کنجوسی ایک آرٹ ہے Afsana by Saeed Ashar: A Heartfelt Reflection
کنجوسی ایک آرٹ ہے
یہ ایک بہت بڑا گروپ ہے۔ جس کے چار ملازم زاہد ، ظافر، منیب اور شجاعت اس وقت ہاف مون
پر اپنے باس کی جانب سے دی گئی ایک دعوت میں شریک ہیں اور باقی لوگوں سے قدرے فاصلے پر ایک جگہ گھاس پر اکٹھے بیٹھے مصروف گفتگو ہیں ۔ ساتھ ساتھ وہ اس بات کا خیال بھی رکھ رہے ہیں کہ کب دستر خوان لگتا ہے۔ اس گروپ کے ماتحت بہت سارے خود مختار ڈویژن ہیں اور ہر ایک ڈویژن کے اندر آگے کئی قسم کے مزید ذیلی ادارے یا کاروبار ہیں ۔ مثال کے طور پر کیمیکل ڈویژن کو ہی لے لیں ۔ اس کے ماتحت فوڈز ، آٹو موبائل اور کئی فیکٹریاں ہیں۔ جیسے کہ ریزن اور پولیسٹر مینوفیکچرنگ کی فیکٹریاں اس کے علاوہ بہت ساری دوسری کمپینیوں میں اس کے شیئرز ہیں۔ اس ڈویژن کی تقریبا ہر بڑے شہر میں برانچز ہیں۔ اس کے علاوہ دبئی اور کینیڈا میں بھی اس کی برانچز موجود ہیں۔ ہر برانچ کے ساتھ بڑے بڑے ویئر ہاؤسز ہیں جہاں ملینز ڈالرز مالیت کا مٹیریل سٹاک ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گروپس بھی موجود ہیں جو اپنے اپنے مقام پر خود مختار ہیں جیسے پراپرٹی، والوز، کمرشل ٹرانسپورٹ، پولز اینڈ ٹریز، گیلو نائزنگ، ہیوی مشینری، ویلڈنگ، انشورنس و غیره وغیرہ ۔ اس گروپ میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کام کرتے ہیں ۔ یہ گروپ پورے ملک میں جیسے ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ بزنس کے حساب سے پورے ملک میں اس کا چالیسواں نمبر ہے اور اپنے منطقے میں یہ نویں نمبر پر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس گروپ کے بانی دوسری جنگ عظیم کے دوران گلف میں کھڑے اتحادی فوجیوں کے جہازوں پر اپنی چپوؤں والی کشتی پر جا کے عام ضرورت کی چیزیں بیچا کرتے تھے۔ اس سے پہلے اُن کا کباڑ کا کاروبار تھا۔ ان تمام ڈویژنز کا ایک ہی بلڈنگ میں ایڈ آفس ہے۔ جنھیں اس کا اونر کنٹرول کرتا ہے۔ اس وقت اگر ان کے پاس کوئی کاروبار نہ بھی ہو تو ان کے پاس اتنی پراپرٹی ہے کہ اگلے سو سال تک بغیر کوئی کام کیے ان کا سارا خاندان اس سے آنے والے کرائے کے بھرو سے بے فکری سے رہ سکتا ہے۔ ہر بڑے شہر کی ہر مین سڑک پر جتنے بھی نمایاں کارنر پلاٹ ہیں تقریباً تقریباً ان کی ملکیت ہیں ۔ ایک ایک شہر میں درجنوں کے حساب سے ان کے پلازے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر انڈسٹریل ایریا میں ان کے پاس پلاٹس اور بڑے بڑے ویئر ہاؤسز کے لیے الگ سے جگہیں بھی ہیں۔ ان چاروں کا تعلق کیمیکل ڈویژن ہیڈ آفس کے مارکٹنگ اور پر چیز ڈیپارٹمنٹ سے ہے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک ہوٹل کا ہائر کیا گیا اک بار بی کیو کے کام میں مصروف ہے ۔ اتنے میں حارث باری اپنی جگہ سے اٹھ کر کوکنگ ایریا میں جائے چکن تکے چیک کرنے لگتا ہے۔ وہ کیمیکل ڈویژن کا انٹرنل آڈیٹر ہے۔ زاہد ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔ لگتا ہے اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ۔ باقی تین بھی ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کنجوس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہو گا۔ مجھ سے اس بات پر شرط لگا کر دیکھ لیں ۔ ظافر کی اس بات پر تینوں نے لطف لیا۔ میں آپ کو اس کی خساست کا تازہ واقعہ سناتا ہوں ۔ آپ سب کو پتہ ہے مارکٹنگ کی سفید گاڑی عام طور پر میرے پاس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے یہ باس کے پاس گیا اور اس گاڑی کے لیے ریکوئسٹ کی۔ اس کی اپنی گاڑی ریپیئرنگ کے لیے ورک شاپ جانی تھی۔ باس نے آمادگی کا اظہار کیا اور مجھے بھی بتایا کہ باری صاحب جب کہیں انھیں ایک دو دن کے لیے گاڑی دے دینی ہے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں نے اسے بھی کہہ دیا کہ جب گاڑی ضرورت ہو مجھے بتا دیں۔ میری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں۔ دو دن یہ آتے جاتے مجھے یاد کرواتا رہا کہ جوں ہی اسے گاڑی کی ضرورت پڑے گی یہ مجھے بتائے گا اور میں بھی اسے اپنی دستیابی کا یقین دلاتا۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک ہے ۔ اب مزے کی بات سنیں۔ اس نے احتیاطاً باس سے میرا موبائل نمبر بھی لے لیا تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے نیچے سات نمبر پر بقالے پر جارہا تھا۔ میرے موبائل پر ایک سیکنڈ کے لیے بیل ہوئی۔ کوئی انجان نمبر تھا۔ مجھے لگا کہ کال بیک کرنی چاہیے ۔ حالانکہ عام طور پر میں انجان نمبروں کو نظر انداز کرتا ہوں لیکن میں نے اس نمبر پر کال بیک کی ۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ دوسری طرف سے یہ بول رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ چیک کر رہا تھا کہ یہ نمبر آپ ہی کا ہے۔ ویسے مد نہیں کہ اپنے مطلب کے لیے یہ میرے نمبر پر ایک چھوٹی سی مس کال دے رہا ہے۔ تا کہ میں کال اٹینڈ کر کے اس کے دس حلالے نہ خرچ کروادوں ” یار! اس میں ذرا شرم نام کی چیز نہیں۔ حالانکہ یہ ہر ماہ اچھا خاصا فون الاؤنس بھی لیتا ہے ۔ منیب کچھ جذباتی سا ہو گیا۔ ظافر نے اپنی بات جاری رکھی۔ اچھا جب میں نے اس کے کچودے پن کے بارے میں باس کو بتایا پہلے تو وہ بہت ہنسے پھر مجھے بتایا کہ جب اسے اپنے بیٹے کو پانچ ریال بھی دینے ہوتے ہیں تو کسی سے ادہار مانگ کے دیتا ہے تا کہ اس کا پچاس کا نوٹ سلامت رہے ۔ ایک بار یہ ریاض جانے لگا۔ مجھے یہ کہہ کے سو روپے ادہار لیے کہ اس کے پاس پانچ سو کا نوٹ ہے ۔ اسے اگر کھلا کر والیا تو خرچ ہو جائے گا۔ ظافر کی بات ختم ہوتے ہی منیب سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔ ایسے اور بھی بہت ہیں۔ عبید صاحب تو آپ کو یاد ہی ہوں گے کسی زمانے میں پرچیز منیجر تھے۔ میں ان کے ساتھ بڑا فری تھا ۔ بہت عرصہ ہو گیا ہے ان کی کوئی خبر نہیں آئی ۔ پتہ نہیں کس حال میں ہوں گے۔ بہت خوش نصیب تھے۔ عورت کے ساتھ ریٹائرمنٹ لے لی۔ ورنہ یہاں سے جو بھی گیا خوار ہو کے ہی گیا۔
زاہد کے اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ منیب نے اپنی بات جاری رکھی۔ ان دنوں میں پاکستانی سکول کے پاس مست بریانی کے پڑوس میں رہتا تھا۔ عبید صاحب ہر ماہ مجھ سے میرے پڑوس کی ایک دکان ٹن پان سے سترہ ریال والا کا لنگ کارڈ منگواتے تھے۔ کیوں کہ وہاں سے وہ کارڈ ایک روپیہ ستا ملتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مجھے سترہ ریال والا کارڈ نہیں ملا تو میں تیس ریال والا لے آیا۔ انھوں نے اسے واپس کر دیا۔ اور اصرار کر کے کہا کہ صرف سترہ ریال والا ہی لاتا ہے۔ جب تک نہ ملے میں انتظار کرلوں ۔ میرے ہاتھ ایک طرح سے ان کی کمزوری آ گئی۔ ان دنوں میں ہفتے میں ایک دو بار آفس کے ساتھ والے لبنانی ریسٹورنٹ سے شورما لیتا تھا۔ اس وقت چار ریال کا اچھا خاصا ملتا تھا۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں عبید صاحب اس ریسٹورنٹ سے اپنے لیے شورما لے رہے ہیں۔ میں ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ انھوں نے مسکرا کے میرے سلام کا جواب دیا۔ “سر! آج مجھے بھی شورما لے کر دیں۔” آج نہیں پھر کبھی ۔ میری خواہش سن کر دھیمی آواز میں جواب دیا۔ اچھا میں مسلسل اسرار کرتار ہا اور وہ انکار کرتے رہے ۔ جب تک وہ وہاں سے چلے نہیں گئے میں اصرار کرتا رہا۔ شورما بنانے والا اس وقت انڈین تھا۔ وہ بھی سن سن کے مسکرا رہا تھا۔ پھر ایک دن میں سہیل کے ساتھ کمپنی کی رہائش گاہ پر اس کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ عبید صاحب بھی وہیں رہتے تھے۔ انھوں نے مجھے ایک ناریل کے جوس کا ٹن دیا۔ ارے ان دنوں میں فوڈ ڈویژن میں تھا۔ وہ ناریل کے جوس کے ٹن میں نے ان کو دیے تھے۔ کہیں سے سیمپل آئے تھے ۔ زاہد نے یہاں وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔
اچھا میں بھی اتنے عرصے سے حیران ہوں کہ یہ حاتم طائی کی قبر پر انھوں نے کیسے لات مار دی۔ ان کے پاس ایک نوکیا کا بہت ہی پرانا موبائل تھا۔ ایک دن اعجاز صاحب کے پاس کھڑے ان کو بتا رہے تھے کہ دو ریال والی دکان سے موبائل کا کور لیا ہے ۔ میں پاس سے گزر رہا تھا۔ میری رگ ظرافت پھڑکی تو بےاختیار میرے منہ سے نکل گیا۔ سر ! اب تو موبائل کی قیمت ڈبل ہوگئی ہے میری یہ بات سن کے اعجاز صاحب بھی ہنسں پڑے۔ یہاں ایک کنٹری مینیجر وارث خان بھی ہوا کرتا تھا۔ عام طور پر خاموش اور الگ تھلک رہتا تھا۔ شجاعت نے خاموشی توڑی۔ سنا ہے جب بھی وہ کمپنی کی طرف سے کسی ملک کے ٹور پر جاتا۔ وہاں صبح ہوٹل میں ڈٹ کے ناشتہ کرتا۔ جو کہ اس ہوٹل کی طرف سے فری ہوتا۔ سارا دن پھر کچھ نہیں کھاتا تھا۔ رات کے وقت تھوڑے سے چپس کھا کے گزارہ کرتا۔ اس طرح وہ اپنے سفر کے ٹی اے ڈی اے میں سے اچھا خاصا بچا لیتا۔ میں آپ تینوں کو اس کی ایک دو باتیں سناتا ہوں ۔ اس کی جب شادی ہوئی پہلا کام تو اس نے یہ کیا بہن کا عروسی جوڑا کرائے پر لایا۔ دوسرا شادی ہال بھی کمپنی کے نام سے بک کروایا تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈسکاؤنٹ حاصل ہو۔ پھر اس نے کوئی سٹیج بھی نہیں بنوایا تاکہ اضافی خرچ نہ ہو۔ اچھا دلہن کو ہنی مون پر لے جانے کا بھی اس نے ایک یونیک طریقہ نکالا۔ یہیں پاس شہر کے ہوٹل میں جا ٹھہرا اور دلہن کو یہ کہ کے مطمئن کر لیا کہ ہم جس جگہ بھی جاتے ہوٹل میں ہی رہتے ۔ اس لیے کہیں دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح اس نے کہیں آنے جانے کا ٹکٹ بچا لیا۔ اب میں آپ کو ایسی بات بتانے لگا ہوں جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔“ زاہد نے کھلکھلاتے ہوئے کہا۔ آپ سب کو معلوم ہے پہلے میں فوڈز میں ہوا کرتا تھا۔ ایک دن کیا دیکھتے یں اونر کا بھتیجا جو کہ فوڈ ڈویژن کا انچارج بھی تھا اپنی بیگم کے ساتھ ویئر ہاؤس میں آرہا ہے۔ میڈم اچھی طرح وہاں گھوم پھر کر جائزہ لیتی رہیں۔ جاتے وقت اس نے وہاں موجود لیبر کے چار پانچ لوگوں کو دودو سو ریال دے دیے تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ اونر کا بھتیجا واپس آگیا۔ اس نے لیبر کے لوگوں سے پیسے یہ کہہ کے واپس لے لیے کہ میڈم نے غلطی سے یہ دے دیے تھے ۔ اچھا! مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ دو منٹ کے اندر اندر دستر خوان لگنے والا ہے ۔ جلدی میں ایک بات بتاتا ہوں ۔ چونکہ آپ اوپر والے فلور پر نماز پڑھنے نہیں جاتے ہیں اس لیے آپ نے نوٹ نہیں کیا ہو گا۔ اب یہ جو ہمارا اونر ہے اس کا جب والد ہوتا تھا اس کو اگر آپ لوگ دیکھتے تو حیران رہ جاتے ۔ عام سے کپڑے کی اس نے بغیر استری کیے توپ پہنی ہوئی ہوتی۔ اس کے پاؤں میں بھی پورانے ترپڑ ہوتے دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ کوئی ۔مانگنے والا ہے ایک ان کی دیکھتا ہوں اپنا بازار کے پیچھے والی گلی میں مسجد کے باہر فٹ پاتھ پر رکھی ہوئی سبزی والے سے وہ اس بات پر بحث کر رہا تھا کہ وہ پیکنگ میں رکھے ٹماٹروں کی قیمت دس کے بجائے آٹھ ریال دے گا۔“ شجاعت نے جیسے موضوع کو سمیٹا ہو۔ ” ہاں جی ! اس میں بڑی برکت ہے ۔ زاہد نے قہقہ لگایا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کنجوسی بھی ایک آرٹ ہے ۔ ظافر کسی گہری سوچ سے باہر نکلا۔ چلیں جی ! دستر خوان بچھ رہا ہے۔“ زاہد نے سب کی توجہ ادھر مبذول کروائی۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.
