Afsana FAZAL HUSSAIN MA MA by Saeed Ashar

Afsana-FAZAL-HUSSAIN-MA-MA-by-Saeed-Ashar.webp
Afsana-FAZAL-HUSSAIN-MA-MA-by-Saeed-Ashar.webp

Afsana FAZAL HUSSAIN MA MA by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.

فضل حسین ماما 

فضل حسین ماما میری امی کے چھوٹے تایا کا بیٹا تھا۔ کراچی رہتا تھا۔ وہاں اس کے ٹھکانے کا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا۔ تین چار سال بعد ہری پور آتا اور کئی کئی مہینے ہمارے گھر رہتا۔ زیادہ تر گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ مزے مزے کی باتیں کرتا رہتا ۔ بیچ میں وہ دو تین دن کے لیے بغیر بتائے اچانک غائب ہو جاتا۔ ہم میں سے اگر کوئی پوچھ لیتا کہ کہاں چلے گئے تھے۔ اس کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا۔ ناران کاغان کی طرف نکل گیا تھا۔ ایک کام پیش آگیا تھا۔” میں نے ایک بار پوچھ ہی لیا۔ ماما ایسا کون سا ضروری کام پیش آجاتا ہے جس کی وجہ سے اچانک ناران کاغان کی طرف نکل جاتے ہیں ۔“ وہاں سیف الملوک جھیل کے پیچھے ایک جگہ کچھ جڑی بوٹیاں ہیں۔ انھیں تلاش کرنے جاتا ہوں۔ وہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں پیلے ( یرقان ) کے علاج میں کام آتی ہیں ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ یرقان کے لاعلاج مرض کا اس کے پاس علاج موجود ہے۔ کراچی میں جتنی بڑی بڑی ہسپتالیں ہیں ۔ سب کے باہر میرا اشتہار لگا ہوا ہے کہ پیلے یرقان کے لاعلاج مریض مجھ سے رابطہ کریں ۔ کوئی ایک آدھ مریض پھر اس سے رابطہ کرتا ہو گا۔ جس سے یہ سودے بازی کرتا۔ میں ہر مریض سے کہتا ہوں کہ میں آدھے پیسے پیشگی لوں گا اور باقی آدھے پیسے مجھے اس وقت ادا کرنا جب تمھارا ٹیسٹ کلیئر آجائے ۔ اگر ٹیسٹ میں دوبارہ پیلیا نظر آیا تو دوگنے پیسے ادا کروں گا میرا علاج لمبا چوڑا نہیں۔ مریض کو دوائی کی صرف ایک چٹکی سونگھواتا ہوں ۔ اس سے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ یہ میری ضمانت ہے ۔ اب تو ہسپتال کے ڈاکٹر اپنا لا علاج مریض میرے پاس بھیجتے ہیں ۔ خود اس کے علاوہ میں نے کبھی کسی سے نہیں سنا تھا کہ اس کے پاس یرقان کا کوئی اکسیر نسخہ ہے ۔ ہاں ایک بار کچھ لوگ اسے ڈھونڈتے ہوئے ہمارے دروازے تک آپہنچے تھے ۔ ان سے پتہ چلا کہ اس نے کسی مریض کو اپنی مخصوص دوائی سونگھائی تھی جس کی وجہ سے اس کے ناک اور منہ سے مسلسل پیلے رنگ کا پانی گررہا تھا۔ جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ سب بہت پریشان اور مشتعل تھے۔ ماما دودن سے غائب تھا۔ وہ عمر میں امی سے کافی چھوٹا تھا اس لیے انھیں بے بے کہتا۔ ایک بار امی نے بڑے مزے سے بتایا۔ فضل حسین جب بہت چھوٹا تھا کسی کے قابو نہیں آتا تھا۔ تائی اسے نہلانے کی ذمہ داری مجھے سونپتیں ۔ میں بڑی مشکل سے اس پر پانی ڈالتی اور صابن رگڑتی کئی بار یہ میرے ہاتھوں سے نکل کے صابن لگی ہوئی حالت میں ننگ دھڑنگ بھاگ جاتا۔ جب آنکھوں میں صابن لگتا تو بے پناہ شور کرتا۔ گالیاں بکتا اور بکواس کرتا وہاں ہمگوڑے ہمارے ارد گرد تین چار اور گھر بھی تھے۔ سب اس کا تماشا دیکھتے ۔ ایک بار جب فضل حسین ماما کراچی سے آیا اس سے اگلے دن کی بات ہے ۔ پڑوس میں سے کسی کا مرغ چھلانگ لگا کر ہمارے گھر کے صحن میں آگیا۔ اس زمانے میں فارمی مرغ نہیں ہوا کرتے تھے۔ میں نے کوشش کر کے اسے پکڑ لیا۔ میرے ذہن میں تھا کہ تھوڑی دیر تک کوئی اسے پوچھتا ہوا آئے گا تو اس کے حوالے کر دوں گا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ اچانک میرے دماغ میں جھماکا ہوا اور میں نے اپنی نیت بدل لی۔ بغیر کسی تاخیر کے اسے ذبح کیا۔ اس کے پر نوچ کے غائب کیے اور بوٹیاں بنا کے امی کے حوالے کیں۔ آج فضل حسین ماما کی دعوت کرتے ہیں ۔ امی نے اسے پکانے سے صاف انکار کر دیا۔ میں تو یہ چوری کا مرغ پکاؤں اور نہ ہی کھاؤں تم جانو اور تمھارا ماما جانے ۔“ تھوڑی دیر بعد ماما باہر سے آیا تو میں نے اسے شام کی دعوت کا کہا۔ ماما! آج کا کھانا میری طرف سے ہو گا۔ خوریا ( بھانجے ) لگتا ہے کوئی خاص پروگرام ہے ۔“ بس ماما دیکھتے جائیں میں کرتا کیا ہوں “ میں نے اسے چوری کے مرغ کی ہوا نہیں لگنے دی گھر کے باقی افراد بھی خاموش رہے ۔ شام کے وقت میں نے بہترین مرغ مصالحہ اور گرم گرم روٹیاں ماما کے سامنے لارکھیں ۔ ارے واہ ، زبر دست مہک آرہی ہے ۔ ماما! آپ کھا کے تو دیکھیں۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ مزہ نہ آئے تو تب کہنا” ماما اور میں نے پورا مرغ چٹ کر لیا۔ واقعی بڑے عرصے بعد اتنا لذیذ مرغ کھایا ہے ۔ پرانی یادیں تازہ ہوگئی ہیں ۔ ویسے یہ بتاؤ یہ مرغ لائے کہاں سے ہو ؟“ لانا کہاں سے تھا۔ خود ہی کہیں سے آگیا تھا۔ ماما بہت ہنسا۔ میں بھی کہوں آج خوریا اتنا مہربان کیوں ہے۔ اس کے پاس تو کالج جانے کے لیے کرائے کے دس پیسے نہیں ہوتے۔ تو یہ بات ہے۔ ماما بچپن میں بہت شرارتی تھا۔ دوسرے بچوں کو مارنا سکول سے چھپ جانا تو روز کا معمول تھا۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے پرائمری کے بعد سکول کا منہ نہیں دیکھا۔ اپنی طرح کے پانچ سات اور ساتھ ملا لیے ۔ سارا دن بے مقصد ادھر ادھر گھومتے یا کہیں بیٹھ کے گپیں ہانکتے لوگوں کے کھیتوں سے مکئی کے بھٹے توڑتے اور کسی سوکھی جھاڑی کو آگ لگا کے اس میں ان کو تڑکا لگاتے ۔ کچھ نہ ملتا تو کھیروں کی فصل میں جا گھستے ۔ دو تین سال بعد وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ جس کی بھی مرغی پکڑ کے لے جاتے اسے کانوں کان خبر تک نہ ہوتی ۔ مزے سے کسی ویران جگہ جا کے اسے بھونتے۔ لوگوں کے صحن میں مٹی کے چولہے پر رکھی تیار ہانڈی اٹھا کے لے جاتے۔ گاؤں میں بکروٹے غائب ہونے شروع ہو گئے تھے ۔ یہ سب کچھ وہ شغل سمجھ کے کر رہے تھے ۔ جرم مقصود نہیں تھا۔ وقت اسی طرح آگے بڑھتا رہا۔ خوریا ! ایک بار ایسا ہوا کہ ہم کسی کی گوہال ( جانوروں کے لیے مخصوص جگہ ) سے ایک بہت ہی صحت مند بکری کھول کر لے گئے ۔“ ماما نے اپنی نوجوانی کا قصہ چھیڑا۔ چنڈوری کی طرف ایک گھر خالی تھا۔ بڑی احتیاط سے اسے وہاں لے کر گئے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے ۔ سب نے مل کے اسے ذبح کیا، چمڑی اتاری اور مناسب سائز میں گوشت کے ٹکڑے کیے ۔ سب سے اہم مسئلہ اس کی چمڑی ، سری اور پائے غائب کرنا ہوتا تھا۔ ان چیزوں کو کپڑے میں باندھ کر گری ہوئی پرانی قبروں میں رکھ کے اوپر مٹی اور پتھر ڈال آتے ۔ ایک ساتھی کہیں سے دیگ جتنا بڑا دیگچہ اٹھالایا ۔ پوری بکری کا اس میں پلاؤ تیار کیا گیا۔ فرش پر پہلے سے دری بھی تھی۔ دستر خوان کے طور پر اوپر چادر بچھادی گئی۔ سارا پلاؤ بڑے بڑے تھالوں میں ڈال کر درمیان میں رکھا گیا کسی ایک نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ ”چلو بھائیو! پہلے دعا کر لیں ۔ سب نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کر لیے۔ باری تعالی ہم تیرالاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں جو تو نے ہمیں ایسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر چہ ہم گناہ گار ہیں لیکن تو پھر بھی ہم پر مہربان ہے ۔ ہم تیری ذات سے پر امید ہیں کہ آئندہ بھی تو ہم پر ایسے ہی مہربان رہے گا۔ آمین ۔ اس کے ساتھ ہی سب پلاؤ پر ٹوٹ پڑے۔ چاول تو برائے نام تھے۔ گوشت ہی گوشت تھا۔ جتنا جس سے ممکن تھا اس نے کھایا۔ ہر چیز کی آخر ایک حد ہوتی ہے ۔ سب نڈھال ہو کے وہیں دری پر ڈھیر ہو گئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گزرا ہو گا کیسی نے آواز لگائی۔ ساتھیو ! ہمت کرو تھوڑاسا کام رہ گیا ہے اسے بھی مکمل کر لیں ۔ سب اٹھ بیٹھے۔ نئے سرے سے دعوت شروع ہوئی ۔ بڑی مشکل سے تھال صاف ہوئے ۔“ ہم دونوں ہنس ہنس کے دوہرے ہوتے رہے۔ سکول سے بھاگے ہوئے ان لڑکوں کا گروہ جوان ہوتے ہی آہستہ آہستہ مختلف جرائم میں ملوث ہونا شروع ہو گیا۔ جلد ہی ماما کا اپنے ایک ساتھی اسلم کے ساتھ اتنا شدید اختلاف پیدا ہو گیا کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے ۔ یہ بھاگ کے کراچی چلا گیا۔ اسلم باقی ساتھیوں کا سردار بن گیا۔ راستے میں آتے جاتے لوگوں سے سامان اور نقدی چھیننا ، بسوں اور دوسری گاڑیوں کو لوٹنا ، اجرت پر قتل کرنا اس گروہ کا پیشہ بن گیا۔ علاقے میں ہر طرف ان کی دہشت تھی۔ پولیس انھیں پکڑنے جاتی تو یہ پہاڑوں میں بنی غاروں میں چھپ جاتے۔ جب تک اسلم زندہ رہا ماما اپنے گاؤں نہیں گیا۔ ہری پور آتا اور یہیں سے واپس کراچی چلا جاتا۔ کراچی یرقان کے علاج کے علاوہ وہ کیا کرتا تھا کسی کو نہیں معلوم ۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کا سارا کلام اس کے زیر مطالعہ رہتا۔ پرویز کا پیروکار ہونے کی وجہ سے منکر حدیث تھا۔ میں نے اسے بھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اسے ایک بار کہا۔ قرآن تو ایک ضابطہ حیات ہے۔ اس کی وضاحت اور تفصیل تو ہمیں حدیث اور سنت رسول میں ملے گی ۔ ایسا نہیں ۔ قرآن اگر ایک جگہ کوئی بات کرتا ہے تو دوسری جگہ خود ہی اس کی وضاحت بھی کر دیتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں احادیث کا سہارا لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں وہ کئی کمزور احادیث کا حوالہ دیتا۔ میں بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اچھا یہ بتائیں پھر نماز کے بارے میں مکمل تفصیل کہاں سے ملے گی۔ کسی وقت کتنی رکعات پڑھنی ہیں ۔ قیام، رکوع سجدہ اور قعدہ کیسے کرنے ہیں اور اس دوران کیا پڑھنا ہے ۔ آپ لوگ نماز کا مطلب درست نہیں سمجھ رہے۔ نماز تو نظام حیات کو بحال کرنے کا نام ہے ۔ اب یہ آپ دور کی کوڑی لائے ہیں۔ چلیں اگر میں آپ کی بات مان بھی لوں ۔ تو اس بات کو آپ کہاں لے کر جائیں گے کہ نماز کے حوالے سے قرآن میں وضو کا ذکر بھی موجود ہے ۔ جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے ۔ اے ایمان والو ! جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت ” ماما کو مجھ سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس نے فرار میں ہی عافیت سمجھی ۔ چلیں اس موضوع پر پھر کسی وقت تفصیل سے بات کریں گے ۔ ایک دن کہنے لگا۔ اقبال بھی کمال مرد قلند رہے اس کا شکوہ دیکھو۔ کیسا اٹھ اٹھ کے خدا سے سوال کر رہا ہے۔ ذرا اس کے تیور تو دیکھو۔ ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں اور آگے کہتا ہے۔ کبھی ہم سے بھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے یہ ہے ڈاکٹر اقبال کی خود شناسی اور خودی ۔ یہ ایک مصرع اور بھی دیکھ لو۔ کتنے بے تاب ہیں جو ہر مرے آئینے میں اردو شاعری میں سے ڈاکٹر صاحب کی شاعری نکال دیں تو پیچھے کیا بچتا ہے ۔ ” ماما آپ بھی نا کبھی کبھی حد کر دیتے ہیں ۔ بے شک اقبال کا مقام بہت بلند ہے لیکن آپ کو پتہ ہونا چاہیے اقبال سے پہلے اردو میں غالب، میر اور انیس جیسے عظیم شعرا گزر چکے ہیں۔ اقبال کے بعد اب بھی ان کا مقام اپنی جگہ برقرار ہے۔ اقبال کی حیات میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ حالی کی مدوجزر اسلام اور حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام، دونوں کتا بیں اردو بولنے والے مسلمان گھرانوں میں شاید قرآن کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتا بیں تھیں ۔ دوسری بات اقبال نے شکوہ کے بعد جواب شکوہ بھی ایک نظم بھی تھی۔ ابتدا میں ہی وہ اقرار کرتا ہے کہ عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا تھوڑا اور آگے بڑھیں۔ ناز ہے طاقت گفتار پر انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو یہ تو رہا تیور کے بارے میں اس کا اپنا جواب ۔ باقی رہی خودی وہ بالکل ایک الگ موضوع ہے۔ اس ضمن میں اقبال کے چند اشعار دیکھیں۔ خودی کیا ہے راز دوران حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے ایک شعر اور دیکھ لیں ۔ یہاں اقبال خودی کا راز بالکل افشا کر رہا ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا الله زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ فضل حسین ماما کے ہاتھ پر ویز کی ایک کتاب تصوف کی حقیقت لگ گئی۔ جس میں پرویز نے اقبال کی کھل کے مخالفت کر رکھی تھی۔ اب اٹھتے بیٹھتے ماما اقبال کے مرد قلندر پر کھل کے تنقید کرنے لگا۔ ایک دن ماما سحن میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ باقی ہم سب برآمدے میں بیٹھے کچھ لڈو کھیل رہے تھے اور کچھ کھلاڑیوں کو مشورے دینے میں مصروف تھے۔ ماما خاموشی سے اٹھا کتاب کرسی پر اوندھی کر کے رکھی ہاتھ میں چادر لی اور چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی مجھے لگا وہ چھت پر کھلی ہوا میں سانس لینے جارہا ہے لیکن کچھ ہی دیر میں وہ واپس آگیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بھورا تیتر تھا۔ یہ ایک بہت ہی نسلی تیتر لگتا ہے ضرور کسی درے کا ہوگا۔ اس کی ذرا چونچ دیکھو کتنی تیز ہے ۔ بدن بھی کیا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کس کے پنجرے سے نکل آیا ہے ۔ اوپر چھت کی دیوار پر بیٹھا تھا۔ سوچا پریشان ہو گا اس کی مدد کر دوں ۔ بڑے عرصہ سے سٹور میں ایک خالی پنجرہ پڑا ہوا تھا میں وہ اٹھا لایا۔ ماما اس میں تیتر ڈال کے خود گھر کے بیرونی دروازے سے نکل گیا۔ شام کو جب لوٹا تو بڑا پرجوش تھا۔ خوریا ! میں نے اس کا میچ فکس کر دیا ہے کل تین بجے مقابلہ ہے ۔ اچھا چلیں شغل ہی سہی۔“ پھر میں نے ماما سے پوچھا۔ میں نے آپ کے گاؤں والے گھر میں دونالی بندوق دیکھی تھی۔ اس کا مطلب ہے آپ کبھی شکار کے بھی شوقین رہے ہیں ۔ زیادہ نہیں لیکن سارا دن پہاڑوں میں گھومتے رہنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ زیادہ تر خرگوش ہاتھ چڑھتے تھے ۔ ”سنا ہے کسی زمانے میں یہاں راں ( چھوٹا ہرن ) بھی کافی تعداد میں ہوتی تھیں کبھی اس کا بھی شکار کیا۔ زیادہ تر ہم چھل بنا کے (کھنڈے کھود کے ) ان میں کالا تیتر اور کونک (چوکور ) پکڑتے تھے ۔ بہت پہلے راں ہوا کرتی تھیں۔ اگر ہمگوڑے سے کنی کوٹ جاؤ تو راستے میں جو کھڑی چٹانیں آتی ہیں وہاں اکا دکا دانہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے ختم کر دی ہیں۔ میں نے بھی ایک بار اسے شکار کیا تھا۔ دودھ والی تھی۔ بڑا پچھتایا ۔ اس کے بچے بھو کے مر گئے ہوں گے ۔“ دوسرے دن ہم وقت مقررہ پر اپنے محلے کے باہر ایک حجام کی دکان پر پہنچ گئے۔ ہم نے پنجرے کو ایک پردے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ سڑک بالکل ویران تھی ۔ دکان میں حجام کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اس نے شیشے کا دروازہ بند کیا اور باہر کی طرف پر دے لٹکا دیے تا کہ دکان کے اندر کسی کی نظر نہ پڑے۔ جب تمام ضروری انتظامات مکمل ہو گئے تو ماما نے پنجرے کے اوپر سے پردہ ہٹایا۔ دونوں تیتروں نے ایک لمحہ کے لیے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر چیخ چیخ کے بولنا شروع کر دیا ۔ وہ پوری قوت سے پھڑ پھڑا رہے تھے مجھے لگ رہا تھا دونوں اپنا اپنا پنجرہ توڑ کے باہر آجائیں گے۔ ماما نے تفاخر سے میری طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ دیکھا ۔ ہمارا شیر لڑ مرنے کے لیے کتنا بیتاب ہے ۔ کتنابیتاب ماما اور حجام نے ایک ساتھ اپنے اپنے تیتر کے پنجرے کا دروازہ کھولا۔ دونوں تیتر گولی کی طرح اپنے اپنے پنجرے سے باہر آئے ۔ پھر کیا تھا۔ حجام کی دکان میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ آگے آگے ہمارا تیتر پیچھے پیچھے حجام کا تیتر ہمارے تیتر کو بھاگنے کے لیے راستہ اور چھپنے کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں مل رہی تھی۔ اس کے لیے زمین تنگ ہو چکی تھی۔ کب تک اور کہاں تک بھاگتا ایسے میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ حجام کے تیر نے ہمارے تیتر کو ایسے دبوچ لیا جیسے شکاری کتا کسی خرگوش کو یا کوئی باز کسی کبوتر کو دبوچ لیتا ہے۔ حجام نے بڑی مشکل سے اس کے پنجوں سے ہمارا تیتر چھڑوا کے ہمارے حوالے کیا۔ جاتے ہوئے ماما نے پنجرہ اٹھایا ہو ا تھا۔ واپسی پر میں نے اٹھالیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا یہ بے غیرت کھسرا نکلے گا۔ ہماری ناک کٹوادی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس حرامزادے کی گردن مروڑ دینا۔ اس نے ہماری عزت ٹکے کی نہیں چھوڑی۔ ساری زندگی میں ایسا بے عزت نہیں ہوا۔۔۔ ماما نے اپنے سر پر ایسے چادر کی ہوئی تھی جیسے منہ چھپارہا ہو گھر پہنچے تو ماما نے بیٹھک کا رخ کیا اور چادر اوڑھ کے خاموشی سے لیٹ گیا۔ میں نے تیتر کی گردن مروڑ نے کے بجائے اس پر چھری پھیر دی۔ شام کو میں نے اچھی طرح تیتر بھون کے اسے ایک ٹرے میں سجایا۔ ساتھ ٹماٹر پیاز کاٹ کے بطور سلاد رکھے۔ بیٹھک میں جاکے ماما کو آواز دی۔ صدمے سے اسے ایک سو تین ڈگری کا بخار تھا۔ مجبوراً وہ سارا تیتر مجھ اکیلے کو کھانا پڑا۔ اگلے دن ماما منہ اندھیرے گھر سے نکلا اور راولپنڈی سے کراچی کے لیے جانے والی ایک ٹرین میں بیٹھ گیا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *