افسانہ گڑیا از سعید اشعر اردو ادب کی ایک بہترین تخلیق ہے
بھٹو اور اس کی فیملی کا خالہ کے گھر آنا جانا تھا۔ بھٹو کا نام تو کچھ اور تھا لیکن سب اسے سید ہونے کے باوجود بھٹو کہتے تھے۔ میں بھی بھٹو سے دوستی ہونے کی وجہ سے خالہ کے گھر آنے جانے لگا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں دسویں جماعت میں تھا۔
خالہ کا خاندان زیادہ لمبا چوڑا نہیں تھا۔ بڑی بیٹی نسرین جو مجھ سے تین چار سال بڑی ہو گی راولپنڈی بیاہی ہوئی تھی۔ باقی گھر میں کل چار افراد تھے۔ خالہ، خالو، ایک ان کی بیٹی گڑیا اور ایک ان کا بیٹا سجاد۔ گڑیا اللہ لوک تھی۔ اس وقت شاید تیرہ چودہ سال کی تھی اور سجاد گیارہ بارہ سال کا۔ خالو دن میں ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ لیکن تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے وہ شام کے بعد بازار میں ریڑھی لگاتے۔ گرمیوں میں دہی بڑے اور سردیوں میں یخنی بیچ کے اپنے گھر کا بجٹ متوازن رکھتے۔
ہنستے کھیلتے وقت گزرنے کا کسی کو احساس ہی نہیں ہوا۔ چٹکی بجاتے سات سال گزر گئے۔ خالہ نے کراچی سے اپنے لیے ایک بہو کا بھی بندوبست کر لیا۔ سجاد کو راولپنڈی ایک مناسب نوکری مل گئی۔ جوں ہی اس کے ہاں اوپر نیچے لڑکی اور لڑکا ہوئے اس گھرانے کو کسی کی نظر لگ گئی۔ خالو کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ابھی کسی کی آنکھ خشک نہیں ہوئی تھی کہ ساڑھے تین ماہ بعد سجاد کا بلاوا آ گیا۔ وہ راولپنڈی اپنی بڑی بہن نسرین کے محلے سے گزر رہا تھا کہ اس کے اوپر ایک دیوار آن گری۔
خالہ کی امید کے سارے چراغ بجھ چکے تھے۔ وہ بھی مر جاتی۔ لیکن اس کے راستے کا سب سے بڑا پتھر گڑیا تھی۔ وہ ایک جوان اور اللہ لوک لڑکی کس کے سپرد کرتی۔ جب تک خالہ کی ہڈیوں میں دم رہا اس نے محنت مزدوری کی۔ پاپڑ تلے، پیکنگ کا کام کیا، جلدسازی کی، کپڑے سیے، جو اس سے ممکن ہو سکا کیا۔ گڑیا اس کا ہاتھ بٹاتی رہی۔
پینتیس سال گزر گئے۔ ایک دن میں ان کے گھر میں بیٹھا تھا۔ خالہ کی بڑی بیٹی نسرین بھی کچھ سالوں سے ان کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ اس کا خاوند کافی عرصہ پہلے وفات پا چکا تھا اور سارے بچے بچیاں اپنے اپنے گھروں کے ہو چکے تھے۔ نسرین کو میرے افسانے کافی پسند آئے تھے۔
“سعید بھائی آپ نے اپنے ایک افسانے میں ایک روح کا ذکر کیا ہوا ہے۔ کیا واقعی اس نے آپ کو پکارا تھا۔” اس نے تجسس سے پوچھو۔
“جی یہ بات درست ہے۔ البتہ اس میں باقی سب کچھ میرے ذہن کی پیداوار ہے۔” میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
“ہماری گڑیا کے ساتھ بھی ایک جن ہے۔ یہ جہاں بھی جائے باقی جن بھاگ جاتے ہیں۔” خالہ نے انکشاف کیا۔
“یہ بات آپ کیسے کہہ سکتی ہیں۔” میں نے بے یقینی سے کہا۔
“تمہیں یاد نہیں۔ ایک بار میں، گڑیا اور تم لبھاں ایک پیر صاحب کے پاس گئے تھے۔ گڑیا کی وجہ سے اس کے جن بھاگ گئے تھے۔” خالہ نے مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد کروایا۔
میں پینتیس سال پیچھے چلا گیا۔ زبیر کی بیوہ عدت پوری کرنے کے بعد اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنے والدین کے پاس کراچی جا چکی تھی۔ ایک دن خالہ نے مجھے خاص طور پر بلوایا۔ اسے میرے اوپر بڑا بھروسہ تھا۔ نہ صرف اپنا ہر چھوٹا بڑا کام مجھے بتاتی بلکہ تمام جاننے والوں کی غیبت اور برائیاں بھی صرف میرے سامنے کرتی۔ اس وقت خالہ کے پاس گڑیا کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا
“خیر تو ہے نا خالہ۔” میں نے پہنچتے ہی پوچھا۔
“مجھے اپنا پوتا اور پوتی بہت یاد آ رہے ہیں۔ کچھ بھی کرو مجھے وہ واپس لا دو۔ وہ میرے زبیر کی نشانیاں ہیں۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔” بات کرتے ہوئے خالہ کی سسکیاں نکل گئیں۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں خالہ کو کیا جواب دوں۔ پھر میں نے اپنی ہمت باندھی۔
“دیکھیں خالہ میں آپ کو کسی مغالطے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم کوئی تگڑا سا وکیل کریں۔ اور عدالت میں کیس لڑیں۔ دوسری بات اس کیس کا فیصلہ ہوتے ہوتے بچے جوان ہو جائیں گے۔ تیسری اور سب سے اہم بات۔ دنیا کی کوئی بھی عدالت اتنے چھوٹے بچوں کو ان کی ماں سے چھین کے آپ کو نہیں دے گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے۔ ان پھڈوں میں پڑنے کے بجائے جب جی چاہے کراچی جا کے ان سے مل آئیں۔ میرا تو یہی مخلصانہ مشورہ ہے۔ باقی آپ جس طرح کہیں۔”
“کچھ بھی ہو۔ کوئی حل نکالو۔” خالہ کو صبر نہیں آ رہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ مجھے سوچنے کے لیے دو چار دن دیں۔ اپنے کسی اعتبار والے بندے سے مشورہ بھی کر لوں گا۔” اس کے علاوہ خالہ کو تسلی دینے کے لیے مجھے کچھ اور صورت نظر نہ آئی۔
میں سمجھ رہا تھا ایک آدھ دن میں خالہ کو خود ہی سمجھ آ جائے گی کہ یہ ایک نہ پوری ہو سکنے والی آرزو ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تین چار دن بعد پھر اس نے مجھے آزمائش میں ڈال دیا۔
“میرے مسئلے کا کوئی حل سمجھ آیا کہ نہیں۔ میں انتظار میں ہوں۔”
میں کافی دیر خاموشی کے ساتھ اس کا منہ دیکھتا رہا۔
“ایک حل ہے۔ لیکن رازداری کے ساتھ ہمیں یہ کام کرنا ہوگا۔ میں نے اس کی ٹوٹتی ہوئی آس کو سہارا دیا۔
“کون سا حل۔” اس نے اپنی چوکی گھسیٹ کے مزید میرے قریب کر لی۔
“مجھے کسی نے بتایا ہے کہ لبھاں ایک بڑا ہی تگڑا عامل پیر کرامت شاہ ہے۔ وہ ایسے کام کرتا ہے۔ اس جمعرات کو تیار رہیں۔ اس کے پاس چلتے ہیں۔” خالہ کو میرا پلان بہت پسند آیا۔ اس کی آنکھوں میں دیپ جلنے لگے۔
جمعرات کو میں عصر سے ذرا پہلے اپنی آلٹو لے آیا۔ خالہ فرنٹ سیٹ پر اور گڑیا پچھلی سیٹ پر تسلی سے بیٹھ گئیں۔ لبھاں دس پندرہ کلو کے فاصلے پر تھا۔ سڑک پر میں نے ایک شخص سے پیر کرامت شاہ کا پوچھا تو اس نے ایک برساتی نالے کی طرف اشارہ کر دیا۔ پیر کرامت شاہ کا ڈیرہ ٹھوڑا آگے تھا۔ میں نے ایک تھڑے پر گاڑی پارک کی۔ سب لوگ ایک ہال نما بڑے سے کمرے میں بیٹھے تھے۔ پیر کرامت شاہ ایک طرف بچھائی فرشی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ڈیسک پر مختلف کتابیں اور کچھ کاغذ ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ کتابوں کے اوپر ایک درمیانے سائز کی سبز رنگ کی شیشے کی بوتل بھی رکھی ہوئی تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
“پیر کرامت شاہ نے اپنی مخالفت کرنے والے تمام جنوں کو اس بوتل میں بند کر کے رکھا ہوا ہے۔”
روشنی کے لیے اس کے سر کے اوپر ایک بلب لٹک رہا تھا۔ وہ باری باری سب سے ان کی تکالیف اور مسائل سن رہا تھا۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے ہر فرد کے کان ادہر ہی لگے ہوئے تھے۔
“یہ پیر کسی الگ جگہ لوگوں کی بات کیوں نہیں سنتے۔ آخر ہر بندے کی پرائیویسی ہوتی ہے۔ یہاں ہونے والی ہر بات کو یہاں بیٹھے ہوئے سامعے اپنے اپنے علاقوں میں بڑھا چڑھا کے سناتے ہیں۔ اس طرح مفت میں ان کی مشہوری ہوتی ہے۔”
میرے ذہن میں ایسے خیالات گھوم رہے تھے۔ اتنے میں میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اپنے ساتھ لائے ایک بچے سے کہا۔
“دیوار کے ساتھ نہ ہونا۔ ان کے ساتھ جن چمٹے ہوئے ہیں۔”
میں نے بغور دیکھا تو سب لوگ مجھے دیوار سے کم از کم ایک فٹ کے فاصلے پر نظر آیا۔ کمرے کی دیواریں مختلف چادروں سے ڈھانپی ہوئی تھیں۔
پیر کرامت شاہ کسی کو تعویز اور کسی کو پانی دم کر کے دے رہا تھا۔ لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی۔ ہمارا نمبر بس آنے ہی والا تھا۔ ہم تینوں پیر کرامت شاہ کے سامنے رکھے ڈیسک کے قریب ہو گئے۔
میں نے دیکھا کہ ڈیسک کے ہر پایے کے نیچے دو دو اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ گڑیا اپنے دائیں پاؤں سے اپنے سامنے والے پایے کے نیچے رکھی ہوئی اینٹوں کو ٹچ کر رہی تھی۔ اچانک ڈیسک غیر متوازن ہوا اورکتابوں پر رکھی شیشے کی بوتل نیچے گری اور کسی سخت چیز سے ٹکرا کے ٹوٹ گئی۔ عین اس وقت وولٹیج کی کمی بیشی سے پیر کرامت شاہ کے سر پر لٹکا بلب اور کمرے کی ٹیوب لائٹیں بھی ٹھاہ ٹھاہ کر کے پھٹ گئیں۔ کسی نے خوف سے چیخ کر کہا۔
“بھاگو۔ بوتل سے جن آزاد ہو گئے ہیں۔”
کمرے میں پیر کرامت شاہ کے علاوہ صرف میں اور گڑیا رہ گئے تھے۔
پیر کرامت شاہ کے ہاتھوں پر ہلکا ہلکا ارتعاش تھا۔
اس بات کو گزرے زمانہ ہو چکا ہے۔ میں نے گڑیا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور ہونٹوں پر ایک غیر مرئی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی

Read more urdu literature visit our website
if you dont know what is afsana then you can click here to know what is afsana.