
پچھلے سال جب میں ڈالڑی گیا تو میں نے دیکھا کہ گاؤں کا تقریباً زیادہ تر حصہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ اکا دکا گھر ایسے تھے جن میں کوئی آباد تھا۔ یہاں اگر کوئی باہر کا آدمی آجائے تو وہ یہی سمجھے گا کہ اس گاؤں پر کوئی آسمانی آفت آئی ہے یا پھر کوئی بہت ہی سخت زلزلہ آیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن گاؤں کے لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لوگ خود ہی ایک ایک کر کے گاؤں چھوڑتے چلے گئے ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب اس گاؤں کا ہر گھر پوری طرح آباد تھا حالانکہ اس وقت یہاں نہ کوئی سڑک تھی اور نہ آب رسانی کی کوئی سہولت۔ تعلیم اور صحت کے مراکز یہاں سے کافی فاصلے پر تھے۔ حکومت کی طرف سے کسی ترقیاتی منصوبے کا کوئی تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ لوگوں نے پتھر توڑ توڑ کر چھوٹے چھوٹے کچھ کھیت بنا رکھے تھے جن میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی کر لیتے ۔ عام طور پر لوگوں نے دودھ لسی کے لیے بکریاں اور گائیں پال رکھی تھیں۔ ان کے ڈربہ نما گھر مٹی اور پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ چار دیواری اور ٹوائلٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ روزگار کے لیے لوگ کراچی کا رخ کرتے یا فوج میں بھرتی ہوتے۔ گھر کی ضرورتوں کے لیے عورتیں چشموں سے پانی بھر کے لاتیں فصلوں کا دارو مدار بھی بارش پر ہوتا۔ اگر چہ لوگ غریب تھے لیکن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
دو افراد میں لڑائی یا تنازع ہونے کی صورت میں ان کے خاندانوں کے لیے ایک مصیبت کھڑی ہو جاتی کئی کئی سال وہ ہری پور یا ایبٹ آباد کی عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتے خوار رہتے ۔ نئے نئے طریقوں سے پولیس اور وکیلوں کے ہاتھوں لٹتے کتنی عجیب بات ہے کہ تقسیم ہند
سے پہلے انگریزوں نے اس علاقے میں بھی عدالت قائم کر رکھی تھی۔ ڈالڑی کے سامنے والے پہاڑ کی چوٹی پر جہاں کنی کوٹ آباد ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے چند کمرے بنارکھے تھے، جن میں ہر ماہ عدالت لگتی تھی۔ جج صاحبان گھوڑوں پر سوار ہو کے وہاں پہنچتے مجموعی طور پر علاقہ پر امن تھا۔ اب بھی وہاں ان کمروں کے کھنڈرات موجود ہیں۔ میں اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھا جب یہ واقعہ مجھے میرے دور پار کے ایک دادا نے سنایا تھا۔ بعد میں بہت سارے دوسرے لوگوں نے بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ اس کی تصدیق کی۔ اب بھی گاؤں میں آپ کو اکادکا لوگ ایسے مل جائیں گے جو اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ اپنے بزرگوں سے سن چکے ہیں۔ یہ واقعہ تقسیم ہند سے بہت پہلے کا ہے۔ گاؤں میں چار قومیں آباد تھیں۔ ممدو کا کس قوم سے تعلق تھا اس کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ خیر اس واقعہ سے کسی قوم کا کوئی تعلق بھی نہیں ۔ یہ ایک انفرادی نوعیت کا واقعہ ہے۔ ممدو کا شمار گاؤں کے ان نوجوانوں میں ہوتا تھا جو بے مقصد سارا سارا دن گاؤں کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے رہتے کبھی حجرے میں بیٹھ کے کسی سے تمباکو مانگا اور چلم سلگالی یا کسی سے نسوار مانگ کرمنہ میں ڈال لی کبھی پہاڑوں کی پگڈنڈیوں پر خواہ مخواہ نامعلوم مقاصد کے لیے ہواؤں کو سونگھتے پھرنا موقع ہاتھ لگا تو چھوٹی موٹی چوری سے بھی گریز نہ کرنا شغل ہی شغل میں لوگوں کی مرغیاں پکڑ کے کہیں دعوت اڑالینی وہ لوگوں کے چولہوں پر کبھی پکی پکائی ہانڈی پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اس آوارگی کی دھن میں ایک دن وہ کھیری کی طرف جانے والی اترائی کی طرف جا نکلا ۔ وہاں راستے سے کافی ہٹ کے ایک غار کے دہانے پر وہ کوئی سایہ متحرک دیکھنے ۔ کے وہم میں مبتلا ہوا ۔ اگر چہ کافی فاصلہ تھا لیکن وہ ہمت کر کے پھلائیوں ، بیریوں، گرنڈوں اور سنتھوں کی جھاڑیوں میں سے ہوتا ہو اوہاں پہنچ گیا۔ اس کا وہم بلا وجہ نہیں تھا۔ غار میں اگر چہ کوئی موجود نہیں تھا لیکن ایسے کچھ آثار ضرور تھے جن سے معلوم ہورہا تھا کہ یہاں کوئی نہ کوئی آتا جاتا یا رہتا ہے۔ غار کے
ایک کونے میں ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی اور ایک طرف چھوٹا سا پانی کا گھڑا مٹی کی باندی اور دو تین مٹی کے ہی برتن رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک جگہ تین پتھروں سے بنایا ہو ا عارضی چولہا بھی تھا۔ وہ مزے سے چٹائی پر جا کے لیٹ گیا۔ شاید وہ کافی تھکا ہوا تھا اس لیے لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی ۔ کچھ دیر بعد جب وہ نیند کے دباؤ سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ غار میں ایک اور شخص بیٹھا آگ جلانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ عجیب حلیے کا وہ آدمی تھا۔ اس کی عمر ضرور پچاس سے اوپر ہوگی۔ وہ اس علاقے کا نہیں لگتا تھا۔ ممدو ایک دم اٹھ کے بیٹھ گیا۔ پتہ ہی نہیں چلا اور میں سو گیا۔ ممدو کچھ کھسیانہ سا ہو کے بولا ہو جاتا ہے۔ انسان ویسے بھی بڑا کمزور ہے ۔ وہ شخص جیسے بڑا جہاندیدہ تھا۔ ممدو کے بلا اجازت اس طرح اندر آ کے اس کی چٹائی پر بے تکلفی سے لیٹنے کو نظر انداز کرتے ہوئے گویا ہوا۔ آپ اس علاقے کے نہیں لگتے۔ پہلے کہیں دیکھا نہیں ۔ میرا تعلق کشمیر سے ہے۔ یہاں ایک کام سے آیا تھا ۔ کمال ہے۔ ایسا بھی کیا خاص کام ہے جو اس ویرانے میں بیٹھے ہیں کسی کو ٹھکانے لگانے کا کوئی منصوبہ تو نہیں جو اس طرح اس نمار میں سب کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر رہ رہے ہیں ۔ آپ گاؤں میں کسی کے مہمان بھی تو بن سکتے تھے ۔“ در اصل میں ایک سنیاسی ہوں ۔ مجھے ایک چیز کی تلاش ہے۔ میں نے بڑے علاقے چھانے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ اس چیز کے یہاں کچھ آثار موجود ہیں ۔ دو چار دن کی بات ہوتی تو کسی کا مہمان بن جاتا۔ میں پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہاں ہوں ۔ ابھی پتہ نہیں کتنا عرصہ مزید لگ جائے۔“ اللہ کرے آپ کو کامیابی ملے ۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیں ۔ بہت بہت شکریہ ! اتفاق سے آج میرے پاس پانی کے علاوہ کچھ نہیں جو پیش کر سکوں۔ میں ایک ساگ لایا ہوں ابھی اس کو ابالوں گا۔ کچھ دیر لگ جائے گی ۔ کسی چیز کی ضرورت نہیں ، عصر ہونے لگی ہے۔ سورج ڈوبنے میں اب کتنی دیر لگے گی۔ میں چلتا ہوں ۔ ممدو غار سے باہر نکل آیا۔ آہستہ آہستہ علاقے کے بہت سارے لوگوں کو اس سنیاسی کا پتہ چل گیا لیکن لوگوں نے اس کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ وہ بھی کبھی آس پاس کے کسی گاؤں میں نظر نہیں آیا۔ وقت اپنی متعینہ رفتار سے آگے بڑھتار ہا۔ لوگوں نے سنیاسی بابا کو پھر بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ البتہ مد و گا ہے بہ گاہے اس کی طرف چکر لگا لیتا اور اس کے پاس بیٹھ کے گہیں ہانکتا رہتا۔ پتہ ہی نہیں چلا مزید چار پانچ سال گزر گئے ۔ ایک دن ممد و جب غار میں پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ سنیاسی بابا کے چہرے سے خوشی کے تاثرات ٹپک رہے ہیں ۔ وہ چولہے کے پاس بیٹھا تھا اورمٹی کی ہانڈی میں کچھ پک رہا تھا۔ سنیاسی بابا! آج آپ بہت خوش ہیں۔ مجھے بھی تو بتائیں آخر ایسا کیا ہو گیا ہے؟“ بیٹھو ممدو تمہارا انداز بالکل درست ہے۔ میں واقعی بہت خوش ہوں ۔ آج میں نے اپنی مراد پا لی ہے۔ پچھلے تیس سالوں سے جس چیز کی مجھے تلاش تھی آخر میں نے وہ حاصل کر لی ۔ یہ تو واقعی بہت زبردست بات ہوگئی ہے۔ مجھے بھی تو کچھ بتائیں ایسا کون سا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے ابھی ذرا تسلی سے بیٹھو تھوڑی دیر تک تمھیں سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ ممدو چٹائی پر بیٹھ گیا۔ سنیاسی بابا نہ جانے کیا پکا رہا تھا۔ محمد و نے محسوس کیا کہ غار میں کوئی عجیب سی بو پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ دیر بعد سنیاسی بابا نے چولہے کے اوپر سے ہانڈی اتاری اور اسے قریب رکھے ایک بڑے سرامے کے اندر انڈیل دیا۔ ممدو آجاؤ بھائی ۔
” بابا! آپ کھائیں ، مجھے بھوک نہیں ۔ ارے بھائی! یہ کوئی عام چیز نہیں، سوغات ہے۔ تم بھی کیا یاد کرو گے ۔ آجاؤ ! بلکہ اب تمھیں بتا ہی دیتا ہوں ۔ یہ وہ چیز ہے جس کا میں پچھلے تیس سال سے کھوج لگار ہا تھا ۔ ممدو سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ سرامے میں کیا ہے ۔ کچھ عجیب سا ملغوبہ نظر آرہا تھا۔ لیکن یہ ہے کیا ؟ بغیر جانے میں کیسے کھا سکتا ہوں؟“ سنیاسی بابا نے اس بات کو ٹالنے کی کوشش کی تو ممدو نے کھانے سے صاف انکار کر دیا۔ تم ضد کر رہے ہو تو سنو! یہ ایک خاص قسم کا سانپ ہے ۔ جسے میں نے چند مخصوص جڑی بوٹیوں میں پکایا ہے ۔ اب آجاؤ ! ساری زندگی مجھے یاد رکھو گے ۔“ بابا ! آپ کو تو پتہ ہے ۔ میں مسلمان ہوں ۔ اب جیسا بھی ہوں ، سانپ جیسی حرام چیز نہیں کھا سکتا۔ چلو! پھر تمہاری مرضی ۔ اب میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ سنیاسی بابا اکیلے ہی اس ملغوبہ نما کھانے کو کھانے لگا۔ جب کھانا مکمل طور پر ختم ہو گیا تو وہ اچھا ممدو ! میں چلتا ہوں۔ اب میرا یہاں کوئی کام نہیں ۔ اس سے پہلے کہ ممدو کچھ کہتا۔ اسے ایک زور دار آواز سنائی دی ۔ جیسے کوئی نہ نظر آنے والی چیز تیز رفتاری کے ساتھ وہاں سے گزری ہو۔ پہلے تواسے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا۔ سنیاسی بابا غائب ہو چکا تھا۔ ممدو کے اوسان جب بحال ہوئے تو وہ ایک دم ہانڈی کی طرف بڑھا۔ اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے انگلیوں کی مدد سے ہانڈی اور سرائے کو چاٹنا شروع کر دیا۔ ممدو جب غار سے باہر نکلا۔ اس نے اڑنے کے لیے جمپ کیا تو وہ سات آٹھ فٹ سے اوپر نہ جاسکا۔ اس کے لیے اتنا بھی غنیمت تھا۔ اسے لگا جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سپرنگ لگ گئے ہوں گھر کے لیے جو سفر اس نے گھنٹے بھر میں کرنا تھا۔ کلانچیں بھرتے ہوئے چند منٹوں میں طے کر لیا۔ ممدو نے اگلے روز پھر غار میں جاکے سنیاسی بابا کو تلاش کیا لیکن وہاں اس کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ ممدو کی زندگی ایک مخصوص ڈگر پر گزررہی تھی ۔ چھوٹی موٹی چوریاں اور علاقے میں بے مقصد آوارہ گردی کرتا۔ گاؤں کے حجرے میں بیٹھ کے اپنے جیسے دوسروں کے ساتھ بیٹھ کے لا یعنی اور فضول گپ بازی میں گھنٹوں ضائع کرتا۔ ایک کو دوسرے کے خلاف اکسانا اور گلا پھاڑ پھاڑ کے قہقہے لگا نا اس کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اس کے علاوہ شرطیں لگا کے شیر بکری کھیلتا۔ ایک دن وہ بیڑ جا رہا تھا۔ پہاڑ اتر کے جوں ہی کھارادر میں پہنچا تو اتفاق سے وہاں اس کی اپنے ایک دور پار کے رشتہ دارگل حسن سے ملاقات ہو گئی گل حسن کراچی میں کسی میمن کی کوٹھی پر چوکیداری کا کام کرتا تھا ممدو نے دیکھا کہ وہ بہت دکھی تھا اور اس کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ ماما! خیر تو ہے ۔ اتنے دکھیا کیوں ہو؟“ خوریا کیا بتاؤں ؟ بڑی مشکل سے پچاس روپے جمع کیے تھے ۔ اس بار چھٹی پر بڑی لڑکی رشیدہ کی شادی کا پروگرام تھا لڑکے والوں کو ہاں بھی کر چکے ہیں۔ راستے میں نوابوں کے ایک ملازم پیر محمد نے زبر دستی مجھ سے لے لیے ہیں ۔ ساتھ دھمکایا بھی ہے کہ میں خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل جاؤں ۔ میں نے اسے اللہ رسول کا واسطہ بھی دیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے۔ مجھ پر ظلم نہ کرے مگر اس نے ایک نہیں سنی ۔ اس کی اس بات نے ممدو کے دل پر بھی بری طرح اثر کیا۔ ممدو جیسے چلتے پھرتے آدمی کے لیے پیر محمد جیسی ہستی کا پتہ کھرا نکالنا اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ بڑی آسانی سے اس کے گھر میں گھسا اور صندوق میں سے پچاس کے بجائے ستر روپے نکال کر لے آیا۔ زیادہ بڑا ہاتھ مارتا تو علاقے میں ہلہ گلہ ہو جانا تھا۔ اگلے روز رات کے وقت وہ گل حسن کے گھر پہنچ گیا۔ اس کی ہتھیلی پر ساٹھ روپے رکھے۔ یہ پچاس روپے تمہارے اپنے ہیں اور دس روپے میری طرف سے میں کسی کے آگے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پہلے تو گل حسن متعجب ہو کے اس کا منہ دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپکنے لگے ۔ علاقے کے با اثر اور بارسوخ لوگوں نے ایبٹ آباد میں موجود حکام کے ہاں شکایات کا انبار لگا دیا کہ ڈالڑی کا ممدو علاقے میں ہر آتے جاتے کو لوٹ رہا ہے کسی کا گھر اب اس کی دسترس سے محفوظ نہیں رہا۔ وہ ایسا چھلاوا ہے کہ اسے کوئی پکڑ بھی نہیں سکتا۔ ممدو کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا شہرہ اتنے دور تک پہنچ چکا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے اسے بلاوا آگیا اور مقررہ تاریخ پر وہ کنی کوٹ کے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر بنی عدالت میں حاضر ہو گیا۔ جج نے لمبی لگانے کے بجائے پہلی تاریخ پر ہی اسے جیل بھجوا
دیا ممدو کا نہ کوئی وکیل تھا اور نہ ہی اس کو اتنی سمجھ تھی کہ اپنے دفاع میں کچھ کر سکے ۔ اس کے گھر والے بھی بالکل ویسے تھی جیسے کہ دور دراز کے سادہ لوح دیہاتی لوگ ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ممدو کو کچھ سمجھ آتی پولیس نے اسے ہتھکڑی لگا کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اگلے دن ممدو ایبٹ آباد جیل میں تھا کھلی فضاؤں میں اڑنے والے ممدو کے لیے یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی۔ کچھ دن تو اس نے جیل کے کھانے اور رہن سہن کو برداشت کر لیا لیکن یہ اس کی آزادمنش طبیعت کے بالکل بھی موافق نہیں تھا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہاں اس کا مزید گزارہ ممکن نہیں ۔ اس نے تسلی سے جیل کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ یہ کام وہ صرف دن میں ہی سر انجام دے سکتا تھا۔ کیونکہ رات کے وقت مقفل بارک میں سے باہر نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ جیل کی فصیل اگر چہ کافی اونچی تھی لیکن اس کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ البتہ جمپ کرتے ہوئے اس کا اندازہ ذرا بھی غلط ہو جانے کی صورت میں وہ دیوار پرلگی کانٹے دار آہنی باڑھ سے زخمی ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ دو اور مسائل ایسے تھے جن کا اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ ایک تو اسے یہ انداز ہ نہیں تھا کہ دیوار کی دوسری طرف کیا سچویشن ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس سے پہلے کبھی ایبٹ آباد نہیں آیا تھا۔ اسے بالکل یہاں کے محل وقوع اور راستوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ اس نے صرف ایبٹ آباد کا نام سن رکھا تھا۔ اس نے یہ بھی نوٹس کیا کہ جیل کی پتھریلی دیوار پر تھوڑے تھوڑے وقفے پر چبوترے بنے ہوئے ہیں۔ جن میں ہر وقت ایک یا دو مستعد سنتری موجود رہتے ہیں۔ چانس لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی اس نے جمپ کیا اور بحفاظت جیل کی دیوار پار کرتے ہوئے دوسری جانب پہنچ گیا۔ آنکھ کی ایک جھپکی جتنے وقت میں وہ جیل سے کچھ فاصلے پر موجود جھاڑیوں میں اپنے آپ کو رو پوش کر چکا تھا۔ اب اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کدھر جارہا ہے۔ ایک پہاڑی کی دوسری طرف پہنچ کے اس نے رک کے اپنے گرد و پیش کا جائز ہ لیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی اسے جیل کے کپڑوں میں دیکھ لے اسے ان سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ دوسری طرف وہ ڈھلوان اترتا چلا گیا۔ شاید نیچے کوئی چشمہ تھا جہاں کسی نے کپڑے دھو کر انھیں سکھانے کے لیے مختلف پتھروں پر پھیلا رکھا تھا۔ ایک مردانہ جوڑا اور چادر اٹھا کے وہ وہاں سے کئی کوس آگے نکل گیا۔ ایک مکمل طور پر اوجھل جگہ پہنچ کے اس نے کپڑے بدلے اور جیل کے کپڑوں کو اس نے ایک بڑے پتھر کے نیچے بنے بل میں ڈال کے بہت سارے چھوٹے چھوٹے پتھر اس کے اوپر رکھ دیے ۔ تاکہ کسی کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلے۔ وہ کافی دور آچکا تھا۔ ایک جگہ رک کے اس نے چپکے سے کسی کی بکری کا دودھ بھی پیا۔ اگر چہ بہار کا موسم گزر چکا تھا لیکن گرمی میں ابھی شدت نہیں آئی تھی۔ وہ رات اس نے آسمان کے نیچے کھلی فضا میں سوتے جاگتے گزاری ۔ اگلے دن وہ ایک بستی کے قریب پہنچا۔ وہاں اسے ایک درمیانی عمر کا آدمی مل گیا۔ چا چا! یہ کون سا گاؤں ہے؟” اس آدمی نے اسے بغور دیکھا۔ یہ گدا ہے ۔ گدا شیروان تمہیں کہاں جانا ہے؟“ اچھا اچھا! میں ذرا راستہ بھول گیا تھا۔ مجھے کچھی جانا ہے ۔
ایسا کرو یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ کچھ دیر بعد پہلے جرل آئے گا۔ وہاں سے تم سوکے سوکے آگے چلتے رہنا۔ بیچ میں ککوتری گاؤں آئے گا۔ اس کے بعد سوہا آئے گا۔ وہاں سے پھر تم کسی سے پوچھ لینا۔ ویسے تم یہاں کیسے آئے؟“ چا چا میں پیچھے شیروان آیا تھا کسی کے پاس۔ ذرا جلدی میں ہوں ۔ بہت شکریہ اس آدمی کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق وہ راستے پھلانگتا ہوا کچھ ہی گھنٹوں میں سوہا پہنچ گیا۔ یہاں سے اس کا اپنا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ ایبٹ آباد جیل سے کسی قیدی کا یوں دن دہاڑے فرار ہو جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ پوری انتظامیہ ہل کے رہ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے انگریز حکمرانوں کو چیلنج کر دیا ہو ۔ ہر طرف مخبر دوڑنے لگے ۔ کچھ عرصے بعد انھیں اطلاع ملی کہ ممدو واپس اپنے گاؤں پہنچ چکا ہے ۔ اسے پکڑنے کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم تشکیل دے کر اس علاقے میں بھیجی گئی۔ درجنوں کی تعداد میں سپاہیوں نے مقامی لوگوں کی بےخبری میں جاکے پورے خطے کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک ایک گھر اور گوہال کی تلاشی لی۔ فرداً فرداً لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا لیکن ممدو کا کوئی پتہ سرا نہیں ملا ۔ دو تین دن وہاں خجل خوار ہو کے ٹیم واپس ایبٹ آباد لوٹ گئی۔ اس کے بعد بھی خفیہ اطلاعات پر ایبٹ آباد سے کئی بار مختلف ٹیموں نے آکے علاقے کو گھیر لیکن ممدو کسی کے ہاتھ نہیں لگا۔ آخر انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی کہ شاید مقامی لوگ اس کو بچانے میں اپنا کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی عام لوگوں کے اندر اس کے لیے ہمدردی کا مادہ موجود تھا۔ کیونکہ وہ علاقے کے غریب لوگوں کی کافی مدد کرتا رہتا تھا۔ انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ممدو کو پکڑنے کے لیے روایتی طریقے کے بجائے اب کوئی خاص قسم کا کھیل کھیلنا پڑے گا۔ گاؤں پر پولیس کے روز روز کے چھاپوں سے لوگ سخت تنگ آچکے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دن سب لوگ گاؤں کے حجرے میں اکٹھے ہو گئے ۔ گاؤں کے ملک کی طرف سے تجویز
تھی کہ سب مل بیٹھ کے کوئی حکمت عملی طے کریں۔ تا کہ انتظامیہ سے اس بارے میں گزارشات کی جا سکیں۔ ” میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے خاندان کو لے کر ہری پور چلا جاؤں گا۔ مولانا محمد شریف نے اپنے حوالے سے بات کی۔ وہ حال ہی میں مدرسہ دیو بند سے فارغ التحصیل ہو کے آئے تھے۔ مولانا! آپ پڑھے لکھے ہیں کہیں بھی جا کے کسی مدرسے میں درس و تدریس کا کام کرلیں گے۔ باقی بہتر یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ معزز لوگ اکٹھے ہو کر جرگے کی صورت ایبٹ آباد جائیں اور انھیں قائل کریں کہ ممدو ایسا نہیں ہے جیسا اسے سمجھا جارہا ہے ۔ وہ بنیادی طور پر ایک شریف آدمی ہے ۔ گل حسن نے اپنی طرف سے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ لوگ تو اپنی زمینیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔ سب لوگوں نے ملک کی بات کی تائید کی۔ گل حسن! انتظامیہ ہماری خواہشات کے مطابق اپنے کام سر انجام نہیں دیتی۔ اس کے سوچنے کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ویسے بھی ممدو نے جیل سے بھاگ کے اپنے حق میں بہت برا کر لیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کے دلوں میں اس حوالے سے کوئی نرمی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ ملک نے ناگواری سے گل حسن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ چینتری اور بدھوڑے کے چند لوگوں نے ایبٹ آباد جا جا کے اس کے خلاف شکایتیں لگائی ہیں اور ان کے کان بھرے ہیں ۔ ایک سائیڈ سے کسی نے بھڑاس نکالی ۔ اصل میں کئی ایک ممدو کو اپنے مقاصد کے لیے اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ جب وہ ان کے ساتھ نہیں ملا تو انھوں نے اسے راستے سے ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ ایک اور بندے نے پہلے بندے کی بات کو آگے بڑھایا۔ جب بات چل نکلی تو ہر ایک نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ممدو بھی باہر بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔ وہ ایک سائیڈ پر چپکے سے آکر بیٹھا تھا۔ اسے جرگے میں شرکت کے لیے کسی نے باقاعدہ دعوت نہیں دی تھی۔ اس نے کہیں سے اس جرگے کے بارے میں سنا اور چپکے سے آکر بیٹھ گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا۔ آپ سب لوگ اپنی اپنی بات کر رہے ہیں ۔ باہر ممدو بھی موجود ہے ۔ اس کی رائے بھی پوچھ لیں ۔“ ہاں ہاں! کیوں نہیں ۔ اسے اندر بلاؤ بھئی ۔ ملک نے کھلے دل سے کہا۔ جب ممدو ہال کے اندر آ گیا تو ایک بندے نے ذرا سا سمٹ کے اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔ ”ہاں بھئی ممدو ! اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ تمہارے ذہن میں کوئی حل ہو تو بتاؤ ۔ ملک نے اپنی توجہ اس کی طرف مبذول کر دی ۔ ملک صاحب! میں کیا بتاؤں؟ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو خود اپنے بارے میں روز نئی نئی کہانیاں سنتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں ۔ ممدو نے سٹپٹائے ہوئے کہا۔ اتنی کہانیاں اگر ہیں تو کچھ نہ کچھ پھر سچ بھی ہو گا۔“ ملک نے جیسے اسے چٹکی بھری ہو۔ ملک صاحب ! میں نے کب کہا ہے کہ میں مومن ہوں؟ میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ بہت کچھ جو سننے میں آرہا ہے ۔ وہ درست نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ دس منٹ گزرے ہوں گے۔ ابھی جب کہ جاری تھا کہ ہال کے دروازے پر مسلح پولیس کے آدمی آن کھڑے ہوئے ممدو کے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسے اچھی طرح سے رسیوں میں جکڑ لیا گیا۔ ٹھیک دو ماہ بعد ممدوکو ایبٹ آباد جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
پچھلے سال جب میں ڈالڑی گیا تو میں نے دیکھا کہ گاؤں کا تقریبا زیادہ تر حصہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ اکا دکا گھر ایسے تھے جن میں کوئی آباد تھا۔ یہاں اگر کوئی باہر کا آدمی آجائے تو وہ یہی سمجھے گا کہ اس گاؤں پر کوئی آسمانی آفت آئی ہے یا پھر کوئی بہت ہی سخت زلزلہ آیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن گاؤں کے لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لوگ خود ہی ایک ایک کر کے اس گاؤں کو چھوڑتے چلے گئے۔ میں نے گاؤں کی ویران گلیوں میں ایک چکر لگایا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر اجاڑ اور بوسیدہ دروازے کے آگے نم دیدہ آنکھوں کے ساتھ گل حسن بیٹھا ہو۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.