Film Arth 1982 Film Overview

Film Arth 1982 Film Overview

ارتھ

زندگی تھکتی نہیں

تھمتی نہیں،

رُکتی نہیں

کافی عرصے سے ایسی فلمیں دیکھ رہا ہوں جو روایت سے ہٹ کر بنائی گئیں۔ آج کل ہندی سنیما میں ایسے موضوعات پر فلمیں جیسے ناپید ہو چکی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ تخلیقی ذہن اب تھک چکے ہیں۔

کبھی کبھار وشال بھردواج کا چونکا دینے والا کام نظر آتا تھا۔ اگرچہ راجکمار ہیرانی کی فلمیں سماجی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مزاح کے ذریعے مزاحمت کا درس دیتی تھیں، لیکن “ڈنکی” جیسی فلم بنا کر انہوں نے بھی مایوس کیا۔

البتہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر “راج اور ڈی کے” کا کام قابلِ ستائش ہے، جبکہ ٹی وی ایف والوں کی ویب شوز/سیریز بھی کافی معیاری ہوتی ہیں۔

اپنا بچپن تو سارا مسالا فلموں میں بیتا۔ تب رنگ، ناچ، گانا، ہیرو، ہیروئن، ولن، مار دھاڑ، سب کچھ آنکھوں کو بھاتا رہا، لیکن جب تھوڑی سمجھ بوجھ ہوئی تو ذہن اچھوتے موضوعات تلاشنے نکل پڑا۔ میرا ماننا ہے، جو چیز پریشان کرے، سوال چھوڑے، سوچنے پر مجبور کرے، تو اُس کی طرف چلتے رہو۔ کیونکہ صحیح منزل کا پتہ وہیں سے ملتا ہے۔

اور مجھے کیسی فلمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں؟ پریشان کرتی ہیں؟ سوال اُٹھاتی ہیں؟ تو وہ “ارتھ” جیسی فلمیں ہیں۔۔۔

Film ..Arth..1982

Spoiler alert

ارتھ کیا ہے ؟ (اسپائیلر الرٹ⚠)

“ارتھ” ایک ایسی فلم ہے جو رشتوں کے گرد گھومتی زندگی کے معانی تلاش کرنے والی دو عورتوں کی کہانی پر مبنی ہے۔ ایک منفرد فلم، خاص طور پر ایسی انڈسٹری میں جہاں زیادہ تر کہانیاں مردوں کے لیے لکھی جاتی تھیں۔ مگر جس طرح مہیش بھٹ صاحب نے اس فلم میں عورت کے احساسات، نزاکت، شعور اور حوصلے کو بڑے پردے پر پیش کیا، وہ اسی کی دہائی میں ایک بڑی بات تھی۔

“ارتھ” محبت، دکھ، عدم تحفظ اور عورت کی شناخت کی کہانی ہے۔

وہ عورت، جو اس معاشرے میں فخر سے سر اُٹھا کر جینا چاہتی ہے، جو یہ کہنا چاہتی ہے “اگر میں اکیلی ہوں تو مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ میں حالات سے لڑ سکتی ہوں، آگے بڑھ سکتی ہوں، اور جیت سکتی ہوں۔”

فلم کی مرکزی کردار پوجا (شبانہ اعظمی) ہے۔ جس کا بچپن یتیمی میں گزرا، جوانی میں اِندر (کلبوشن کھربندا) جیسا شوہر ملا، جو اُس کے لیے سب کچھ تھا۔ کہانی میں دوسری عورت کویتا (سمیتا پاٹل) ہے، ایک سپر اسٹار، جو ہر وقت خود کو غیر محفوظ اور خالی محسوس کرتی ہے۔

پوجا اور کویتا، دو الگ مزاج، سوچ اور جذبات رکھنے والی عورتیں ہیں اور دونوں کا تعلق ایک مرد “اِندر” سے جُڑا ہے۔

پوجا کی دنیا اندر سے شروع اور اسی پر ختم تھی، جبکہ کویتا نے جس محبت کو سچ سمجھا وہ دنیا کی نظروں میں ناجائز تھی۔

پوجا کی گھر تک محدود سی دنیا تھی، جہاں چھوٹے چھوٹے خواب بسے تھے، لیکن سبھی خواب و خواہشات مکمل ہوں یہ ضروری تو نہیں ۔

اِندر فلمی دنیا سے وابستہ تھا۔ وہ محبت کرنے والا شخص ضرور تھا، لیکن اپنی رہ سے بھٹک گیا، اور آہستہ آہستہ پوجا سے دُور ہوتا چلا گیا۔ بلاآخر ایک دن اِندر پوجا سے کویتا کے ساتھ اپنے رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے:

“پوجا میں اب بھی تم سے محبت کرتا ہوں، بس فرق یہ ہے کہ میں کویتا سے بھی پیار کرتا ہوں۔”

یہ وہ لمحہ ہے جب پوجا کے من کا مندر ٹوٹ جاتا ہے، اور وہ اپنی شناخت کی رہ پر گامزن ہو جاتی ہے اور جاتے ہوئے اِندر کو خط لکھتی ہے:

“میں گھر کی چابیاں اور رقم تمہیں واپس بھیج رہی ہوں۔ میں تمہاری اور کویتا کی زندگی سے جا رہی ہوں، لیکن تمہاری زندگی سے نہیں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت محسوس ہو، میں ہوں، میں رہوں گی۔”

فلم میں کویتا کے کردار کے ذریعے ایک عورت کے خوف، عدم تحفظ اور ذہنی حالت کو نہایت حساس انداز میں دکھایا گیا ہے۔

ایک سین میں جب ڈاکٹر کے کہنے پر پوجا کویتا کے گھر جاتی ہے تاکہ وہ اپنے “خیالی خوف” کا سامنا کر سکے۔ تب دونوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے جہاں کویتا، خود کو پوجا کی مجرم محسوس کرتے ہوئے کہتی ہے:

“میں تمہارے پتی سے نہیں، اندر سے محبت کرتی ہوں۔ میں اپنا گھر بنانا چاہتی تھی، تمہارا گھر اجاڑنا نہیں چاہتی تھی۔”

تب پوجا اسے تسلی دیتے جوابہ کہتی ہے:

“میرا گھر تو کبھی تھا ہی نہیں، تم نے کچھ بھی برباد نہیں کیا۔”

یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ”ارتھ” کا کچھ حصہ مہیش بھٹ صاحب کی ذاتی زندگی پر مبنی ہے، جسے فکشن میں ڈھالا گیا ہے۔فلم میں وہ وقت دکھایا گیا ہے جب وہ لورین برائٹ (پوجا بھٹ کی ماں) سے شادی کے باوجود پروین بابی کے سحر میں گرفتار ہو گئے تھے۔

پروین بعد میں ذہنی بیماری “اسکیزوفرینیا” کا شکار ہوئیں۔

یہی کردار کویتا کا ہے، جسے سمیتا پاٹل نے ادا کیا۔

وہی آنکھوں سے کہانیاں سنانے والی، سانولی صورتیہ والی باوقار سمیتا پاٹل، جن کے آنکھیں میں آرزو، التجائیں اور صدیوں کی صدائیں تھیں۔۔۔

آئیے میرا ھاتھ پکڑیں، اور موسیقی کے ساتھ چلتے چلیں .. فلم کے خلاصے، کردار اور ڈائرکشن کے بعد اگر “ارتھ” کی موسیقی کا ذکر نہ چھیڑا جائے تو یہ ساری داستاں گویا ادھوری رہ جائے گی۔ موسیقی ارتھ کا ایک مضبوط پہلو ہے، جسے میرے فیورٹ جگجیت سنگھ جی نے ترتیب دیا۔

چھوٹی سے عمر میں جگجیت صاحب کی آواز کانوں میں پڑی تھی، لیکن میں نے انہیں سمجھنے میں بہت دیر کردی، جگجیت سنگھ کے بارے میں کبھی جاوید اختر نے کہا تھا “وہ غزل گائیکی میں برصغیر کے آخری ستون تھے۔ اُن کی آواز میں ایک قرار تھا۔” بقول جاوید صاحب ” میں نے پہلی بار انہیں (جگجیت سنگھ) کو امیتابھ بچن کے گھر پر “بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی” گاتے سنا تھا اور پھر بات نکلی، اور واقعی بہت دور تک گئی۔ “

بہرحال جگجیت جی تو خود ایک الگ موضوع ہیں، پر آج میرا ٹاپک صرف ارتھ پر بات کرنا ہے ۔

فلم کے گانے کیفی اعظمی اور راجیندر ناتھ رہبر نے لکھے، جسے جگجیت اور چترا سنگھ جی نے اپنی آواز میں گایا، اور وہ گیت/غزلیں فلم کی پہچان بن گئیں۔

موسیقی کےساتھ ہی فلم میں ایک اور اہم کردار راج (راج کرن منتھانی) کی انٹری ہوتی ہے، ایک اسٹرگلنگ گلوکار، جو پوجا کو ایک نئے سفر پر چلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ وہ پوجا کا دوست اور سہارا بن جاتا ہے۔ راج پہلی ہی ملاقات میں پوجا کو سمجھنے لگتا ہے۔ تبھی تو وہ ایک پارٹی میں مسکراتی مگر اداس پوجا کو دیکھ کر کہتا ہے:

“اگر تم تھک گئی ہو تو مسکرانا چھوڑ دو۔”

آگے چل کر وہ پوجا کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے آنسوؤں کو پہچان لیتا ہے اور کہتا ہے:

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو،

کیا غم ہے جس کو چُھپا رہے ہو؟

آنکھوں میں نمی، ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو…!

زندگی رکتی نہیں، تھمتی نہیں، تھکتی نہیں اور تبدیلی کے کئی مراحل طے کرتے آگے بڑھتی جاتی ہے پیار جنم، جنم کا رشتہ ہے یا نہیں جیسے الفاظ راج جیسوں کے لیے نہیں ہوتے، ایسے لوگ جس پل میں جی رہے ہوتے ہیں اسے ہی محبت سے بتانا چاہتے ہیں، اسی لیے تو راج، جگجیت سنگھ کی آواز اور کیفی اعظمی کے بولوں میں سوال کرتا ہے :

کہتے ہیں پیار کا رشتہ، ہے جنم کا رشتہ

ہے جنم کا جو یہ رشتہ، تو بدلتا کیوں ہے؟

یہاں محبت کی مستقل مزاجی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں اور پھر وہ زندگی کی تنہائی میں لپٹی پوجا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے:

کوئی یہ کیسے بتائے، کہ وہ تنہا کیوں ہے؟

وہ جو اپنا تھا، وہی اور کسی کا کیوں ہے؟؟

یہی دنیا ہے تو پھر، ایسی یہ دنیا کیوں ہے؟؟؟

یہی ہوتا ہے تو آخر، یہی ہوتا کیوں ہے؟؟؟؟

آہستہ آہستہ راج کے دل میں بھی پوجا کے لیے محبت جنم لینے لگتی ہے وہ اسے زندگی کی تپتی دھوپ میں گھنی چھاؤں کی مانند محسوس کرنے لگتا ہے۔

جب اندر نے پوجا کو چھوڑ دیا تھا تب اس کے پاس صرف راج کی دوستی ہی تھی جو ہمدردی اور دبی محبت کے درمیان اپنی جگہ تلاش کر رہی تھی۔ پیار کو جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے… صرف محسوس کرنا ہی کافی ہوتا ہے ۔

بالکل کیفی اعظمی کی اس گیت کی طرح

جُھکی جُھکی سی نظر، بیقرار ہے کہ نہیں،

دبا دبا سا سہی، دل میں پیار ہے کہ نہیں۔

طلاق کے بعد جب پوجا ملہوترا سے پوجا بنتی ہے، تو راج ہی اسے سمجھاتا ہے کہ “کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ ملہوترا بس ختم ہو گئی ہے اور صرف پوجا اپنے آپ میں مکمل ہے۔ آج ہی تو اس کا جنم ہوا ہے۔”

لیکن پوجا…! جو اِندر کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے، راج کو قبول کرنے کے لیے بھی تو تیار نہیں..!

اور پھر پس پردہ چترا کی آواز گونجتی ہے

تُو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا؟

دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا..!

جب راج اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے تب پوجا کہتی ہے:

“آج میں صرف پوجا کے طور پر جینا چاہتی ہوں، اپنے نام کو ہر دوسرے نام سے الگ کر کے۔ تمہارا سہارا مجھے کمزور کر دے گا۔”

راج پُرملال لہجے میں صرف اتنا کہتا ہے:

“پوجا جاؤ۔ تمہارے اندر جو ہمت جاگ گئی ہے، وہی زندگی کا اصل مطلب ہے، اب تمہیں کسی ملہوترا یا راج کی ضرورت نہیں پڑے گی، پیچھے مُڑ کر مت دیکھنا۔”

کوئی رشتا کتنا ہی بڑا، کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو… زندگی کا حصہ ہوتا ہے… زندگی کسی رشتے کا حصہ نہیں، کہ ایک رشتا ختم ہو جائے تو زندگی ختم ہو جائے۔ راج وقتی طور پر مایوس ہوتا ہے، لیکن دل میں لگی محبت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان یادوں سے پیچھا چھڑانا ضروری تھا جو اسے منجمد کر سکتی تھیں، اسی کشمکش میں مبتلا وہ خود سے سوال کرتا ہے

تیری خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے؟

تیرے ہاتھوں سے لکھے خط میں جلاتا کیسے؟؟

اور پھر آگے بڑھنے کا فیصلا کرتا ہے ۔

تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں،

آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں…!

کچھ سوال جو جواب چاہتے ہیں

یادوں میں جیئے جانے سے بھی مسائل حل تو نہیں ہوں گے، کیوں کہ ساری یادیں اچھی بھی تو نہیں ہوتی، ویسی بھی حاصلات ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی، ہاں لیکن کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کو تقویت دیتے ہیں، حوصلا افزائی کرتے ہیں، یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے کچھ صحیح کیا تھا، اور جب کچھ صحیح کیا جائے تو پھر زندگی کٹ ہی جاتی ہے۔

کئی سال قبل مشہور بھارتی فلم مصنفہ وندنا جی نے “ارتھ” متعلق لکھا تھا: “یہ ہمیشہ ایک با مقصد فلم رہے گی، کیونکہ آج بھی برصغیر میں عورتوں کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں، اور ایسے موضوعات پر بہت کم “ارتھ” جیسی شاہکار فلمیں بنتی ہیں۔”

پوجا میں خود انحصار ہونے، معاشرے میں قائم دقیانوسی تصورات کے خلاف ڈٹ کھڑا رہنے جیسی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آئیں تھیں۔ دراصل ارتھ اسی تبدیلی کی کہانی ہے۔ اور یہ بدلاؤ آپ کو فلم کے آخری سین میں نظر آئیگا، جب اندر پوجا کے پاس لوٹتا ہے اور کہتا ہے:

“یہ سچ ہے میں کبھی کویتا کے پاس واپس نہیں جاؤں گا۔ میں تمہارے ساتھ نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں۔”

تب پوجا، اِندر سے پوچھتی ہے:

“ایک اور سچ بتاؤ اِندر، اگر میں بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کرتی، جیسا تم نے میرے ساتھ کیا، اور پھر یوں ہی واپس آتی، تو کیا تم مجھے قبول کرتے؟ الوداع اِندر…!”

بعد میں فلم میں پوجا کے کردار کے لیے شبانہ اعظمی کو قومی اعزاز سے نوازا گیا، اور مہیش بھٹ کو ایک نئی پہچان ملی۔

ارتھ میرے لیے وہ آئینہ ہے جس میں دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی شبانہ ہوتے ہیں، کبھی کویتا، اور شاید کبھی مہیش بھٹ بھی، ہمارا بھی کوئی راج جیسا دوست ہوتا ہے جو مشکل حالات ہمارے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور ہاں کہیں اِندر جیسے لوگ بھی ہوتے جو ساری عمر اپنے فیصلوں پر پچھتاتے ہیں ۔

لیکن کچھ سوال ایسے ہیں جو آج بھی جواب متلاشی ہیں مثلاً کیا کویتا کو واقعی سمجھنے کی کوشش کی گئی؟

یا اسے صرف ’دوسری عورت‘ کی آسان تشریح میں قید کر دیا گیا؟

کیا یہ فلم عورت کی خودمختاری کا جشن ہے، یا اس کی ٹوٹ پھوٹ کی روداد؟

ان سوالات کا کوئی سیدھا جواب شاید نہ ہو، مگر ارتھ کی خوبی ہی یہی ہے کہ یہ ہمیں سوالوں کی دنیا میں دھکیلتی ہے، جہاں ہر کوئی اپنا مطلب، اپنا”ارتھ” ڈھونڈتا ہے۔

سرمد ادل سولنگی / Film Walay فلم والے

حوالاجات بی بی سی اردو، وکیپیڈیا، این ڈی ٹی وی، فلمی بِیٹ

Film Arth 1982 Film Overview

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *