Afsana AYHMAQ by Saeed Ashar

Afsana-Ahmaq-by-Saeed-Ashar-featured-image.webp

Afsana AYHMAQ by Saeed Ashar: A Heartfelt Reflection

Afsana-AYHMAQ-by-Saeed-Ashar

 ایک وقت تھا فیس بک پر میرے بھی پانچ ہزار کے قریب فرینڈز تھے۔ گھٹتے گھٹتے چودہ پندرہ سو کے قریب رہ گئے ہیں۔ اس میں جہاں میری ان تھک کوششوں کا دخل ہے، وہیں ان شاعرات کی بھی کرم گستری ہے جنہیں ان کی چھینک پر بھی پانچ چھ کمنٹس با آسانی مل جاتے ہیں۔ بہر حال اب بھی دو چار سخت جان خواتین میری فہرست میں موجود ہیں۔ خیر یہ بھی کوئی کم تعداد نہیں ۔ اس کے علاوہ درجنوں گروپس کا میں اعزازی رکن ہوں ۔ دو چار گروپ اپنے بھی گلے پڑے ہوئے ہیں ۔ اس حساب سے بے شمار لوگوں کے ساتھ بالواسطہ تعلق سابن جاتا ہے ۔ ذرافیس بک سے باہر کی دنیا میں آتے ہیں ۔ سارا دن سینکڑوں افراد سے آمنا سامنا ہوتا ہے ۔ مجموعی تعداد لاکھوں میں جا پہنچتی ہے۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ان سب میں سے جن میں آپ بھی شامل ہیں کوئی ایک بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں کہ وہ احمق ہے لیکن میں آج تسلیم کرتا ہوں کہ میں احمق ہوں ۔ یہ کوئی جذباتی بیان نہیں ۔ اسے میں دلائل سے ثابت کر کے دکھاتا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کہیں گے کہ ایک احمق کے دلائل پر ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے ۔ سام سنگ نوٹ پر میں ایک فولڈر کھول کے بیٹھا تھا۔ اس میں انتیس دو ہے مکمل ہو چکے تھے۔ تیسویں کی آمد آمد تھی۔ میں نے اپنا موبائل الٹ کے اپنے سینے پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد نیا دوہا ٹائپ کرنے کے لیے موبائل اٹھایا تو صورت حال دیکھتے ہی نو مولود دوہے کی دماغ میں ہی کہیں تدفین ہوگئی۔ میں کچھ دیر تک ہونقوں کی طرح مو بائل دیکھتا رہا۔ فولڈر میں سے سارے دو ہے غائب ہو چکے تھے ۔ وہاں کسی جناتی زبان کی صرف چند علامات تھیں۔ دماغ ذرا ٹھکانے آیا تو پوری کوشش کر کے دیکھ لی۔ کچھ برآمد نہ کر سکا۔ ایسا لاچار میں زندگی میں ایک بار پہلے بھی ہوا تھا۔ کافی پرانی بات ہے۔ میں چالیس دن کے لیے پاکستان گیا ہو ا تھا۔ اس وقت موبائل میں اس طرح کی چیزیں محفوظ کرنے کی شاید سہولت نہیں تھی۔ میں نے اس مقصد کے لیے ایک بڑا سا کاغذ اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اس سفر کے دوران جب کوئی شعر ہوتا میں اس پر نوٹ کرتا جاتا۔ چھٹی کا پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزری ۔ واپسی کے وقت اس کائنڈ پر دس غزلیں اپنا نقش چھوڑ چکی تھی۔ چاہے تو یہ تھا کہ وہ کاغز کہیں محفوظ کر لیتا لیکن لالچ بری بلا ہے۔ شیطان نے بہکایا۔ جہاز میں بیٹھ کے ایک آدھ غزل اور ہو جائے گی اس لیے کاغذ کو جیب میں ہی رہنے دیتے ہیں ۔ پورے سفر میں لکھنے لکھانے کی نوبت نہیں آئی۔ ٹھکانے پر پہنچا تو جیب میں کاغذ نہیں تھا۔ پہلے تو ہاتھوں کے طوطے اڑے۔ پھر صدمے سے سردی لگ کے بخار چڑھ گیا۔ اتفاق سے ردیفیں منفرد ہونے کی وجہ سے سب غرزلوں کی زمینیں مجھے یاد تھیں۔ سات دن بخار میں جلتا تپتا رہا۔ کام پر بھی نہیں جا سکا لیکن میں نے دوبارہ وہ دس غزلیں کہہ کے اپنی جان چھوڑی ۔ دسویں غزل کے مکمل ہوتے ہی بخار بھی اتر گیا لیکن اس بار معاملہ بالکل مختلف تھا۔ ہر دوہے کا قافیہ مختلف تھا۔ ردیف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی میں نے کوشش کی کہ بھاگتے چورکی لنگوٹی پر ہاتھ ڈال سکوں ۔ درجن بھر دو ہے میں نے ایک بار پھر لکھ لیے ۔ اتنے میں غزالہ کا میسچ آگیا۔ بکس بھیجی ہیں کہ نہیں ؟ ۔۔ جو پاس ایکسٹرا میں وہ بھی بھیج دو۔ ۔ ۔ویسے ہو تم پکے کنجوس ۔۔۔ یہ کنفرم شده گل اے ۔ بڑا ہی قہر آیا۔ جس مصیبت میں اس وقت میں گھرا ہوا تھا۔ اگر ایک غزالہ کے ساتھ ایک غزالہ فری بھی ملتی تو پروانہ کرتا لیکن میں نے بڑے ضبط سے کام لیا۔

نئی تو ایک ہی ہے نظم کہانی  باقی تو تمہیں بھیجی ہوئی ہیں ۔ ایک اور کتاب پریس میں ہے وہ چھپ جائے تو دونوں ایک ساتھ بھیج دوں گا۔“ میں نے اس کا منہ بند کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اتنے میں مصعب میرے سر پر آن کھڑا ہوا۔ “پاپا! کووڈ ٹیسٹ کے لیے جانا تھا ۔ ٹھیک ہے ! چلو پھر میرے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس دوران غزالہ کے میسیجز نے بھی یلغار کر رکھی تھی۔ ارے ۔۔۔ ! میں نے کہا ڈھیروں بکس ہیں آپ کے پاس ۔۔۔ ان میں سے کچھ دے دو کنجوس کہیں کے ۔۔ تو بہ ہے ۔“ سیڑھیاں اترتے ہوئے میں نے اسے وائس میسج کیا۔ میں اس وقت باہر سڑک پر ہوں ۔ واپس آکے بات کرتا ہوں ۔ پھر بھی اس کے میسج آتے رہے۔ جو میں نے بعد میں دیکھے۔ سڑکیں کیوں ناپ رہے ہو؟ ۔۔ کوئی اور کام نہیں۔۔ بکس نہ بھیجیں تو۔۔۔ پھر گاڑی ہی لے کر بھیج دو — پٹرول ڈلوالوں گی ۔۔۔ اتنا خرچہ تو افورڈ کر ہی لوں گی ۔ کووڈ سنٹر سے واپسی پر گھر آنے کے بجائے مخالف سمت گاڑی دوڑا دی۔ پتہ ہی نہیں چلا تین گھنٹے سے زیادہ ہم مختلف سڑکوں پر بھٹکتے رہے۔ تھک ہار کے گوگل میپ سے مدد مانگی۔ واپس آئے میں دوبارہ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر وہی فولڈر کھولا۔ جانے سے پہلے درجن بھر دوہے ریکور کر چکا تھا۔ سوچا ایک کوشش اور کر کے دیکھ لوں ۔ موبائل کو الٹا کر کے سینے پر ڈال لیا۔ ایک خیال بجلی کی طرح کوندا موبائل اٹھا کے دیکھا تو بارہ کے بارہ دوہے غائب تھے اور وہاں کسی جناتی زبان کی کچھ علامات نظر آرہی تھیں ۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ کی شکل میں ایک لفظ برآمد ہوا۔

احمق” مصعب بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ جی پاپا” تمہیں نہیں بلایا۔ دفعان ہو ۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *