Afsana ACHA TO YE TUM HO by saeed ashar

Afsana-ACHA-TO-YE-TUM-HO-by-saeed-ashar.webp

Afsana ACHA TO YE TUM HO by saeed ashar a Heartfelt reflection.

Afsana ACHA TO YE TUM HO by saeed ashar

اچھا تو یہ تم ہو

میں اسے دمام ایئر پورٹ پر چھوڑ کے سیدھا گھر آیا۔ دن بھر کا تھکا ہوا تھا۔ سو چا صبح تک گہری نیند لوں گا۔ جوں ہی دروازہ کھول کے گھر کے اندر داخل ہوا ایسا لگا کسی بے مہر ویرانے میں قدم رکھ دیا ہو۔ کچھ دیر پہلے تک تو یہ گھر بڑا مہربان تھا۔ ایک دم جیسے اس نے آنکھیں بدل لی تھیں۔ رات کے نو بجنے والے تھے۔ میں لسی کا ایک گلاس پی کے بستر پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہی جیسے نیند کہیں بھاگ گئی ہو۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد اٹھ بیٹھا۔ یوٹیوب کو الٹنے پلٹنے لگا کسی وڈیو پر جی نہیں ٹھہرا۔ ایک ڈیپ سلیپ میوزک لگا کے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ لگ رہا تھا جیسے میٹھی میٹھی ہوا اونچے نیچے درختوں کی شاخوں سے چھیڑ خوانی کرتی ہوئی گزر رہی ہو۔ اور پاس ہی ایک پہاڑی ندیا کا پانی اونچائی سے ترائی کی جانب پتھروں سے الجھتا، جھاگ اڑاتا، اچھلتا کودتا آگے بڑھ رہا ہو ۔ ایک طرف وقت عصر کے سانولے پن میں الاؤ سے نکلنے والی حدت سرایت کر رہی ہو لیکن یہ ٹوٹکا بھی تھوڑی دیر بعد نا کام ہو گیا۔ فیس بک کھول لی مختلف پوسٹوں اور ان پر کیے گئے کومنٹس کی شکل میں چاپلوی ، منافقت، جھوٹ، خودستائشی سستی شہرت حماقت، بے ہودگی اور ٹھرک پن کے غلیظ چہرے بآسانی دیکھے جاسکتے تھے۔ میں نے موبائل ایک طرف رکھا اور الماری میں سے آب گم نکال کے لے آیا۔ بندے کے اندرا گر اندھیرا ہو تو سورج اسے جلا تو سکتا ہے لیکن اس کی مرضی کی روشنی نہیں فراہم کر سکتا۔ میں نے کتاب جہاں سے اٹھائی تھی وہیں واپس رکھ دی کسی کے جانے کی وجہ سے شہر کے ویران ہونے کا صرف سنا تھا شہر جاں کی ویرانی بذات خود دیکھ رہا تھا۔ میں چھت پر چلا گیا اور بے مقصد ٹہلنے لگا جس کی وجہ سے میرا پوراوجود بھیگ گیا تھا۔ پانچ سال پہلے مصعبی کو میں نے یہاں بلایا تھا۔ اس وقت یہ پورے تیس سال کا تھا۔ میں گجرات کے دو تین دوستوں کے ساتھ فیصلیہ کے علاقے میں فلیٹ شیئر نگ کی بنیاد پر رہ رہا تھا۔ اسے لینے میرا ساتھی اظہر میرے ساتھ ایئر پورٹ گیا۔ مصعبی جب بین الاقوامی آمد کے گیٹ سے نمودار ہوا تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی تھی کہ یہ میرے قریب اور نظروں کے سامنے رہے ۔ ایئر پورٹ سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو اظہر بظاہر خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا لیکن وہ ہم دونوں کا تماشا دیکھ رہا تھا مصعبی بہت پر جوش تھا اسے اپنا مستقبل روشن تر نظر آرہا تھا۔ مجھے میرا ماضی پیچھے کھینچ رہا تھا۔ مصعبی جب پیدا ہوا اس وقت پی ٹی وی پر بچوں کا ایک بہت ہی مقبول سیریل بہادر علی نشر ہو رہا تھا۔ میرا بیٹا اصلی بہادر علی ہے ۔ میں نے دو تین بار پیار سے اسے کہ دیا۔ کافی عرصہ تک میرے عزیز اس کا نام بہادر علی سمجھتے رہے۔ یہ بہت معصوم تھا۔ یا شاید سب والدین کے بچے معصوم ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ میرا پہلا بیٹا تھا اس لیے میں اس کے معاملے میں ہمیشہ حساس رہا۔ ابھی یہ کچھ دنوں کا تھا ایک دن اس کی ماں نے اسے نیم گرم پانی سے نہلا کے میرے حوالے کیا۔ کیا دیکھتا ہوں یہ اسی حالت میں سو چکا تھا۔ ایک بار تو اس نے میری جان ہی نکال دی تھی ۔ یہ ابھی چند ماہ کا تھا۔ اسے بخار ہو گیا۔ ٹمپریچر اس قدر بڑھ گیا کہ یہ بے ہوش ہو گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا اور بد حواسی کی حالت میں گرلز کالج روڈ کی طرف بھاگا۔ وہاں سے محلے کی مسجد کے پاس گیا۔ کوئی تانگہ نہ ملا۔ میں بھاگتا ہوا شیرانوالہ گیٹ پہنچ گیا۔ ایک کار والا گزر رہا تھا۔ وہ مجھے بدحواس دیکھ کے رک گیا۔ میرا بچہ بے ہوش ہے مجھے سول ہسپتال لے کر جائیں ۔“ وہ کوئی سمجھدار آدمی تھا۔ اس نے فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ حوصلہ رکھیں ۔ ہم دو تین منٹ میں ہسپتال پہنچ جائیں گے۔ اللہ خیر کرے گا۔ ڈاکٹر طارق میرا جاننے والا تھا۔ اس نے تسلی دی تو میری جان میں جان آئی۔ ابھی یہ کل کی بات لگتی ہے۔ میں اور اس کی امی صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ کمرے کے اندر بیڈ پر سور ہا تھا۔ ہم نے اس کے دائیں بائیں سرہانوں کی دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں تا کہ یہ بیڈ سے نیچے نہ گر جائے۔ کیا دیکھتے ہیں یہ کمرے کے دروازے سے گھسیٹتا ہوا باہر آرہا تھا ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ بیڈ سے خود اترا ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا یہ بیڈ سے خود اترا ہو گا۔ یہ ضرور سرہانے کے ساتھ نیچے گرا ہے ۔ اسی لیے اسے چوٹ نہیں آئی ۔ میں نے بے یقینی کا اظہار کیا۔ کیوں نہ اسے بیڈ پر بٹھا کے ہم چھپ کے دیکھیں ۔ پتہ چل جائے گا اس نے کیا کیا ہے۔ اس کی امی نے تجویز دی۔ ہم نے دوبارہ اسے بیڈ پر بٹھایا اور باہر نکل کے کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکنے لگے۔ یہ گھسیٹتا ہوا پہلے بیڈ کے کنارے پر آیا۔ پھر الٹالیٹ کے اس نے اپنی ٹانگیں بیڈ سے لٹکائیں۔ بیڈ کی چادر کو مضبوطی سے پکڑا اور آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا نیچے اتر گیا۔ پھر یہ ایک فاتح کی طرح کمرے سے باہر نکلا اس زمانے میں میرے پاس ہنڈا سی ڈی 70 موٹر سائیکل تھا۔ میں جہاں جہاں جاتا یہ موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھا میرے ساتھ ہوتا۔ اس نے چھ ماہ کی عمر میں میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ اب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو وجود کانپ سا جاتا ہے ۔ میں کتنی بڑی حماقت کر رہا تھا۔ جلد ہی اس نے طوطے کی طرح بولنا شروع کر دیا تھا۔ میں اسے روز رات کو بھا گڑ بلے کی کہانی سناتا۔ باہر نلکے کے پاس ایک بھا گڑ بلا رہتا ہے ۔ وہ روز رات کو آواز لگاتا ہے۔ مصعبی ! تم کہاں ہو؟ جلدی آؤ مجھے بھوک لگی ہے ۔ جلدی آؤ میں تمہیں کھاؤں ۔ پھر مصعبی کے پاپا باہر جاتے ہیں اور بھاگڑ بلے کو گردن سے پکڑ کے اسے کہتے ہیں۔ اوئے تو میرے مصعبی کو کھائے گا۔ اب میں تجھے سبق سکھاتا ہوں ۔ پھر پاپا اسے زور سے زمین پر گراتے ہیں۔ اس کی ایک ٹانگ توڑ دیتے ہیں۔ ہاں ! دوسری ٹانگ بھی اور ایک بازو بھی اور دوسرا باز و بھی ۔ کہانی کے دوران اس کا اشتیاق دیدنی ہوتا۔ بین السطور میرا مقصد یہ ہوتا کہ دروازہ کھلا دیکھ کر یہ نہیں گھر سے باہر نہ نکل جائے ۔ اس دوران میرے خانگی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ۔ خاندان ٹوٹنے سے سب سے زیادہ توڑ پھوڑ بچوں کے اندر ہوتی ہے مصعبی نے سب سے زیادہ اثر لیا اور یہ ٹوٹا چلا گیا۔ یہ عدم توجہ کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کا بھی شکار ہو گیا۔ اس نے گھر سے بھاگنا شروع کر دیا۔ میں اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کے نڈھال ہو جاتا۔ اس نے اپنے دکھ میرے حوالے کرنے کے بجائے اپنے وجود میں سنبھال رکھے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصعبی کے گھر سے بھاگنے کی عادت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا۔ میری فکرمندی دن بدن بڑھتی جارہی تھے ۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ ایسے تو یہ کسی روز گم ہو جائے گا۔ میں نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا۔ کیوں نہ ہم اس کے اغوا کا ڈراما رچائیں۔ اس طرح شاید یہ گھر سے بھاگنا چھوڑ دے ۔ ہاں ۔ اس کا کوئی مناسب حل تو نکالنا ہے۔ آپ کی تجویز پر بھی غور کرتے ہیں۔ یہ نہ ہو اس کا اثر الٹا پڑ جائے ۔ اور ہم کسی نئی مصیبت میں پڑ جائیں ۔ ہفتہ بھر اس تجویز پر سوچ بچار کرنے کے بعد ہم نے اسے مسترد کر دیا۔ ایک دفعہ پھر ایسا ہوا کہ گھر سے بھاگنے کے بعد اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کدھر جائے ۔ یہ محلے کے ایک ایسے گھر کی دہلیز پر بیٹھ گیا جہاں سے ایک گلی اس کی ماں کے گھر کی طرف جاتی تھی اور دوسری اس کے والد کے۔ مجھے پتہ چلا تو میں چپکے چپکے اس کی طرف بڑھا۔ مجھے دیکھتے ہی یہ اپنی پوری ممکنہ رفتار سے بھاگنے لگا۔ اس کا رخ گرلز کالج کی طرف تھا۔ ہم دونوں تماشا بن گئے۔ بھاگتے بھاگتے مصعبی بھی شاید تھک چکا تھا۔ ایک دن بولا۔ پاپا آپ مجھے ایدھی والوں کے حوالے کر دیں ۔ میں بھی نڈھال ہو چکا تھا۔ مجھے بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے تحفظ کے لیے مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ ایدھی والوں کو میں نے اس سے ملتی جلتی تحریر لکھ کر دے دی۔ چونکہ میرے مالی حالات انتہائی خراب ہیں ۔ میں اپنے بیٹے کی پرورش سے معذور ہوں اس لیے میں اسے ایدھی سنٹر کے سپرد کرتا ہوں ۔ ہم دونوں نے آنسوؤں کی برسات میں ایک دوسرے کو رخصت کیا۔ ایدھی کی گاڑی چلے جانے کے کافی دیر بعد تک میں سڑک کے کنارے اس طرح کھڑا رہا جیسے ابھی یہ واپس لوٹ آئے گا۔ میرے ذہن میں تھا کہ دو تین مہینے گزرنے کے بعد میں اسے واپس لے آؤں گا، اس طرح اس کے گھر سے بھاگنے کا سلسلہ رک جائے گا۔ بھلا اتنا صبر کون کرتا۔ میں ہر دوسرے ہفتے کچھ چیزیں لے کر اسلام آباد ایدھی ہوم پہنچ جاتا مصعبی کے ساتھ کچھ وقت گزارتا۔ اس کی خیر خیریت پوچھتا اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے واپس آجاتا۔ کچھ دن تو ایدھی انتظامیہ میرا جائز ہ لیتی رہی۔ پھر اس کے ایک منتظم نے نرمی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔ دیکھیں آپ بار بارا سے ملنے آجاتے ہیں ۔ اس طرح تو یہ آپ کو بھی نہیں بھول سکے گا۔“ میں سر جھکائے خاموشی سے اسے سنتا رہا۔ اسے کیسے بتاتا کہ میرا مسئلہ کچھ اور ہے۔ مجھے لہو روتے ہوئے تین ماہ گزر گئے ۔ ایک دن مصعبی نے کہا۔ پاپا! اب میں واپس جانا چاہتا ہوں ۔ میں اسے واپس لے آیا۔ چند دن سکون سے گزرے ۔ ایک دن یہ صبح سکول جانے کے بجائے کہیں اور نکل گیا۔ میں سارا دن شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا عصر کے بعد میرے ساتھ محلے کا ایک لڑ کا بھی شامل ہو گیا۔ ہم دونوں جب ہری سنگھ نلوا کے قلعہ کے پاس پہنچے تو ایک طرف سے ڈھول بجنے کی آواز آرہی تھی۔ چلیں ۔ شادی والے گھر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔ میرے ساتھی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ہم وہاں پہنچے تو اسے باراتیوں میں بیٹھا ہوا پایا۔ سکول بیگ اس کی گود میں تھا اور یہ نجانے کن خیالوں میں گم تھا۔ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے جب کوئی اس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرتا تو میں کٹ کے رہ جاتا۔ میں اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میری اولاد کو کچھ کہے۔ اس ضمن میں ایک اور دلگراز واقع بیان کرتا ہوں ۔ مصعبی اس وقت مشکل سے سات سال کا ہوا ہوگا۔ اس کے تایا کا بیٹا خالد اس سے چند ماہ چھوٹا ہو گا۔ میرے بڑے بھائی نے ان دونوں کو گلی میں کوئی شرارت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ خالد کی اس نے اچھی خاصی کھنچائی کر دی مصعبی دیکھ رہا تھا۔ یہ ڈر گیا اور گھر سے غائب ہو گیا۔ سارا دن ہم اسے ڈھونڈتے رہے لیکن ناکام رہے ۔ اسی پریشانی میں رات بھی گزر گئی۔ اگلی صبح ہم کوٹ نجیب اللہ کے قریب ایک گاؤں میں حساب کرنے والی ایک ماسی کے پاس پہنچ گئے ۔ اس نے ہمیں مزید ڈرا دیا۔ آپ کا بیٹا اغوا کر لیا گیا ہے ۔ اس وقت وہ اٹک پار علاقہ غیر میں ہے ۔ اس نے ہمارے ایک جاننے والے کا نام بھی لیا جس کی یہ شرارت تھی۔ یہ تو اچھا ہوا میں نے تھانے میں اس شخص کے خلاف رپورٹ درج نہیں کروادی تھی۔ دس بجے کے قریب ایک قاری صاحب میرے سکول میں آئے۔ میں دفتر میں اپنے کچھ خیر خواہوں میں بیٹھا تھا۔ آپ کا بیٹا ہمارے مدرسے میں ہے ۔ بہت ڈرا ہوا ہے ۔ اسے کچھ نہیں اور پیار سے اپنے پاس لے آئیں ۔ اس مدرسے کی دیوار ہمارے گھر سے متصل تھی۔ صبح کے وقت وہاں محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے ناظرہ پڑھتے تھے ۔ باقی سارا دن اس کو تالا پڑا رہتا تھا مصعبی دیوار پھلانگ کر اس میں چلا گیا تھا۔ ایک دن اور ایک رات یہ وہیں بھوکا پیاسا چھپا رہا۔ دریائے دوڑ کے پل کے نیچے سے مسلسل پانی بہتا رہا۔ ہم دونوں بھی بھاگتے رہے۔ آگے آگے مصعبی اور اس کے پیچھے پیچھے میں۔ نہ اس نے اپنا وطیرہ بدلا اور نہ میں نے اپنی شکست تسلیم کی۔ پھر اس نے ایک نئی تجویز میرے سامنے رکھ دی۔ “پاپا! آپ مجھے کراچی نانی کے گھر بھیج دیں ۔ ہمارے گاؤں کی ایک فیملی کراچی جارہی تھی۔ یہ بھی ان کا ہمسفر بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہری پور سے میری دلچسپی بھی ختم ہوگئی۔ میں نے اپنی ساری فیملی کراچی منتقل کی اور خود روزی روٹی کے چکر میں سعودیہ آگیا۔ کراچی اس وقت مکمل طور پر انارکی کے شکنجے میں تھا کسی کو اگلے لمحے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کسی وقت بھی جلاؤ گھیراو اور ہڑتال کی کال آسکتی تھی۔ موٹر سائیکلوں پر قاتل دندناتے پھر رہے تھے اور قوم کے محافظ ان کے آلہ کار بن چکے تھے ۔ اغوا برائے تاوان اور بھت خوری روشنیوں کے اس شہر کا کلچر بن چکا تھا لیکن مصعبی کو جلتے ہوئے شہر کے بجائے اپنے اندر کا الاؤ نظر آر ہا تھا۔ اس کا جب بھی دم گھٹتا یہ گھر سے فرار میں عافیت سمجھتا۔ اس کے پیچھے بھاگنے کی ذمہ داری اب اس کے ماموں عبد المالک نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔ یہ بھی کسی ویران گلی میں بنے تھڑے پر بیٹھا ملتا اور کبھی کسی مارکیٹ میں کھڑی ریڑھیوں کے بیچ میں یہاں پردیس میں لمہ لمہ اپنا خون ہوتا دیکھتا۔ خدا خدا کر کے اس نے میٹرک اور اس کے بعد مکینیکل میں تین سال کا ڈپلومہ کر لیا۔ اس مقام پر میں نے سکون کا سانس لیا۔ اس مرحلے پر اسے کسی نے سبز باغ دکھائے ۔ اس نے گاڑی پکڑی اور ہری پور پہنچ گیا۔ کافی ہاتھ پیر مارے لیکن کوئی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس عمر میں فارغ بیٹھنا بھی ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس نے مستریوں کے ساتھ مزدوری شروع کر لی۔ حاجی صاحب ! کن سوچوں میں گم ہیں کھانے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس وقت گھر میں تو شاید ہی کچھ ہو کہیں تو
کے ایف سی چلیں ۔ اظہر مجھے ماضی سے واپس حال میں لے آیا۔ سعودیہ کے قوانین ، ثقافت اور یہاں کے لوگوں کے مزاج کو سمجھنے کے لیے کم از کم کچھ عرصہ اس ملک میں قیام انتہائی ضروری ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اپنے ملک میں بیٹھ کے وہ ان امور کو سمجھ سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ یہاں نئے آنے والے بھی کافی عرصہ تک ان باتوں کے متعلق مکمل آگاہی کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ یہاں سے چھٹی جانے والوں سے اکثر وہاں کے لوگ یہ سوال کرتے ہوئے ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ آپ کسی کمپنی کے ویزے پر ہیں یا آزاد ویزا ہے ۔ پھر اس کے بعد اگلا سوال ہوتا ہے۔ نوکری کر رہے ہیں یا اپنا کام ہے ۔ اس طرح کے اور بھی بہت سارے سوال ہیں میں صرف ان دو کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ یہاں قانون کی نظر میں صرف ایک ہی ویزا ہے۔ یعنی کمپنی کا۔ جب ہم آزاد ویزا کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ایک غیر قانونی طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ کوئی کمپنی جب کسی کو اپنے ویزے پر بلاتی ہے تو وہ اس عامل (ملازم) کے ویزا پراسس، آنے جانے کا ٹکٹ ، رہائی خوراک کنونس ہیلتھ انشورنس کارڈ ، اقامہ اور طے شدہ ماہانہ تنخواہ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ کمپنی کا مالک آپ کا کفیل ہے ۔ یہ عام طور پر دو سال کا معاہدہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی کمپنی ان باتوں سے انحراف کرے تو عامل ( ملازم ) قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ آزاد ویز ابھی فی اصل یہی ہوتا ہے ۔ اس میں کفیل اس شرط پر ویزافروخت کر دیتا ہے کہ عامل ( ملازم ) یہاں آنے کے بعد طے شدہ مدت کے اندر اپنے لیے کسی دوسرے کفیل کا بندو بست کر لے گا۔ اس دوران عامل (ملازم) پر اٹھنے والے تمام اخراجات ( اقامہ، انشورنس رہائش کنونس وغیرہ ) عامل ( ملازم ) خود برداشت کرتا ہے کفیل اگر اچھا ہے تو طے شدہ سودے کی پاسداری کرتا ہے ورنہ وہ ہر ہر موقع پر بلیک میلنگ کرتا ہے۔ خاص طور پر اقامے ، انشورنس کارڈ اور تنازل کے نام پر وہ خوب لوٹ مار کرتا ہے۔ میں بھی یہاں آزاد ویزے پر آیا تھا۔ مجھے میرے کفیل نے سات ہزار ریال میں ویزا فروخت کیا تھا لیکن اس کے بعد اس نے کسی مرحلے پر مجھ سے کوئی رقم طلب نہیں کی تھی۔ اس کے مقابلے میں مصعبی کا ویزا ہم نے اٹھارہ ہزار ریال میں خریدا تھا۔ جب تنازل کا وقت آیا تو اس نے پانچ ہزار ریال کا نئے سرے سے تقاضا کر دیا تھا۔ استحصال اور بلیک میلنگ کی اس شکل کو آپ کہیں چیلنج بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ اس جرم میں آپ برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ دوسرا اس لین دین کا کوئی تحریری ریکارڈ بھی نہیں ہوتا ، سب سے بڑی بات، یہاں آپ کو آنے سے پہلے اپنی انا اور غیرت کا پگڑو میں اپنے ملک کے ایئر پورٹ پر چھوڑ کر آنا ضروری ہے ۔ اگر آپ میں یہ حوصلہ نہیں تو آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے۔ اسی طرح یہاں چند مخصوص شرائط سے ہٹ کے کوئی غیر سعودی اپنا کاروبار نہیں کر سکتا۔ یہاں جو بھی فرد کاروبار کرتا ہے دراصل وہ اس کے کفیل کے نام رجسٹرڈ ہوتا ہے کفیل اس کے بدلے کچھ رقم ماہانہ لیتا ہے یا اس کاروبار میں اس کی پرسنٹیج ہوتی ہے۔ نیت بدلنے کی صورت میں وہ اس پر قابض ہو سکتا ہے اور ہو بھی جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کہیں دادرسی کے لیے نہیں جا سکتے ۔ کیوں کہ آپ نے ریاست کے قوانین سے باہر رہ کر ایک کام کیا ہوا ہوتا ہے ۔ حکومت اس چیز کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ کافی سختی کرتی ہے۔ ویسے بھی اب حکومت کے پیش نظر ویژن ٹونٹی تھرٹی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں میں زیادہ سے زیادہ بے روز گاری کو کم کرنا ہے ۔ سلطان باہو نے جو کہا تھا۔ شالا مسافر کوئی نہ تھیوے لکھ جنھاں تو ۔۔۔۔۔ مجھے اس مصرعے کی صحیح معنوں میں تقسیم یہاں آکر ہوئی۔ میرا بڑا جی چاہتا تھا مصعبی میرے پاس بیٹھ کے فضول باتیں کرے ۔ اور میں اسے مصنوعی غصے سے کہوں ۔ میرے پاس بیٹھ کے فضول بکواس نہ کیا کرو۔ یہ زبر دستی میری لاتیں دباتا۔ اور میں نخرے کرتا۔ ”اوئے آہستہ کھوتے دے پتر میری لاتیں توڑے گا۔ لیکن اس نے مجھ سے ایک حد تک فاصلہ رکھا۔ کبھی کوئی غیر ضروری بات نہیں کی۔ میں انتظار ہی کرتا رہا کب یہ کوئی فرمائش کرے گا۔ دو بار مختلف جگہوں پر ہونے والی محفلوں میں اسے زبردستی لے کر گیا۔ وہاں بھی کسی کے ساتھ گھلنے ملنے کے بجائے یہ الگ تھلگ ہی رہا۔ گھر میں کھانا بنانے کا کام میں کرتا۔ اس نے برتن دھونے اپنے ذمہ لے لیے ۔ ایک دن میں ڈیوٹی سے واپس آیا کھانا بنانے کے لیے کچن کی طرف گیا تو برتن ابھی تک گندے پڑے تھے۔ اس کا باپ بننے کا سنہرا موقع میرے ہاتھ آگیا۔ جسے میں نے ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اوئے خبیث ۔ سارا دن نکما بیٹھ کے گزار دیا ہے۔ برتن ہی دھو دیتے ۔ اب میں کھانا بناؤں یا برتن دھوؤں کنجر نہ ہو تو ” پھر کیا تھا۔ ایک دم اس کی انا اور غیرت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ گول کی طرح دروازے سے نکل کر گھر سے بھاگ گیا۔ میں نے دل ہی دل میں قہقہہ لگایا۔ پتر ! اب بھاگ کر کہاں جاؤ گے ۔ یہ پاکستان نہیں ۔ اظہر بے چین ہو گیا۔ اس کو کیا ہوا؟ حاجی صاحب ! آپ نے بھی ہاتھ ہلکا رکھنا تھا۔ اظہر بھائی ! فکر نہ کریں۔ یہ اس کی بچپن کی عادت ہے ۔ بھاگ کر کہاں جائے گا۔“ اظہر کوکسی طور قرار نہ آیا۔ صوفے پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر خاموشی سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔ جب دو تین گھنٹے بعد لوٹا تو مصعبی اس کے ساتھ تھا۔ پھر یہ کبھی گھر سے نہیں بھاگا۔ مصعبی جن دنوں یہاں پہنچا کسی حد تک یہاں کے حالات میں تبدیلی کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کے ذہن میں تھا کہ یہ گھومتے پھرتے بآسانی کچھ بھی کر لے گا۔ اس معاملے میں اسے گمراہ کرنے کے لیے میرے کچھ عزیز بھی پیش پیش تھے۔ بہر حال میں نے سمجھا بجھا کے اسے اپنی کمپنی کی ایک فیکٹری میں کام پر لگوا دیا۔ اب روز میں صبح چھ بجے گھر سے نکلتا۔ پہلے اسے انڈسٹریل ٹو چھوڑتا۔ پھر الخبر اپنے دفتر پہنچتا۔ شام کے وقت اسی راستے سے واپس گھر پہنچتا۔ میرے لیے روزانہ کا یہ مجموعی سفر ڈیڑھ سوکلو میٹر کا ہوتا۔ آسانی کے لیے آپ یوں سمجھ لیں کہ میں کھلا بت ٹاؤن شپ سے پہلے کوٹ نجیب اللہ جاتا۔ پھر واپس ایبٹ آباد میں اس حالت میں خوش تھا۔ اس بہانے میں اور مصعبی روزانہ ایک لمبا سفر ساتھ طے کرتے۔ اس دوران یہ مسلسل اونگھتا رہتا اور مجھے وہ وقت یاد آجا تا جب یہ چند روز کا تھا اور اس کی ماں نے اسے نہلانے کے بعد تولیے میں لپیٹ کر میرے حوالے کیا تھا۔ یہ اس وقت سویا ہوا تھا۔ کہتے ہیں ساحل کی صبح اور صحرا کی شام بہت رومانوی ہوتی ہے۔ میرے حصے میں روزانہ کی بنیاد پر صحرا کا ایک نیا منظر لکھ دیا گیا تھا۔ شام کے وقت سارا دن زمین کو جلانے والا سورج مہربان مہربان سالگنے لگتا۔ ہوا کی حدت ختم ہو جاتی اور ٹھنڈک کا میٹھا سا احساس وجود پذیر ہو جاتا یہ تو کچھ ظاہری سے آثار تھے جنہیں بیان کیا جا سکتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ پورا صحرا ایک جادو نگر بن جاتا تھا کبھی کبھی لگتا کچھ فاصلے پر دف بج رہا ہو گا اور سات خیمے میرے انتظار میں موجود ہوں گے۔ مصعبی نے نوکری تو کر لی لیکن اس کا دل ابھی تک اس کے لیے آمادہ نہیں ہوا تھا۔ اکثر یہ فیکٹری میں مختلف لوگوں کے سامنے کہتا پھرتا۔ وہ تو پاپا نے مجھے یہاں پھنسا دیا ہے ۔ ورنہ میں اس نوکری کے حق میں نہیں تھا ۔ دو تین بار اس کا یہ بیان سننے کے بعد ایک دن اس کا باس فدا حسین خان پھٹ پڑا۔ بات سن ! ان حالات میں اپنے پاپا کی مہربانی سمجھو کہ اس نے اپنا اثر و سورخ استعمال کر کے تمہیں یہاں اے سی والے کمرے میں ایک معقول تنخواہ پر ملازمت دلوا دی ہے۔ ورنہ تمہیں اس سے آدھی تنخواہ پر بھی کوئی رکھنے کے لیے تیار نہ ہوتا تمھارے ساتھ کے گرمی کی اس شدت میں اندر پروڈکشن ہال میں فلنگ کر رہے ہیں ۔ ایک تم ہو کہ خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے باتیں بنارہے ہو ۔ کچھ دنوں بعد ہمارے تعلق والے کئی لڑکے جو آزاد ویزے پر کام کر رہے تھے خوار ہو کے پاکستان پہنچے تو یہ بھی اپنے بیانیے سے دستبردار ہو گیا۔ میرا یہ معمول تھا کہ ڈیوٹی سے واپس آکے رات کے بارہ ایک بجے تک مسلسل سگریٹ نوشی کرتا رہتا۔ ایک دن اس نے کہا۔ پاپا سگریٹ پینا چھوڑ دیں ۔ اچھا” اسی وقت میں نے سگریٹ پینے چھوڑ دیے۔ کرونا سے پہلے عالمی معاشی حالات پر جوں ہی برا وقت آیا۔ ہماری کمپنی نے بھی فیصلہ کیا کہ جس حد تک ممکن ہے اخراجات پر قابو پایا جائے مختلف اٹھائے جانے والے اقدامات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جو ملازمین ہاؤس رینٹ لے کر کرائے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں انھیں کمپنی کے فلیٹس میں منتقل کیا جائے۔ نتیجتاً مجھے اور مصعبی کو بھی پرنس بندرسٹریٹ ، الخبر جیسے انتہائی مہنگے اور مصروف علاقے میں ایک پلازے کی تیسری منزل پر فلیٹ مل گیا۔ عام حالات میں کمپنی ان فلیٹس کو صرف باہر کے لوگوں کو بھاری کرائے پر دیتی۔ اچھا خاصا فلیٹ تھا۔ دو بڑے بڑے روشن اور ہوا دار کمرے، ایک ڈرائنگ روم، دو باتھ روم اور ایک کھلا کھلا سا کچن ۔ ہم دونوں نے ایک ایک کمرہ سنبھال لیا۔ ایک آدھ دن ہوٹلنگ کی۔ پھر ہمارا کچن آباد ہو گیا۔ بدلے میں میرا دوہرا نقصان ہوا۔ ایک تو مجھے ہاؤس رینٹ کی صورت میں جو معقول رقم ملتی تھی میں اس سے محروم ہو گیا۔ دوسرا نقصان زیادہ بڑا تھا مصعبی کے ساتھ صبح شام کا سفر اور صحرائی شام کی رومانویت مجھ سے چھن گئی۔ مصعبی کو بھی دہرے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ہاؤس رینٹ اور کنونس الاؤنس دونوں ختم ہو گئے کمپنی نے اسے فلیٹ کے ساتھ ساتھ فیکٹری آنے جانے کے لیے گاڑی کی سہولت بھی دے دی۔ نئے گھر میں ہم دونوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں پہچان لیں ۔ دفتر سے واپس آنے کے بعد میں سالن بناتا۔ دالیں، چاول بھی سبزی، گوشت، مصالحہ وغیرہ ہفتہ دس دن کے بعد کسی مناسب دکان سے اکٹھا لے آتا۔ یہ لسی ، دودھ، روٹی، پانی وغیرہ کا بندو بست کرتا۔ اس کے علاوہ روز برتنوں کی صفائی بھی اس نے اپنے ذمے لے لی۔ جب جی چاہتا پورے گھر کا جھاڑو پوچا بھی کر لیتا۔ اس کے علاوہ رات کے کھانے کے لیے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے دستر خوان بچھاتا، برتن سجاتا اور کھانا لگاتا۔ پھر ہم مل کے کھانا کھاتے کھانے کے بعد یہ برتن سمیٹتا اور دستر خوان اٹھا لیتا۔ سال ڈیڑھ اس کا یہی معمول رہا۔ پھر اس کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوئی۔ اس نے میرے سامنے کھانا رکھا اور خود اپنے کمرے میں روپوش ہو گیا۔ کیا بات ہے کھانا نہیں کھاؤ گے۔ نہیں ابھی مجھے بھوک نہیں ۔ میں بعد میں کھالوں گا۔ پھر اس نے دستر خوان سے غیر حاضری کو اپنا معمول بنالیا۔ یہ کھانا تیار ہونے کے بعد میرے سامنے رکھ دیتا۔ جب میں کھا لیتا تو برتن سمیٹ لیتا۔ وگرنہ میں خود اٹھا لیتا۔ خود یہ کافی دیر کے بعد کسی وقت کھانا کھاتا۔ دو تین مہینے اس طرح گزرے ہوں گے کہ اس کے اندر مزید ایک تبدیلی آئی ۔ اب اس نے میرے سامنے دستر خوان بچھانا بھی چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ بدنیتی یا فتور کے تحت نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ یہ اسے نارمل لے رہا تھا۔ اسے کیا پتہ میرے لیے یہ کتنا اہم تھا۔ میں جو ڈیوٹی کے بعد رات گئے تک ڈرائنگ روم میں بیٹھا رہتا تھا صرف یہ لالچ تھی کہ یہ ڈیوٹی سے واپس آئے گا تو ایک نظر اسے دیکھ لوں گا۔ یہ جب کسی کام سے اپنے کمرے سے باہر آئے گا تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلوں گا۔ سارے دن میں صرف ایک بار یہ مجھ سے مخاطب ہوتا۔ جب یہ ڈیوٹی سے واپس آتا تو میں اس کی آواز سنتا۔ “السلام علیکم وعلیکم السلام پھر یہ اپنے کمرے میں غائب ہو جاتا۔ اس کی یہ عادت بہت اچھی ہے جب یہ لمبے سفر پر جاتا ہے تو وقفے وقفے سے مجھے میسیج بھیجتا رہتا ہے۔ پاپا! میں اور قاسم انکل بس میں بیٹھ گئے ہیں تو کچھ دیر میں بس یہاں سے چلنا شروع ہوگی ۔ تھوڑی دیر تک ریاض پہنچ جائیں گے وہاں سے پھر حسن بھائی ہمیں جوائن کریں گے ۔ پاپا! صبح دس بجے سے پہلے ہم مدینہ پہنچ گئے تھے ۔ ہم ۔ بھی روم میں ہیں۔ پیرو ماموں بھی شام کو آگئے تھے ۔ ساتھ ساتھ جہاں اسے مناسب لگتا وہاں سے تصویر میں بھی بھیجتا رہتا ہے۔ مصعبی کی نوکری کو مشکل ڈھائی تین سال ہوئے ہوں گے کہ ایک دن مجھے اس کے پلانٹ مینیجر کا فون آگیا۔ آپ کے بیٹے نے ریزائن دے دیا ہے۔ میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ جب تک تمہارے پاپا نہیں کہیں گے میں اسے فارورڈ نہیں کروں گا۔ کیوں کہ تمہیں انھوں نے ہی رکھوایا ہے ۔ اب بتائیں اس کا کیا کرنا ہے ۔ بہت بہت شکریہ ۔ آپ نے خیال رکھا۔ ابھی کچھ دن ریزائن کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ مصعبی کو آپ بھی سمجھائیں میں بھی سمجھاتا ہوں ۔ پاکستان میں جا کے کیا کرے گا۔ وہاں کے حالات ابھی ٹھیک نہیں خوار ہو جائے گا۔ جوان خون ہے عقل کے بجائے جذباتی فیصلے کرتے ہیں۔ خیر دیکھتے ہیں ۔ دو چار دن خاموشی سے گزر گئے۔ پھر میں نے سکوت توڑا۔ ”سنا ہے تم نے ریزائن دے دیا ہے۔ خیر تو ہے ۔ کوئی اچھی نوکری مل رہی ہے یا کوئی اور منصوبہ ہے ۔ پاپا! اس نوکری کا کوئی فائدہ نہیں۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہے نہ کوئی انکریمنٹ ہو رہی ہے اور نہ ہی مجھے اوور ٹائم دے رہے ہیں۔ یہاں رہا تو ساری عمر ایسا ہی رہوں گا۔ تو اس کے لیے مناسب طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہاں کوئی بہتر نوکری تلاش کرو۔ پھر تنازل لے لیں گے۔ یا دوسرا طریقہ یہ ہے چھٹی پہ جاؤ وہاں کام تلاش کرو۔ اگر کوئی مناسب راہ نکل آتی ہے تو ٹھیک نہیں تو واپس آجانا۔ میری بات ختم ہونے کے بعد یہ خاموشی سے اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اسی کشمکش میں پورا مہینہ گزر گیا۔ ایک دن پھر میں نے اسے ڈرائنگ روم میں روک لیا۔ تم نے ریزائن واپس لیا کہ نہیں ۔ نہیں پاپا۔ میں اب جاؤں گا۔ وہ تو سب نے ہی جانا ہے لیکن کوئی منصوبہ بندی کر کے جاؤ نا۔ پتہ تو ہے اس مہنگائی میں وہاں دوسروں کے سر بےروزگار ہو کے بیٹھ جاؤ گے تو کتنا برا ہو گا ۔ پایا! منصوبہ بندی کے چکر میں پڑا تو پھر کبھی بھی نہیں جاسکوں گا۔ یہاں سے ایک بار چلا گیا تو خود کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔“ پہلے بھی تو وہیں تھے۔ تم نے کتنی کوشش کی تھی کوئی حل نہیں نکلا تھا۔ اب میری بات توجہ سے سنو تم سے زیادہ میرا اب یہاں سے واپس جانا ضروری ہے۔ اس بار میں جاؤں گا تو وہاں میں تفصیل سے جائزہ لوں گا۔ اگر کوئی بہتر صورت نظر آئی تو ایک پلاٹ بیچ کے دوسرے پلاٹ پر دکانیں بنا کے کوئی کارو بار وغیرہ کر لیں گے۔ اس طرح دونوں کا مسلہ حل ہو جائے گا تم بھی ابھی تسلی سے چھٹی پر جاؤ اور وہاں کا اچھی طرح جائزہ لو ممکن ہے کوئی رستہ نکل آئے ۔“ مصعبی ایک مہینے کے لیے چھٹی پر چلا گیا اور فلیٹ ویران ہو گیا۔ ایک ماہ اور کچھ روز بعد جب یہ لوٹا تو میں اپنا رخت باندھ رہا تھا۔ ہری پور پہنچتے ہی میں نے درجن بھر سمجھدار لوگوں سے رابطہ کر کے وہاں اپنے آپ کو سٹ کرنے کے حوالے سے مشاورت کی۔ ہر ایک نے دو ٹوک الفاظ میں اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے سے مجھے سختی کے ساتھ منع کیا۔ اس وقت مارکیٹ کا رجحان واضح نہیں ۔ فی الحال اس بارے میں کسی قسم کی کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ زمین کی قیمت اس وقت ایک جگہ ٹھہری ہوئی ہے۔ کچھ دن رک جائیں یہ کافی اوپر جائے گی ۔“ تمام کام آپ کو اپنی نگرانی میں کروانا ضروری ہے کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے آپ کو نوکری چھوڑ کر آنا پڑے گا۔ حساب لگا لیں ۔ جب تک آمدن کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہو گا تو کیسے گزارہ کریں گے۔ ایسی آراء کی موجودگی میں بھلا کون مائی کا لعل ہمت باندھ سکتا تھا۔ سو میں نے آتش نمرود میں کودنے کے بجائے واپسی میں اپنی عافیت جانی۔ وقت پھر اسی ڈگر پر چلنے لگا۔ میں آتے جاتے اس کی ایک جھلک دیکھ لیتا۔ کپڑے دھوتے، انھیں استری کرتے اور جوتے پالش کرتے ہوئے کئی بار مجھے خیال آیا کاش کبھی یہ رک کے کہہ دے ۔ پاپا! آپ رہنے دیں۔ میں کر دیتا ہوں ۔ پانی کا جگ بھر کے میری میز پر رکھ دے کسی خاص چیز کی فرمائش کر دے۔ میرے بستر کی چادر جھاڑ دے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ فرج میں رکھے ہوئے پھل اکثر پڑے پڑے سڑ گل جاتے ۔ یہ ان میں بھی بالکل دلچسپی نہیں لیتا۔ البتہ میں مکرونی جنتی بار بھی بناتا اس کا جی نہیں بھرتا تھا۔ البتہ ایک بار اس نے مجھے حیران کر دیا۔ میرے جوتے کافی پرانے ہو چکے تھے۔ میری کوشش تھی ممکن حد تک انھیں استعمال کروں کیا دیکھتا ہوں ایک دن یہ کہیں سے نئے جوتے لے آیا۔ انتہائی نرم اور پائیدار میری پسند کے عین مطابق میں نے پہن کر دیکھے تو سائز بھی سولہ آنے ٹھیک ۔ البتہ ان پر درج قیمت دیکھ کے مجھے جھٹکا لگا۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں اس قدر مہنگے جوتے پہنوں گا۔ ارے اتنے مہنگے جوتے کیوں لے آئے ہو ٹھیک ہے انٹرنیشنل برانڈ ہے لیکن اچھی خاصی قیمت ہے۔ ” آپ کے جوتے بالکل ختم ہو گئے تھے۔ ویسے میں یہ سیل سے آدھی قیمت پر لایا ہوں ۔ میں سمجھ گیا میرا منہ بند کرنے کے لیے یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر سچ مچ میں ان کی آدھی قیمت بھی ہوتی میں تب بھی انھیں خریدنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ پتہ ہی نہیں چلا ایک سال اور کیسے گزر گیا۔ پاپا! اگلے سال میں چلا جاؤں گا۔ اب میں کسی کی نہیں سنوں گا۔ اس نے مجھے ایک دم اپنا حتمی فیصلہ سنادیا۔ میں تو کہتا ہوں اس سال چلے جاؤ اگر وہاں تمہارے پاس کوئی بہتر آپشن موجود ہے تو ۔ آپ نے تو کہا تھا نا میں جاکے کوئی حل نکالوں گا۔ آپ نے بھی کچھ نہیں کیا۔ دیکھو! ایسا نہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں نے یہاں سے جانے کے بعد مکمل سروے کیا تھا۔ ہر کاروباری آدمی نے مجھے مشورہ دیا کہ مارکیٹ اس وقت منجمد ہے کسی قسم کا رسک ہمیں برباد کر سکتا ہے۔ میں نے زمین کی قیمت معلوم کی وہ بھی گر کے آدھی ہو چکی تھی۔ میں ایک ایسے مرحلے پر ہوں جہاں جوا نہیں کھیلا جا سکتا۔ اس وقت چار بچے اپنی تعلیم کے آخری مرحلے پر ہیں میں اپنی سہولت یا آرام کے بدلے ان کا مستقبل کیسے داؤ پر لگا دوں ۔ جب تک مجھے کسی کام پر مکمل یقین نہیں ہو گا میں اس میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔“ یہ حالات تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ جب میں آیا تھا اس وقت بھی سب یہی کہہ رہے تھے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا ۔ میں نے مزید بحث کرنا
نامناسب سمجھا۔ پتر سال گزرنے کے آگے ابھی کافی وقت ہے ۔ اس وقت کی اس وقت دیکھیں گے ۔“ اس سوچ کے ساتھ میں نے دل ہی دل میں قہقہہ لگایا۔ وقت گزاری کا مناسب انتظام نہ ہو تو وقت بندے کو کاٹنے لگتا ہے۔ مصعبی کو بھی اس بات کا ادراک ہو گیا۔ یہ کہیں سے ایکس باکس اور پچاس انچ کی ایل سی ڈی اٹھا لایا۔ چٹکی بجاتے ہی مزید ایک سال گزر گیا۔ ایک دن میں اور میرا پڑوسی ارسلان کسی کام سے کہیں جا رہے تھے ۔ باتوں باتوں میں اچانک اس نے بم پھوڑا۔ حاجی صاحب ! ایک بات کرنی ہے لیکن آپ نے کسی کو بتانا نہیں ۔ ہاں ہاں کرو ۔ بے فکر ہو کے بات کرو کون سی بات ہے ۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ حاجی صاحب ! آپ نے کسی کے ساتھ یہ بات نہیں کرنی۔ میرے لیے مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ کا بیٹا مصعبی ایک آدھ ہفتے میں نوکری سے استعفی دینے والا ہے۔ اسے اپنی جگہ سمجھائیں۔ پاکستان جائے گا کیا کرے گا۔ آج کل وہاں کے حالات زیادہ ٹھیک نہیں ۔ اسے نہ پتہ چلے کہ میں نے آپ سے یہ بات کی ہے ۔ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔“ ارسلان ! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ابھی اس کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔ اس وقت وہاں اسے دس ہزار کی نوکری بھی نہیں ملے گی اور واپس آنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات اسے خود سوچنی چاہیے ۔ میرے اوپر پہلے ہی بہت ذمہ داریاں ہیں ۔ اگر یہ میرا بوجھ کم نہیں کر سکتا تو کم از کم اپنا بوجھ تو اٹھائے ۔ ارسلان اس کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ پورا ہفتہ گزر گیا مصعبی نے میرے سامنے اپنے ریزائن کا ذکر تک نہیں کیا۔ اگر یہ چاہتا تو دو چار منٹ میرے پاس بیٹھ کے مشورہ کر سکتا تھا۔ بے شک بعد میں اپنی مرضی کرتا۔ پھر مجھے پلانٹ مینیجر کی فون کال آگئی۔ ” آپ کو کچھ پتہ ہے آپ کے بیٹے نے ریزائن دے دیا ہے ۔ بتائیں کیا کرنا ہے ۔ اچھا مجھے تو آپ سے پتہ چل رہا ہے۔ ریزائن اپنے پاس روک لیں۔ پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔ کئی دن گزر گئے مصعبی نے اس موضوع پر مجھ سے کوئی بات کرنی مناسب نہیں سمجھی ۔ آخر میں نے ہی اسے کمرے میں جاتے ہوئے روک لیا۔ تمہارے باس کہہ رہے تھے تم نے پھر ریز ائن دے دیا ہے ۔ خیریت تو ہے ۔ پایا! یہاں رکنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ نہ انکریمنٹ ہے اور نہ ہی کوئی اوور ٹائم ۔ آپ نے کہا تھا اپنا کوئی کام شروع کریں گے وہ بھی نہ ہوا۔ میں جاکے ایک آدھ کورس کروں گا۔ بعد میں اگلی بات سوچوں گا۔ تمہیں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ میں اب واپس جاؤں لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے۔ میں اب بھی مناسب موقع کی تلاش میں ہوں ۔ رہی بات انکریمنٹ اور اوور ٹائم کی۔ پوری کمپنی کے ملازمین کا یہ مشترکہ مسئلہ ہے تم اکیلے نہیں ۔اللہ کا شکر ادا کرو ان حالات میں ہماری اپنی پوری تنخواہ تو دے رہی ہے ورنہ دوسری کمپنیاں ملازمین کی چھانٹی کر رہی ہیں ۔ اور بعض تو کئی کئی مہینوں سے ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دے پا رہے۔ سینکڑوں کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔ کرونا کے بعد تو بہت سارے ممالک دوبارہ سنبھلنے کے لیے کئی دہائیاں لگا دیں گے۔ پھر بھی میں تمہیں نہیں روکتا۔ البتہ میرا مشورہ ہے کہ ریزائن کے بجائے چھٹی پہ جاؤ وہاں تسلی سے جائزہ لو۔ اگر کوئی بہتر صورت نظر آئے تو واپس نہ آنا۔ دوسری صورت میں واپسی کا راستہ کھلا رہے گا۔ مجھے کراچی جا کے ایک کورس کرنا ہے ۔ ویسے بھی میرا یہاں سے اسی وقت جی کھٹا ہو گیا تھا جب کفیل نے مجھ سے پانچ ہزار فالتو لے لیے تھے ۔“ ” اب یہ بے وقوفوں والی بات کی ہے۔ پچھلے کفیل کا ذکر یہاں بالکل بے محل ہے ۔ وہ ایک بالکل الگ سلسلہ تھا۔ پتہ نہیں اب وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں ۔ تنازل کے بعد تمہارا اس سے ہمیشہ کے لیے تعلق منقطع ہو چکا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی اس سے ہمارا سامنا بھی ہو۔ رہا کورس تو کس نے تمہیں منع کیا ہے۔ فیکٹری میں ویسے بھی ان دنوں کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔ تین مہینے کی چھٹی لے لو۔ اس طرح اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنا مجھے تو سوائے حماقت کے کچھ نہیں لگتا۔ تم خود بھی کبھی کبھی اپنے دماغ سے کام لے لیا کرو۔ ہر بات میں جذباتی ہونا انتہائی غیر مناسب ہے۔ میں نے کوشش کی تھی کہ تین ماہ کی چھٹی مل جائے لیکن نہیں ملی ۔ میں سمجھ گیا اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے۔ ”ہمارے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں انہیں کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ تم چار ماہ کی چھٹی کی درخواست دے دو باقی میں دیکھ لوں گا۔ پلانٹ مینیجر نے لمبی چھٹی کی درخواست پر اپنی فطرت کے عین مطابق اول آن شروع کر دی ۔ اسی اثنا میں ہیڈ آفس سے اس کے نام ایک سرکولر جاری ہوا۔ جو ملازم ان حالات میں لمبی چھٹی جانا چاہتے ہیں انھیں مت روکا جائے۔“ پلانٹ منیجر کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ کرونا کی وجہ سے عمرے پر پابندی تھی مصعبی روضہ مبارک کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ چلا گیا۔ واپسی پر دو کلو عجوہ کھجور کا شاپر میرے بیڈ کے پاس لا رکھا۔ عام طور پر عجوہ کھجور پچاس سے ساٹھ ریال فی کلو ملتی تھی۔ یہ جب بھی عمرے کے لیے گیا میرے لیے واپسی پر عجوہ کھجور ضرورلایا۔ ایسی مہنگی کھجور اتنی زیادہ مجھے نہ دو۔ بہتر ہے پاکستان لے جاؤ ۔ بہت سارے لوگ خوش ہو جائیں گے ۔ پاکستان کے لیے الگ سے لایا ہوں ۔ آج کل دس ریال فی کلو مل رہی ہیں ۔ میں جب بھی عمرے یا کہیں لمبے سفر پر جاتا اسے ضرور ساتھ رکھتا۔ دو تین سال پہلے بھی رمضان کے آخری عشرے میں ہم دونوں مسجد نبوی پہنچ گئے ۔ مقامی اور غیر ملکی زائرین کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ زیادہ تر لوگ رات ہوٹل میں قیام کرنے کے بجائے مسجد میں آرام کرنے کی سوچ رکھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا لیکن اس بار مسجد انتظامیہ نے کچھ الگ سوچ رکھا تھا۔ جوں ہی کوئی مسجد کے اندر اونگھنے کی کوشش کرتا وہ جھنجھوڑ کے اٹھا دیتے۔ مسجد کے صحن میں ایک تو گرمی تھی دوسرا ہر تھوڑی دیر بعد صفائی والے آکے فرش پر پانی پھیلا دیتے مصعبی سے میری یہ نا گفتہ بہ حالت دیکھی نہ گئی۔ یہ کہیں سے میرے لیے فوم والی جائے نماز لے آیا۔ اب مجھے اپنے ساتھ ساتھ اس جائے نماز کو بھی مسجد کے اندر باہر گھسیٹنا پڑ رہا تھا۔ مصعبی کی روانگی کا وقت آگیا۔ روانگی سے ایک دن پہلے اس نے کئی گھنٹے لگا کے سارے گھر کی صفائی کی کچن اور باتھ روم تک چمکنے لگے ۔ کرونا کی وجہ سے ایئر پورٹ بلڈنگ میں غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ منع تھا اس لیے میں نے اسے ایئر پورٹ کی پارکنگ میں ہی الوداع کہا۔ اگلے روز ڈیوٹی سے واپس لوٹا تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں ۔ بے مقصد پاکستانی علاقے کی طرف نکل گیا۔ دو چار سڑکوں پر آوارہ گردی کی اور واپس گھر آ گیا۔ آدھا گھنٹہ چھت پر جا کے لفٹ رائٹ اور سٹ اسٹینڈ کرتا رہا ۔ کچھ دیر ٹی وی لگا کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا۔ ایسا لگ رہا تھا کسی ویران سرائے میں آگیا ہوں کھانا پکانا، جو باقاعدگی سے کرتا تھا اس کی طرف سے بھی دھیان ہٹ گیا۔ چاول ابال کے دہی ڈال لیا۔ کبھی انسٹینٹ نوڈلز بنا لیے۔ ایک آدھ وقت چائے بسکٹ سے کام چلا لیا۔ بھوک ویسے بھی ختم ہو چکی تھی۔ کئی دن گزر گئے ۔ آفس میں بیٹھے بیٹھے خیال آیا۔ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ۔ بندے کو حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے ۔“ کافی دنوں سے لکھنے پڑھنے کا کام بھی موقوف ہو چکا تھا۔ پکا ارادہ کیا شام کو جا کے ایک ادھورا افسانہ مکمل کروں گا۔ عدیل بات سنو ایک نیا فولڈر تو دو۔ اس میں کچھ پیپرز بھی ڈال دینا گھر میں کام کرنے کے لیے ایک پیپر بھی نہیں ۔ میں نے آفس سیکرٹری سے کہا۔ گھر پہنچ کے کپڑے بدلے۔ کوشش کرتا ہوں کچھ لکھ لوں بعد میں کارنیش کی طرف نکل جاؤں گا ۔“ یہ سوچ کر ڈرائنگ روم میں اپنی مخصوص فرشی نشست پر بیٹھ گیا۔ ادھورے افسانے کے دو صفحات لکھے۔ ٹی وی دیکھنے لگا تو اچانک ایسے لگا کہ کچھ مختلف ہورہا ہو۔ ایسا کیا ہو رہا ہے جس کو میں بھانپ نہیں پارہا۔ ایک طرف رکھے ہوئے جگ میں سے پانی پیا ٹی وی پر ایک انڈین چینل پر کون بنے گا کروڑ پتی لگا ہوا تھا آپ نے دوسرا پڑاؤ پار کر لیا ہے ۔ اب آپ کے پاس سمے ہی سمے ہے ۔ سوچ سمجھ کر تسلی سے جواب دینا ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ ادہ تو یہ بات ہے ۔ آج گھر میں اتنی وحشت اور گھٹن نہیں ہے ۔ ایسی کیا خاص بات ہوگئی ہے جس کی وجہ سے گھر کچھ آباد آباد سا لگ رہا ہے ۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے ماحول بدل گیا ہے ۔ میں نے بھر پور نگاہ سے ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا۔ اٹھ کے بیڈ روم اور کچن میں دیکھا۔ سب کچھ تو پہلے جیسا تھا۔ ہر چیز اپنے لیے مخصوص جگہ پر رکھی ہوئی تھی۔ جب میں واپس ڈرائنگ روم کے اندر آیا تو اس پر میری نظر پڑگئی۔ اچھا تو یہ تم ہو ۔” پانی کی بوتل میں بھی منی پلانٹ کی شاخ پر لگے سبز پتے چمک رہے تھے۔ ایک دن پہلے میں اسے اپنے دفتر سے کاٹ کے لایا تھا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *