
ڈرائنگ ماسٹر
دن کے دو بجے کا وقت ہو گا۔ جونہی ایک جگہ بس رکی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے کہا۔ آپ کا سٹاپ آگیا ہے ۔ آپ اتر جائیں۔ میں اپنا بیگ لے کے بس سے نیچے اتر آیا۔ یہ کوہالہ بالا کا سٹاپ تھا۔ میں نے نظریں گھمائیں۔ سڑک ایک چھوٹی سی پہاڑی کے درمیان تھی۔ چڑھائی والی طرف چائے کے ڈھابے میں دو تین آدمی نظر آئے ۔ ڈھلوان کی طرف گورنمنٹ پرائمری سکول کی بلڈنگ تھی۔ میں اوپر نیچے رکھے ہوئے پتھروں پر چلتا ہوا ڈھابے میں رکھے ایک خالی بنچ پر جا بیٹھا۔ میرے کچھ کہے بغیر اس کے مالک نے میرے سامنے رکھی ہوئے میز پر میرے لیے چائے کی پیالی رکھ دی۔ سردی کا موسم تھا ایسے میں بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ ہلَّی گاؤں یہاں سے کتنا دور ہو گا ؟” میں نے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا۔ وہ پرچ میں چائے ڈال کر پیتے ہوئے بس میں بیٹھی سواریوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ قریب ہی ہے ۔ اس ڈھیری کی دوسری طرف ۔ میں وہیں کا ہوں۔ چائے پی کر ساتھ چلتے ہیں ۔ اس کے جواب سے مجھے قدرے سکون ملا۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں آہستہ آہستہ پہاڑی کے اوپر جانے والے راستے پر چلنے لگے۔ میرا نام حنیف عباسی ہے ۔ میں سڑک کے کنارے واقع پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں ۔ روزانہ صبیح ہلی سے آتا ہوں اور اس وقت واپس لوٹ جاتا ہوں ۔۔۔ وہ مجھے اپنے متعلق تفصیل سے بتانے لگا۔ میرا یہ مزاج ہے کہ میرے سامنے کوئی جس موضوع پر چاہے گھنٹوں بولتا رہے، مجھے کوفت نہیں ہوتی۔ البتہ سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات پر مبنی موضوعات پر گفتگو یا بحث مجھے سخت ناگوار گزرتی ہے ۔ اتنے میں ہم پہاڑی کی دوسری طرف ڈھلوان اترنے لگے ۔ پہاڑی علاقوں میں عموما تین طرح کے راستے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ راستہ جو مختصر ترین ہوتا ہے جسے صرف پیدل چلنے والے استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرح کا راستہ گدھوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے جو قدرے طویل مگر ہموار ہوتا ہے۔ تا کہ گدھوں پر لادا ہوا سامان گرنے سے محفوظ رہے۔ اور تیسری قسم میں گاڑیوں کے لیے بنایا گیا راستہ ،یہ طویل تر ہوتا ہے۔ حنیف خاموش ہو گیا تھا۔ اسے لگا میں اس کی باتوں سے شاید تنگ ہو رہا ہوں۔ یہ بس کہاں تک جائے گی ؟”میں نے اسے بولنے کے لیے اکسایا یہ لورے تک جاتی ہے۔ روزانہ اس کا ایک چکر ہوتا ہے ۔ اب یہ صبح سویرے دوبارہ ۔ لورے سے واپس ہری پور جائے گی ۔ اچھا تو یہ وہ لورا ہے جس کے نام پر جی ٹی روڈ پر لورا چوک ہے ۔ ” جی بالکل ایسا ہی ہے ۔ تو کیا یہ سڑک آگے جا کے ختم ہو جاتی ہے؟“ یہ سڑک گھوڑا گلی اور دوسری مختلف گلیات سے ہوتی ہوئی مری روڈ سے جاملتی ہے۔ آگے بہت خوبصورت علاقے میں لورا بھی کافی حسین قصبہ ہے۔۔۔۔۔۔ باتیں کرتے ہوئے ہم نے پہاڑی سے اتر کے ایک چھوٹا سا خشک برساتی نالہ پار کیا اور سامنے کی پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ تھوڑا اوپر پہنچے تو ہماری پیشوائی کے لیے ایک کچی سڑک موجود تھی۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مجھے دور دور تک کسی بستی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ البتہ کہیں کہیں پہاڑی کاٹ کے چھوٹے چھوٹے کھیت ضرور بنائے گئے تھے لیکن پورے منظر میں ہم دو مسافروں کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔
آپ تو کہہ رہے تھے کہ ہلی گاؤں پہاڑی کے پیچھے ہے۔ یہاں تو دور دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آرہی ۔ میں نے استفسار کیا۔ یہ جو سامنے نکہ نظر آرہا ہے ہم نے اس کے پیچھے جانا ہے۔ آپ اپنا بیگ مجھے دے دیں تھوڑا دما مل جائے گا۔ اس نے زبردستی میرا بیگ لے کے اپنے کندھے سے لگا لیا۔ میں نے دیکھا کافی آگے جا کے سڑک کسی نامعلوم جہان کی طرف مڑ رہی تھی ۔ ہم متوازن رفتار سے اس پر چل رہے تھے۔ کبھی وہ ہموار ہو جاتی اور کبھی اس کا رخ بلندی کی طرف ہو جاتا۔ آپ نے ابھی تک اپنے متعلق تو کچھ بتایا ہی نہیں ۔ ہلی کس سلسلے میں جارہے ہیں ؟“ میرا نام سعید ہے ۔ ہری پور سے آیا ہوں ۔ ہلی مڈل سکول میں ڈرائنگ ماسٹر کی پوسٹ پر میری اپوائنٹمنٹ ہوئی ہے۔ یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا ہے۔ اس سکول میں یہ پوسٹ کافی عرصہ سے خالی ہے ۔ آپ نے کوئی کورس کیا ہوا ہے۔ نہیں۔ میں نے باقاعدہ کوئی کورس نہیں کیا ہوا۔ میٹرک میں میرے پاس سکیل ڈرائنگ تھی۔ یہاں وہی کام آئی۔ ویسے میں نے
ڈی ای اے مکینیکل تھرڈ ائیر کا امتحان دیا ہوا ہے ۔ جونہی رزلٹ آیا میں یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔ ہم مختلف موضوعات پر باتیں کرتے ہوئے ایک کے بجائے دو تین نکے عبور کر چکے تھے۔ دیہاتی لوگوں کی عادت ہے کہ وہ سفر کو آسان کرنے کے لیے راستے میں بے مقصد گپیں لگانی شروع کر دیتے ہیں۔ یہی کچھ حنیف میرے ساتھ کر رہا تھا۔ بلندی کی طرف چلتے ہوئے ایک ایسا نکہ آگیا جو دیودار کے اونچے اونچے درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ اب صرف دس منٹ کا راستہ باقی رہ گیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کے آپ کو راسہ کم بتایا تھا تا کہ آپ پریشان نہ ہوں ۔ ناراض نہ ہونا ۔ بہت شکریہ تھوڑی دیر بعد میں سمجھ گیا تھا۔ اب آپ مجھے بیگ دے دیں ۔ آپ نے میری بہت مدد کی ۔ ہم درختوں کے جھنڈ سے نکلے تو راستہ ایک میدانی علاقے میں داخل ہو گیا۔ کچھ دیر بعد راستے کی دونوں اطراف کچے پکے مکان نظر آنے لگے ۔ اس وقت آپ کہاں جائیں گے سکول میں تو کوئی بھی نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہو گا کہ آپ میرے ساتھ چلیں صبح میں آپ کو آپ کے سکول میں چھوڑ کر اپنی ڈیوٹی پر چلا جاؤں گا۔ میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس کے علاوہ میرے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔ ویسے بھی پہاڑی علاقوں میں شام جلدی ہو جاتی ہے۔ روایتی نقشے پر بنا ہوا اچھا خاصا پکا مکان تھا۔ ایک ہی قطار میں بنے ہوئے تین بڑے بڑے کمرے تھے ۔ ان کے آگے برآمدہ اور مناسب پیمائش کا صحن تھا۔ برآمدے کی ایک طرف شاید کچن تھا۔ ہم دوسری طرف کے آخری کمرے میں چلے گئے۔ دو چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر بچھے ہوئے تھے۔ حنیف نے ایک طرف رکھے جستی چادر سے بنے ٹرنک میں سے نئی رضائی نکال کے اس چار پائی پر رکھ دی جس پر میں آکے بیٹھا تھا۔ اب آپ کچھ دیر آرام کریں۔ میں تھوڑی دیر میں حاضر ہوتا ہوں۔“ میں سویٹر اور جیکٹ اتار کے سکون کے ساتھ رضائی میں گھس گیا۔ صبح ساڑھے نو بجے حنیف مجھے ایک چھوٹے سے سکول میں لے گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب باہر دھوپ میں رکھی ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ ان کے سامنے رکھی ہوئی میز کی دوسری طرف تین باریش اشخاص با ادب با ملاحظہ حالت میں موجود تھے ۔ ذرا سا ہٹ کے کچی زمین پر ایک کلاس بیٹھی تھی۔ ٹیچر اسے انگلش پڑھانے میں مصروف تھا۔ السلام علیکم ! ہیڈ ماسٹر صاحب ۔
وعلیکم السلام ! کیسے آنا ہوا حنیف صاحب خیریت ہے نا؟“ جی جی بالکل خیریت ہے۔ آپ کا مہمان یہاں پہنچانا تھا۔ حنیف مجھے وہاں چھوڑ کے چلا گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے میرے لیے کرسی منگوائی۔ اپنا اور سامنے بیٹھے ہوئے تینوں اشخاص کا تعارف کروایا۔ تینوں نے گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ وہ سٹاف ممبر تھے ۔ ان کا پہلا پیریڈ خالی تھا۔ ان میں سے ایک قاری ، دوسرا معلم دینیات اور تیسرا پی ٹی آئی تھا۔ چونکہ ان پوسٹوں کے حامل اساتذہ عام طور پر کلاس انچارج نہیں ہوتے اس لیے ان کا پہلا پیریڈ خالی ہوتا ہے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھ سے اپوائنٹمنٹ لیٹر لیا۔ یہ پرائمری سیکشن کی بلڈنگ ہے۔ مڈل سیکشن کے لیے دوسری بلڈنگ ہے، سڑک کے ساتھ ۔ بارشوں کی کثرت کی وجہ سے ٹپکنے لگی ہے ۔ کچی بلڈنگ ہے موسم ذرا کھل جائے تو اس کی چھت کو مٹی کا لیپ کروا کے ہم دوبارہ وہاں شفٹ ہو جائیں گے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہم سب اور کچھ کلاسز باہر لان میں بیٹھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”ہمارے پاس آپ کے ایک ہم نام پہلے سے موجود ہیں ۔ حویلیاں سے آگے کسی گاؤں کے ہیں ۔ اچھا ہے اب آپ دونوں ایک دوسرے کا سنگ بن جائیں گے ۔ پہلا پیریڈ ختم ہوا تو قاری صاحب اور معلم دینیات وہاں سے اٹھ گئے ۔ ان کی جگہ دو نئے افراد آکے بیٹھ گئے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک بار پھر تعارفی کلمات ادا کیے۔ یہ صدیق عباسی صاحب میں ایس وی ٹیچر اور یہ سی ٹی ٹیچر سعید گل صاحب ہیں ہمارے سکول کے سیکنڈ ماسٹر دونوں مجھے خوش دلی سے ملے لیکن سعید گل کی آنکھوں میں مجھے کچھ بے چارگی کے آثار نظر آئے۔ میں نے بھی انھیں اپنا نام بتایا ۔ صدیقی صاحب ! ڈرائنگ ماسٹر صاحب کو ان کا ٹائم ٹیبل دے دیں تا کہ کل سے یہ باقاعدہ پیریڈز لیں ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی اس ہدایت کے ساتھ میں عملی زندگی میں داخل ہو گیا۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ صدیق بات کرتے ہوئے اپنی دائیں آنکھ میچ لیتا تھا۔ چونکہ مڈل سکول میں کلرک کی پوسٹ نہیں ہوتی اس لیے یہ ذمہ داری بھی صدیق نبھا رہا تھا۔ میں سکول دیکھنے کے لیے سعید گل کے ساتھ وہاں سے اٹھ گیا۔ بلڈ نگ دو جڑواں ہالوں پر مشتمل تھی ۔ واحد داخلی دروازہ مشرق کی جانب کھلتا تھا۔ جس کے سامنے ایک تھلہ بنا ہوا تھا۔ ایک کلاس اس تھلے پر بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے تھلے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھا۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ ہم ایک بہت اونچے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں ۔ آگے کئی فرلانگ تک میٹھی میٹھی ڈھلوان تھی کوئی بھی بڑے مزے سے پہاڑ سے نیچے اتر سکتا تھا۔ جہاں نیچے جائے یہ پہاڑ ختم ہو رہا تھا وہاں کچھ کھیت تھے ۔ ان کھیتوں کے بعد ایک اور سر بفلک پہاڑ ایستادہ تھا۔ ان کھیتوں میں مجھے دو مکان بھی نظر آئے جو ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کے تنہائی کے خلاف برسر پیکار تھے ۔ ہم بلڈنگ کے اندر داخل ہو گئے۔ بائیں طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں مشکل سے دو چار پائیاں آمنے سامنے آسکی تھیں ان کے پیچ ایک چھوٹی سی میز پھنسی ہوئی تھی۔ باہر کھلنے والی کھڑکی کے شیشوں پر اردو اخبارات کے رنگیں صفحے چپکے ہوئے تھے۔ ایک چار پائی پر میں سوتا ہوں ۔ دوسری اب آپ کی ہوئی چھٹی ہونے کے بعد اگلی صبح تک یہاں کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ سکول آبادی سے بالکل الگ تھلگ ہے ۔ سعید گل نے اپنی ایک بڑی پریشانی کا اظہار کیا۔ میں نے اپنا بیگ خالی چار پائی کے نیچے رکھ دیا۔ کھانے وغیرہ کا کیا بندو بست ہے؟“ کچھ خاص نہیں۔ سچ تو یہ ہے مجھے کچھ پکانا بھی نہیں آتا۔ انڈہ بھون لیتا ہوں کبھی آلو یا چاول ابال لیتا ہوں ۔ اب آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں سب بندو بست کرلوں گا۔ میں نے اسے تسلی دی۔ بلڈنگ کے بائیں طرف کا دروازہ ایک بڑے ہال میں کھلتا تھا۔ جس میں پرائمری سیکشن کی دو تین کلاسز بیٹھی تھیں ۔ البتہ سامنے والا ہال قدرے چھوٹا تھا۔ کیونکہ اسے کاٹ کے آگے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے گئے تھے۔ ایک میں ہماری چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں اور دوسر اسٹور بنادیا گیا تھا۔ یہ ہال بھی بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پیریڈ بدلا تو میں سعید گل کو چھوڑ کے دوبارہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے جا بیٹھا۔ وہ چلم پینے میں مصروف تھے تھوڑی دیر ان سے گپ شپ ہوئی تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک معقول، صاحب مطالعہ اور سلجھے ہوئے آدمی ہیں ۔ انھیں علامہ اقبال کا کافی کلام از برتھا۔ ہلی ایک چھوٹا سا پرامن لوگوں پر مشتمل پہاڑی گاؤں تھا۔ جس میں ایک مڈل سکول، ایک ڈسپنسری اور دو کریانے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں سکول میں چھٹی ہونے کے بعد میں اور سعید گل ایک کریانے کی دکان پر پہنچ گئے ۔ دکاندار نے گرمجوشی سے ہمارا خیر مقدم کیا۔ وہاں سے میں نے آٹا، دالیں، چینی سبز پتی بھی ، ریڈ اینڈ وائٹ کے سگریٹ اور کچھ ضروری سامان خریدا۔ دکاندار کو بل ادا کرنے لگا تو وہ بولا۔ ابھی رہنے دیں جی۔ جب تنخواہ ملی تو دے دینا۔ بہت بہت شکریہ ۔ جب ضرورت پڑے گی ہم ادھار کر لیں گے لیکن ابھی ہمارے پاس پیسے موجود ہیں ۔ وہ کافی سمجھدار دکاندار تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر ہم نے اس کے پاس ایک بارکھاتہ کھول لیا تو پھر دوسری دکان پر نہیں جائیں گے ۔ واپس آئے میں نے سب سے پہلے آٹا گوندھا۔ ماش کی دال میں سے کنکر چنے ۔ پیاز لہسن اور ٹماٹر کاٹے۔ بڑے ہال میں دیوار کے ساتھ بنے لکڑیوں کے زمینی چولہے میں آگ جلائی ۔ ان کاموں کا مجھے پہلے سے آئیڈیا تھا۔ بہترین کھانا تیار ہو گیا۔ گرم گرم چپاتیاں جب سعید گل کے حلق سے نیچے اتریں تو حیران رہ گیا۔ سعید صاحب ! آپ نے تو کمال کر دیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ آپ کو کھانا کیسے بنا کے دوں گا۔ میں تو اپنا بندو بست بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ ارے فکر مند ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ میں ہر قسم کا کھانا بنا سکتا ہوں ۔ اب دیکھتے ہیں آپ قہوہ کیسا بناتے ہیں ۔ وہ میرا اشارہ سمجھ گیا۔ پہلی بار اس نے قہقہہ لگایا۔ یہ کام تو میں کر سکتا ہوں ۔ رات ہو چکی تھی۔ میں کمرے میں آگیا۔ اندر اندھیرا تھا۔ میں نے ٹارچ جلائی میری چار پائی پر دن کے وقت کوئی نیا بستر رکھ گیا تھا۔ میں نے اسے بچھا کے رضائی اپنے اوپر اوڑھ لی۔ جو پانی کی طرح سیخ تھی تھوڑی دیر بعد سعید گل نے قہوے سے لبالب دو پیالیاں اور لائین میز پر لا کے رکھیں ۔ میں نے ریڈ اینڈ وائٹ کا ایک سگریٹ اسے پیش کیا جسے اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس کی تو عیاشی ہوگئی۔ اس کے بعد میرے اور سعید گل کے بیچ ایک خاموش معاہدہ طے پا گیا۔ جب تک میں وہاں رہا ہم دونوں اس پر قائم رہے۔ جس کے مطابق میں آٹا گوندھتا ، ہانڈی بناتا اور روٹی پکاتا سبزی کاٹنا، آگ جلانا، برتن دھونا اور کھانے کے بعد قہوہ بنانا اس نے اپنے ذمہ لے لیا۔ ہفتہ دس دن کے بعد میں سوجی کا حلوہ یا سویاں بھی بناتا صبح کا ناشہ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے سکول وقت میں دس بجے کے قریب جو چائے سب کے لیے بنتی اسی کو ہم ناشتہ تصور کر لیتے ۔ اکثر رات کا بچا ہوا کھانا دن کے وقت ہمارے کام آتا۔ سعید گل حویلیاں سے آگے رجوعیہ کے قریب کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ شادی شدہ تھا۔ شاید اسے کوئی پریشانی لاحق تھی جس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر کڑھتا ریتا تھا۔ چھٹی کے بعد اکثر وہ چلم اپنے سامنے رکھ لیتا اور اس میں بچے ادھ جلے تمباکو کو جلا کے دھواں کشید کرتا۔ دو ہفتوں کے بعد گھر جاتا۔ ایک دن شدید سر دی تھی باہر بارش کے ساتھ یخ ہوا چل رہی تھی۔ عصر کا وقت تھا ہم دونوں کمرے میں بیٹھے کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس کی نظر سگریٹ کی ڈبی پر جا رکتی تھی۔ اب اگر میں اسے براہ راست سگریٹ کی پیشکش کرتا تو ممکن ہے اسے شرمندگی ہوتی۔ مجھے ایک تجویز سوجھی۔ سعید گل صاحب ! کیا خیال ہے ۔ سگریٹ قہوے سے پہلے پینا چاہیے یا بعد میں؟“ اس نے زور زور سے تین چار قہقہے لگائے ۔ ایسا کرتے ہیں ایک سگریٹ قہوے سے پہلے پیتے ہیں اور ایک سگریٹ قہوے کے بعد ” اگلی صبح صدیق نے مجھے میرا ٹائم ٹیبل دے دیا۔ میرے پہلے دو پیریڈ خالی تھے۔ اسمبلی کے بعد میں بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس جاکے بیٹھ گیا۔ وہ ڈاک سے آنے والا کوئی ہفت روزہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ آپ کی سیٹنگ ہوگئی کسی قسم کی کوئی پریشانی تو نہیں کل میں نے آپ کا بستر بھی بھجوادیا تھا۔ نہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں ۔ سب کچھ ٹھیک ہے ۔ پھر وہ مقامی سٹاف کے ساتھ اپنے علاقے کی سیاسی صورت حال پر گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے پیرڈ کے اختتام کی گھنٹی بجی تو میں وہاں سے اٹھ گیا۔ چھٹی کلاس میں میرا پیرڈ تھا۔ وہیں چند قدموں کے فاصلے پر وہ کلاس زمین پربیٹھی ہوئی تھی۔ میں وہاں پہنچا تو کسی نے چیخ کے کہا۔ کلاس اسٹینڈ سارے بچے پھرتی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں انھیں بیٹھنے کا کہتے ہوئے خود بھی سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مجھے مناسب لگا سب سے پہلے میں مختصر الفاظ میں اپنا تعارف پیش کروں۔ زیادہ تر بچے حیرت سے منہ کھول کے مجھے دیکھ رہے تھے۔ شاید میری عمر کم تھی۔ میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور میں سٹاف میں سب سے چھوٹا تھا یا میرے کپڑے زیادہ سفید تھے ۔ اپنی باری پر پھر بچوں نے اپنا تعارف پیش کرنا شروع کیا۔ ایک کمزور سے بچے نے جب اپنا نام صغیر بتایا تو پیچھے سے ایک خرگوش نما بچے نے کہا۔ استاد جی! اے مارک ٹیلی اے “ تمام کلاس نے قہقہہ لگایا۔ مارک ٹیلی بی بی سی لندن اردو سروس کا نمائندہ خصوصی تھا۔ دنیا میں جہاں کہیں کوئی ہنگامہ ہوتا وہ پہلے سے وہاں موجود ہوتا تھا۔ میں نے صغیر کی طرف بغور دیکھا اس کے کپڑے اور صحت چلا چلا کر بتا رہے تھے کہ یہ کسی غریب گھرانے کا مستقبل ہے۔ دوسرے بچوں کے مطابق علاقے میں جہاں بھی کچھ ہو رہا ہو نجانے اسے کیسے خبر ہو جاتی تھی ۔ ہر سکینڈل کی تفصیلات اسے معلوم ہوتیں ۔ سٹاف میں سے کسی نے بھی اگر کسی سلسلے میں معلومات حاصل کرنی ہوں اس سے رابطہ کرتا۔ تعارف کے بعد میں کھڑا ہو گیا۔ چلیں تھوڑا سا کام کر لیتے ہیں ۔ میں نے چاک کا ٹکڑا اٹھایا اور بلیک بورڈ پر بینگن بنانے لگا۔ دو تین بار مٹا کر نئے سرے سے بنایا لیکن وہ کچھ اور ہی بن جاتا۔ میں نے صغیر کی آواز پہچان لی شکر ہے بلیک بورڈ کی پشت ہیڈ ماسٹر صاحب اور وہاں بیٹھے ہوئے سٹاف کی طرف تھی۔ استاد جی ! کیا بنا رہے ہیں ؟“ کچھ مختلف قسم کی چیز بنانا چاہ رہا تھا لیکن آج ہاتھ ساتھ نہیں دے رہا کل بناؤں گا۔ میں نے بلیک بورڈ صاف کر دیا۔ اس دن تمام کلاسز کے پیریڈز میں نے گپ شپ میں گزار دیے۔ سچ تو یہ ہے میں اندر سے کافی ڈر گیا تھا۔ سکول میں چھٹی ہوئی تو کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اپنے بیگ سے مختلف کلاسوں کے نصاب پر مبنی ڈرائنگ کی بکس نکالیں۔ بڑے ہال میں سٹینڈ کے اوپر بلیک بورڈ سیٹ کیا اور اس پر مختلف اشیاء بنانے کی پریکٹس شروع کر دی۔ گھنٹے دو کی محنت کے بعد میں اس قابل ہو گیا کہ بغیر دیکھے چار پانچ چیزیں بآسانی بنا سکتا تھا۔ اب میرا معمول ہو گیا تھا روز کچھ ڈرائنگز کی مشق کرتا۔ جس کی وجہ سے میں ہر کلاس میں اعتماد کے ساتھ جاتا۔ دو تین کلاسوں کی معاشرتی علوم بھی میرے ذمہ تھی ۔ دو چار روز بعد میرا تھلے کے پاس بیٹھی ہوئی ایک کلاس میں پیرڈ تھا۔ بچے اپنی اپنی ڈرائنگ بک پر کام کر رہے تھے ۔ دن پوری طرح روشن تھا۔ ایک دن پہلے ہونے والی بارش سے فضا صاف تھی۔ منظر دور دور تک واضح نظر آرہا تھا۔ میری توجہ سامنے والے پہاڑ کے دامن میں کندھے سے کندھا ملائے دو مکانوں کی طرف مبذول ہوگئی ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ان گھروں کا صحن ہماری طرف تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو ایک صحن میں کچھ جانور بندھے نظر آئے ۔ دوسرے صحن میں دو مرد اور تین چار خواتین متحرک نظر آئیں ۔ البتہ ایک عورت کچھ زیادہ ہی بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ دوری کی وجہ سے وہ سب کافی چھوٹے چھوٹے نظر آ رہے تھے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا تھوڑے فاصلے پر بیٹھی چھٹی کلاس کا صغیر عرف مارک ٹیلی میرا جائزہ لے رہا تھا۔ جوں ہی پیریڈ ختم ہوا میں سب سے ہٹ کے ایک جگہ بیٹھ کر اپنے ساتھ لائی ہوئی جمیل جالبی کی کتاب ارسطو سے ایلیٹ تک پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ موقع ملتے ہی صغیر میرے پاس آن ٹپکا۔ ” وہ سامنے رشیدہ کا گھر ہے۔ وہ جو پیلے کپڑوں میں گھوم رہی ہے رشیدہ ہے۔ دوسری عورت اس کی بھا بھی ہے۔ یونس کی بیوی ۔ یونس فوج میں نوکری کرتا ہے ۔ آج کل بھگوڑا ہو کر آیا ہوا ہے۔ چار پائی پر بیٹھے ان کے ماں باپ ہیں ۔ رشیدہ کی ایک چھوٹی بہن بھی ہے۔ ٹھیک ہے۔ جو بھی ہوں مجھے کیا۔ صغیر مایوس ہو کے اپنی جگہ واپس جا بیٹھا۔ شاید اسے لگا تھا میں اس کی فراہم کردہ معلومات سے خوش ہوں گا۔ اچھا تو وہ رشیدہ ہے جو ہرنی کی طرح ہر طرف کلانچیں بھر رہی ہے ۔ خود بخود میرے ذہن نے نتیجہ اخذ کیا۔ جس دن بارش ہوتی ہیڈ ماسٹر صاحب ہمارے کمرے کو بطور دفتر استعمال کرتے ۔ باقی سٹاف ممبر اپنا خالی پیریڈ چولہے کے پاس بیٹھ کے گزارتے۔ سارا دن چولہے میں لکڑیاں جلتی
رہتیں ۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ ہال کا اندرونی مجموعی درجہ حرارت بھی تھوڑا نارمل رہا۔ تقریباً ہر روز پی ٹی آئی باری بدل کے ایک کلاس کو کہتا۔ کل ہر بچہ ایک لکڑی لازمی لے کر آئے ۔ آپ سب کو پتہ ہے یہاں باہر سے آئے ہوئے کچھ اساتذہ رہتے ہیں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے ۔ سارے تو نہیں البتہ کچھ بچے ایک آدھ لکڑی کہیں سے اٹھا کر لے آتے۔ اصل بات یہ تھی کہ ہمارا نام استعمال کر کے مقامی اساتذہ اپنی ٹھنڈ کا بندو بست کرتے تھے ۔ سارا دن آگ کے پاس بیٹھ کر وہ ایک ایک لکڑی جلا دیتے تھے۔ انھیں اس بات کا ذرا احساس نہیں تھا کہ ہمارے لیے کوئی لکڑی بچتی بھی ہے یا نہیں ہمیں بھی کبھی اتنی عقل نہیں آئی کہ کچھ لکڑیاں اٹھا کے اپنا کھانا بنانے کے لیے ایک طرف رکھ لیتے کئی بار ایسا ہوا شام کو کھانا بنانے کے لیے ہمارے پاس ایک لکڑی بھی نہیں تھی۔ سعید گل اور میں باہر جاتے اور ادھر ادھر سے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اور تنکے چن کر لاتے۔ سکول کے کچرے میں سے کاغذ اٹھاتے جن کو جلا کے ہم اپنا کھانا بناتے۔ کیسے بے شرم اور بے حس لوگ ہیں ۔ ہمارا نام استعمال کر کے بچوں سے لکڑیاں منگواتے ہیں اور خود استعمال کر کے دفعان ہو جاتے ہیں ۔ انھیں ذرا احساس نہیں کہ بعد میں ہم کنجر کیا زہر بنا کے کھائیں گے ۔ ایسے میں اکثر سعید گل پھٹ پڑتا۔ مجھے بڑا مزہ آتا۔ ایک بار یوں ہوا کہ کھانا بنانے کے لیے لکڑیاں موجود نہیں تھیں ۔ اگلے دن صبح ہم دونوں نے اپنے اپنے گھر جانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ اس لیے کسی تردد میں پڑنے کے بجائے ہم دونوں یہ سوچ کر بھوکے بیٹھ گئے کہ کل راستے میں کچھ کھا لیں گے۔ بھوک نے جب زیادہ زور کیا تو سعید گل کو اور تو کوئی حل نظر نہ آیا وہ بھوک مارنے کے لیے چلم اٹھا لایا اور ادھ جلا تمباکو جلا جلا کے پینے لگا۔ تھوڑی دیر تک میں اسے دیکھتا رہا پھر میں بھی شریک گناہ ہو گیا۔ اس دن خالی پیٹ چلم بھی بڑا مزہ دے رہی تھی۔ ہمارے لیے اس وقت پریشانی دو چند ہو جاتی جب ایسی صورت حال میں باہر بارش ہو رہی ہوتی۔ ہم لکڑیاں تو چن کے لے آتے لیکن بھیگی لکڑیوں کو جلانا اچھا خاصا مشکل کام ہوتا۔ دھوئیں سے ہماری آنکھیں لال ہو جاتیں۔ پھونکیں مار مار کے ہمارا گلا درد کرنے لگتا کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دھواں ہمارے پھیپھڑوں میں بھر گیا اور ہم کھانس کھانس کے ہلکان ہو گئے ۔ ایک بار ہم ایسی ہی صورت حال میں گھرے ہوئے تھے۔ میرے دماغ میں ایک جھماکا ہوا۔ میں آہستہ سے اٹھا اور سٹور میں سے ایک کرسی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ اٹھا لایا۔ سٹور ٹوٹے ہوئے فرنیچر سے بھرا ہوا تھا۔ پہلے تو سعید گل کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ پھر وہ اٹھ کر پاگلوں کی طرح ناچنے لگا۔ کمال ہو گیا۔ بھائی کمال ہو گیا ۔” کرسی کی سوکھی ہوئی ٹانگ کے ساتھ بھیگی ہوئی لکڑیاں بھی سکون سے جلنے لگیں۔ سعید گل کا جوش جب ختم ہوا تو میں نے اسے مخاطب کیا۔ سعید گل صاحب ! تین باتوں کا بڑا ہی خیال رکھنا ہے ۔ ایک، اس بات کا ہم دونوں کے علاوہ کسی کو بھی نہیں پتہ چلنا چاہیے ۔ دو، انتہائی ضرورت کے وقت ہم یہاں سے استفادہ کریں گے۔ تین، یہاں سے ہم جو کچھ بھی اٹھائیں گے اس کا کوئی حصہ بھی باقی نہیں بچنا چاہیے مکمل جلانا ہو گا۔ تا کہ جرم کا کوئی نشان باقی نہ بچے ۔ ہمارے دو تین ماہ قدرے سہولت سے گزر گئے لیکن کب تک۔ ایک دن قارون کے خزانے کو بھی ختم ہونا ہوتا ہے ۔ ٹوٹے ہوئے فرنیچر کے تمام چھوٹے حصے اور پھٹی ہوئی ٹاٹ کے ٹوٹے ختم ہو گئے ۔ پر نالہ واپس اپنی جگہ آگیا۔ کھانا بنانے کے لیے آگ تو جلانی تھی۔ سعید گل سٹور سے ایک تختہ اٹھا لایا۔ وہ کسی بلیک بورڈ کا الگ شدہ حصہ لگتا تھا۔ اسے چیر نے یا توڑنے کے لیے ہمارے پاس نہ تو کلہاڑی تھی اور نہ ہتھوڑی سعید گل نے اسے دیوار کے سہارے ٹیڑھا کر کے رکھا۔ اب وہ ہال کے دوسرے کونے سے بھاگ کر آتا اور اس تختے پر جمپ کرتا۔ اس کی محنت رنگ لائی تختہ ٹوٹ کر چھوٹے بڑے کئی بگڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ مزید کچھ دن سکون سے گزر گئے آخر کار ایک دن ٹوٹا ہوا تختہ بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گیا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق میں نے اس ٹاٹ کا ایک سرا چو لہے میں جھونک دیا جس پر بیٹھ کے میں کھانا بناتا تھا۔ کھانا بن گیا تو میں نے چھری کی مدد سے ٹاٹ کو آگے سے کاٹ کے اس واردات کے نشان مٹائے ۔ ہماری اس دن لاٹری نکل پڑتی جس دن گاؤں میں کوئی فوت ہو جاتا۔ اس دن ہم کھانا نہیں بناتے تھے۔ سکول کا چوکیدار ماتم والے گھر سے تقاضا کر کے سکول میں رہنے والے دو مسافر اساتذہ کے لیے طباق بھر چاول لاتا۔ ہم دونوں خوب ڈٹ کے کھاتے۔ طباق میں ایک چاول تک نہ پچھتا۔ اسی طرح ایک بار گاؤں کی مسجد سے کسی کے مرنے کا اعلان ہوا۔ چھٹی کے بعد ہم دونوں کھانا بنانے کے بجائے سکون سے بیٹھ گئے ۔ پورا گھنٹہ گزر گیا کوئی چاول لے کر نہ آیا۔ سعید گل بے چین ہو کر ہال کے اندر ٹہلنے لگا تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھڑکی سے باہر بھی دیکھ لیتا شاید کوئی آیا ہو۔ لگتا ہے آج وہ الو کے پٹھے ہمیں بھول گئے ہیں ۔ ان کا بیڑا غرق ہو۔ سعید گل سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ وقت تھا کہ گز رہی نہیں رہا تھا۔ اللہ اللہ کر کے مغرب کا وقت ہوا کیا دیکھتے ہیں ۔ چوکیدار بھاگم بھاگ آرہا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چاولوں کا طباق تھا۔ چھٹی ہوتے ہی سکول ایک ویران جزیرہ بن جاتا جس پر دو افراد اپنی الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے ۔ اگلی صبح تک کوئی بھول کر بھی ادھر نہیں آتا تھا۔ قریب کوئی درخت بھی تھا جس پر پرندے آتے چہچہاتے۔ البتہ پہاڑ نے چھوٹی چھوٹی گھاس کی چادر اوڑھر رکھی تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر انار دانے کی جھاڑیاں موجود تھیں۔ جو آنکھوں کو تسلی دیتیں۔ ذرا آگے ایک موڑ مڑتے ہی پانی کا کنواں تھا۔ جہاں سے گاؤں کی خواتین پانی بھرتیں۔ عام طور پر ہمارے پاس پانی موجود رہتا لیکن کبھی کبھار تمام برتن خالی ہو جاتے ۔ سعید گل چھوٹا گھڑاوہاں سے بھر لاتا ۔ جو اس دن کے کھانا بنانے اور برتن دھونے کے لیے کافی ہوتا۔ اس دن بھی پانی ختم ہو گیا۔ سعید گل نے پانی لانے کے لیے چھوٹا گھڑا اٹھایا۔ سعید گل صاحب ! آج میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔ میں ان کے ساتھ ہو گیا۔ آج کنویں کے بجائے چشمے سے پانی لاتے ہیں ۔ میں نے اوپر سے کئی بار دیکھا تھا کہ رشیدہ اور اس کی چھوٹی بہن اپنا اپنا گھڑا ہاتھ میں اٹھائے ایک خاص سمت جاتیں ۔ کچھ فاصلے پر درختوں کا ایک جھنڈ تھا جس میں وہ غائب ہو جاتیں۔ کچھ دیر بعد جب وہ وہاں سے برآمد ہوتیں تو گھڑے ان کے سروں پر ہوتے اور حال متوازن ہو جاتی۔ ہماری منزل اس وقت وہی درختوں کا جھنڈ تھا۔ جس میں شاید آب حیات کا چشمہ ابل رہا تھا۔ اس طرف جانے کے لیے بظاہر کوئی باقاعدہ رستہ یا پگڈنڈی نہیں تھی۔ ہم بغیر کسی رستے کے پہاڑ سے نیچے سرکنے لگے ۔ ہر طرف بادل چھائے ہوئے تھے اور منظر پر خاموشی کا قبضہ تھا۔ بڑا محتاط ہو کے ایک ایک قدم جما جما کے چلنا پڑ رہا تھا۔ پاؤں پھیسلنے کی صورت میں دور تک لڑھکتے چلے جاتے۔ پرامن علاقہ تھا کبھی نہیں سنا تھا کہ یہاں کوئی رستے میں لٹا ہو یا کسی کے گھر چوری ہوئی ہو۔ ہم قدم قدم نیچے اتر رہے تھے ۔ ہم اتنے محتاط تھے کہ صرف اپنے پیروں کو دیکھ رہے تھے۔ جہاں پھسلن زیادہ ہوتی انار دانے کی کسی بھی جھاڑی کا ہاتھ پکڑ لیتے۔ کافی دیر بعد ہمارے قدموں نے ایک برساتی نالے کو چھوا۔ میں نے نگاہ اٹھا کے اوپر دیکھا۔ ہمارا اسکول آسمان کا حصہ لگ رہا تھا۔ سمت کا تعین کر کے ہم درختوں کے جھنڈ کی طرف بڑھ گئے۔ وہاں پتھروں کے بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔ پانی شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔ میں اس کے قریب ہوا تو وہ آئینہ بن گیا۔ دو چار منٹ رک کے ہم نے وہاں آرام کیا ۔ گھڑا دھو یا اس میں پانی بھرا اور درختوں کے جھنڈ سے باہر آگئے ۔ ہم چند قدم ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ رشیدہ گھڑا اٹھائے کلانچیں بھرتی ہمارے پاس سے گزر کے درختوں کے جھنڈ کے اندر داخل ہو گئی اس کے پیچھے پیچھے اس کی چھوٹی بہن بھی اچھلتی کودتی جارہی تھی۔ سعید گل صاحب ! آپ آگے بڑھیں میں دو منٹ میں آتا ہوں “ اس کا جواب سنے بغیر میں واپس درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو گیا۔ رشیدہ چشمے کے کنارے پر پڑے ہوئے ایک پتھر پر بیٹھی تھی اس کی عمر مشکل سے سولہ یا سترہ سال تھی۔ گندمی رنگ اور کانچ کی چوڑیاں بیچنے والیوں جیسا ناک نقشہ تھا۔ کیوں آئے ہو، کیا کام ہے؟“ اس نے قدرے سخت لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ میں چشمے کا پانی پینا بھول گیا تھا۔ اس لیے دوبارہ واپس آیا ہوں ۔ اس کے پاس تانبے کا ایک کٹورا تھا۔ اس نے پانی بھر کے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس کی آنکھیں بھی کٹورے کی طرح بڑی بڑی تھیں جن میں چشمے کے پانی جیسی چمک تھی۔ اس کی چھوٹی بہن دس بارہ سال کی ہوگی۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے پانی پیا اور کٹورا واپس کر کے گولی کی طرح جھنڈ سے باہر نکل گیا۔ سعید گل تک پہنچنے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگا وہ ابھی تک برساتی نالے میں ہی تھا۔ چند قدم مزید آگے بڑھنے کے بعد ہم نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا۔ مسلسل چڑھائی چڑھنے کے لیے اچھے خاصے اسٹیمنا کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ پہاڑ پر چڑھتے وقت پھسلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ایک تو سردی کا موسم تھا اس پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ اس لیے ہم باری باری گھڑا اٹھا کے آسانی سے پہاڑ پر چڑھنے لگے ۔ ابھی ہم نے آدھا ہی سفر طے کیا ہو گا میں نے دیکھا کہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے گالے ہر طرف فضا میں اڑتے ہوئے نیچے گر رہے تھے۔ سعید گل صاحب ! دیکھیں ہر طرف یہ کیا اڑ رہا ہے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔ برف باری شروع ہوگئی ہے ۔ میں نے یہ منظر اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ خالی پیریڈ میں جب بھی میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس بیٹھا۔ وہ اور مقامی سٹاف بیشتر ایک موضوع پر بات کرتے۔ انھیں لگ رہا تھا کہ جلد یہ سکول، ہائی سکول کا درجہ اختیار کرلے گا ! اس کا ایک فائدہ تو طے ہے۔ سکول کو ایک کلرک مل جائے گا۔ جو تمام دفتری کام سنبھال لے گا تنخواہ لینے دوسرے سکول بھی نہیں جانا پڑے گا۔ میں کسی دوسرے سکول میں اپنی ٹرانسفر کروالوں گا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے یہ الفاظ میں پہلے بھی کئی بار سن چکا تھا۔ آپ بھی ادھر ہی رہیں ۔ آپ کے بغیر یہ سکول نہیں چل سکے گا۔ معلم دینیات نے چاپلوسی کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ایسا نہیں ۔ نیا ہیڈ ماسٹر جو ہو گا وہ سترہ گریڈ کا ہو گا۔ میرا اب مزاج ایسا بن چکا ہے میں کسی کے ماتحت کام نہیں کر سکتا ۔ میں وہاں سے اٹھ کے دور جا بیٹھا اور حسب عادت ایک کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ چند سطریں ہی پڑھ پایا تھا کہ قاری اپنی کرسی سمیت میرے پاس آدھمکا۔ دو تین رسمی باتیں کرنے کے بعد کہنے لگا۔ یزید کے لشکر نے امام حسین کو شہید کر کے بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔۔۔۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے قاری کو مزید بات کرنے سے روک دیا۔ قاری صاحب مجھے سمجھ نہیں آتی آپ جب بھی میرے پاس آکے بیٹھتے ہیں کر بلا میں ہونے والے مظالم کیوں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخر آپ کا مقصد کیا ہے ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ میری مشاورت سے ہوا تھا۔ یا میرے اجداد یزید کے لشکر میں شامل تھے ۔ میں آپ کو صاف صاف بتا دیتا ہوں کہ میں خود حضرت علی کی اولاد میں سے ہوں ۔ میرے اجداد ابن حذیفہ ان ہستیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے بعد میں بنوامیہ سے شہدائے کربلا کا بدلہ لیا تھا۔ آپ کو سمجھ نہ آئی ہو تو میں اپنی بات ایک بار پھر دہراؤں؟“ قاری کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ بن کیا گیا ہے۔ نہیں ۔۔ نہیں ۔ میں تو دراصل — قاری آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔
بس بس رہنے دیں ۔ میں وہاں سے اٹھ گیا۔ لیکن کتے کی ٹیڑھی دم کو آج تک کسی نے سیدھی ہوتے نہیں دیکھا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کوئی گونگا شاعر بھی کہیں چلا جائے تو دو دن کے بعد ارد گرد کے لوگوں کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ نو وارد شاعر ہے۔ یہی حال میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔ میں روزانہ شام کو اپنے ساتھ لائے ہوئے فلپس کے ایک چھوٹے سے ٹرانزسٹر پر خبریں سنتا تھا۔ فروری کے آخری عشرے کی کسی تاریخ کو ریڈیو سے جوش ملیح آبادی کے مرنے کی خبر نشر ہوئی ۔ ایسا لگا کوئی بہت قریب کا بزرگ وفات پا گیا ہو گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دکھ کچھ زیادہ ہی تھا۔ پوری شام سوگ میں گزری کئی بار آنکھوں سے آنسوں بھی ٹپکے کھانا بھی ٹھیک طرح سے نہ کھایا گیا۔ اگلے دن خالی پیریڈ کے دوران ایک جانب بیٹھا میں کچھ لکھ رہا تھا۔ قاری مٹکتا ہوا میرے پاس آیا۔ سنا ہے جوش مردار ہو گیا ہے ۔ آپ تو خود شاعر ہیں ۔ آپ کو تو پتہ ہوگا وہ کافر تھا ؟“ میرے اندر کو برے سانپ کی طرح دو خواہشات نے سر اٹھایا۔ ایک تو یہ کہ قاری کو اس کی داڑھی سے پکڑ کے اس کے منہ پر اتنے زور سے تھپڑ ماروں کہ چٹاخ کی آواز سامنے والے پہاڑ سے ٹکرا کے واپس آئے ۔ دوسری یہ کہ اس کے مسلک کے کسی تگڑے ملا کو پورے والیوم سے پینج سری گالی دوں۔ میں ایسا نہ کر سکا۔ پیریڈ بدلنے کی گھنٹی بجی میں وہاں سے اٹھ گیا۔ سکول کو چھٹی ہوئی تو دل بہت بوجھل تھا۔ بے چینی بڑھنے لگی۔ سعید گل اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ میں سکول سے اتر کے پہاڑ پر بے مقصد گھومنے لگا تھوڑا آگے ایک موڑ تھا۔ دوسری طرف گیا تو اچانک رشیدہ میرے سامنے آگئی۔ السلام علیکم ! میرا نام رشید ہ ہے ۔ جلدی میں مجھ سے مصافحہ کر کے وہ آگے بڑھ گئی۔ بات سنو ۔ میں نے اسے روکنا چاہا۔ چلتے رہو۔ درجن سے زیادہ آنکھیں اس وقت ہمیں دیکھ رہی ہوں گی۔ میں نے دیکھا ہر چٹان اور ہر جھاڑی کے پیچھے سے دو آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں ۔ مارچ کے مہینے میں ہمارے سکول کی مڈل سیکشن سڑک کے ساتھ بنی کچی عمارت میں منتقل ہو گئی ۔ سکول کے ساتھ ہی ڈسپنسری بھی تھی۔ خاردار تاروں کی مدد سے دونوں کے صحنوں کی حدود بندی کی گئی تھی۔ اس میں کام کرنے والی نرس کا تعلق ہری پور سے تھا۔ میرے پہلی بار یہاں ہلی پہنچنے کے بعد شاید تیسرا دن تھا۔ ایک جوان لڑ کا سکول میں میرے پاس آیا۔ آپ کو مس صاحبہ بلا رہی ہیں ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ کون مسں صاحبہ؟ میں تو یہاں کسی کو نہیں جانتا۔ وہ ڈسپنسری میں نرس ہیں۔ کہہ رہی ہیں آپ ان کے شہر کے ہیں ۔ اس لیے بلا رہی ہیں ۔ میں اس کے ساتھ ہو گیا۔ وہ مختلف راستوں سے گزرتا ہوا گاؤں کے ایک چھوٹے سے مکان کے باہر جا پہنچا۔ باہر کا دروازہ بجا کے اس نے آواز دی۔ مس صاحبہ ! سعید صاحب آئے ہیں ۔ ایک عورت دروازے پر آگئی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ وہ نرس کے بجائے کوئی دائی نما ماسی لگ رہی تھی۔ اس کی عمر کم از کم چالیس سال تو ضرور ہو گی۔ یعنی میں اس کی آدھی عمر کا تھا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی من ہی من میں جتنے لڈو پھوٹنے والے تھے غائب ہو گئے ۔ رسمی سلام و دعا کے بعد کہنے لگی۔ میں دیکھنا چاہ رہی تھی میرے شہر سے یہاں کون آیا ہے ۔ میرے منہ کا ذائقہ مزید خراب ہو گیا۔ شاید وہ قیافہ شناس تھی۔ لمبی لگائے بغیر اس نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ بچوں کے امتحانات ختم ہو چکے تھے ۔ سعید گل معلم دینیات اور میں سکول کے صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کچھ بڑے بچوں کو لکڑی کی بندوقیں دے کر خالی روڈ پر لیفٹ رائٹ کروا رہا تھا۔ اچھی خاصی مٹی اڑ رہی تھی شکر ہے ہوا کا رخ دوسری طرف تھا ورنہ ہم تینوں بھوت بن چکے ہوتے۔ دو دن بعد کسی افسر نے آنا تھا۔ جس کے استقبال کے لیے تیاری کی جارہی تھی معلم دینیات نے کسی پیغمبر کا بہت ہی دلچسپ قصہ چھیڑ دیا۔ ہم دونوں پوری طرح اس میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اچانک ڈسپنسری سے وہی نرس باہرنکلی اور سکول کے احاطے میں داخل ہو گئی۔ ڈسپنسری اور سکول کے بیچ ایک جگہ خار دار تار موجود نہیں تھی ۔ ہم تینوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ اس کے ایک پاؤں میں چاندی کی پازیب تھی۔ وہ بڑے مزے سے ہمارے قریب سے خراماں خراماں گزر کے سکول کے احاطے سے ہوتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ہم تینوں کو جیسے کسی نے ہپناٹائز کر دیا تھا۔ ہمیں اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ” لا حول ولاقوة الا باللہ معلم دینیات نے اس طلسم کا توڑ کیا۔ ہم تینوں واپس اپنے ماحول میں لوٹ آئے۔ تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ آپ کسی پیغمبر کا قصہ بیان کر رہے تھے ۔ ہم تینوں نے اپنے اپنے ذہن پر پورا زور دیا لیکن وہ واقعہ یاد نہ آیا۔ دو دن گزر گئے ۔ باہر کچے راستے پر پانی کا ہلکا چھڑکاؤ کر دیا گیا۔ تا کہ آنے والے معزز مہمان گرد سے محفوظ رہیں۔ گاؤں کے پندرہ بیس سر کردہ لوگ آچکے تھے ۔ دس بجے کے قریب کسی نے اعلان کیا کہ ڈائرکٹر صاحب کی گاڑی آرہی ہے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے لوگ سڑک کے کنارے قطار بنا کے کھڑے ہو گئے ۔ جونہی ڈائرکٹر صاحب نے زمین پر قدم رکھا پی ٹی آئی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی دو نالی بندوق سے دو ہوائی فائر کیے ۔ شاید اس کے پاس دو کارتوسوں کا ہی کو ٹہ تھا۔ سکول کے لڑکوں نے ادھر گارڈ آف آنر پیش کرنے کی ابتدا کی ، ادھر گاؤں کے مراثیوں نے ڈھول پیٹنا شروع کر دیے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب آگے بڑھے اور مصافحے کے بعد ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا۔ ان کی معیت میں کچھ اور لوگوں نے بھی بار ڈالے ۔ قطار میں کھڑے تمام سٹاف اور دوسرے لوگوں سے وہ ہاتھ ملاتے ہوئے سکول کے احاطے میں داخل ہو گئے۔ کوئی ان پر گل پاشی میں مصروف تھا۔ ان کے ساتھ دو تین اور لوگ بھی تھے۔ یقینا وہ ان کا ماتحت عملہ تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب انھیں اپنے دفتر میں لے گئے ۔ سب سے پہلے ان کی چائے، بسکٹ اور کیک سے تواضع کی گئی۔ پھر انھوں نے صحن میں آکے مختصر خطاب کیا۔ کچھ لوگوں سے ان کے مسائل کے حوالے سے درخواستیں وصول کیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ہیڈ ماسٹر صاحب اور اہل علاقہ کی تعریف کی۔ خوشخبری سنائی کہ جلد ہی یہ سکول اپ گریڈ ہو جائے گا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ اتنے میں کھانا بھی تیار ہو چکا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب انھیں لے کے ایک کمرے میں چلے گئے جہاں دسترخوان بچھے ہوئے تھے۔ معززین علاقہ بھی کھانے میں شریک تھے مہمان خوشی خوشی رخصت ہوئے ۔ انھیں ابھی ایک اور سکول کا دورہ کرنا تھا فنکشن بہت کامیاب رہا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سرشار تھے۔ کھانا کم پڑنے کی وجہ سے کچھ سٹاف ممبران بھوکے رہ گئے تھے جن میں سعید گل اور میں بھی شامل تھے ۔ مہینے کے آخر میں تخواہ آئی تو صدیق نے اس فنکشن کے کھاتے میں ہر سٹاف ممبر کی تنخواہ میں سے پندرہ روپے کاٹ لیے۔ سعید گل کو آگ لگ گئی۔ چار سو پچہتر اس کی ٹوٹل تنخوا تھی۔ وہ مشکل سے گھر چلا رہا تھا۔ پندرہ روپے کٹنے سے اس کا سارا بجٹ خراب ہو گیا تھا۔ وہ پھٹ پڑا۔ اب ان پیسوں کو لے کر میں گلدان میں سجادوں ؟“ اپریل کا مہینہ چڑھا تو رات کو ہم چار پائیاں باہر تھلے پر بچھاتے اور رضائی اوڑھ کے گپیں مارتے ہوئے مزے سے سو جاتے میٹھی میٹھی ٹھنڈ میں خوب نیند آتی ۔ اس طرح ایک رات نارمل گفتگو کے دوران سعید گل نے مجھ سے عجیب سوال کر ڈالا۔ آپ کا کیا خیال ہے شادی کے وقت لڑکیاں کنواری ہوتی ہیں؟“ کیوں نہیں ۔۔۔۔ بالکل کنواری ہوتی ہیں ۔۔۔۔ کیوں آپ کو اس میں کوئی شک ہے؟“
شک نہیں ۔۔ مجھے تو یقین ہے کوئی بھی لڑکی کنواری نہیں ہوتی ۔“ یہ تو آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ چلیں میں اس حد تک تو مان سکتا ہوں کہ سو میں سے کوئی ایک لڑکی ایسی ہوگی۔ میرے حساب سے تو ایک فیصد بھی بہت زیادہ ہے ۔ میں نے تیز لہجے میں جواب دیا۔ آپ کو اندازہ نہیں یہ اوپر سے جو اتنی معصوم نظر آتی ہیں اصل میں ایسی ہیں نہیں ۔ یہ اتنی مہارت سے اپنا کام دکھاتی ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی ۔ سعید گل نے کہا۔ دیکھیں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ معصوم شکل والی لڑکیاں اندر سے بہت چالاک ہوتی ہیں تو بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بد چلن ہیں ہمیں اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اندازوں کے بجائے ایک معقول راستہ اپنانا ہوگا۔ ہمارا معاشرہ ایک مذہبی اور مشرقی معاشرہ ہے۔ یہاں ایک نظام کے تحت لڑکی کی عصمت کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ ہر وقت اس پر کسی نہ کسی کا پہرہ رہتا ہے۔ اس کی ماں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بیٹی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی آنکھ سے اوجھل نہ ہو۔ اسے اکیلے کہیں آنے جانے کی آزادی نہیں۔ پھر اس کی تعلیم و تربیت اس ڈگر پر ہوتی ہے کہ اس کے لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ پکڑے جانے کی صورت میں بہت بڑی رسوائی ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ایک آدھ ہی ہوگی جو بخوشی اپنا منہ کالا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہو گئی۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایک ہی ہو گی جو جذبات کی رو میں بہہ کے اپنے لیے پچھتاوے کا سامان اکٹھا کرتی ہوگی ۔ میں نے مدلل جواب دیا۔ آپ کا تجزیہ خوش فہمی پرمبنی ہے ۔ آپ کی نظر میں صرف وہ اعداد و شمار ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ظاہر ہو جاتے ہیں ورنہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے معاملات کو پورے وسائل سے دبا دیا جاتا ہے۔ ہزاروں کیسوں میں سے کوئی ایک سامنے آتا ہے ۔ پھر آپ ان کیسوں کے بارے میں کیا کہیں گے کہ محرم رشتوں نے اپنے گھر کی عصمت لوٹ لی ۔ ہمارا معاشرہ گراوٹ کی اس انتہا پر ہے کہ مردہ لڑکیوں کی قبروں میں گھس کے ریپ کیا جا تا رہا ہے ۔ لڑکیاں باپ، بھائی چچا، ماموں اور کزنز الغرض کسی سے بھی محفوظ نہیں ثبوت کے طور پر کسی دن کا کوئی اخبار اٹھا کے لکھ لیں ۔ سعید گل نے کہا آپ اس معاملے میں انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں کسی مفروضے کی بنیاد پر ہی اگر ہم نے کوئی نتیجہ اخذ کرنا ہے تو کیوں نہ ایک مثبت رویہ اپنائیں ۔ اخبارات ہی کو ہم بنیاد بنا لیں ہمارے صوبے کی کل آبادی کم از کم تین کروڑ تو ہوگی ہی نا۔ اخباری ڈیٹا اکٹھا کریں۔ چھ ماہ میں کتنے کیس سامنے آئے ہوں گے ،بیس میں اسے پانچ گنا کر دیتا ہوں ۔ آپ کی خاطر دس گنا کر دیتا ہوں ۔ دو سو ہوئے ۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جو نہیں ہونا چاہیے لیکن تین کروڑ کے سامنے بہت ہی چھوٹا۔ پرینسٹیج تو نہ ہونے کے برابر فطرت کا اپنا ایک اصول ہے۔ جب آپ کوئی جرم کرتے ہیں ضرور کہیں کہیں اس کی سزا کا بندو بست بھی موجود ہوتا ہے۔ پچھلی قوموں نے جب بھی زندگی کے کسی معاملے میں اجتماعی حیثیت سے تجاوز کیا ان پر عذاب مسلط کر دیا گیا۔ زمین تنگ کر دی گئی۔ قدرت ایک حد تک برداشت کرتی ہے پھر ترازو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے ۔ اس لیے آپ کا موقف کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ۔ میں نے اٹل لہجے میں کہا۔ اگر آپ کا ایسا کوئی ذاتی تجربہ ہے تو اسے پورے معاشرے کے سر تھوپنا صرف اور صرف ایک نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ اب مجھے اس کی مستقل اداسی اور اندر ہی اندر کڑھنے کی وجہ سمجھ آنے لگی تھی۔ لیکن میں نے ضبط سے کام لیا اور بات جاری رکھی۔ چلیں تھوڑی دیر کے لیے میں آپ کا موقف درست مان لیتا ہوں ۔ پھر ہم دور کیوں جائیں ۔ دوسروں کے گھروں میں جھانکنے کے بجائے مجھے اور آپ کو اپنے اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہیے ۔ ذرا تصور کریں آپ گھر میں موجود ہیں ۔ پاس بیوی، بہنیں، ماں، بھانجیاں بھتیجیاں ، پھوپھیاں ، خالائیں یا ان کی بیٹیاں بیٹھی ہوں ۔ آپ کے موقف کے مطابق ان کے ساتھ آپ کا والد، چچا، ماموں، پھوپھا ، خالو، بھائی، بھانجا یا بھتیجا اس طرح کی غلیظ حرکت میں ملوث ہو ۔ اور یہ سب بھی آپ کا موقف تسلیم کرتے ہوئے دوسروں کے بارے میں مشکوک ہوں ۔ آپ یا دوسرا کوئی کتنی دیر وہاں بیٹھ سکے گا۔ گھر کا تصور نا پید ہو جائے گا۔ یہاں میں ایک اور ۔ ۔ میری بات ادھوری رہ گئی۔ چاند کی روشنی میں ہم دونوں نے دیکھا کہ کوئی سکول بلڈ نگ کے کونے سے ہمیں دیکھ کے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ میں دیکھتا ہوں ۔ میں نے سرگوشی کی۔ آہستہ آہستہ میں چلتا ہوا بلڈنگ کے کونے کے پاس پہنچ گیا۔ کوئی بھاگ کے بلڈنگ کی پچھلی طرف بڑھا۔ میں اس کے پیچھے تھا۔ آگے جا کے وہ رک گیا۔ میں نے اسے دبوچ لیا۔ اس سے پہلے کہ میں سعید گل کو آواز دیتا یا چیخ چیخ کے چور چور کا شور مچاتا۔ مجھے احساس ہو گیا۔ یہ کوئی لڑکی ہے۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئی ہو؟” میں نے سرسراتے لہجے میں پوچھا میں رشیدہ ہوں تم سے ملنے آئی ہوں۔ سوچا بےچین ہو رہے ہو گے ۔ رشیدہ نے عام سے انداز میں جواب دیا۔ بھاگنے کی وجہ سے ہم دونوں کے سانس پھولے ہوئے تھے۔ ”وہ تو ٹھیک ہے ۔ رات کے وقت تم پہاڑ پر چڑھ کے اتنی دور کیسے آگئیں۔ پیچھے کسی کو پتہ چل گیا تو ؟“ یہ پہاڑ تو میرے آگے پندرہ منٹ کی مار ہے۔ پچھے کسی کو نہیں پتہ چلے گا۔ میں کون سی پوری رات کے لیے آئی ہوں ۔ اچھا اب میں چلتی ہوں ۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کے وہیں زمین پر بٹھا لیا۔ اس کے بازو کسی ریسلر یا باڈی بلڈر کے بازوؤں کی طرح سخت تھے۔ جلدی میں پہاڑ چڑھنے کی وجہ سے مچھلیاں ابھری ہوئی تھیں شکر ہے اس نے مجھے جپھی نہیں ڈالی میری پسلیاں چٹخا دیتی۔ مجھے اس کا فوج سے بھاگا ہوا بھائی یاد آگیا۔ دو چار منٹ تو رکو ۔ چلی جانا ۔ اتنی دور سے آئی ہو کچھ وقت لے کر آتیں ۔ پھر کسی دن آؤں گی ۔ رشیدہ نے رسانیت سے کہا۔ ایسا کرنا۔ جمعہ کی رات آنا۔ میرا ساتھی اپنے گھر گیا ہوگا۔ ہم تسلی سے آئندہ کی بات کریں گے ۔ آئندہ کی کون سی بات ۔ رشتہ بھیجنے کا خیال ہے؟ رشیدہ نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا اس میں کون سی برائی ہے۔ کیا تم نہیں چاہتیں؟ میں نے پوچھا ایسا نہیں ممکن ۔ میرا بھائی کسی رشتہ دار کے ساتھ مجھے رخصت کرے گا۔ اس کی آواز میں دکھ کی آنچ تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اس کے کھردرے ہاتھوں سے میرے ہاتھ کافی چھوٹے تھے۔ اپنے اندر ہمت پیدا کرو اور میرے ساتھ ہری پور چلو۔ پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ میں نے کہا۔ ابھی ممکن نہیں ۔ بابا جی کے میلے کے بعد دیکھیں گے ۔ باباجی ! یہ کون ہیں؟“ میں نے استفسار کیا۔ بابا جی کا مزار گاؤں کی دوسری طرف ہے۔ کچھ دنوں بعد ان کا میلہ ہے۔ مجھے ایک منت مانگنی ہے ۔ شاید وہ عرس کو میلہ کہہ رہی تھی۔ اچھا۔۔۔ کیسی منت ۔۔۔ مجھے بھی تو کچھ بتاؤ ؟“ میں نے پوچھا۔ کی ہر بات تمہیں بتانا ضروری ہے۔ بس ایک ہے۔ یوں سمجھو تمہارے لیے کچھ ہے۔ پھر بتاؤں گی ۔۔۔۔ اچھا میں چلتی ہوں باقی باتیں جمعہ کے روز کریں گے ۔ وہ چھلاوے کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے غائب ہوگئی ۔ میں دبے قدموں واپس اپنے بستر پر آئے لیٹ گیا۔ سعید گل کے خراٹے فضا کو آلودہ کر رہے تھے ۔ جمعے کے دن وہاں رکنے کے بجائے میں ہری پور چلا گیا۔
اتوار کو میرے پہلے دو پیریڈ خالی تھے۔ میں سب سے دور ایک کرسی پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھنے میں غرق تھا۔ صغیر عرف مارک ٹیلی میرے سر پر آن کھڑا ہوا۔ استاد جی! آپ کے لیے ایک پیغام ہے ۔ کیسا پیغام؟“ میں نے اُس سے پوچھا۔ اس نے اردو کی کاپی میں سے پھٹا ایک تہہ شدہ کاغذ مجھے دے دیا۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا لکھا تھا۔ تم بڑے جھوٹے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ رشیدہ وہ تو ان پڑھ ہے ۔ رقعہ کیسے لکھ سکتی ہے؟“ میں حیران ہوا۔ اس کے کہنے پر میں نے یہ لکھا ہے ۔ صغیر نے جواب دیا۔ آئندہ اگر کسی کا پیغام لے کر میرے پاس آیا تو میں مار مار کے تیری تشریف لال کر دوں گا۔ دفع ہو۔ میرا اگلا پیریڈ ساتویں میں معاشرتی علوم کا تھا۔ ترقی کر کے صغیر بھی ساتویں میں پہنچ چکا تھا۔ میں نے چھوٹے موٹے سوال پوچھنے شروع کر دیے۔ صغیر کو کوئی جواب معلوم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اس کی اچھی طرح کھنچائی کی۔ اس کے ساتھ اگر میں یہ رویہ نہ رکھتا تو وہ پورے خطے میں میرا چن چڑھا دیتا۔ میرا ریزلٹ آیا تو میں آدھا انجنیئر بن چکا تھا۔ رائٹر تو میں پہلے کا تھا ہی۔ مجھے یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ باقی سٹاف کا مطالعہ میرے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اس پر اندھوں میں کا نارا جائی پھبتی کستا۔ اس دن معلم دینیات کو نجانے کیا سوجھی ۔ دو تین سٹاف ممبران کے سامنے مجھے کہہ دیا۔ ڈرائنگ ماسٹر صاحب ! یہ جو آپ نے سر پر بال رکھے ہوئے ہیں غیر اسلامی ہیں ۔ کیوں مولانا! میرے بالوں کے متعلق کوئی نئی آیت اتری ہے یا آپ نے کوئی گم شدہ حدیث دریافت کر لی ہے؟“ میں نے بھی اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اسے مجھ سے کم از کم اس رد عمل کی توقع نہیں تھی۔ مذہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ بالوں کے متعلق واضح احکامات موجود ہیں ۔ معلم دینیات نے اپنے لہجے کو معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ دیکھیں مولانا! جہاں تک میرا مطالعہ ہے۔ قرآن پاک میں بالوں کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا ہوا ۔ اسی طرح حدیث میں بھی کوئی واضح ہدایات موجود نہیں مختلف علماء کی الگ الگ آراء موجود ہیں ۔ سر کے بال اور داڑھی مونچھیں مرد کی زینت کے لیے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کو اپنے چہرے اور قدبت کی مناسبت سے سر پر ایسے بال اور منہ پر داڑھی رکھنی چاہیے کہ دیکھنے والے کو وہ بھلا لگے ۔ اسلام مذہب نہیں دین ہے ۔ دو رکعات کے ملاؤں نے اسے مذہب بنا کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سارے اسلام کے ٹھیکیداروں نے اپنا حلیہ ایسا بنایا ہوا ہوتا ہے جو دوسرے مذاہب یا ادیان میں ان کے شیاطین کا ہے۔ اس شباہت کے بارے میں بھی تو کوئی کلام کرے۔ اپنے آپ کو متوازن رکھیں ۔ اب اگرکسی کا چہر لمبوتر اور داڑھی پتلی ہے تو اسے چھوٹی داڑھی رکھنی چاہیے ۔ زیادہ لمبی داڑھی کے ساتھ وہ ملا دو پیازہ لگے گا۔ معلم دینیات میرے اس وار سے تلملا کے رہ گیا۔ سعید گل نے بڑی مشکل سے ہنسی روک بھی دی۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ اسلام میں کفار اور مشرکین کی شباہت اختیار کرنے سے ضرور منع کیا گیا ہے لیکن میرے جیسے بال تو شہر میں ہر تیسرے آدمی نے رکھے ہوئے ہیں۔ پھر شباہت سے مراد ان کا ایسا مخصوص لباس علیہ اور حرکات و سکنات ہیں جن کا تعلق ان کی عبادات یا مذ ہبی رسوم سے ہے ۔ یہاں مذہبی ۔ پاکستان میں مسلمان، ہندو، عیسائی سکھ اور مرزائی ہیں ۔ عام طور پر سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ اس کا تعلق علاقے اور مقامی ثقافت سے ہے ۔ اسلام یہ دیکھتا ہے کہ اس لباس میں عریانی تو نہیں ۔ اگر گل میں وہ کتاب لے آؤں جس میں وہ احکامات موجود ہیں تو پھر ؟ معلم دینیات نے بھر پور اعتماد سے اپنا دفاع کیا۔ اگر آپ کوئی ایسی کتاب لے آتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کے حوالوں سے سر کے بالوں کی لمبائی کے متعلق کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو میں آپ کی طرح اپنا سر مونڈوا دوں گا۔ میں نے جواب دیا۔ معلم دینیات ایک چٹان کی طرح اپنے روایتی موقف پر ڈٹا ہوا تھا۔ اگلے دن وہ کسی نا معلوم مولوی کی رسالہ نما ایک پرانی کتاب اٹھا لایا بوسیدگی کی وجہ سے جس کے اوراق پیلے پڑ چکے تھے ۔ اس کا جلد ان رضائی کے کپڑے سے بنایا گیا تھا لیکن وقت نے اس کے تمام رنگ اور نقش و نگار معدوم کر دیے تھے۔ معلم دینیات نے بڑی احتیاط سے کتاب کو ایک جگہ سے کھولا اور اسے میرے حوالے کر دیا۔ میں نے اس کی بتائی ہوئی تحریر پڑھی ۔ صاحب کتاب نے بغیر کسی حوالے کے اپنی رائے دے رکھی تھی۔ مولانا! پہلی بات تو یہ ہے میں اس مولوی کو جانتا ہی نہیں جس کی یہ کتاب ہے۔ چلیں اس کو بھی چھوڑیں۔ اس نے بغیر کسی حوالے کے محض اپنی رائے دی ہے۔ جو اس کے نزدیک افضل ہے کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں لگتا ہے آپ نے اسے توجہ سے نہیں پڑھا۔ مصنف خود بھی اپنی رائے پر مصر نہیں ۔ پھر آپ کیوں اتنا اصرار کر رہے ہیں ۔ میں نے معتدل انداز میں کہا۔ لوگوں کو حق کا راستہ دکھانا ہم علماء کا کام ہے ۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ دین کے معاملے میں من مانی کریں ۔ معلم دینیات نے جواب دیا آپ کون سے علماء کی بات کر رہے ہیں آپ لوگوں نے تو سرسید ، علامہ اقبال اور قائد اعظم تک کو نہیں بخشا یہاں لوڈ سپیکر آیا تو آپ علماء نے فتویٰ دیا کہ اس میں سے شیاطین کی آوازیں آتی ہیں
اس لیے اس کا استعمال حرام ہے۔ آج کل سب سے زیادہ علماء اسے استعمال کر رہے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کو ختم ہوئے ابھی ساٹھ ستر سال نہیں ہوئے ۔ وہاں کے علماء نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ پریس مشینیں پلید ہیں ۔ اس لیے ان کا استعمال جائز نہیں کہہ رہے تھے ہمارے کاتب باوضو ہو کے کتابیں لکھتے ہیں۔ پھر نتیجہ وہی نکلا ایسے میں جو نکلنا چاہیے تھا۔ ان کے کا تب وضو کرتے رہ گئے اور یورپ جدید مشینوں پر کتابیں چھاپتے اور نئی درسگامیں کھو لتے ہوئے پوری دنیا پر قابض ہو گیا۔ اس طرح کی کئی اور مثالیں دی جاسکتی ہیں تسخیر کائنات کا کام اللہ نے مسلمانوں کے ذمہ لگایا تھا لیکن غیر مسلم کر رہے ہیں ۔ پھر یہ کون سا حق کا راستہ ہے کہ میرا سر مونڈنے کے لیے قرآن اور حدیث کے نام پر آپ اپنے مرضی کے ایک مولوی کی کتاب اٹھا لائے ہیں ۔ جسے آپ قرآن اور حدیث کے احکامات کہہ کے ساری زندگی سادہ لوح ان پڑھ لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ معلم دینیات بھڑک اٹھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا عصا میرے سر پر مار کے کوئی معجزہ دکھاتا، قاری اور سعید گل بیچ میں آگئے ۔ اگلا دن جمعرات کا تھا۔ میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس جا پہنچا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ! کل یہاں میرا آخری دن ہے ۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولانا نے میرے ساتھ کتنی بد تمیزی کی ہے ۔ اب یہاں سے میرا جی اٹھ گیا ہے ۔ میں تو ایسا مشورہ نہیں دوں گا آپ تسلی سے اپنا کام کریں ایسی باتوں کی پروا کریں گے تو ساری زندگی کہیں نہیں ٹک سکیں گے ہر جگہ اور ہر آفس میں کوئی نہ کوئی آپ کو ایسا مل جائے گا کسی کی باتوں کی وجہ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑا چلانا کوئی سمجھداری کی بات نہیں ۔ میرا ڈپلومہ ہو گیا ہے اب مجھے ویسے بھی کہیں نہ کہیں نوکری مل جائے گی ایسے لوگوں میں کام کرنا میرے لیے ممکن نہیں ۔ آپ نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھا میں آپ کا شکر گزار ہوں ۔ ” میری اب بھی یہی رائے ہے باقی آپ پڑھے لکھے سمجھدار ہیں ۔ اپنے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے دھیمی آواز میں کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد پرائمری سیکشن کا ایک ٹیچر خلیل الرحمن عباسی میرے پاس آگیا اور پوچھنے لگا۔ سنا ہے کل آپ جا رہے ہیں۔ آج رات کا کھانا آپ میرے ساتھ تناول کریں میں اور سعید گل جب خلیل الرحمٰن عباسی کے ہاں سے رات کا کھانا کھا کے نکلے تو واپسی کے راستے پر میں نے اسے کہا ۔ سعید گل صاحب ! مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی خلیل صاحب سے بھی میرے ذاتی تعلقات نہیں رہے۔ پھر انھوں نے یہ دعوت کیوں کی ہوگی ؟ اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ وہ کافی فریش تھا۔ اس نے ایک بار بھی مجھے نہیں کہا۔ آپ نوکری چھوڑ کے کیوں جارہے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہر جگہ ہوتے رہتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے اس دعوت کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ اپنے فیصلے کو کہیں بدل نہ دیں۔ آپ کو پکا کیا گیا ہے ۔ سعید گل نے یقین بھرے انداز میں جواب دیا۔ ”و ہی نا لیکن میں ویسے بھی اپنا ارادہ بدلنے والا نہیں ہوں ۔ ایک اور بات ، یہ تو وہ لوگ ہیں جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو سٹاف کی طرف سے مجھے کوئی ویل کم پارٹی بھی نہیں دی گئی تھی۔ جب کہ یہ ہر سکول کی روایت ہے کہ آنے اور جانے والے کو پارٹی دی جاتی ہے ۔ بالکل۔۔۔۔ انھوں نے مجھے بھی ویل کم پارٹی نہیں دی تھی ۔ جمعہ کی صبح میں نے اپنا تمام سامان سمیٹ کے بیگ میں رکھا۔ اب میں ہمیشہ کے لیے وہاں سے رخصت ہونے کے لیے تیار تھا۔ چند لمحوں کے لیے تھلے پر کھڑے ہو کر میں نے سامنے والے پہاڑ کے دامن میں موجود کندھے سے کندھا ملائے دو گھروں کو دیکھا۔ ایک کے صحن میں دو تین خواتین متحرک نظر آئیں ۔ اچھا سعید گل صاحب اجازت کوئی کمی بیشی ہوئی ہو تو اس کے لیے خلوص دل سے معذرت چاہتا ہوں ۔
ارے ایسا کچھ بھی نہیں۔ میں آگے تک ساتھ چلوں گا۔“ سعید گل نے پیشکش کی۔ اس نے میرا بیگ اپنے کندھے سے لٹکا لیا۔ ہم پگڈنڈی سے چلتے ہوئے کچی سڑک پر آ گئے۔ ہمارا رخ کوہالہ بالا کی طرف تھا۔ وہیں سے مجھے کوئی گاڑی ملنی تھی۔ “سعید گل صاحب ! آپ کو یاد ہے ایک بار ہم کوہالہ سے جب اکٹھے آرہے تھے تو یہیں کسی جگہ کچھ خواتین نے مجھے گلے لگایا تھا اور پر جوش انداز سے میرا منہ بھی چوما تھا۔ کچھ خوبصورت لڑکیوں نے میرے ساتھ ہاتھ بھی ملائے تھے اور ان کے ساتھ آئے ہوئے ایک مرد نے میرا بیگ اٹھا لیا تھا۔ ” ہاں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ ہمارے پیچھے جو جنج آرہی تھی ہم اس کے ساتھ ہیں۔ مجھے تو کسی نے لفٹ ہی نہیں کروائی۔ انہیں لگا میں گاؤں کا نائی ہوں ۔ وہ ہنسا۔ ہم خوش گپیوں میں اتنے مگن تھے تھوڑی دیر کے لیے بھول ہی گئے کہ چند گھڑیوں کے بعد ہم نے ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے۔ دیودار کے جھنڈ میں داخل ہوتے ہی میں کھڑا ہو گیا۔ بس۔۔۔ اس سے آگے آپ نے نہیں جانا ۔ میں نے سعید گل کے کندھے سے بیگ اتار لیا۔ وہ میرے گلے لگ کے رونے لگا۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے پوری کوشش کی۔ میری آنکھوں سے ایک آنسو نہ ٹپکا۔ مجھے شرمندگی ہورہی تھی۔ وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔ میں پیچھے بھوکا مر جاؤں گا۔ مجھے تو کچھ پکانا بھی نہیں آتا۔ میں نے اسے گلے سے الگ کیا۔ تیز تیز چلتے ہوئے موڑ مڑ کے پہاڑ کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ اس دوران میں نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.