
Afsana BYRA GHARAK by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.
بیڑاغرق
پورے ایک ہفتہ کے بعد امی کے گھر گیا۔ حالانکہ یہ میرا معمول تھا کہ روزانہ عصر کے وقت لازمی وہاں حاضری دیتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کے تسلی سے ان کی باتیں سنتا۔ تمھیں کچھ پتہ ہے۔ تمھاری خالہ بیمار ہوگئی تھیں ۔ مرتے مرتے بچی ہیں ۔ پورا ایک ہفتہ ہسپتال رہی ہیں ۔ انھوں نے تو اپنا سارا زیور بھی بیٹیوں اور بہوؤں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اچانک امی نے مجھ سے پوچھا۔ نہیں تو مجھے کسی نے نہیں بتایا کل انھیں دیکھنے جاتا ہوں ۔ کیا سوچتی ہوں گی۔ دیکھنے تک نہیں آیا۔ بہت بری بات ہے ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ تم اتنے دن کہاں غائب تھے ۔ ایک دوست کے ساتھ پنجاب کی طرف نکل گیا تھا کل ہی واپس پہنچا ہوں ۔ خالہ کا گھر جی ٹی روڈ پر دو اڑھائی میل کے فاصلے پر دریائے دوڑ سے نکلنے والی ایک نہر کے کنارے واقع تھا کل آٹھ دس گھروں کی آبادی تھی۔ پاس ہی ریل کی پڑی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک جب کوئی ریل گزرتی گھر کے صحن سے بآسانی دیکھی جاسکتی تھی ۔ پٹڑی پار کرو تو امرود کے باغ تھے۔ بچپن کے دنوں میں اکثر میں خالہ کے گھر جایا کرتا کئی بار رات بھی وہاں رہا۔ وہ صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے چار پائیاں بچھا دیتے ۔ قدرتی پنکھا چلتا تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آتی کبھی کبھی ہم شام کے وقت ریل پٹڑی پار کر کے امرودوں کے باغ میں چلے جاتے ۔ باغ کے مالک نے ہمیں بھی کچھ نہیں کہا۔ حالانکہ کئی بار ہم نے اس کے باغ سے امرود بھی توڑے تھے۔ سچ تو یہ ہے محبت اور مروت کا زمانہ تھا لوگوں کی آنکھوں میں حیا تھی۔ ایک دوسرے کے لیے ادب اور لحاظ تھا۔ گاؤں میں اگر کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا تو سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ایک اور بات اس زمانے میں بہت اچھی تھی ۔ آنے کا کرایہ تو امی دیتی تھیں لیکن واپسی کا کرایہ خالہ دیتیں۔ مجھے آج تک اس کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ خالہ کے گھر کا صحن بہت بڑا تھا۔ کنال سے تو اوپر ہی رہا ہو گا۔ جس میں ایک طرف سبزیاں اگائی جاتی تھیں ۔ اسی طرح بہت ساری جگہ پر رنگ برنگے پھولوں اور پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ایک درخت پر جھولا بھی تھا۔ ہم وہاں گوڈراچھپاتی چھپن چھپائی، پٹھو گرم اور کئی دوسرے کھیل کھیلتے ۔ ان کی سب سے چھوٹی نند کی شادی پر بھی میں وہیں تھا۔ قطار میں بنے ہوئے کمرے مہمانوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک کمرا دلہن اور اس کی سہیلیوں کے لیے مخصوص تھا۔ شام کے بعد میں چپکے سے اس کمرے میں گھس گیا۔ دلہن کے جہیز کی تلائیاں ، رضائیاں اور سرہانے ترتیب سے ایک طرف اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے ۔ سردی کا موسم تھا میں ان کے پیچھے چھپ کے بیٹھ گیا۔ اس زمانے میں وہاں بجلی تو تھی نہیں ۔ لالٹین کی روشنی دلہن کے بیٹھنے کی چٹائی تک محدود تھی تھوڑی دیر کے بعد اس کی سہیلیاں اکٹھی ہونی شروع ہوگئیں ۔ ادھر ادھر کی باتیں اور مذاق چلتا رہا۔ پھر ان میں سے ایک نے ڈھولک سنبھال لی۔ باری باری سب نے مزے مزے کے ماہیے گانے شروع کر دیے۔ رات جب آدھی سے اوپر ہوئی تو مجھے لگا جیسے فضا سوگوار ہونی شروع ہوگئی ہے۔ لڑکیوں نے جدائی کے ماہیے گانے شروع کر دیے تھے۔ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں۔ میں پیچھے چھپا ہوا اپنے آنسوؤں سے جہیز کے بستر بھگو رہا تھا۔ موٹر سائیکل میرے پاس تھی۔ اگلے دن میں خالہ کے گھر پہنچ گیا۔ صحن میں ایک مونڈھے پر بیٹی مرغیوں کے آگے باسی روٹی توڑ توڑ کے ڈال رہی تھیں۔ میں برآمدے میں بچھی ایک چار پائی پر جا کے بیٹھ گیا صحن تھوڑا سا ہی رہ گیا تھا۔ ہر طرف بے ترتیب کمرے بن چکے تھے۔ بچے کچے صحن میں اب بھی کچھ درخت باقی تھے تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی آکے ساتھ والی چار پائی پر بیٹھ گئیں۔ بڑی ہمت ہے آپ نے اب بھی مرغیوں کا شوق پالا ہوا ہے ۔ ورنہ اب تو ہر طرف فارمی انڈے اور مرغیاں ہیں۔ بلکہ بازار میں جو دیسی انڈے اور مرغیاں مل رہے ہیں وہ بھی اصل میں فارمی ہی ہیں ۔ صحیح کہتے ہو ۔ ہر طرف دو نمبری ہے۔ کوئی چیز خالص نہیں ملتی۔ میں تو ویسے ہی عادت پوری کر رہی ہوں ۔ یہاں کا شوق ۔ چھوٹا سا صحن ہے ۔ سارا دن یہ ڈربے میں بند رہتی ہیں۔ دروازے سے باہر نکالوں تو چور پکڑ کے لے جاتے ہیں ۔ و بھی کیا وقت تھا۔ یہ صحن کتنا بڑا تھا۔ مجھے یاد ہے آپ نے بطخیں بھی پالی ہوئی تھیں ۔ صرف بطخیں ہی نہیں تین چار بکریاں بھی تھیں ۔ سارا دن بطخیں باہر نہر میں تیرتی رہتیں۔ کیا کریں۔ بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ سب نے صحن کو کاٹ کاٹ کے کمرے بنا لیے ہیں ۔ وہ بھی کہاں جائیں ۔ زمینیں مہنگی ہیں نئی جگہ خریدنا پہنچ سے باہر ہے ۔ ” خیر تو ہے ۔ آج کوئی نظر نہیں آرہا۔ پڑوس میں ایک شادی ہے سارے ادھر گئے ہوہے ہیں ۔ اسی لیے اتنا سکون ہے ۔“ پتہ چلا ہے آپ ٹھیک ٹھاک بیمار ہوگئی تھیں پورا ہفتہ ہسپتال میں رہی ہیں ۔ مجھے کل ہی امی سے پتہ چلا۔ میں کہیں گیا ہوا تھا۔ اب طبیعت کیسی ہے ۔ اب کافی بہتر ہوں ۔ زندگی کے کچھ دن باقی تھے دعا کرو اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ۔ وہ بھی کیا دن تھے جب خالو حیات تھے۔ دیکھتے ہی دور سے آواز لگاتے۔ اپنی شلوار ٹخنوں سے او پر کرو۔ ایک دفعہ میں ابھی باہر ہی تھا اندر سے خالو کی اونچی اونچی آواز سنائی دے رہی تھی۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی شلوار گھٹنوں تک اٹھالی ۔ جوں ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی۔ ان کے منہ سے قہقہوں کا ایک فوارہ ابل پڑا۔ تم بڑے ہی شیطان ہو کبھی باز نہیں آتے ہو ۔ اللہ بخشے خالو کو گزرے ہوئے بھی پانچ سال ہونے کو ہیں ۔ چلیں آیا ہوں تو ان کے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے جو گزر گئے ہیں فاتحہ پڑھ کے دعا کر دیتے ہیں ۔ میں نے خالہ کو مزید اداس کر دیا۔ ہاں پانچ سال اور پورے انیس دن ہو گئے ہیں ۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ ہم دونوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ میں نے خالہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ آمین یارب العالمین ” خالہ اٹھ کے کچن میں گئیں اور میرے لیے شربت بنا کر لے آئیں ۔ میں نے ایک طرف رکھی ہوئی چھوٹی سی میز اپنے سامنے کرلی۔ اس دفعہ آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ امی کہ رہی تھیں کہ بیماری میں آپ نے اپنا سارا زیور بیٹیوں اور بہوؤں میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ سچ ہے یا کسی نے ویسے ہی افواہ اڑائی ہے ۔ میں نے خالہ کو ٹٹولا۔ وہ ایک دم چست ہو کر بیٹھ گئیں۔ ناں ناں ! افواہ نہیں ۔ یہ بالکل سچ ہے۔ مجھے لگا اب میں نہیں بچوں گی۔ اس لیے میں نے زیور کی صندوقیچی منگوا کر اپنے ہاتھوں سے سارا زیور ان میں تقسیم کر دیا۔ تا کہ بعد میں ایک دوسرے سے جھگڑا نہ کریں۔ ایسی بے غیرت ہیں بجائے اس کے مجھے تسلی دیتیں اپنے اپنے حصے کا سونا پہن کے دیکھ رہی تھیں کہ کیسا لگ رہا ہے ۔ کمال ہے۔ پھر تو آپ اب بالکل خالی ہوگئی ہوں گی ۔ میں اتنی بھی سیدھی نہیں کہ اپنے ہاتھ کٹوا کے بیٹھ جاؤں ۔ ہسپتال سے واپس آتے ہی سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ ہر ایک سے اپنا زیور نہ صرف واپس لیا بلکہ اچھی خاصی ان سب کی کھنچائی بھی کی۔
قالہ دوبارہ کچن میں چلی گئیں ۔ جب لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھی ہاتھ میں بیک ، خطائی اور ایک دو اور بھی کھانے کی چیزیں تھیں۔ میں نے خطائی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔ مزے کا تھا۔ ایک دم منہ میں گھل گیا۔ خاور تمھیں یاد ہے جب تم چھوٹے تھے کسی نے تم سے واپسی پر راستے میں پیسے چھین لیے تھے ۔ مجھے یاد آگیا۔ میں اس وقت شاید پانچویں جماعت میں تھا۔ مجید سائیکل والے سے چھوٹی سائیکل کرائے پر لے کر میں خالہ کے گھر گیا تھا۔ اس زمانے میں دو آنہ فی گھنٹہ سائیکل مل جاتی تھی۔ واپسی پر خالہ نے کسی کام کے سلسلے میں مجھے دو روپے دیے ۔ جب میں جھگیوں کے پاس پہنچا تو میرے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ تشکیل پاچکا تھا۔ میں نے گھر پہنچتے ہی امی سے کہا۔ خالہ نے مجھے دو روپے دیے تھے جھگیوں کے پاس ایک آدمی نے مجھ سے چھین لیے ہیں ۔ آگے کا معاملہ پھر امی نے سنبھال لیا تھا۔ خالہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ پیسے چھیننے والے نے تم سے سائیکل کیوں نہیں چھینی ۔ چائے کی پیالی میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔ البتہ چائے کے کچھ چھینٹے سفید شلوار پر گل کاری کر چکے تھے۔ بیڑا
غرق بے اختیار میرے منہ سے یہ دو الفاظ نکل گئے۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website.
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.