
Afsana HARAM by saeed ashar a Heartfelt reflection
حرام
اب بھی شہر سے قدرے ہٹے ہوئے دیہات میں ایسا ایک آدھ سادہ لوح شخص آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس کی باتوں سے باقی لوگ محفوظ ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں بھی کوئی شادی یا ماتم کی تقریب ہوتی ہے لوگ اس سے کسی نہ کسی شگوفے کے سرزد ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ پنڈ داد میں بھی ایسے لوگوں کی موجودگی آئے روز کوئی نہ کوئی گل کھلاتی رہتی ہے۔ مولانا اجمل صاحب عصر کی نماز پڑھا کر اکثر کچھ دیر کے لیے مسجد میں بیٹھ جاتے تا کہ مقتدی اگر کوئی مسئلہ پوچھنا چاہتے ہوں تو ان کو سہولت رہے ۔ اس دن بھی مولانا اجمل صاحب مقتدیوں کے سامنے کسی موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ اچانک گاؤں کے معروف سادہ لوح قدیر نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ استاد جی ! میرا ایک سوال ہے ۔ آج کل منصوبہ بندی کے لیے یہ جو پھلوس ( کنڈوم ) استعمال کیے جارہے ہیں کیا یہ حلال ہیں ۔ پہلے تو کچھ دیر کے لیے مسجد میں سناٹا چھا گیا۔ پھر پچھلی صف کی ایک جانب سے کھیچ کھیچ کی آوازیں آنے لگیں کوئی اپنی ہنسی قابو کرنے میں نا کام ہو گیا تھا۔ مولانا اجمل صاحب نے کمال تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ ایک نئی شیطانی ایجاد ہے ۔ اہل مغرب امت مسلمہ کو گمراہی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ تمھاری بیویاں تمھاری کھیتیاں ہیں ۔ ارے عقل کے اندھو کوئی ایسا کھیت بھی بھلا ہو سکتا ہے جس میں بغیر کسی فصل کے ہل چلا یا جاتا ہو۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق یہ حرام ہے ۔ویسے تو گاؤں میں تین چار مراثیوں کے گھر تھے لیکن ان میں سے کسی کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہوئی جتنی خالد کے نصیب میں آئی۔ پورے علاقے میں جہاں کہیں کوئی شادی ، عرس یا کبڈی کا میچ ہوتا اس کی موجودگی لازم سمجھی جاتی۔ ڈوب کے ڈھول بجاتا۔ بےخود سا ہو جاتا۔ ایسا لگتا جیسے اپنے لیے بجارہا ہو ۔ ناچنے والے بھی مست مست ہو جاتے ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ شدت سے ڈھول کا کوئی نہ کوئی پردہ پھٹ جاتا۔ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کے اس پر نوٹوں کی بارش کرتے بعض منچلوں کی فائرنگ سے کان کے پردے پھٹنے کو آجاتے۔ اس کے اخلاق بھی اچھے تھے اس لیے ہر آدمی سے اس کے تعلقات کافی بہتر تھے۔ خالد کے خاندان میں زیادہ افراد نہیں تھے ۔ ماں، بیوی، بیٹی ، بیٹا اور وہ خود کل پانچ افراد سہولت سے زندگی بسر ہو رہی تھی۔ البتہ کبھی کبھار وہ اپنی بیوی بلقیس سے کہتا۔ سائرہ کو دسویں کیے ہوئے بھی دو ڈھائی سال ہو چکے ہیں ۔ کوئی اچھا سا رشتہ آجائے تو یہ فرض ادا ہو جائے ۔ پریشان کیوں ہوتے ہو ۔ کون سی بڈھی ہوگئی ہے۔ ہو جائے گا۔ بلقیس اسے تسلی دیتی۔ سائرہ کا بلاناغہ یہ معمول تھا کہ عصر کے بعد وہ اپنے چھوٹے بھائی مدثر کو سکول کا کام کرواتی ۔ مدثر گاؤں کے واحد پرائیویٹ سکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ سائرہ اس سے انگلش اور اردو سنتی حساب کے سوالات کرواتی ہوم ورک کرواتی۔ اگلے دن اگر کسی مضمون کا ٹیسٹ ہوتا تو وہ تیار کرواتی۔ چھوٹے بھائی سے اسے بے پناہ محبت تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ مدثر خوب پڑھ لکھ کر ایک بڑا افسر بنے ۔ اس دن بھی وہ کچے صحن میں لگے توت کے پرانے اور گھنے درخت کے نیچے دری بچھا کے مدثر کو انگلش کے سپیلنگ رٹوا رہی تھی۔ اچانک اس کے منہ سے ایک فوارہ ابلا اور صحن میں گندگی پھیل گئی۔ برآمدے میں بیھٹی بلقیس اور اس کی ساس شاید کسی اہم موضوع پر آپس میں سرگوشیوں کی صورت میں تبادلہ خیال کر رہی تھیں ۔ ان کی یکسوئی ٹوٹ گئی۔ سائرہ بھاگ
کے صحن کے کونے میں بنے غسل خانے میں پہنچ گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے چہرے کی رنگت میں پیلاہٹ کھلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد بلقیس کمرے میں چلی گئی ۔ اور وہاں سے آواز بلند کی۔ سائرہ ! ذرا اندر آؤ ۔ سائرہ اندر پہنچی تو بلقیس نے دروازہ بند کر دیا۔ سچ سچ بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟“ کوئی مسئلہ نہیں پتہ نہیں کیوں الٹی ہوگئی۔ میں نے تو کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں کھایا۔ میں دیکھ رہی ہوں دو تین دنوں سے تمھارے ساتھ یہ معاملہ چل رہا ہے ۔“ اماں ! میں نے بتایا نا کہ ویسے ہی ہو رہی ہے ۔ دیکھو بیٹی ! یہ الٹیاں ویسے ہی نہیں ہو رہیں۔ میں تمھاری ماں ہوں ۔ بہتر ہے مجھے بتا دو تا کہ میں وقت پہ سب کچھ سنبھال لوں ۔ بلقیس نے ہلکے پھلکے طریقے سے پوری کوشش کر لی لیکن سائرہ نے اس کے ہاتھ میں کوئی سرا نہیں آنے دیا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہاں سختی کی ضرورت ہے۔ وہ لکڑی کا بڑا چمچا اٹھا لائی۔ سیدھے سیدھے بتا دو مجھ سے اپنی ہڈیاں نہ تڑوانا ۔ اماں میں نے کہانا کہ ایسا کچھ نہیں خوامخواہ تم مجھ پر شک کر رہی ہو ۔ سائرہ اپنی بات پر ڈٹی رہی بلقیس نے لکڑی کے پچھے کے ساتھ اسے اندھا دھند مارنا شروع کر دیا۔ اماں ۔۔۔ اماں ۔۔۔ اماں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ بلقیس پر اس کی فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جب اس کا ہاتھ تھک گیا تو وہ اسے مزید مارنے سے رک گئی۔ ٹھیک ہے نہ بتا رات کو تیرا ابا آئے گا تو خود پوچھ لے گا۔ میں دیکھتی ہوں کب تک تیرا منہ بند رہتا ہے ۔ اماں! میں کہہ تو رہی ہوں ایسا کچھ نہیں ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے میں دائی خالہ کو بلاتی ہوں سب کچھ صاف صاف کھل کے سامنے آجائے گا پتہ نہیں اب اس بات میں کتنا سچ اور کس قدر مبالغہ ہے ۔ دائی خالہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑکی کی چال دیکھ کر بتا دیتی کہ بچہ کتنے دنوں کا ہے بلقیس کا تیر نشانے پر لگا۔ سائرہ نے اپنے ہتھیار پھینک دیے۔ “اماں اسے نہ بلاؤ بتاتی ہوں ۔ چند لمحوں کے لیے کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ بلقیس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ کس کا ہے؟“ پٹواریوں کے بیٹے ملک ابرار کا۔ وہ مجھ سے شادی کرے گا۔ بلقیس وہیں بیٹھ گئی اور اپنے منہ اور چھاتی پر دو ہتھڑ مار مار کے رونے لگی۔ یا اللہ ! یہ کیا ہو گیا ہے؟ ہم کدھر جائیں گے؟ اس لڑکی نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خالد ساتھ والے گاؤں میں کسی کی بارات پر گیا ہوا تھا عشاء کے بعد تھکا ماندا گھر لوٹا۔ مزدوری اور مٹھائی بلقیس کے ہاتھوں میں دی تو اس کا سوجھا ہوا منہ دیکھ کے وہ سمجھ گیا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ سب ٹھیک تو ہے نا ؟“ بلقیس خاموش رہی۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ڈھول کو کھونٹی سے لٹکا کر کپڑے بدلے۔ کھانا کھاؤ گے ۔ نہیں بھوک نہیں ۔ ادھر آؤ۔ اب بتاؤ تمھارا منہ کیوں سوجھا ہوا ہے؟“ بلقیس سسکنے لگی۔ ہم بر باد ہو گئے ۔ سائرہ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ پھر اس نے خالد کو سب کچھ بلا کم و کاست بنادیا۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا بلقیس کی بات ختم ہوئی تب بھی وہ خاموش بیٹھا رہا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد اس نے ایک لمبا سانس لیا۔ سر پر رومال رکھا ٹارچ لی اور گھر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ پٹواری ملک نسار کا حویلی نما گھر ساتھ والی گلی میں تھا۔ دروازے پر دستک دینے پر اندر سے کسی عورت نے استفسار کیا۔ میں خالد ہوں ۔ ملک صاحب سے ملنا ہے “ ساتھ ڈیوڑھی میں چلے جاؤ ملک صاحب کسی مہمان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ڈیوڑھی میں ملک نثار اور اشرف خان بیٹھے کسی خسرہ نمبر پر بات کر رہے تھے ۔ خالد نے ان دونوں کو سلام کیا۔ ”ہاں خالد ! اس وقت کیسے آئے ہو؟“ ملک صاحب ! مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ ایسی کیا ضروری بات ہے جو تم اس وقت آئے ہو۔ اس طرح کرو کل شام کے وقت آجانا تسلی سے بات کریں گے۔ صبح مجھے ایک پیشی پر جانا ہے ۔ اسی سلسلے میں خان صاحب بھی تشریف لائے ہیں ہمیں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ۔ ملک صاحب ! میری بات بہت ضروری ہے ۔ اشرف خان نے خالد کا لال بھبو کا چہرہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ کوئی ان ہونی ہوگئی ہے۔ ملک صاحب ! پہلے اس کی بات سن لیتے ہیں ۔” ٹھیک ہے خالد ۔ اب بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو؟“ ملک صاحب ! میں اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ” خان صاحب علاقے کے چیئر مین ہیں ان سے کوئی معاملہ پوشیدہ نہیں رکھا جا تا تم رہ اعتماد سے بات کرو۔ ان کی موجودگی سود مند رہے گی ۔ خالد کو جھجھک نے گھیر لیا۔ ڈرو نہیں۔ جلدی بات کرو ۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ۔ ملک صاحب ! در اصل بات یہ ہے کہ آپ کے بیٹے ملک ابرار نے میری بیٹی کو شادی کی آس دی ہوئی ہے ۔ اب وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔ میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ملک نثار کے کان کے پاس جیسے کسی نے پٹاخا پھوڑ دیا ہو۔ اسے اندازہ نہیں تھا اشرف خان کے سامنے خالد اس طرح کی کوئی بات کرے گا۔ اشرف خان معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا۔ گاؤں کی بہنیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں تم زیادہ پریشان نہ ہو۔ میں خود اس مسئلے کا کوئی حل نکالتا ہوں تم ذرا باہر بیٹھ کے میرا انتظار کرو۔“ خالد بوجھل قدموں کے ساتھ ڈیوڑھی کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ دونوں خاندانوں نے بڑی راز داری برتی لیکن پورے گاؤں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ سائرہ ملک ابرار کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ عورتوں نے اپنے پسندیدہ نتائج نکالنے شروع کر دیے۔ میں تو پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ لڑکی جو اتنا پھدک پھدک کر رہی ہے جلد ہی کوئی چن چڑھائے گی۔ اگر چہ مراثیوں کا گھر ہے لیکن شریف لوگ ہیں لڑکی نے ان کی عزت خاک میں ملا دی ۔ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملنے لگیں۔ ملک ابرار بھی پورا ہفتہ اپنے گھر میں بند رہا۔ آخر کب تک۔ برداشت جواب دے گئی۔ سر پر چادر ڈال کے اپنے دوست شکیل خان کے پاس پہنچ گیا۔ گپ شپ کے دوران اچانک شکیل خان نے موضوع بدلا۔ یارا یہ تم نے کیا کرتوت کیا ہے ۔ کچھ خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اگر اتنے ہی بے صبرے ہو گئے تھے تو کم از کم کنڈوم ہی استعمال کر لیتے ۔ کیسے کر لیتا۔ مولانا اجمل صاحب کی بات نہیں سنی کہ اسلام میں کنڈوم حرام ہے ۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website.
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.