
Afsana EDIT by Saeed Ashar is heartfelt Reflection
رات گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔ دیوار کی سمت منہ کر کے میں دائیں کروٹ لیٹا تھا۔ ابھی میری آنکھیں کھلی تھیں ۔ تین چار انچ کے فاصلے کی دوری سے کسی نے میرے کان میں بہت ہی تیز سرگوشی کی۔ س عی ی ی ی د، میں بجلی کی تیزی سے پلٹا۔ مجھے لگا اسی رفتار سے کوئی میرے سر کے قریب سے پیچھے ہٹا ہو لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو اپنی ایک عادت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ ہو سکتا ہے آخر میں آپ کہیں یہ بالکل ہی غیر متعلقہ بات ہے ۔ پھر بھی ، مجھے لگتا ہے کہ اس مقام پر مجھے یہ بات کرنی چاہیے۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی مرغوب اصناف کی کم از کم نمائندہ اور شاہکار کتب وہ ضرور پڑھیں۔ اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو سکے تو وہ اپنے پسندیدہ مشہور لکھاریوں کے ناموں اور ان کی نمائندہ تخلیقات اور تصانیف کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب نگارش سے ضرور آگاہ ہوں ۔ اکثر سننے میں آیا ہے کہ شعراء اپنی تخلیقات کو اپنی اولاد کی طرح مانتے ہیں اور ان کی تخلیق کے عمل کو بالکل اسی طرح لیتے ہیں جیسے کوئی ذی نفس اس فانی دنیا میں تولد ہوتا ہے۔ خیر میں اس قدر مبالغہ آرائی کا حامی نہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ یہ ایک بہت ہی منفرد اور عجیب و غریب عمل ہے ۔ اس دوران ہر لکھاری کا تجربہ دوسرے لکھاری سے عمومی طور پر مختلف ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ادیب لکھنے کے عمل کے دوران جسے وہ کرب تخلیق کہنے پر بضد میں حیران کن حرکات و سکنات کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ بہت کم لوگ جن سے واقف ہوتے ہیں۔ اپنی بات کو مدلل بنانے کے لیے میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں ۔ اُردو کے عظیم افسانہ نگار، ناول نویس، کرشن چندر کو لکھنے کے لیے تنہائی درکار ہوتی اس لیے وہ اپنا کمرہ بند کر لیتے ۔ ایک بار ان کی بیگم سلمیٰ صدیقی نے تجس کے ہاتھوں مجبور ہو کے کمرے میں جھانکا اُن کا بیان ہے۔ کرشن چندر ارد گرد سے یکسر بے خبر اپنے لکھنے کے پیڈ پر جھکے ہوئے تھے ۔ اس لمحے ان کا چہرہ بہت بھیانک اور اجنبی سا لگا ۔ تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں ، ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں قلم خنجر کی مانند نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر بعد کرشن چندر کمرے سے نکلے اور سیدھے کھانے کی میز پر پہنچے، اس وقت ان کا چہرہ پر سکون اور بہت معصوم نظر آیا۔ فرانسیسی ناول نگارا الیگزنڈر ڈوما لکھنے کے دوران صرف اور صرف لیموں کا جوس پیتا تھا۔ آئر لینڈ کے مشہور ناول نویس جیمز جو اس نے اپنی ساری زندگی تصنیف و تحریر کا کام بستر پر الٹے لیٹ کر کیا۔ اس کا کہنا تھا۔ میں اس طریقے سے لکھتے ہوئے بڑا آرام اور سکون محسوس کرتا ہوں ۔ طوالت سے گریز کرتا ہوں۔ ورنہ یہاں وکٹر ہیوگو، ونسٹن چرچل ، ایڈگر رائس ، بی جے برسٹلے ، لارڈ ڈیوڈ سلی بنیلم احمد بشیر سعادت حسن منٹو ، ابن صفی شفیق الرحمن، سید وقار عظیم اور ڈاکٹر عبادت بریلوی جیسے بے شمار عظیم ادیبوں کی عادات بیان کر سکتا ہوں ۔ بیباک افسانہ نگار عصمت چغتائی بھی اوندھے منہ لیٹ کر لکھتی تھیں۔ اس دوران وہ ساتھ ساتھ برف کی ڈلیاں بھی چباتی رہتیں۔ ان کا کہنا تھا۔ برف کی ڈلی چبانے سے میرے ذہن میں نت نئے خیالات آتے ہیں ۔ اب میں واپس اپنی طرف آتا ہوں ۔ سارا دن لکھنے کے لیے میں کوئی خاص اہتمام نہیں کرتا۔ پہلے میری جیب میں ایک کاغذ ہوا کرتا تھا۔ جس پر میں ساتھ ساتھ لکھتا رہتا۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ٹی وی لگا ہوا ہے یا خاموشی ہے ۔ آفس میں ہوں یا رستے میں ۔ جوں ہی کوئی مصرع یا شعر ہوتا میں جیب سے کاغذ نکال کے اس پر لکھ لیتا۔ آج کل یہ کام میں موبائل سے لیتا ہوں لیکن رات کو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہو جاتا ہے ۔ دیوار کی سمت منہ کر کے میں دائیں کروٹ لیٹ جاتا ہوں ۔ عام طور پر میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں ۔ دیکھنے والے کو مغالطہ ہو سکتا ہے کہ میں دیوار کو گھور رہا ہوں ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ۔ میرا موبائل دائیں طرف بستر یا ٹیبل پر ہوتا ہے۔ اس رات بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں دیوار کی سمت منہ کر کے دائیں کروٹ لیٹا تھا۔ ابھی میری آنکھیں کھلی تھیں۔ تین چار انچ کے فاصلے کی دوری سے کسی نے میرے کان میں بہت ہی تیز سرگوشی کی۔ س می ی ی ی د بجلی کی تیزی سے میں پلٹا۔ مجھے لگا اسی رفتار سے کوئی میرے سر کے قریب سے پیچھے ہٹا تھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں کچھ دیر ٹانگیں اٹکا کے بیڈ پر بیٹھا ر ہا۔ شاید یہ میرا وہم ہے ۔ میں نے سوچا۔ میں اپنے اس خیال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہو پایا کھلی آنکھوں ایسا وہم اس سے پہلے تو میرے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ میں دوبارہ دائیں کروٹ لیٹ گیا۔ میں نے کوشش کی لیکن مجھے یاد نہ آیا کہ کون سا مصرع میرے ذہن میں تھا جس پر گرہ لگانے کی کوشش میں اس وقت مصروف تھا۔ آخر کار تھک ہار کے سو گیا۔ اس فلیٹ میں آئے ہوئے مجھے زیادہ دن نہیں گزرے تھے۔ زیادہ سے زیادہ دس پندرہ دن گزرے تھے فلیٹ میں ڈرائنگ روم، کچن، باتھ روم اور دو کمرے تھے۔ پہلے یہاں چوہدری کی فیملی اس کے ساتھ رہتی تھی۔ بچے بڑے ہونے کی وجہ سے چوہدری نے انھیں واپس پاکستان بھیج دیا تھا۔ ایک کمرہ خالی ہونے کی وجہ سے چوہدری نے وہ مجھے کرائے پر دے دیا تھا۔ چوہدری کے پاس بغیر سیٹر ٹیوٹا ہائی لیکس تھی۔ وہ اس میں مختلف سوئیس اینڈ بیکرز کا سامان لادتا اور دور دراز کے علاقوں میں سپلائی کرتا۔ اکثر رات دو اڑھائی بجے کے قریب واپس لوٹتا۔ اس لیے میں اکیلا ہی دس گیارہ بجے تک ڈرائنگ روم میں بیٹھا ڈش کے ذریعہ آنے والے چینل بدلتا رہتا۔ اس واقعہ کو چار پانچ دن گزر گئے ۔ ٹی وی کے آگے مسلسل بور ہونے کے بعد میں اپنے کمرے چلا گیا۔ بستر پر لیٹا اور دائیں طرف کی کروٹ لے کے خیالوں کی بے کنار دنیا میں کھو گیا۔ س عی ی ی ی د ، میں اس سرگوشی کے لیے تیار نہیں تھا۔ بے اختیار پلٹا۔ میں نے صاف صاف محسوس کیا کہ جیسے کوئی پیچھے ہٹا ہو ۔ ” یہاں ضرور کچھ ہے۔ دوسری بار ایک جیسا واقعہ ہوا میرا وہم نہیں ہو سکتا۔ اب مجھے اس کی کھوج لگانی ہوگی ۔ صبح سویرے میں نے پاکستان اپنے ایک دوست پرویز کو کال ملائی۔ سلام و دعا کے بعد میں نے اسے اپنے ساتھ ہونے والی واردات کی روئیداد سنائی تو وہ ہنسنے لگا۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے ۔ اس نے آپ کا کوئی نقصان تو نہیں کیا۔ ” اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا کہ دو بار میرا اچھا خاصا تراہ نکل چکا ہے۔ مہربانی فرمائیں اور مراقبہ کر کے پتہ لگائیں کہ اصل بات کیا ہے ۔ ٹھیک ہے آپ مجھے دو دن دیں۔ ان شاءاللہ جو بھی اصل بات ہے واضح ہو جائے گی۔“ پرویز کا تعلق تصوف کے ایک معروف سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے تھا۔ دو دن بعد میں نے اسے دوبارہ کال ملائی۔ جی حضور! کچھ پتہ چلا ۔ کیا ماجرا ہے؟“ فکر کی کوئی بات نہیں ۔ وہاں ایک زنانہ روح ہے ۔ جسے آپ پسند آگئے ہیں ۔ وہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ یہ میرے لیے ایک جدا گانہ تجربہ تھا۔ اس طرح جاگتے ہوئے براہ راست کسی روح کو کسی کے ساتھ مخاطب ہوتے میں نے صرف جنوں بھوتوں کی کہانیوں میں تو پڑھا تھا لیکن اپنے رشتہ داروں تعلق داروں اور اہل محلہ میں نہیں دیکھا سنا تھا۔ حالت نیند میں لوگوں کے ڈرنے کے بارے میں اکثر سننے میں آتا رہتا ہے ۔ ایک بار میں خود ایسی صورت حال سے دو چار ہو چکا ہوں۔ ہمارے والدین کا گھر دو منزلہ تھا۔ ہم نیچے والی منزل پر رہتے تھے ۔ اوپر والی منزل اکثر ویران رہتی ۔ البت مختلف رشتہ دار وقتاً فوقتاً ضرورت کے وقت اسے استعمال کرتے رہتے ۔ ایک بار اوپر کی منزل بالکل خالی تھی۔ میں نے وہاں ایک کمرے میں اپنا بیڈ لگا لیا تھا۔ رات کو میرے ساتھ عجیب معاملہ ہوتا۔ جوں ہی آنکھ لگتی مختلف چہرے عجیب عجیب شکلیں بنا کر مجھے ڈرانے آجاتے ۔ ایسا لگتا جیسے ان پر کسی نے خشک آٹا ملا ہوا ہو۔ میں بڑ بڑا کے اٹھ بیٹھتا۔ صبح کی اذان تک میرے ساتھ یہی تماشا لگا رہتا۔ میرا اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا کہ کوئی مافوق الفطرت ہستی میرا امتحان لے رہی ہے۔ ویسے بھی کالج لائف میں مذہب اور ایسے موضوعات مجھے اپیل نہیں کرتے تھے۔ میں نے اس کا یہ حل نکالا کہ لائٹ جلا کے سونا شروع کر دیا۔ اب میری یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اکیلے میں اکثر رات کو میرے کمرے کی لائٹ جلتی رہتی ہے اور میں سویا ہوتا ہوں ۔ جب میں بال بچوں والا ہوا اس وقت میرے پاس ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ جس میں چھوٹے چھوٹے ایک بیڈ کی گنجائش جتنے دو کمرے تھے ۔ سامنے والے کمرے میں ہم دونوں میاں بیوی ہوتے اور ملحقہ کمرے میں جو کچن کے پیچھے بنا ہوا تھا اور اس کا درواز ہ ہمارے کمرے میں کھلتا ہمارے دو بچے ہوتے تھے۔ رات کو ہم بیچ کا دروازہ کھلا رکھتے کئی بار ایسا ہوا کہ رات کو بڑا بچہ اٹھ کر میرے پاس آکے کہتا۔ پاپا! ڈر لگ رہا ہے۔ کمرے میں کوئی ہے ۔“ میں جاکے ان کے کمرے کی لائٹ جلاتا اور اسے بتاتا۔ دیکھو یہاں کوئی نہیں ۔ اور اگر کوئی ہو گا تو پہلے ہمارے کمرے سے گزرے گا۔ لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتا تھا اور ہمارے ساتھ سوجاتا۔ ہمارا کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ اس کمرے میں ان کے علاوہ بھی کوئی ہو سکتا ہے ۔ جو بظاہر نظروں سے اوجھل ہے۔ پرویز کی بات سن کے میں ذرا پریشان نہیں ہوا۔ بلکہ میرے دماغ کے گرد بننے والے جالے صاف ہونے لگے۔ اس کا تو صاف صاف یہ مطلب ہوا کہ کوئی ایک روح جو بظاہر نظر نہیں آرہی اگر کسی انسان کو پسند کر سکتی ہے اور وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے پر قادر ہے تو دوسری روحیں دوسرے انسانوں سے نفرت ، حسد، جلن یا دشمنی بھی کر سکتی ہیں۔ جن کے نتائج وہ لوگ بھگت رہے ہوں گے جن کو اپنے نادیدہ دشمن کی کوئی خبر ہی نہیں۔ کچھ لوگ اسے جہالت اور کچھ لوگ اسے نفسیاتی مسئلہ تشخیص کرتے ہیں ۔ متاثر شخص انجانے میں ایک ایسی بیماری کا علاج کروانے پر مجبور ہو جاتا ہے جو سرے سے اسے ہے ہی نہیں ۔ رات دن اینٹی بائیوٹیک اور نشہ آور دوائیاں کھا کھا کے معدہ جگر اور گردے برباد کر لیتا ہے۔ پھر محبت اور دشمنی کی کوئی طے شدہ حد بندی بھی تو نہیں۔ نتیجتاً بہت سارے لوگ پاگل خانوں میں پہنچ جاتے ہیں یا خودکشی میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اس واقعہ کو کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ ویسے ہی باتوں باتوں میں ایک دن میں نے اپنے باس سے اس کا ذکر کر دیا۔ اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔ اصل بات تو کوئی سائیکیٹریس ہی بتا سکتا ہے لیکن میں یہی کہوں گا کہ اس وقت تم کسی الجہن کا شکار تھے۔ وہ پاکستان میں بھی کوئی ہو سکتی تھی اور یہاں پر دیس میں بھی جس کی وجہ سے تمھیں ایسا لگا میری عادت ہے کہ میں دوسرے کے موقف کو یکسر رد کرنے کے بجائے کچھ مثالوں کی مدد سے اپنی بات کی وضاحت کرنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ۔ ” سر ! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس بار میری چھٹی کے دوران پیش آیا۔ آپ کو میں نے بتایا ہوا ہے کہ میرا ایک چھوٹا بھائی پی ایچ ڈی ہے۔ اس نے یہ ڈگری ہالینڈ سے لی تھی اور اب وہ ایک بہت ہی حساس محکمے میں کسی اعلی عہدے پر فائز ہے ۔ ” ہاں یہ بات مجھے معلوم ہے ۔ اس بار ایسا ہوا کہ میں والدہ صاحبہ کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ چھوٹے بھائی کے ذکر پر رو پڑیں۔ کہنے لگیں پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہے ۔ اس کا دماغ بالکل شل ہو گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کا جسم بھی دن بہ دن لاغر ہوتا جارہا ہے ۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو چیک کروا چکا ہے ۔ دماغ کے ڈاکٹر کے پاس بھی کئی بار گیا ہے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ بس اسے بدل بدل کے نشے کی گولیاں دے رہا ہے ۔ اب وہ استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ مجھے یہ سب سن کے بڑا عجیب لگا۔ میں نے اسی وقت اپنے ایک دوست عباس خان کو فون کر کے اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ اس نے مجھ سے آدھے گھنٹے کا وقت مانگا۔ سر ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اس کی کال آگئی ۔ اس کے مطابق میرے بھائی پر اس کے کسی کولیگ نے عمل کروایا تھا کیونکہ اس کی اگلے سکیل میں ترقی ہونے والی تھی۔ عباس خان نے مجھے کہا کہ وہ ویسے تو اس کا توڑ کر لے گا۔ ہاں اگر میں بھائی کو اس کے پاس دو تین بار لے کر جاؤں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ میں نے بھائی سے بات کی۔ پڑھے لکھے آدمی کو سمجھانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ کہنے لگا۔ وہ میرے لیے بھلا کیا دعا کرے گا۔ میرے لیے میری ماں دعا کر رہی ہیں ان کی دعا میرے لیے سب سے اہم ہے ۔“ ” دعا کے مقام سے کسی کو انکار نہیں ۔ یوں سمجھو کہ بہتر نتائج کے لیے دعا کی وجہ سے اچھے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ راولپنڈی جانے کے لیے تمھیں گاڑی میں بیٹھنا پڑے گا۔ دعا اس سفر کو محفوظ بنائے گی۔ روٹی توے پر ہی پکے گی۔ بیماری میں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ایک الگ شعبہ ہے جس کے کچھ ماہرین ہیں ہمیں ان کے پاس جانا پڑے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے شعبے ہیں جن کے بارے میں ہمیں تسلی بخش معلومات نہیں ۔ ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں یہ علوم بھی سائنس ہی کی کوئی شاخ ثابت ہوں ۔ ہم ایک چھوٹے سے سیارے پر رہ رہے ہیں ۔ میرے خیال میں تسخیر کائنات کا سفر اب شروع ہوا ہے ۔ بڑی مشکل سے ہم کشش ثقل کا دائرہ توڑ پائے ہیں ۔ سر قصہ مختصر وہ راضی ہو گیا۔ دو تین بار اس نے عباس خان سے دم ڈلوایا اور بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اب آپ اسے کیا کہیں گے ۔ بالکل سر ۔ یہ تو میرے گھر کا واقعہ ہے ۔ اگر کوئی اور بیان کر رہا ہوتا تو میں اس کی بات پر شاید ہی یقین کرتا ۔ واقعی یہ ایک نا قابل یقین واقعہ ہے ۔ تیسری بار جب وہی سرگوشی سنائی دی تو میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ تم جو کوئی بھی ہو سامنے آجاؤ ۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے اسے مخاطب کیا لیکن میری بات کا جیسے اس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ میری بات ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ میں نے بچپن میں جنوں اور پریوں کی بہت کہانیاں سنی تھیں ۔ ان کہانیوں سے مجھے اس قدر دلپچیسی تھی کہ میں یہ کہانیاں آگے دوسروں کو لفظ بہ لفظ سناتا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ کہانیاں بھی سچ پر مبنی ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ سکول زمانے میں بے شمار بار میں رات کو چھت پر جا کے آسمان کی طرف دیکھتا ر ہا۔ مجھے لگتا تھا اوپر سے پریاں اڑتے ہوئے گزریں گی اور ان میں سے کوئی ایک پری میرے لیے نیچے اترے گی۔ بہت بعد میں مجھے یقین آیا کہ میں ایک تصوراتی دنیا میں رہ رہا تھا لیکن اس سرگوشی نے میرے سامنے ایک بار پھر اسی نا معلوم دنیا کا وجود زندہ کر دیا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار جہاں یہ مخصوص سرگوشی سنائی دیتی ۔ اکثر محسوس ہوتا کمرے میں میرے علاوہ کوئی دوسرا بھی ہے۔ کبھی کبھار مجھے اس کے کپڑوں کی سرسراہٹ سنائی دیتی کئی بار میں نے اسے مخاطب کیا لیکن جواب میں سوائے خاموشی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ دو تین بار ایسا بھی ہوا کہ جوں ہی میں اپنے کمرے میں داخل ہوا ایک زبر دست قسم کی مہک میرے وجود سے آلپیٹی۔ تین چار ماہ گزر گئے۔ میرے مالی معاملات تھوڑے سنبھلے تو میں نے پینٹیم تھری کمپیوٹر
لے لیا۔ چوہدری نے لینڈ لائن فون پہلے سے لگا رکھا تھا۔ ایک درخواست پر محدود ڈیٹا کا نیٹ بھی لگ گیا۔ جسے میں یاہو چیٹ پر صرف کرتا۔ یاہو چیٹ اس وقت دنیا سے رابطے کا بہت بڑا انقلابی ذریعہ تھا۔ بے شمار لوگ شام کے وقت کمپیوٹر پر بیٹھے ہزاروں میل کی دوری پر اپنے کسی ہم خیال دوست سے باہمی دلچسپی کے موضوعات پر گپ شپ میں مصروف ہوتے ۔ اس دوران کئی نئے دوست بنتے بعض لوگ پوری پوری رات کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے دوسروں کے ساتھ فضول گپ شپ میں گزار دیتے ۔ یاہو پر علاقے اور مشاغل کے مطابق بے شمار چیٹ روم بنے ہوئے تھے جن میں آن لائن لوگوں کی فہرست نظر آرہی ہوتی۔ ہر آدمی اپنی مرضی کے کسی فرضی یا اصلی نام سے وہاں ظاہر ہو سکتا تھا کسی کو بھی میسج بھیجا جا سکتا تھا۔ عام طور پر نئے بندے سے پہلا سوال ہوتا۔ اے ایس ایل پلیز – (ایج سیکس لوکیشن ) تقریبا ہر مرد کی خواہش ہوتی کہ اس کی کسی لڑکی سے بات ہو۔ بہت سارے مرد بھی لڑکیاں بن کے اپنے دوستوں کے ساتھ شغل کرتے ۔ کچھ روز تو میری مختلف خواتین و حضرات سے رسمی سی چیٹ ہوتی رہی۔ جس میں کچھ پرانے دوست اور کچھ نئے دوست شامل تھے۔ پھر ایک چیٹ روم میں مجھے ازلینا نام نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں نے اسے میسج بھیج دیا۔ اے ایس ایل پلیز ۔ اس کا جواب آگیا۔ گرل – 23 میلیشیا وہ غیر شادی شدہ لڑکی تھی۔ اس کی تصویر بھی بہت خوبصورت تھی۔ میں نے اپنے بارے میں اسے بالکل غلط بتایا۔ تا کہ وہ چیٹ نہ بند کر دے۔ کچھ عرصے بعد جب ہم ایک دوسرے سے کافی مانوس ہو گئے تو میرے کہنے پر وہ وڈیو چیٹ کے لیے آمادہ ہوگئی۔ واقعی وہ بہت خوبصورت اور معصوم تھی۔ اس نے مجھے اپنے گورے گورے ہاتھ کی ایک انگلی میں پہنی ہوئی آٹیفیشل رنگ دکھائی۔ یہ میں نے آج خریدی ہے۔ کیسی ہے؟“ وہ اسے پہن کے بہت خوش تھی۔ بہت خوبصورت تم خود بھی تو بہت خوبصورت ہو ۔ ایک دن میں تمھیں سونے کی انگوٹھی گفٹ کروں گا۔ اچانک میری پشت کی طرف سے اسی مخصوص آواز کی سرگوشی سنائی دی۔ ایڈیٹ ساتھ ہی کمرے کا دروازہ انتہائی زور سے ”ٹھاہ کر کے بند ہو گیا۔ میں پھرتی سے کمرے کا دروازہ کھول کے ڈرائنگ روم میں آیا۔ میرا یہ عمل بے اختیارانہ تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ باہر کا درواز اندر سے لاک تھا۔