Afsana Bukhar by Saeed Ashar

Afsana-Bukhar-by-Saeed-Ashar-featured-image-1.webp

Afsana Bukhar by Saeed Ashar: A Heartfelt Reflection

Afsana-Bukhar-by-Saeed-Ashar-blog-post-image

دسمبر کی یخ بستہ ہواؤں نے سردی میں شدت پیدا کر دی تھی۔ تین چار دن سے مجھے سخت بخار تھا۔ شور شرابے اور بے آرامی سے بچنے کے لیے میں بیٹھک میں جا لیٹا۔ ویسے بھی زیادہ تر میں اپنا وقت بیٹھک ہی میں گزارتا تھا۔ دن کے تین بجے کے قریب بیٹھک کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو ان دونوں کمینوں پر میری نظر پڑی۔ اندر آجاؤ” یہ کہتا ہوا میں واپس اپنی رضائی میں جا گھسا۔ وہ دونوں میرے سامنے رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ خیر تو ہے نا بچے ایسے ککڑ کیوں بنے ہوئے ہو ۔“ سمیر نے مُس مُس کرتے ہوئے کہا۔ ” تین چار دن سے بخار ہے “ کوئی نہیں ٹھیک ہو جاؤ گے تھوڑی ہمت کرو اور پانی تو پلاؤ شاید کچھ اتاولا ہو ر ہا تھا۔ میں چادر اوڑھہ کے اندر گیا اور پانی کا جگ اور دو گلاس لے آیا۔ کیا دیکھتا ہوں میز پر دو کپیاں رکھی ہوئی ہیں۔ میں نے جلدی سے بیٹھک کے اندرونی اور بیرونی دروازوں کو کنڈیاں لگائیں۔ تم دونوں جیسے خنزیر آج تک میں نے نہیں نہیں دیکھے۔ چلو اٹھاؤ انھیں اور دفع ہو جاؤ تمہیں پتا بھی ہے یہ مولویوں کا گھر ہے ۔ یہاں اودھم نہ مچانا کسی کو پتہ چل گیا تو اٹھا کے کنویں میں پھینک دیں گے ۔ ہمارے گھر کے سامنے ہندوؤں کے زمانے کا ایک پرانا کنواں ہے ۔ میں نے اس کا حوالہ دینا مناسب سمجھا۔ کچھ نہیں ہوگا تم چپ کر کے اپنی رضائی میں گھس جاؤ اور ہاں ! یہ ایک بوتل الماری میں رکھ کے تالا لگا دو۔ ہم اگر مانگیں بھی تو بالکل نہ دینا۔ سمیر ڈھٹائی پر اتر آیا۔ میں نے خاموشی سے ایک بوتل اٹھائی ، اسے الماری میں رکھ کے تالا لگایا اور رضائی میں گھس کے ان دونوں کا تماشا دیکھنے لگا۔ وہ خوش گپیاں کرتے ہوئے ساتھ ساتھ کپی سے تھوڑ اسا گلاس بھرتے اور پھر اس میں پانی ملا کے چسکیاں لے رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی آواز بدل چکی تھی ۔ اب وہ پہلے سے زیادہ شور شرابا کر رہے تھے۔ جیسے انھیں کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ جوں ہی ان کی کپی ختم ہوئی انھوں نے با آواز بلند مجھ سے دوسری کپی کا تقاضا شروع کر دیا۔ جب اصرار بڑھا تو میں نے تنگ آکے الماری کا تالا کھولا اور دوسری کپی بھی ان کے حوالے کر دی۔ جیسے ان کی عید ہو گئی ہو۔ چند ہی منٹوں میں انھوں نے اسے بھی ختم کر دیا۔ دوسری کپی نے ان کے اندر جاتے ہی جیسے ان کے وجود میں سویا ہو ا طوفان جگا دیا ہو۔ انھیں سمجھانا بھی فضول تھا۔ وہ اڑتے ہی چلے جارہے تھے۔ سمیر کھڑا ہو کے نہ صرف ناچنے لگا بلکہ اس پر انگلش میں شاعری کی آمد بھی شروع ہوئی تھی۔ شاہد اونچی اونچی آواز میں داد دینے لگا۔ مغرب کی آذان میں ابھی کچھ وقت تھا۔ میں نے رضائی ایک طرف ہٹائی اور اٹھ کر بیٹھک کے باہر والے دروازے کی کنڈی کھول دی۔ چلو اوئے اٹھو، الو کے پٹھو ۔ باہر گلی میں جاکے اپنی ماں ۔۔۔
وہ دونوں قہقہے لگاتے اور نعرے مارتے ہوئے گلی میں نکل گئے ۔ اچانک مجھے خیال آیا اگر ان کو کسی نے دیکھ لیا تو بد نامی تو میرے گلے کا پھندا بنے گی۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ میرے دوست ہیں۔ میں نے تیزی سے چادر اوڑھی اور بیٹھک بند کر کے ان کے ساتھ ہو گیا۔ انھیں قدرے ویران گلیوں میں سے گھماتا ہوا ملکیا روڈ پر لے گیا۔ کچھ ہی دیر میں لوکاٹ کے باغات شروع ہو گئے۔ سمیر نے ہانک لگائی۔ ہمیں دلبر سائیں کی درگاہ پر لے جاؤ دلبر اپنا یار ہے ۔ ادھر ہی جارہا ہوں سور کے بچے “ مجھے اپنے غصے پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ مزار کے نام کی ایک قبر سڑک کی دائیں جانب ہے ۔ اب تو چندے کے لیے وہاں ایک لوہے کی صندوقچی ہے جسے زنجیر کے ساتھ باندھ کے رکھا ہوا ہے۔ پہلے یہاں مٹی کا ایک سراما ہوتا تھا۔ جس میں لوگ منت کے سکے ڈالتے تھے ۔ سکول زمانے میں میرے ایک دوست اجمل اور میں نے کئی بار سمو سے کھانے کے لیے اس سرامے میں سے پیسے اٹھائے تھے۔ ایک بار وہاں بندھے ہوئے چھوٹے بڑے جھنڈوں کو ٹٹولا تو ان کی گٹھانوں میں سے بھی کئی سکے ملے ۔ درگاہ تھوڑا اندر کر کے درختوں کے بیچ میں ہے۔ میں نے سیدھا راستہ چھوڑا اور سائیڈ کے درختوں سے ادھر بڑھا۔ وہاں تو کوئی اور ہی معاملہ چل رہا تھا محفل سماع ہورہی تھی۔ اس طرف مزید آگے بڑھنے کے بجائے مجھے وہیں رکھنا مناسب معلوم ہوا۔ تم دونوں ابھی ادھر ہی بیٹھو۔ میں دلبر سائیں کا پتہ کرتا ہوں ۔ میں انھیں ایک ڈھلوان کی آڑ میں بٹھا کے درگاہ کی طرف بڑھ گیا۔ ابھی میں نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ وہاں مجھے ایک لڑ کا مل گیا۔ شاید وہ درختوں میں پیشاب کی حاجت سے آیا تھا۔ بات سنو ! ذرا اندر جاؤ اور دلبر سائیں سے کہو ۔ ادھر اس کا دوست سمیر آیا ہوا ہے ۔ ایک ضروری کام ہے۔ ذرا جلدی آئے ۔“ میں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکے کے جانے کے بعد میں ان دونوں کے پاس واپس آگیا۔ وہ سماع کی آواز پر حال کھیلنے کی کوشش میں مصروف تھے بمشکل میں نے انھیں بٹھایا۔ جب میں خود بیٹھا تو محسوس ہوا کہ زمین تھوڑی تھوڑی نم آلود ہے ۔ چند منٹوں بعد دلبر سائیں بھی آگیا۔ سرکار ! آپ لوگ اس حالت میں ادھر کیسے آگئے ہیں؟ درگاہ میں تو قوالی ہو رہی ہے۔“ اس نے چرس کے نشے میں جھومتے ہوئے کہا۔ دلبر سائیں ! چھوڑ ان باتوں کو کوئی کھٹا سا شربت لا کے ان کو پلاؤ تا کہ ان کا نشہ ٹوٹے ۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ آپ لوگ ادھر ہی بیٹھیں ۔ میں کوئی بندو بست کرتا ہوں ۔“ اس نے مجھے تسلی دی۔ اس دوران مغرب ہو چکی تھی اور ہر طرف اندھیرا پھیل رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دلبر سائیں دوبارہ آگیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سی تھرماس اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں تین چائے کی خالی پیالیاں لٹک رہی تھیں۔ دلبر سائیں ! یہ کیا کر رہے ہو؟ وہ پہلے سے دو کپیاں چڑھائے ہوئے ہیں اوپر سے ان کو میٹھا پلا رہے ہو۔ لگتا ہے آج تمہارا دماغ بھی کہیں گیا ہوا ہے ۔“ میں نے کوفت سے کہا۔ سرکار! پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔ شدید سردی ہے۔ تھوڑی چائے پی لیں ۔ جسم گرم ہو جائے گا۔ میں کھٹے کا بھی انتظام کرتا ہوں ۔ اس نے تحمل سے کہا۔ ہمیں چائے پلا کے وہ پھر واپس چلا گیا۔ چائے پینے سے واقعی مجھے کچھ توانائی ملی ۔ وہ دونوں ایک بار پھر اٹھ کر دھمال ڈالنے لگے۔ کیا تم دونوں عزت سے بیٹھ جاؤ گے یا میں تمہیں ٹھڈوں کے آگے رکھوں ۔ بڑے ہی بے غیرت ہو ۔ ” میری ڈانٹ کا الٹا اثر ہوا۔ میں بے غیرت تو بے غیرت، ہم سب ہیں بے غیرت “ سمیر کو گانے کے لیے ایک نغمہ مل گیا۔ شاہد بے شرموں کی طرح قہقہے لگا رہا تھا۔ درگاہ پر ہونے والی قوالی کے شور میں ان دونوں کی آواز شاید ہی کسی نے سنی ہو ۔ مجھے اٹھ کے ایک بار پھر انھیں بٹھانا پڑا۔ اس بار جب دلبر سائیں آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا مٹی کا
سراما تھا جو کھٹائی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی وہ سراما میرے منہ کے ساتھ لگانے کی کوشش کی۔ دلبر سائیں! میں ٹھیک ہوں ۔ یہ دو خبیث نشے میں ہیں ۔ ان کو پلاؤ “ میں نے احتجاج کیا۔ سر کارا تھوڑا آپ بھی پی لیتے تو بہتر تھا۔ اسے میرے بارے میں بھی غلط فہی تھی۔ بڑی مشکل سے میں اسے یقین دلانے میں کامیاب ہوا۔ ورنہ اسے لگ رہا تھا ہم تینوں ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔ اس نے آدھا آدھا سراما دونوں کو پلایا اور اجازت لے کر واپس چلا گیا۔ پھر کیا تھا، ان دونوں کو الٹیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ وہ دونوں نڈھال ہو کے مردار کتے کی طرح زمین پر گر گئے۔ میں نے تھوڑا توقف کیا۔ پھر وہ میرا سہارا لیتے ہوئے خستگی کی بد ترین حالت میں چلتے ہوئے درختوں سے باہر آگئے ۔ روڈ تاریک اور مزید ویران ہو چکا تھا۔ جوں ہی ہم شہر کی مد میں داخل ہوئے میں نے سامنے سے آتا ہوا سمیر کا ایک دوست دیکھ لیا۔ چھوٹتے ہی اس نے پوچھا۔ ان دونوں نے یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے ۔ کچھ نہیں ۔ انھیں کیا ہوتا ہے۔ تجھے تو پتہ ہی ہے ان کے کرتوتوں کا۔ ایسا کر سمیر کو اپنے ساتھ لے جا۔ دو بندوں کو سنبھالنا میرے لیے مشکل ہو رہا ہے ۔ اس نے سمیر کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔ میں شاہد کو لے کر ایک سنسان اور نیم تاریک گلی میں گھس گیا۔ ایسی کچھ مزید گلیوں میں سے گزرتے ہوئے میں شاہد کے گھر تک جا پہنچا۔ اللہ دروازے سے اندر کر کے میں نے سکھ کا سانس لیا۔ جونہی میں اپنے گھر پہنچا۔ مجھے اپنے اندر ایک خوشگوار تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ غور کیا تو پتہ چلا سردی میں باہر گھومنے کی وجہ سے میرا بخار اتر چکا تھا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *