Afsana AKHRI MUARKA by Saeed Ashar

Afsana-AKHRI-MUARKA-by-Saeed-Ashar.webp
Afsana-AKHRI-MUARKA-by-Saeed-Ashar-2.webp

Afsana AKHRI MUARKA by Saeed Ashar a Heartfelt reflection.

میں آپ کو اپنی سکول لائف کے چار یاد گار معرکوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ ان چاروں معرکوں میں کوئی چیز بھی بظاہر مشترک نہیں ۔ سوائے اس کے کہ چاروں میں میری شرکت کسی بھی شکل میں تھوڑی یا زیاد تھی۔ پہلا معرکہ بیان کرنے سے پہلے تمہید باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے پانچویں جماعت پاس کی تو میرے والد صاحب نے مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے برن ہال ایبٹ آباد بھیجنے کے بجائے ہری پور سے سرائے نعمت خان میری بڑی پھوپھو کے گھر بھجوا دیا۔ تا کہ میں وہاں درس نظامی طرز کی دینی تعلیم حاصل کر سکوں ۔ مجھ سے پہلے میرا بڑا بھائی بھی وہاں موجود تھا۔ جو مجھ سے دو کلاسیں آگے تھا۔ میرے پھوپھا جنہیں ہم ماموں کہتے انتہائی پرہیز گار اور عالم شخص تھے۔ عربی اور فارسی زبانوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔ ان کی لکھائی بھی بہت ہی خوبصورت تھی۔ جیسے انھوں نے کہیں سے باقاعدہ کتابت سیکھی ہوئی تھی۔ مسلکا دیو بندی لیکن طبعاً صوفی منش تھے۔ ایک طرف طبیعت میں سخت گیری اور دوسری طرف خدا خوفی پائی جاتی تھی۔ ہر وقت ذکر وفکر میں مشغول رہتے تسبیح جیسے ان کے بدن کا کوئی جزو تھا۔ میں نے انھیں کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا تھا۔ ہلکا سا مسکرا دیتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول میں ایس وی کی آسامی پر متمکن تھے۔ مڈل اور ہائی کلاسز کو فارسی اور اردو پڑھاتے۔ تمام اساتذہ اُن کی بے پناہ عزت کرتے۔ گاؤں کے لوگوں نے ان کے تقویٰ علم وفضل ، وقار اور شرافت کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی مرکزی جامع مسجد کی امامت بعد اصرار ان کے حوالے کر دی تھی۔ ماموں جمعے کے خطے میں فوری نوعیت کے مسائل بیان کرنے کے علاوہ مختلف انبیاء اور صوفیاء کے واقعات اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے کہ لوگ ان کے اگلے خطبے کا انتظار کرتے ۔ وہ آج کل کے خطیبوں کی طرح شعلہ بیان نہیں تھے ۔ دھیمے لہجے میں خطاب کرتے جو سیدھا دل پر اثر کرتا۔ ان کی حتی الوسع کوشش ہوتی کہ فرقہ وارانہ اختلافی موضوعات سے گریز کریں۔ اسی طرح میری پھوپھو بھی ایک نیک نفس، انصاف پسند محنتی شکرگزار خدا ترس اور متوکل خاتون تھیں۔ سارا دن گھر کا کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ جاننے والی خواتین کے کپڑے بھی سلائی کرتیں تاکہ میاں کے معاشی بوجھ کو کم کرسکیں۔ صبح شام دو وقت گاؤں کی بچیوں کو ناظر و قرآن پڑھاتیں ۔ گھر میں دودھ دہی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بکریاں اور انڈوں کے لیے مرغیاں پال رکھی تھیں ۔ گاؤں یا رشتہ داروں میں اگر کوئی موت مرگ یا بیماری ہوتی تو وہاں بھی بر وقت پہنچ جاتیں ۔ ان کی ایک بات جو مجھے بہت پسند تھی صرف وہی یہاں بیان کروں گا۔ پڑوس سے جب بھی کوئی اچھی چیز بنی ہوئی آتی جیسے مرغ یا گوشت کا سالن وہ اسے ساری ہانڈی میں ڈال دیتیں تا کہ اپنے بچوں یا بھتیجوں میں سے کسی ایک کو دے کروہ نا انصافی کی مرتکب نہ ہوں ۔ یہ ماحول بیان کرنا اس لیے بھی زیادہ ضروری تھا تا کہ آپ بخوبی اندازہ کر سکیں کہ ان حالات میں، میں نے یہ معرکے کس قدر مشکل سے سر کیے ہوں گے۔ یہاں بس چند سطر میں اور برداشت کر لیں پھر میں پہلے معرکے کی طرف آتا ہوں۔ گورنمنٹ ہائی سکول سرائے نعمت خان میں اس وقت چھٹی کلاس کی صرف ایک سیکشن تھی۔ ساٹھ سے ستر کے بیچ اس کلاس میں لڑکے تھے جو ارد گرد کے درجنوں گاؤں اور ان کی داخلیوں سے میلوں کا سفر طے کر کے صبح سویرے آتے اور مغرب کے آگے پیچھے واپس گھر پہنچتے ۔ دن کے وقت کھانے کے لیے وہ اپنے ساتھ مکئی کے دانے لے آتے جو وہ سکول میں آدھی چھٹی کے وقت کسی نہ کسی بھٹی سے بھنوا لیتے ۔ دیہات میں عام طور پر اس وقت بچوں کو چھ سات سال کی عمر میں سکول بھیجنا شروع کیا جاتا تھا۔ بعض تو اس سے بھی بڑے ہو جاتے ۔ اس لیے کلاس میں میرے علاوہ دو تین ہی ہوں گے جو چھوٹے تھے ۔ باقی سب مجھ سے بہت بڑے اور سخت جان تھے میں شہری ہونے کے ناطے سب سے نازک تھا۔ میرے ہاتھ بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ اس لیے سزا کا جب بھی کوئی موقع آتا تو میں ٹیچر سے کہتا۔ استاد جی! پیٹھ پر ماریں “ میری اس بات پر کلاس اکثر قہقہ لگاتی۔ جنرل سائنس کا پیریڈ جاوید خان صاحب کے پاس تھا شنگڑی کے خانوں میں سے تھے۔ وہ کوئی باقاعدہ ٹیچر نہیں تھے ۔ شوقیہ پڑھاتے۔ سکول میں ان کی پوسٹ لیب اٹینڈنٹ کی تھی لیکن وہ سب سے زیاد محنتی ٹیچر تھے ۔ آٹھویں تک وہ ہمارے ساتھ رہے۔ انھوں نے میری اس کمزوری سے لطف لینا شروع کر دیا تھا۔ نہیں نہیں میں ہاتھ پر ہی ماروں گا۔ ہاتھ باہر نکالو “ اکثر وہ مجھے ویسے ہی چھوڑ دیتے۔ ہماری کلاس کا مانیٹر بڑا ہی چالو تھا۔ ٹیچر کی غیر موجودگی میں خوامخواہ لڑکوں کو مارتا یا ٹیچرز کے سامنے ان کی شکایت کر کے ان کو پٹواتا سال ختم ہونے سے پہلے ایک دن ہماری کلاس میں بغاوت ہوگئی ۔ بہت سارے لڑکوں نے مل کے مانیٹر کو اچھی طرح دھو ڈالا۔ بات کھلی تو سکول میں سنسنی پھیل گئی۔ پتہ چلا ہماری کلاس کا مانیٹر بہت سارے لڑکوں کو نہ مارنے کے عوض بھتہ وصول کر رہا تھا۔ کچھ لڑ کے اسے مکئی کے بھنے ہوئے دانے دیتے اور کچھ سے وہ با قاعدہ پیسے لے رہا تھا۔ جوں ہی اس نے بھتے کی رقم بڑھانے کو کہا بغاوت ہوگئی۔ انگلش ٹیچر جمیل صاحب نے اسے پورے سکول کے سامنے مرغا بنا کے اس کی تشریف پر جب ڈنڈے برسائے تو اس کے توبہ تائب ہونے کی آواز سکول گیٹ سے باہر تک جارہی تھی۔ میرے ساتھ ایک میرے ہی قد و قامت کا سانولا سالڑکا فراز بیٹھتا تھا۔ سرائے نعمت خان میں اگر آپ شمال کی طرف منہ کر کے دیکھیں تو ایک سرخ رنگ کا بہت ہی اونچا پہاڑ نظر آئے گا۔ اس کی چوٹی پر ایک بیہقی نام کا گاؤں ہے ۔ اس زمانے میں وہاں جانے کا ایک بہت مشکل پیدل پہاڑی رستہ تھا۔ فراز روزانہ وہاں سے آتا تھا۔ بظاہر اس کی حالت سے لگتا تھا اس کا کسی غریب زمیندار گھرانے سے تعلق ہے ۔ صبح کی نماز کے بعد میں روزانہ مسجد پہنچ جاتا جہاں ماموں مجھے لفظی ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھاتے ۔ اسی طرح عشاء کی نماز سے پہلے بھی میں مسجد میں مسائل کی کوئی کتاب پڑھتا جو بہ یک وقت عربی اور فارسی میں ہوتی تھی۔ میرا سب سے پسندیدہ مشغلہ بکریاں چرانا تھا۔ سکول سے واپس آکے میں گاؤں کے باہر مختلف لوگوں کی چراگاہوں میں بکریاں چراتا پھوپھو میری مدد کے لیے اپنے چھوٹے بیٹے قاضی کو بھی میرے ساتھ چلنے کا کہتیں لیکن میری پوری کوشش ہوتی کہ میں اکیلا جاؤں ۔ مجھے تنہائی پسند تھی۔ میں وہاں گھنٹوں کے حساب سے پرندوں کے نغمے سنتا۔ تیتریوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ دانہ دنکا چگتے دیکھتا۔ ایک بار تو دو تیتر بے دھیانی میں بھاگتے ہوئے میرے بالکل قریب آگئے تھے کسی پرندے کی اس طرح کی حیرانی شاید ہی کسی نے دیکھی ہو۔ شکلیں بدلتے ہوئے بادلوں کی بکریوں کو دیکھتا لیکن یہ سب باتیں تو ضمنی تھیں۔ وہاں جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ کے میں چیخ چیخ کے اپنی ماں کے لیے ماہیے گاتا۔ جو جی میں آتا اسے گیت کی شکل میں ڈھال کے زبان سے ادا کرتا۔ آنسوؤں سے میرا پورا منہ دھل جاتا۔ سارا منظر دھندلا ہو جاتا۔ اب بھی کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں ان جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ کے چیخ چیخ کے اپنی ماں کو بلا رہا ہوں۔ اب میں پہلا معرکہ بیان کرتا ہوں ۔ ہم ساتویں کلاس میں پہنچے تو ہماری کلاس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ میں سیکشن اے میں تھا۔ حسن اتفاق سے اس کلاس میں بھی فراز اور میں ایک ساتھ بیٹھے ۔ اب کلاس میں تیس پینتیس لڑکے تھے۔ میں نے بھی اپنے آپ کو اس ماحول میں اچھی طرح سے ڈھال لیا تھا۔ مجموعی طور پر کلاس کا ماحول پر امن تھا۔ سکول کے اساتذہ اور زیادہ تر بچوں کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ میں فارسی والے ٹیچر کا بھانجا ہوں ۔ فارسی اور ریاضی میں کوئی میری فکر کا نہیں تھا۔ اس وجہ سے بھی میرے اندر خود اعتمادی بڑھ چکی تھی۔ کہتے ہیں ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔ ہماری کلاس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ چند دنوں بعد محمد ریاست نام کے ایک لڑکے نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے مختلف لڑکوں سے بد تمیزی اور گالم گلوچ کرنے لگا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اس نے ایک لڑکے کی ٹھیک ٹھاک پٹائی کر دی۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ پوری کلاس پر اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ دو تین مہینے گزر گئے اس دوران کئی لڑکے اس کا شکار بنے خود وہ شاید بہت سخت جان تھا جس کی وجہ سے اسے کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اس کی ضرر رساں طبیعت سے تقریبا ہرلڑکا خوف زدہ ہو چکا تھا۔ ہماری کلاس کے کئی لڑکوں کی داڑھی مونچھیں آچکی تھیں ۔ ایک تو ان میں سے شادی شدہ تھا۔ اس کو بھی اس نے معاف نہیں کیا۔ ایک دن پھر اس نے میری آنکھوں کے سامنے میرے ساتھ بیٹھے فراز کو پٹخ دیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بلی نے چوہے کو دبوچ لیا ہو۔ فراز سارادن چپکے چپکے اپنے زخم سہلا تار ہا مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ اس حرامی کا کچھ نہ کچھ بندو بست کرنا پڑے گا۔ فراز حیرت اور امید سے میرے منہ کی طرف دیکھنے لگا لیکن خاموش رہا۔ اگلے روز ریاست سکول نہیں آیا۔ مجھے موقع مل گیا۔ جوں ہی کلاس میں ایک پیریڈ خالی ہوا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کے ٹیچر کی میز کے پاس چلا گیا۔ ذرا میری بات سنیں  ۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ ہماری کلاس میں ریاست پچھلے کچھ عرصہ سے بدمعاش بنا ہوا ہے۔ اس کا جب جی چاہتا ہے کسی نہ کسی کے ساتھ وہ مار پیٹ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے اس کے اندر خوف نام کی کوئی چیز ہی نہیں کل اس نے میرے سامنے فراز جیسے شریف لڑکے کو بلا وجہ مارا۔ اب ہمیں مل کے اس کا راستہ روکنا ہو گا۔ اس کے لیے میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے ۔ میں نے ترکیب پیش کی تو اس پر پوری کلاس نے آمین کی۔ اگلے روز ریاست کلاس میں موجود تھا۔ سب کچھ ویسا ہی چل رہا تھا جیسا کہ روز کے معمول کے مطابق ہوتا تھا۔ پھر وہ وقت آگیا جس کے لیے ایک روز پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ چوتھا پیریڈ تھا اور آج اس پیریڈ کا ٹیچر چھٹی پر تھا۔ فراز اپنی جگہ سے اٹھ کے ریاست کے پاس پہنچ گیا۔ تو نے اس دن کیا سمجھ کے مجھے مارا تھا ؟“ ریاست کو جیسے جھٹکا لگا ہو۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فراز جیسا مریل لڑکا اس کے ساتھ یوں مخاطب ہونے کی کبھی جرات کر سکتا ہے۔ اس کے جواب دینے سے پہلے ہی فراز نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے دائیں گال پر جوڑ دیا۔ ریاست اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بھر پور جوابی وار کرتا میں نے پیچھے کی طرف سے اس کی گردن کو جکڑ لیا اور اپنی دونوں ٹانگوں سے اس کی کمر کے گرد حلقہ بنالیا۔ اس کے مقابلے میں فراز آزاد تھا۔ اس نے جی بھر کے اس کی پٹائی کی۔ اس دوران پوری کلاس بالکل خاموش رہی ۔ تمام لڑ کے دیواروں کے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے تھے۔ منصوبے کے مطابق ایک لڑکے نے کلاس روم کو اندر سے کنڈی لگا دی تھی۔ فراز اسے پوری تسلی سے پیٹتارہا۔ یہاں تک کہ نڈھال ہو گیا۔ ریاست نے شروع میں اپنے آپ کو مجھ سے آزاد کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن میں بھی چڑ بنا رہا۔ آخر وہ بے سدھ ہو گیا۔ ہم نے اس امکان کو بھی پیش نظر رکھا ہوا تھا کہ اگر وہ ہم دونوں پر حاوی ہو جاتا تو اس طرح کی ہنگامی صورت حال کے لیے مزید دو لڑکے تیار تھے جو فوراً میدان میں کود پڑتے اور اسے جکڑ لیتے ۔ اسے مارنے پیٹنے کی ذمہ داری صرف فراز کی تھی ۔ ہماری منصوبہ بندی مکمل طور پر فول پروف تھی ۔ اگر و کسی ٹیچر کے سامنے شکایت بھی کرتا تو پوری کلاس اس بات کی گواہی دیتی کہ اس نے دو دن پہلے بھی فراز کو مارا تھا۔ آج پھر یہ اسے پیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے صرف اسے پکڑ کے بیچ بچاؤ کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ریاست کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ بظاہر یہ معمول کا ایک چھوٹا سا جھگڑا تھا لیکن اس کے بڑے دور رس نتائج نکلے ۔ پوری کلاس کے سامنے میں ایک اہم حیثیت کے ساتھ ابھر کے آگیا۔ فراز کی شکل میں مجھے ایک قابل اعتماد جوڑی دار مل گیا۔ جب بھی ضرورت پڑی وہ میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑا ہو گیا۔ سارا سال ہم نے اپنی کلاس پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ پھر یوں ہوا کہ اس واقع کی تفصیلات سینہ بہ سینہ پورے سکول میں پھیل گئیں۔ دوسرا معرکہ کچھ یوں ہے۔  آٹھویں کلاس میں پہنچا تو پہلے روز ہی مجھے ایک نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے لگا جیسے میری کمر ٹوٹ گئی ہو۔ فراز میرے ساتھ نہیں تھا۔ وہ پچھلی کلاس میں ہی رہ گیا تھا۔ آٹھویں کلاس میں میرے دائیں بائیں نئے لڑ کے آگئے ۔ جن کا تعلق گاؤں کے مضبوط گھرانوں سے تھا۔ پھر غیب سے ایک مدد آ گئی۔ ایک دن عشاء سے پہلے میں اور پھو پھو کا بڑا لڑکا صوفی مسجد میں اپنا اپنا سبق یاد کرنے میں مصروف تھے۔ صوفی مجھ سے ایک سال بڑا ہونے کی وجہ سے اس وقت نویں جماعت میں تھا۔ اس نے اچانک اپنا سبق چھوڑ کے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ” وہ تیمور خان کا چھوٹا بیٹا نسیم خان ہے نا۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے کل ذرا اس کو سیدھا کرنا ہے۔ بہت اکڑتا پھرتا ہے ۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں نے حامی بھر لی۔ ٹھیک ہے ۔ اگلی صبح ہم دونوں ایک ساتھ عام دنوں کے مقابلے میں ذرا جلدی سکول پہنچ گئے۔ اپنی اپنی کلاس میں بستے رکھ کے ہم سکول گیٹ کے نزدیک کھڑے ہو کر نسیم خان کا انتظار کرنے لگے۔ اس وقت تک کوئی بھی ابھی سکول نہیں پہنچا تھا۔ جلد ہی وہ گیٹ میں سے اندر داخل ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں دو تین کتابیں اور شاید اتنی ہی کا پیاں تھیں۔ اپنے آپ کو علامہ سمجھنے والے اکثر لڑکے اس زمانے میں اپنے کندھے سے پورا بستہ لگانے کے بجائے یہی کام کرتے تھے۔ جوں ہی وہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر کے سامنے سے گزرا صوفی نے پیچھے سے اس پر حملہ کر دیا۔ اتنے اچانک حملے کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس کی کتابیں اور کاپیاں اس کے ہاتھ سے نکل کے دور جا گریں ۔ پھر بھی اس نے پلٹ کے سنبھلنے کی کوشش کی لیکن ہم دو تھے ۔ ایک ایک اور دو گیارہ کے مصداق وہ ہماری جارحانہ پیش قدمی روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ ہمارے تابڑ توڑ تھپڑوں اور مکوں کے نتیجے میں وہ گر گیا۔ ہم نے اسے ٹھڈوں کے آگے رکھ لیا۔ آدھا سکول اس وقت تک آچکا تھا اور چاروں طرف سے ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ کچھ اس دوران جملے بھی کس رہے تھے۔ اس نے اٹھ کے دو تین بار بھر پور جوابی کاروائی کی کوشش کی لیکن آخر میں اسے پسپائی ہی میں اپنی عافیت نظر آئی لڑکوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اب وہ آگے آگے اور ہم دونوں فاتح لشکر کی طرح اس کے پیچھے۔ سکول کی مغربی دیوار کے ساتھ سیمنٹ کے کچھ تازہ بلاک سوکھنے کے لیے پھیلا کے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے جب ادھر کا رخ کیا تو ایک بار پھر وہ ہماری دسترس میں آگیا۔ ہم نے اسے ان بلاکوں پر پٹخ دیا۔ سکول کے درودیوار ایک ہی طرح کے شور سے گونج رہے تھے ۔ ہو۔ ہو۔۔ ہو۔ سکول کے لڑکے تو ہمارے نزدیک نہ آئے البتہ اتنی دیر میں سکول کا چپڑاسی ، مالی اور چوکیدار وغیرہ پہنچ گئے ۔ انھوں نے ہم دونوں کو پکڑ کے اس سے دور کیا۔ اسمبلی کے بعد مجھے ماموں نے بلا کے پوچھا۔ سچ سچ بتاؤ کیا ہوا تھا ۔ مجھے اصل بات کا تو علم نہیں کہ کیا ہوا ہے ۔ ان دونوں میں اچانک لڑائی شروع ہوگئی تھی مجھے لگا نسیم خان زیادہ تگڑا ہے اس لیے میں صوفی کے ساتھ شامل ہو گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے جب دیکھا کہ معاملہ سکول کے ایک ٹیچر کے بچوں کا ہے تو انھوں نے یہ کیس ان ہی کے حوالے کر دیا۔ ماموں نے صوفی اور نیم خان کو بلا کے مرغا بنا دیا، برا بھلا کہا اور بغیر کسی مزید سزا کے ان کا راضی نامہ کروادیا۔ لیکن اس معرکے کا دوسرا حصہ تو ابھی باقی تھا۔ مجھے اور صوفی دونوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ گھر میں ہماری خوب پٹائی ہوگی۔ صوفی نے گھر پہنچتے ہی اپنی والدہ کے سامنے رونا دھونا شروع کر دیا۔ ہم باہر کسی کے ساتھ شرارت کریں یا ہمارے ساتھ کوئی شرارت کرے ہر دو صورت میں ہمیں مار پڑتی ہے ۔ آخر ہم کدھر جائیں ۔ آج نسیم خان سے ہمارا جھگڑا ہوا شرارت بھی اسی کی تھی۔ پھر بھی ہمیں ہی مار پڑے گی ۔ صوفی دھاڑیں مار مار کے رورہا تھا۔ پھوپھو کا دل پسیج گیا۔ جوں ہی ماموں گھر آئے انھوں نے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی لی اور صوفی کا پوچھا۔ میں پہلے ہی سے برآمدے میں ڈرا سہما بیٹھا تھا۔ ماموں کو جب کبھی کسی کی پٹائی کرنا مقصود ہوتی پہلے اسے ایک بازو سے پکڑتے ۔ پھر اتنی رفتار سے ٹانگوں اور تشریف پر نشانے لگاتے کہ پلٹنے والے کو سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ وہ اپنی کون سی جگہ سہلائے ۔ اس دن پہلی بار پھو پھو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ماموں کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ ناں ! یہ کون سا انصاف ہے کہ بچے باہر سے بھی مار کھا کے آئیں اور گھر پر بھی مارکھائیں ۔ کیا ہر بار ان ہی کا قصور ہوتا ہے ۔ آج کچھ بھی ہو جائے میں آپ کو اپنے بچوں کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گی ۔ ماموں نے چھڑی پھینک دی۔ ہم بال بال بچ گئے ۔ یہ پہلی بات تھی کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد ہم گھر میں لگائی جانے والی عدالت کی سزا سے محفوظ رہے۔ اگلے دن جب سکول پہنچا تو ایسا لگ رہا تھا اس سال ہزارہ کبڈی ٹرافی جیسے میں نے جیت لی ہو۔ ہر لڑکا مجھے پہچانتا تھا۔ ان کے نزدیک یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا نسیم خان گاؤں کے ایک بہت ہی بڑے خان کا بیٹا تھا کسی کی جرات نہیں تھی کہ اس پر کوئی ہاتھ ڈالے ۔ یہ اس کے والد کا بڑاپن تھا کہ جب اسے پتہ چلا کہ اس کے بیٹے کا جھگڑا امام صاحب کے بچوں کے ساتھ ہوا ہے تو اس نے صرف نظر کیا۔ کوئی بتا رہا تھا۔ خان جی کہہ رہے تھے امام صاحب نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت بہتر ہے ۔ اس واقعے کے کافی عرصہ بعد تک مختلف کلاسوں کے لڑکے جب مجھ سے پوچھتے ۔ یار ! بتاؤ اس دن اصل میں ہوا کیا تھا ؟“ میں کبھی عاجزانہ تکبر اور بھی متکبرانہ عاجزی کا مظاہرہ کرتا۔ اوہ جی بس کیا کہوں ۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ تیسرے معرکے کا احوال یوں ہے  کچھ دنوں کے بعد ہماری کلاس میں ایک نیا لڑکا عملی داخل ہوا۔ اسے میرے ساتھ بیٹھنے کے لیے جگہ دی گئی۔ اس کا تعلق متاثرین تربیلہ ڈیم کی نئی بستی پنڈ مستان سے تھا علی کا والد حاجی یونس ریٹائرڈ تھانے دار تھا۔ وہ نہ صرف اپنی بستی اور برادری میں ایک سرکردہ شخص تھا بلکہ پورے خطے میں اس کی ایک حیثیت اور عزت تھی۔ بڑی بڑی مونچھیں بھرا بھرا سرخ چہرہ اور بھاری بھر کم ڈیل ڈول اسے بارعب بنانے میں خوب مدد گار تھے ۔ سیاسی حلقوں اور مقامی انتظامیہ میں اس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ اگرچہ علی مجھ سے کافی بڑا تھا لیکن عمر کا یہ فرق ہماری دوستی میں مانع نہیں ہوا۔ وہ بڑا ہی با اخلاق ، مددگار اور دھیمے لہجے کا سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ اس نے کچھ ہی دنوں میں پوری کلاس کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کا ہاتھ ، دل اور ماتھا تینوں کشادہ تھے ۔ دوسروں کو چھوٹی موٹی چیز میں تحفتاً دے کر خوش ہوتا۔ ایک دن وہ مجھے کہنے لگا ۔ شاہ صاحب ! کیا آپ ملک یعقوب کو جانتے ہیں؟“ وہ مجھے ہمیشہ شاہ صاحب سے مخاطب کرتا ۔ حالانکہ میں نے اسے کئی بار بتایا بھی تھا کہ میں سید نہیں۔ شاید اس کی زبان پر یہ الفاظ چڑھ گئے تھے ۔ کون ملک یعقوب؟” وہی جو ساتویں بی میں ہے۔“ اچھا وہ لم ڈھینگ۔ مجھے تو وہ بہت ہی برا لگتا ہے۔ پنڈ ہاشم خان کا ہے ۔ کیوں خیریت ہے نا؟“ خیریت ہی ہے۔ لگتا ہے اس کے اندر کوئی بہت بڑا کیڑا ہے ۔ تو کیا ہوا ۔ جب کہیں اس کا کیڑا نکال دیں گے ۔“ بات آئی گئی ہو گئی ۔ دس پندرہ دن گزر گئے ۔ مجھے اندازہ تھا کہ پنڈ مستان کے بہت سارے لڑکے جو اس کے رشتہ دار بھی ہیں اس کے ساتھ مل کے معاملے کو نپٹا لیں گے۔ ملک یعقوب کا ذکر جب بھی ہوتا میں اس طرف کچھ خاص دھیان نہ دیتا۔ ایک دن تیسرے پیریڈ میں علی نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ آج تیار رہنا۔ چھٹی کے بعد اس کو سیدھا کرتے ہیں ۔ میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بارے میں سب کچھ پتہ چل گیا ہے۔ اسی لیے یہ اپنے کسی کزن پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مدد کے لیے مجھے کہہ رہا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔ آج اس کے تھن توڑتے ہیں ۔ میں نے اسے تسلی دی۔ سارے پیریڈ اسی طرح گزرے جس طرح عام طور پر گزرتے تھے ۔ جوں ہی ساتویں پیریڈ کی گھنٹی بجی۔ اس نے ٹیچر آنے سے پہلے رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز میری طرف بڑھائی۔ شاہ صاحب! یہ رکھ لیں کام آئے گا۔ میں نے اسے لے کر دیکھا تو میرے پورے وجود میں سنساہٹ دوڑ گئی ۔ وہ چھ انچ کا کمانی دار چاقو تھا۔ اس سے پہلے کہ پھر کلاس میں داخل ہوتا میں نے اسے نیفے میں اڑس لیا۔ یا اللہ ! یہ میں کسی مصیبت میں پھنس گیا ہوں ۔“ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ چھٹی ہوئی تو میں اور علی ایک ساتھ سکول کے گیٹ سے باہر نکلے ۔ وہاں ایک ناقابل یقین منظر دیکھنے کو ملا۔ تقریباً آدھا سکول گیٹ کے دائیں طرف اور آدھا سکول گیٹ کے بائیں طرف کھڑا تھا۔ ہم دونوں بائیں طرف بڑھ گئے ۔ ہمارے بعد بھی آنے والے لڑکے دائیں بائیں اکٹھے ہوتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا دو لشکر آمنے سامنے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوں ۔ چند ہی لمحوں میں ملک یعقوب بھی سامنے والے لشکر کے آگے آگیا۔ دونوں طرف کے لڑکوں نے ایک دوسرے کے اوپر آواز میں کسنی شروع کردیں۔ ہو ہو ہو کا شور بلند سے بلند تر ہو رہا تھا۔ میں ذرا پیچھے کی طرف ایک نگاہ ڈال کے آتا ہوں ۔ اگر مجھے کوئی بھاگنے والا نظر آیا تو میں اس کا پیٹ پھاڑ دوں گا۔ میں علی سے یہ کہہ کے پیچھے کی طرف بڑھ گیا۔ وہاں میں نے بہت سارے ایسے ڈنڈا بردار نو جوان دیکھے جن کا ہمارے سکول سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی لڑائی ہونے کی صورت میں مجھے سب سے محفوظ پناہ گاہ ڈاکخانہ لگا۔ جو مارکیٹ کے پیچھے تھا اور اس کے پہلو سے ایک راستہ ادھر جاتا تھا۔ دونوں طرف سے شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ لشکر کشی شروع ہو جاتی سکول کے گیٹ سے سیکنڈ ماسٹر جہانداد صاحب نمودار ہوئے ۔ دونوں طرف سناٹا چھا گیا۔ چپ کیوں ہو گئے ہیں اپنی ماں کا۔۔۔۔۔ جاری رکھو ۔ تا کہ میں بھی دیکھوں کہ تمھاری ۔۔۔۔ میں کتنا دم ہے۔ میں ہی ایسا ہوں اگر میں ایسا۔۔۔۔۔ نہ ہوتا تو آج تمھاری ماں کی ۔۔۔۔۔ جہانداد صاحب کے منہ میں جو آرہا تھا اسے بے دریغ ادا کر رہے تھے۔ میں نے آج تک اتنے مختصر وقت میں کسی معزز آدمی سے اس کثرت سے فحش گالیاں نہیں سنی تھیں جتنی وہ لڑکوں کو دے رہے تھے اس سے زیادہ گالیاں وہ اپنے آپ کو دے رہے تھے۔ چیخ چیخ کر جب ان کا گلہ بیٹھنے لگا تب انھوں نے کہا۔ اب مجھے یہاں کوئی ۔ ۔ نظر نہ آئے۔ سیدھے گھروں کو جاؤ اور خبر دار راستے میں رک کے اپنی ماں ۔۔۔۔۔ دونوں اطراف کے لڑکوں میں سے کسی نے چوں تک نہیں کی ۔ سب نے سر جھکایا اور اپنے اپنے گھروں کا رخ کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی میں کیا کروں ۔ گھر میں کسی نے میرے پاس چھ انچ کا چاقو دیکھ لیا تو ماموں میری چمڑی ادھیڑ دیں گے ۔ وہ دن اور رات مجھ پر بڑے بھاری رہے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ پہلا پیریڈ شروع ہونے سے پہلے ہی رومال میں لپٹی ہوئی وہ مصیبت میں نے علی کے حوالے کی۔ شاہ صاحب ! آپ کے پاس بھی پڑا رہتا تو کوئی بات نہیں تھی ۔ علی نے مجھ پر اپنے بھروسے کا اظہار کیا۔ ” اوہ نہیں نہیں ۔ آپ کو پتہ ہے میں غصے میں بے قابو ہو جاتا ہوں خوامخواہ میرے ہاتھوں سے کوئی ضائع ہو جائے گا۔“  اب آخری معرکے کا حال بھی سن لیں جس کے لیے یہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔ ماموں نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر کی الماری کی تین چابیاں بنوا رکھی تھیں ۔ ایک انھوں نے اپنے پاس رکھی ہوتی، دوسری جہانے بابا کو دے رکھی تھی جو باقاعدگی سے صبح کی اذان دیتا تھا اور تیسری وہ ہم تینوں یعنی مجھے صوفی یا میرے بڑے بھائی میں سے کسی ایک کو باری باری دے دیتے تا کہ باقی اوقات کی اذان ہم دیں ۔ چابی کو گم ہونے سے بچانے کے لیے اسے چھوٹی سی ڈوری کے ایک سرے سے باندھ دیتے ۔ ڈوری کے دوسرے سرے پر بکسوا بندھا ہوتا۔ ہم چابی جیب میں ڈال کے بکسوا قمیص میں پھنسا دیتے۔ اپنی باری آنے پر میں اکثر عصر کی اذان دے کر مسجد کے جنوب کی طرف بنے ہوئے تھڑے کی دیوار پر جا بیٹھتا جس کے نیچے سے گاؤں کا مرکزی راستہ گزرتا تھا۔ مجھے یہ آس ہوتی تھی کہ وہ بھی نیچے سے گزرے گی ۔ اس کا یہاں سے گزرنا ضروری نہیں تھا لیکن کبھی کبھار وہ نظر آجاتی ۔ اس کی جڑواں بہن اس سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ پتہ نہیں مجھے یہ کیوں زیادہ اچھی لگتی تھی۔ دو تین بار میں کسی کام کے سلسلے میں اس کے گھر بھی جا چکا تھا۔ سب اسے تسکین کہتے۔ کتنا سکون تھا اس نام میں۔ مجھے یاد نہیں میں نے کب اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ صبح سکول جاتے ہوئے بھی اکثر وہ مجھے نظر آتی ۔ اس کا رخ گورنمنٹ پرائمری سکول کی طرف ہوتا۔ کندھے سے چھوٹا سا بیگ لگائے اور ہاتھ میں تختی لیے وہ ایک چھوٹی سی پری لگتی ۔ اسی طرح جب میں بکریاں چرانے نکلتا تو اس کے گھر کے آگے سے ہو کر جاتا۔ اپنے دروازے کے سامنے اکثر وہ کھیل رہی ہوتی۔ میں آٹھویں کلاس میں پہنچا تو وہ مجھے کبھی کبھار سکول جاتے ہوئے نظر آتی ۔ اب اس کے ہاتھ میں تختی نہیں ہوتی تھی۔ اسے سر پر دوپٹہ کرنا بھی آگیا تھا۔ اس کے بعد وہ کبھی مسجد کے تھڑے کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نظر نہیں آئی ۔ ایک دن اسے دیکھنے کے لیے میں بہت بے چین ہو گیا۔ میں ہمت کر کے سیدھا اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دستک دی تو وہی آئی۔ مظفر گھر پر ہے؟“ مظفر اس کے بھائی کا نام تھا۔ نہیں اس نے دروازہ بند کر دیا۔ یہ ہم دونوں کا پہلا اور آخری مکالمہ تھا۔ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے رہے ۔ گرمیاں سردیوں کے حق میں رات دوسرے کے دستبردار ہو گئیں ۔ آنے والے موسم کے استقبال کے لیے درختوں نے کپڑے بدلنے شروع کر دیے۔ میرا پورا وجود دکھ رہا تھا۔ جسم میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا رگوں میں چیونٹے دوڑ رہے ہوں ۔ مزاج بھی چڑچڑا ہو رہا تھا۔ اس لیے میں وقت سے پہلے ہی بکریاں چرانے کے لیے نکل آیا۔ جب اس کے گھر کے سامنے پہنچا تو مظفر کو وہاں بے مقصد کھڑا دیکھا۔ وہ میرا ہم جماعت بھی تھا۔ انتہائی بد اخلاق، بے وقوف اور متکبر ۔ مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں نے بکریوں کی طرف سے دھیان بٹا دیا۔ دن بھر کی بھوکی تھیں۔ وہ گولی کی طرح اس کے گھر کے سامنے مکئی کے کھیت میں جائیں۔ اوئے ملاں ! نظر نہیں آرہا تمہاری بکریاں فصل برباد کر رہی ہیں؟“ اس نے مجھے مخاطب کیا۔ کچھ نہیں ہوتا۔ دو چارمنہ ماریں گی تو مر نہیں جاؤ گے۔ جینداجی ہیں دعائیں دیں گی۔ میں نے اس کو شہ دی۔ میں کہتا ہوں اپنی ماؤں کو کھیت سے باہر نکالو “ مائیں تیری ہوں گی خنزیر کے بچے نہیں نکالتا۔ جو میرا اکھاڑنا ہے اکھاڑے “ تیری تو ۔ وہ ایک شکاری کتے کی طرح میرے اوپر جھپٹا۔ ہم دونوں مکئی کے کھیت میں جا گرے۔ ہم نہ صرف ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے بلکہ منہ سے مسلسل مغلظات بھی بک رہے تھے۔ البتہ میری پوری کوشش تھی کہ میں اس کے مکوں، لاتوں اور دانتوں سے صرف اپنا دفاع کروں۔ اسے پیٹنا ویسے بھی میرا مقصود نہیں تھا۔ قریب کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دو تین کسان بھاگ کر ہمارے قریب آئے اور ہمیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ مظفر ابھی تک اونچی اونچی آواز میں گالیاں بک رہا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ اڑ اڑ کے باہر گر رہا تھا۔ بے ساختہ میری نظر اس کے گھر کے دروازے کی طرف اٹھ گئی۔ وہ وہیں کھڑی ہمیں دیکھ رہی تھی۔ مجھے یہ دنیا بے حد خوبصورت اور پر سکون لگی۔ 

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *