قرض جاں Pakistani Drama Review

قرض جاں Pakistani Drama Review

قرض جاں آجکل آن ائیر جانے والے ڈراموں میں شاید سب سے strong script اور سب سے زیادہ بااثر ڈرامہ ہے اور اسکی حالیہ اقساط نے تو ہر حساس انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

عمار کا کردار جس طرح background میں ڈیویلپ ہوتا رہا اور جس طرح مضبوط طریقے سے سامنے آیا وہ بہت با اثر تھا۔ مجھے اس کردار میں بہت سے حقیقی دنیا کے کرداروں کی جھلک نظر آئی۔ ظاہر جعفر کا بھی یہ پہلا rage کا دورہ تو نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے بھی وہ حد سے زیادہ غصہ کرتا ہو گا شاید ملازموں کی مار پیٹ بھی ۔

شاہنواز کا بیک گراونڈ اٹھا کر دیکھیں تو بروکن فیملی، پیسہ اور مرد ہونے کا غرور جانے کیا کیا اسباب نظر آئیں۔ پھر شاہ رخ جتوئی تو سب کچھ کر کے ہم سب کے منہ پر اپنے وکٹری سائن کا طمانچہ مارتا ہم سب کو یاد ہی ہے۔ پھر ابھی جو منش یات سے منسلک اتنے بچے سامنے آئے، جب وہ کروڑوں کا لین دین کر رہے تھے تو ماں باپ اسی گھر میں رہتے ہوئے انجان تو نہ تھے۔ ڈی ایچ اے کر سڑک پر روڈ ریج میں پوری فیملی کو کچل دینے والا بچہ بھی “زیادہ غصہ والا” ہی ہوگا۔ پھر آئس کا نشہ کر کے پب جی کھیلتے کھیلتے کھیلتے پوری خاندان کو مار دینے والا بھی ایک واقعہ تھا۔

مگر کیا کسی کے ماں، باپ، دادا، دادی کے بگاڑے جانے پر ظاہر جعفر بن جانا، شاہنواز بن جانا یا اس ڈرامے کا عمار بن جانا اس بگڑنے کو ایک سولڈ ریزن دینا ہے اور جسٹفائی کرتا ہے؟ نہیں۔۔۔۔ کیونکہ بگاڑنے والے ماں باپ پوری دنیا میں ہیں کونکہ اولاد سب کو یکساں عزیز ہے۔ جو چیز ظاہر جعفر یا شاہنواز بناتی ہے وہ ہے ہمارا نام نہاد قانون اور ہمارا تمام کا تمام معاشرہ۔

جس دن ایک شخص ون وے پر الٹی طرف سے آتا ہے اور پولیس اسکا چالان کرے تو سب لوگ کہتے ہیں اس بے چارے نے ایسا کیا کیا؟ جب اوور سپیڈنگ کرتا ہے کوئی تو لوگ اسکی گاڑی کے ماڈل کے حساب سے اس کو مخاطب کرتے ہیں۔ لال بتی کراس کرنا تو معمول کی حرکت ہے۔

تو گھر میں بچے کو بگاڑنا کہ یہ زیادہ غصہ والا ہے یا یہ ایسا ہی ہے کیا معنی رکھتا ہے جب پورا معاشرہ اور قانون ایسے لوگ بنانے میں دن رات مصروف ہے۔

میرا مدعا یہ ہے کہ ماں باپ کا لاڈ یا ماں باپ کا ابیوز کسی بھی انسان کو مجرم بننے کی آزادی دے بھی تو اگر ایک جگہ گاڑی 100 سے 110 پر لے جانے پر اسے پکڑا جائے، زیادہ خلاف ورزیوں پر اسکا لائسنس کینسل ہو تو بگاڑ خود ہی راہ راست پر آ جائے۔

ہم کرپشن سے اس حد تک immune ہو چکے ہیں کہ اگر عمار کا باپ کسی بھی طرح اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسے رہا کرا لے تو آپ سب اسے ایک اچھا کام سمجھیں گے کہ بے چارہ عمار جو باپ اور دادی نے spoil کیا رہا ہو گیا۔ اسقدر کلجگ ہے کہ برائی کی justifications پر سر دھنا جا رہا ہے۔ پھر تو ted bundy کی لائف ہسٹری بھی پڑھیں تو اسکا سوشیو پیتھ ہونا justify ہو ہی جائے اسی قسم کا۔

مسئلہ عمار کی پرورش کا نہیں۔ مسئلہ اس ملک کا ہے جہاں کسی غریب پر گاڑی چڑھ جائے تو وہ تجھے اللہ پوچھے گا کہنے کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا. حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ابھی عمار اور ظاہر جعفر اتنے کم کیسے ہیں؟ ویسے کم تو نہیں ورنہ ہر چند روز بعد ایک نھنھی کلی ریپ نہ ہو رہی ہوتی۔

تو اتنی حیرت سے تعجب سے عمار کی حرکتوں کو اسکے باپ دادی پر مت ڈالیں۔ ہر بالغ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ نشوی کے ہاتھ میں اگر یہ طاقت ہوتی کے وہ اسکو rehab لے جانے کی بجائے پولیس کو اسکی منشیات کے استعمال پر پکڑوا سکتی تو آدھی سپرٹس ختم ہوئی ہوتیں اسکی۔ بلکہ اس سے پہلے اس ریپ والے معاملے میں ہی جیل میں ہوتا۔

تو اپنے درست غلط اور ہمدردیوں کا پیمانہ ذرا دوبارہ ایڈجسٹ کیجئے۔ جرائم سزا انسانی آزادی اور انسانی حقوق کا مطالعہ کیجئے اور پھر عمار سے ہمدردی کیجئے گا۔

بہرحال ڈرامے میں اچھا سبق ان بچیوں کے لئے ہے جو سمجھتی ہیں کہ بگڑا عیاش لڑکا محض انکی محبت سے راہ راست پر آ جائے گا۔ نہ تو کوئی بالغ انسان کسی دوسرے بالغ انسان کو اتنا بدل سکتا ہے اور نہ ہی لڑکیاں خود کو بیمار ذہنیت کے لوگوں کی نرس اور rescuer سمجھیں۔

عائشہ احمد / Film Walay فلم والے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *