Afsana Bygyrat by saeed Ashar:
A Heartfelt Reflection

شادی کی ایک تقریب تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ دولہے کی والدہ میری امی کی کوئی کزن تھی۔ شادی ہالوں کا رواج ابھی عام نہیں ہوا تھا۔ ویسے بھی شادی والا گھر شہر کے مضافات میں واقع ایک نیم قصباتی علاقے میں ہونے کی وجہ سے ایسے تکلفات سے کوسوں دور تھا۔ میں اسی روز وہاں پہنچا تھا۔ زیادہ تر لوگ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ شاید اکتوبر کی کوئی تاریخ تھی۔ تمام چھوٹے بڑے مرد ایک الگ مکان کے کھلے صحن میں بچھی چار بہائیوں پر بیٹھے تھے۔ بیٹھنے والوں کے آرام کی خاطر ہر چار پائی پر تکیے اور سرہانے رکھے گئے تھے۔ بڑے بزرگ مزے سے گپوں میں مصروف تھے۔ نوجوان زیادہ تر ان کے احترام میں خاموشی سے با ادب با ملاحظہ بیٹھے تھے۔ مغرب ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ زیادہ تر افراد ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے ۔ کچھ دور پار کے اور کچھ نزدیک کے ۔ دو چارکو چھوڑ کر میں ان میں سے بہتوں سے سرسری سا ہی واقف تھا اور کچھ کو تو میں بالکل بھی نہیں جانتا تھا۔ چونکہ یہ میرا آبائی گاؤں تھا اس لیے یہاں بچپن سے ہی میرا آنا جانا تھا۔ مجھے یہاں کی فضا سے ہم آہنگ ہونے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی تھی۔ پہلے کچھ دیر تک تو وہ آپس میں مقامی سیاست اور جھگڑوں پر گفتگو کرتے رہے۔ پھر ملکی سیاست اُن کا موضوع بن گیا۔ جب اس سے بھی بیزار ہو گئے تو سب نے خاموشی اختیار کرلی۔ اتنے میں وہاں دو لڑکے چائے لے کر آگئے ۔ ایک لڑکا سب کے ہاتھوں میں چائے کی خالی پیالیاں تھما ر ہا تھا اور دوسرا ایک بڑی سلور کی کیتلی سے ان میں چائے انڈیل رہا تھا۔ ہاتھ
میں چائے کی پیالی آتے ہی جیسے وہاں بیٹھا ہوا ہر بزرگ ریچارج ہو گیا ہو۔ چائے کے ساتھ کچھ لوگوں نے سگریٹ بھی سلگا لیے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ اس طرح کے موقعوں پر نائی چلم تازہ کر کے باری باری ہر ایک کے سامنے رکھتا تھا۔“ ایک بابے نے خاموشی توڑی سگریٹ نوشی کی کثرت سے جیسے اس کی سفید مونچھیں بھی پیلی پیلی ہو رہی تھیں۔ کافی پرانی بات ہے ۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب ہم حجرے میں گئے تو چلم کی طلب ہوئی ۔ ایک سائیڈ پر پہلے سے چلم بھری ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اسے سلگا تا علی زمان میرے ساتھ تھا۔ اس نے کہا۔ زبیر اسے چھوڑو۔ پتہ نہیں اس میں کیسا تمبا کو ہو ۔ تازہ بھرو۔ جب میں نے اس میں سے پہلے والا تمباکو نکالا تو اس میں سے سانپ کا ایک چھوٹا سا سر بھی نکلا ۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس میں سانپ کا سر بھی ہو سکتا ہے تو میں تمہیں کبھی نہ منع کرتا ۔ علی زمان کی بات پر سب نے کھل کے ہنسنا شروع کر دیا۔ آج کل تو نفسانفسی کا عالم ہے ۔ وہ محبت اب کہاں؟ اعتبار ہی اٹھ گیا ہے ۔ جیلانی بابا نے افسردگی سے کہا۔ جیلانی بابا کو میں سرسری طور پر جانتا تھا۔ وہ ہماری برادری کا نہیں تھا۔ گاؤں کے تگڑے گھرانوں میں سے ایک گھرانہ اس کا بھی تھا۔ باقاعدگی سے مسجد میں نماز پڑھتا تھا۔ اس کے اندر ایک عجیب عادت تھی۔ نماز میں تشہد کی حالت میں اپنا دایاں بازو اٹھاتا اور پوری قوت سے شہادت کی انگلی کو سامنے کی طرف تین بار جھٹکا دیتا۔ پہلے دو جھٹکے ہلکے اور تیسرا جھٹکا بہت زوردار ہوتا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ فلاں وقت فلاں آدمی نے یہ حرکت کی تھی ۔ اس کے آس پاس کے نمازیوں کی ہنسی نکل جاتی۔ جو اسے جانتے تھے وہ اس تاک میں رہتے کہ کب اس سے یہ عمل سرزد ہو گا۔ چونکہ وہ ایک با اثر اور تگڑا زمیندار تھا اس لیے اس کے سامنے کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کی اس حرکت کے بارے میں کوئی بات بھی کرے ۔ گاؤں کے اکثر لوگوں میں اس کے بارے میں ایک قصہ بہت مشہور تھا۔ جیلانی بابا کی جوانی کے دنوں کی بات ہے۔ اس کے کھیتوں میں کسی غریب زمین دار کا بیل داخل ہو گیا۔ اس نے اسے پکڑ کے اس کی زبان کاٹ دی تھی۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں خان جی! اگر چہ لوگ غریب تھے لیکن ایک دوسرے کا احساس تھا۔ جس کے پاس بھینس ہوتی ۔ پڑوس کے کئی گھر اس کے گھر سے روزانہ مفت لسی لے کر جاتے اور دن کو اس لسی کے ساتھ چٹنی رکھ کے مکئی کی روٹی کھاتے ۔ اگر لسی بچ جاتی تو رات کے لیے کڑہی بنا لیتے۔ لوگ ایک دوسرے کو مفت ساگ بھیجتے تھے۔ مجھے تو وہ زمانہ بھی یاد ہے ۔ جب ہم ایک دوسرے کے چولہوں سے آگ مانگ کے لے جاتے تھے لیکن وہ برکت والا دور تھا ۔ ہاں جی ! جس کے صحن میں پھلدار درخت ہوتا وہ اس کا پھل اپنے پاس پڑوس کے تمام گھروں کو تحفے کے طور پر بھیجتا۔ اس وقت خوراک بھی خالص ملتی تھی۔ دودھ مکھن، دہی اور شہد سب کچھ خاص تھا۔ اتنی کھادیں نہیں تھیں۔ ہر چیز میں ایک لذت تھی۔ ہاں جی ! جب کہیں کسی کی خیرات ہوتی ہم کوزے کے ساتھ منہ لگا کے گھی پیتے ۔ اس بارے میں با قاعدہ شرطیں لگائی جاتیں ۔ رمضان کاکا نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔ کہتے ہیں اپنی جوانی میں پھلائیوں کے ایک جھنڈ میں وہ ایک کھوتی کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ وہ ایک کھاری کے اوپر چڑھا ہوا کھوتی کے پیچھے کھڑا تھا۔ لوگوں کو جب اس نے آتے دیکھا تو وہ بغیر شلوار پہنے بھاگ گیا تھا۔ لوگوں نے اس کھوتی کی جکڑی ہوئی لاتوں کو آزاد کیا تحفظ حقوق حیوانات والے اگر اس وقت ہوتے تو اس کے خلاف اچھی خاصی قانونی کاروائی ہونا ممکن تھی۔ یہ کراچی بھاگ گیا تھا۔ پورے ساڑھے نو سال بعد پھر واپس لوٹا تھا۔ وقت کی گرد کے نیچے بہت کچھ دب جاتا ہے۔ اصل میں اس وقت لوگ بے دین نہیں تھے۔ لوگوں کے دلوں میں ایمان تھا ، خدا خوفی تھی ۔ عجب خان بابا کی آواز میں تاسف تھا۔ مجھے اپنے ایک مرحوم بزرگ یاد آگئے۔ میرے والد صاحب کے سگے ماموں تھے ۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ایک دن سعودیہ سے آئے چچا کے ساتھ میں بھی ان کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ اپنی لمبی چوڑی تمہیدی گفتگو کے بعد فرمانے لگے ۔ ہر چیز اللہ کی ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے ۔ اب سورج کو ہی دیکھ لو ۔ قبلے کی طرف جائے ڈوبتا ہے ۔ دراصل یہ خانہ کعبہ کو سجدہ کرتا ہے ۔ میری برداشت جواب دے گئی۔ ماما! ہم نے تو یہ پڑھا ہے کہ زمین گول ہے اور گھوم رہی ہے ۔ چوبیس گھنٹوں میں وہ اپنا ایک چکر پورا کرتی ہے جس سے دن اور رات بنتے ہیں ۔ آپ چاچا جی سے پوچھ لیں یہ سعودیہ سے آئے ہیں۔ انھوں نے کئی عمرے اور حج کیے ہوئے ہیں۔ سورج کہیں جا کے سجدہ نہیں کرتا بلکہ مکہ شہر کے اوپر سے بھی بالکل ایسے گزرتا ہے جیسے ہمارے شہر کے اوپر سے گزرتا ہے۔ اس کا یہی سجدہ ہے کہ وہ نظام قدرت کے ماتحت رہ کے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے ۔ ماما نے مجھے انتہائی قہر آلود نظروں سے دیکھ لیکن کہا کچھ نہیں۔ جب ہم ان کے گھر سے باہر نکلے تو چچانے دبے لہجے میں مجھے سمجھایا۔ یہ بزرگ ہیں ان کے سامنے بحث نہیں کرتے ۔ میں چپ رہا۔ عجب خان بابا کی بات کو ایک اور معمر شخص نے آگے بڑھایا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں ۔ جب بارش نہیں ہوتی تھی۔ گاؤں کے کچھ بڑے بزرگ گاؤں کے باہر جاکے نماز استسقاء پڑھتے ۔ ابھی وہ گھر نہیں پہنچتے تھے کہ بارش برسنی شروع ہو جاتی تھی۔ اب جتنی دعائیں مرضی ہے مانگ لیں ۔ بارش پر ان کا ذرا اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر روز نئی نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کہتے ہیں یہ ستارے اور سورج او پر خلا میں بغیر سہارے کے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ زمین پر کیوں نہیں گرتے ۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے ہونٹوں کو ایک دوسرے کے اوپر جمائے رکھا۔ لوگوں کی آنکھوں میں حیا بھی تھی۔ خواتین کے لیے مخصوص چشموں کی طرف کوئی نہیں جاتا تھا۔ عورتیں اگرچہ برقع کم کم پہنتی تھیں لیکن سامنے سے جب کوئی انجان مرد آ رہے ہوتے تو راستے میں پیٹھ موڑ کے کھڑی ہو جاتی تھیں ۔ میر عالم کاکا نے پہلی بار لب کشائی کی۔ میر عالم کاکا رشتے میں میرا دادا تھا۔ جوانی میں اس کو سامنے والے پہاڑ پر موجود ایک گاؤں کی لڑکی پسند آگئی لڑکی کے وارثوں نے رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کے پاس ایک ہی جواز تھا۔ ”ہم اپنے تپے سے باہر رشتہ نہیں دیتے ۔ میر عالم کا کا کسی طور اس لڑکی کی طلب سے اپنے آپ کو دستبردار نہ کر سکا۔ اس نے آٹھ دس لوگ اپنے ساتھ ملائے۔ ایک اندھیری رات سب نے ڈھاٹے باندھے۔ ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے کر لڑکی کے گاؤں پہنچ گئے۔ ان کی پلاننگ اتنی زبردست تھی کہ نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو بلکہ گھر کے کسی فرد کو بھی خبر تک نہ ہوئی اور یہ اپنے دو ساتھیوں سمیت لڑ کی کی چار پائی تک پہنچ گیا۔ غربت کا زمانہ تھا لوگ عام طور پر کھڈی کے کپڑوں کو ہاتھ سے سلائی کر کے پہنتے تھے۔ سلائی یا کپڑا خراب ہونے سے بچانے کے لیے بہت سارے لوگ رات کو کپڑے اتار کے موسم کی مناسبت سے رضائی کھیسں یا چادر میں گھس جاتے۔ میر عالم کاکا نے جب اس لڑکی کو اپنے قبضے میں کیا وہ بھی کچھ ایسی حالت میں تھی ۔ اب اتنا وقت تو تھا نہیں کہ وہ اغوا سے پہلے اسے لباس پہنے کا موقع دیتا۔ جلدی میں اس نے اپنا ڈھاٹا اتارا اور چادر اس کے گرد لپیٹ کے اسے اٹھا کے وہاں سے بخیریت نکل آیا۔ میر عالم کا کا کے پڑوس میں ہندوؤں کے زمانے کی ایک حویلی تھی۔ جو کہ انڈیا سے آنے والے دو بھائیوں کے نام الاٹ ہوئی ۔ بڑے بھائی کا نام عبد اللہ طوقی اور چھوٹے بھائی کا نام انور بھیا تھا۔ عبد اللہ طوقی دن کے پہلے حصے میں گورنمنٹ ہائی سکول کے باہر چنا چاٹ لگاتا۔ جس سے وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا ۔ ان کا خرچ ہی کتنا تھا کل دو افراد تھے ۔ چونکہ دونوں میں سے کسی ایک نے شادی نہیں کی ہوئی تھی اس لیے لمبے چوڑے جھنجھٹ سے بچے ہوئے تھے۔ عبد الله طوقی جب بھی مسجد میں جاتا تو وہاں بیٹھے ہوئے لڑکے شرارت اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتے۔ پہلے تو عبد اللہ طوقی انہیں منع کرتا۔ ایسا نہ کرو لیکن لڑکے کہاں سننے والے ہوتے ۔وہ اللہ اللہ کا زکر جاری رکھتے ۔ دو چارمنٹ کے بعد عبد اللہ طوقی بھی ان کے ساتھ بیٹھ کے اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ بے خود ہو جاتا۔ ذکر کی کیفیت میں بعض اوقات وہ کسی بھی اپنی جگہ سے نیچے گر جاتا یا آس پاس کی دیوار سے ٹکرا جاتا۔ اسے اچھی خاصی چوٹیں لگتیں لڑکے زور زور سے ہنستے میر عالم کاکا نے اس سے آدھی حویلی اناج رکھنے کے لیے کرائے پر لے لی۔ کچھ عرصہ اسے کرایہ دیا۔ پھر ٹال مٹول کرنے لگا۔ مزید کچھ عرصہ گزرا تو وہ حویلی کے اس حصے پر مکمل طور پر قابض ہو گیا۔ عبد اللہ طوقی اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ اب تو زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ خرچے ہی خرچے ہیں۔ گاڑیوں کے کرائے بڑھ بڑھ کے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں ۔ اچھا اس زمانے میں لوگ صبح سویرے اٹھتے تھے کھیتی باڑی اور مشقت کرتے ۔ ان کے جسم مضبوط تھے۔ اتنی بیماریاں بھی نہیں تھیں۔ آج کل تو ہر روز ایک نئی بیماری کا نام سننے کو ملتا ہے۔ نئے لڑ کے دو قدم نہیں چل سکتے ۔ ان کا سانس پھول جاتا ہے ۔ پیدل چلنا تو دور کی بات خالص غذا تک ان کو ہضم نہیں ہوتی ۔
اس وقت صرف جسم ہی مضبوط نہیں تھے۔ دماغ بھی بڑے صحت مند تھے ۔ اس وقت کے پونے سوا اور ڈیڑھ کے یاد کیے ہوئے پہاڑے ابھی تک مجھے نہیں بھولے ۔ دو کتابیں ، ایک تختی اور ایک سلیٹ ہوتی تھی ۔ ہاں اس زمانے میں کاپیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ہم تختی کو دھو کے اس پر گھاچی لگاتے ۔ اور سکھانے کے لیے اسے پکڑ کے زور زور سے بازو گھماتے ۔ ساتھ ایک بول بھی منہ سے نکلتا۔ سک سک سکھا دے۔ بارہ بجے لادے۔ اسی لیے تو ہم لوگ خوش خط ہیں ۔ ہم نے تختی لکھی ہوئی ہے ۔ اس وقت اس مقصد کے لیے خاص طور پر قلم تیار ہوتے تھے۔ یاد ہے استاد کے پاس چاقو ہوتا تھا۔ جس سے وہ بچوں کو قلم تراش کے دیتا ۔ اب ویسے مخلص اور محنتی استاد کہاں ۔ اب تو تعلیم بھی ایک طرح سے کاروبار بن گئی ہے ۔ استاد بچوں سے فصلوں کی کٹائیاں کرواتے ہیں ۔ ان سے مرغیاں اور انڈے لیتے ہیں ۔ یہی استاد پھر سالانہ امتحان میں ان سے نقلیں کرواتے ہیں۔ بچے سارا سارا سال کچھ نہیں پڑھتے ۔ اسی لیے تو ان کو آتا جاتا کچھ نہیں۔ ہمارے وقتوں کے چار پڑھے ہوئے آج کے چودہ پڑھے ہوؤں سے بہتر ہیں ۔ یہاں میرا ضبط ختم ہو گیا۔ آپ نے کہاں تک پڑھا تھا ۔” میں نے چار جماعتیں پڑھی تھیں ۔ پھر آپ نے کیا کام کیا تھا۔ میں کراچی چلا گیا تھا۔ پھر وہاں ایک میمن کی کوٹھی پر چوکیداری کا کام کیا۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے وقتوں کی چار جماعتیں آج کی چودہ جماعتوں کے برابر ہیں۔ اب چودہ پڑھ کے لوگ دفتروں میں کام کرتے ہیں ۔ سکولوں میں استاد لگتے ہیں۔ بنکوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ تو ویسے میں نے دو تین مثالیں دی ہیں ۔“ میر عالم کاکا نے اس آدمی کے کان میں کچھ پھڑ پھڑاہٹ کی۔ پھر وہ نہیں بولا۔ میں سمجھ گیا کہ میر عالم کا کا نے اس کے کان میں کہا ہوگا۔ اس کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کے نزدیک بزرگوں کے لیے احترام نام کی کوئی چیز نہیں ۔ یہ تو ہے ہی بے غیرت ۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.