال میں پہلے سے ادھ کھلی گاڑیوں کے پیچھے غائب ہو گیا۔ میں اور احمد ورکشاپ کے داخلی حصے میں کھڑے ایک دوسرے کے اندر جھانکنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ اک دوجے کے اندر جا کے رستہ بھول گئے باہر کا موسم اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے کشتی اور کنارہ اک رسی کی بدولت آپس میں بندھے ہوتے ہیں پانی کی موجیں چاند کے تیور دیکھ کے ساحل سے ہاتھ ملاتی ہیں” و لڑ کا ابھی نہیں آیا ۔ لاک کا وہی ماہر ہے ۔ کچھ دیر کے بعد صفائی کرنے والا واپس آکے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ احمد ! کیوں نہ کسی اور ورکشاپ میں چلیں ۔ جانے یہ لڑکا کب آئے؟“ تھوڑا انتظار کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی گرمی اور رطوبہ (Humidity) ہے۔ کہاں خوار ہوتے پھریں گے۔“ مجھے احمد کی بات میں معقولیت نظر آئی۔ اتنے میں لاک ٹھیک کرنے والا لڑکا اپنے ہاتھ میں ناشتے کا شاپر لیے شیڈ میں داخل ہوا۔ آپ لاک لے آئے۔ چلیں پہلے میں آپ کو فارغ کر دوں ۔ نہیں نہیں ۔ آپ تسلی سے ناشتہ کر لیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ۔” اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کے اپنا کام شروع کر دیا۔ میری نظر گیٹ کی ایک جانب رکھی ہوئی کرسی پر پڑی۔ احمد! کرسی پر بیٹھ جاؤ تمھارا یوں مسلسل کھڑے رہنا ٹھیک نہیں ۔ دماغ پر بوجھ پڑے گا۔ احمد کا کچھ عرصہ پہلے دماغ کا آپریشن ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے زیادہ وزن اٹھانے سے منع کر رکھا تھا۔ اس کا اپنا وزن بھی کافی زیادہ تھا۔ میں شیڈ کی خالی جگہ چہل قدمی کرنے لگا۔ اچانک مجھے لگا جیسے میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ بندہ ساٹھ کے قریب پہنچ جائے تو اکثر دو جگہوں پر ہی اپنے آپ کو پر سکون پاتا ہے۔ ایک مصلے پر اور دوسرا ٹوائلٹ میں ۔ میں نے ایک لڑکے سے ٹوائلٹ کا پوچھا۔ شیڈ کے ایک کونے میں جستی چادروں کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا ڈربہ بنایا گیا تھا۔ اندر کافی اندھیر تھا۔ موبائل کی طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا۔ ورنہ ٹارچ روشن کر لیتا ۔ سب سے پہلے میں نے پانی کی تصدیق کی لوٹا یا مگ مجھے نظر نہیں آیا۔ ٹوائلٹ کے باہر پیپسی کی ایک خالی بوتل پڑی ہوئی تھی۔ میں نے اسی سے کام چلانے کا فیصلہ کیا۔ اندر حبس اور گرمی تھی او پر سے منہ پر ماسک بھی لگایا ہوا تھا۔ باہر آیا تو کچھ گھبراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ احمد کے پاس جا کر پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔ احمد ایک دم کرسی سے اٹھ گیا۔ ارے حاجی صاحب ! کرسی پر بیٹھیں ۔ میں نے اسے کرسی پر بیٹھے رہنے کا کہا لیکن وہ نہیں مانا تھوڑی دیر بعد میری گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ میں نے احمد کو آواز دی جو پانچ سات قدموں کے فاصلے پر گاڑی کے پاس کھڑا شاید فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ مجھے اپنی آواز ایسے سنائی دی جیسے کسی گہرے کنویں سے لرزتی ہوئی باہر آرہی ہو۔ احمد ٹس سے مس نہیں ہوا۔ میں نے اپنی پوری قوت لگا کے دوبارہ اسے پکارا۔ وہ لپک کے میری طرف بڑھا۔ میرا جی گھبرا رہا ہے۔ پانی ” میں اتنا ہی کہہ پایا۔ ابھی لے کے آتا ہوں ۔“ بوفیہ ( چائے کی دکان ) پاس ہی تھا۔ میں نے اس کے جانے کی آواز سنی۔ پھر میں بے خبر ہو گیا۔
بے خبری سے واپس آنے والوں کی جیبوں میں سونے کے سکے ہوتے ہیں ان کے ماتھے پر قطبی تارا روشن ہوتا ہے پیروں کے نیچے پارس ہاتھوں میں وقت کا دھارا ہوتا ہے“ جیسے میں خوابیدہ حالت میں تھا۔ کوئی مجھے اٹھا کے کرسی پر بٹھانے لگا۔ حاجی صاحب ۔۔۔۔ حاجی صاحب ۔۔۔۔ کیا ہوا آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔ حاجی صاحب ۔۔۔ پانی پیئیں۔۔۔ حاجی صاحب کو کیا ہوا ہے ۔۔۔ حاجی صاحب ۔۔۔ آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔۔ کہیں دور سے مجھے احمد کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے اچانک گر گئے ہیں ۔ اصل میں رطوبہ بہت زیاد ہ ہے ۔ حاجی صاحب کو اندر لے جائیں باہر گرمی زیادہ ہے ۔ مجھے مختلف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میری آنکھیں بند تھیں ۔ دو آدمی مجھے سہارا دے کر اندر لے کر جانے لگے ۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو میں اے سی والے ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا۔ ایک کرسی پر میں اس طرح نیم دراز تھا کہ میرا سر ساتھ والی دوسری کرسی پر اٹکا ہوا تھا۔ سامنے میز پر پانی کی بوتل ، ماسک اور عینک رکھی تھی۔ ایک لڑکے نے ٹشو کی مدد سے میرے ناک پر آئے ہوئے زخم میں سے بہتا خون صاف کیا۔ شاید عینک کا فریم لگا تھا۔ احمد پاس ہی کھڑا تھا۔ میں نے بوتل اٹھا کے پانی پینے کی کوشش کی۔ کچھ تو میرے گلے سے نیچے اترا زیادہ تر شرٹ پر گر گیا۔ “حاجی صاحب ! اب طبیعت کیسی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے تو بتائیں۔ میں زاہد صاحب کو کال کر کے بلاتا ہوں ۔ میں ٹھیک ہوں ۔ زاہد صاحب کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ۔ اس نے زاہد خان کو کال ملا دی۔ جی سب ٹھیک ہی ہے۔ میں اور خالد صاحب ادھر تقبہ آئے ہوئے ہیں ۔ اچانک ان کی باتیں کرتا ہوا وہ آفس سے باہر نکل گیا۔ میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی پینا شروع کیا۔ مجھے ابکائیاں آنے لگیں ۔ شاید میرا بی پی لو ہو چکا تھا۔ ” میں نے زاہد صاحب کو بتا دیا ہے تھوڑی دیر میں وہ پہنچنے والے ہیں ۔ احمد نے دوبارہ اندر آنے کے بعد اعلان کیا۔ ” مجھے چائے لا کے دو۔“ تھوڑی دیر میں احمد چائے لے آیا۔ میں وقفے وقفے سے چائے کے گھونٹ بھر نے لگا۔ دائیں کنپٹی میں درد شروع ہو گیا تھا اور اسی طرف کے گھٹنے پر بھی جلن محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے لگا میں لوہے کے سامان پر گرا تھا۔ احمد ! کافی دیر ہوگئی ہے۔ زاہد صاحب نہیں آئے ۔ ویسے ہی انہیں بلایا ہے ۔“ بس پہنچنے ہی والے ہیں ۔ آپ ان کی اے سی والی گاڑی میں جانا۔ آپ کی گاڑی میں چونکہ اے سی نہیں اس لیے پھر طبیعت خراب ہو سکتی ہے ۔ یہ گاڑی میں لے آؤں گا۔ گاڑی کا لاک ٹھیک ہو چکا تھا۔ دس پندرہ منٹ مزید گزر گئے ۔ زاہد صاحب آگئے ہیں ۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھیں۔ میں آپ کے آگے آگے چلتا ہوں۔” میں نے عینک اور ماسک اٹھایا اور جاکے زاہد خان کے ساتھ والی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ خالد صاحب ! خیر تو ہے، کیا ہو گیا تھا؟ اپنا یہ خون والا
ماسک اب پھینک دیں۔“ اس نے مجھے ڈیش بورڈ کے ایک خانے سے نیا ماسک نکال کے دیا۔ کچھ سمجھ نہیں آئی لگتا ہے بی پی لو ہو گیا تھا۔ اس کی دو تین وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ صبح ناشتہ کیے بغیر ہی ہم ادھر آگئے تھے لیکن یہ تو ہمارا روز کا معمول ہے۔ شاید گرمی اور رطوبہ وجہ بنے ہوں ۔ او پر سے ماسک پہن کے باتھ روم بھی گیا تھا۔ ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے کل ہائی بلڈ پریشر کی گولیاں دن کے بجائے رات سوتے وقت لے لی تھیں ۔ ٹھیک کہتے ہیں ۔ ایج فیکٹر بڑا کاؤنٹ کرتا ہے۔ میں نے احمد سے کہا بھی تھا کہ زاہد صاحب کو زحمت نہ دو۔ وہ کسی کی کہاں سنتا ہے ۔ احتیاط کیا کریں۔ ایج فیکٹر بھی ہے ۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ میں تقریباً تقریباً اٹھ چکا تھا۔ احمد کا فون آیا تو میں نے سوچا جلدی جلدی نہا لوں گرمی ہے ۔ اتنے میں بیگم نے چائے تیار کر دی ۔ وہ پی اور نکل آیا ۔ سڑک خالی تھی ۔ ہم پانچ سات منٹ میں پہنچ گئے۔ میں نے زاہد خان کا شکریہ ادا کیا۔ اتنے میں احمد نے میرے ہاتھ میں میری گاڑی کی چابی تھمادی ۔ میں ہانپتا شانپتا تیسری منزل پر واقع اپنے فلیٹ پر پہنچا۔ سب سے پہلے صابن کے ساتھ رگڑ رگڑ کے ہاتھ دھوئے جن پر کالک لگی ہوئی تھی۔ ناک پر جمے خون کو صاف کر کے ویسلین لگائی گھٹنے پر کوئی زخم نہیں تھا البتہ دائیں طرف کی اوپر والی پسلیوں کی جگہ ایک خراش پڑی ہوئی تھی۔ سر پر بھی کسی قسم کا کوئی زخم نہیں تھا۔ کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ ناشتہ بنانے کے لیے کچن میں داخل ہو گیا۔ ریک میں بھی نمکین موم پھلیوں کی برنی پر نظر پڑگئی ۔ ایک دانہ منہ میں ڈال کے جونہی چبایا۔ دائیں کنپٹی سے درد کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ میں ہارے ہوئے جواری کی طرح جا کے بستر پر نیم دراز ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ذرا جو آرام آیا تو بیڈ کے قریب میز پر رکھے موبائل نے اپنی طرف متوجہ کیا کسی کا میسج آیا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کے موبائل اٹھا لیا علی کا میسج تھا۔ پاپا! اس بار گھر کے خرچے کے ساتھ قربانی کے پیسے بھی بھیجنے ہیں ۔
میں نے جواب میں ” اوکے لکھ کر بھیج دیا۔ ایک میسج میرے ایک بزرگ بابا خانی زمان کا تھا۔ انھوں نے ایک سرکاری خط کی تصویر بھیجی تھی۔ جس میں ان کے بڑے بیٹے کی پروموشن کا ذکر تھا۔ انھیں مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ تیسرے میسیج میں بحرین کے ایک دوست نے گھسا پٹا لطیفہ بھیجا ہوا تھا۔ اسے جواب میں “ہاہا ہا ” لکھ کر بھیج دیا۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.