Afsana Nafees Admi by Saeed Ashar

Afsana-nafees-admi-by-Saeed-Ashar-featured-image.png
Afsana-nafees-admi-by-Saeed-Ashar-blog-post-image.png

 ایک دم سے اس نے میرا بازو پکڑا کے کہا۔ ”سر ! ایک تصویر ہو جائے ۔“ ضرور ضرور میں اس وقت اپنی پلیٹ میں ام علی ڈال رہا تھا میں نے پلیٹ وہیں رکھ دی اور اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اس نے سامنے والی میز پر بیٹھے ایک شخص کو مخاطب کیا۔ جمال ! سر کے ساتھ میری ایک تصویر تو لینا ” جمال نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کانٹے سے اٹکا چاکلیٹ کیک کا ٹکڑا منہ میں رکھا اور کھڑے ہو کر اپنے موبائل سے ہم دونوں کی تصویر لے لی۔ میں نے ان دونوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنی پلیٹ اٹھا کر ایک کولیگ کے پاس جا بیٹھا میٹھا کھاتے ہوئے میں مسلسل اسی سوچ میں غرقاں رہا کہ اس شخص سے پہلے کہاں ملاقات ہوئی تھی ؟ اس کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ ہماری کمپنی کے ایک مینیجر کی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں یہ ایک ولیمہ پارٹی تھی۔ وہاں موجود اور بھی بہت سارے مانوس اور غیر مانوس چہرے تھے لیکن کسی نے اس طرح فرمائشی انداز میں تصویر کے لیے نہیں کہا۔ بڑی دماغ کھپائی کی لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس شخص سے کہاں میری ملاقات ہو چکی ہے۔ اگلی صبح ابھی میں آفس کے راستے میں ہی تھا کہ میرے چھوٹے بھائی ماجد نے مجھے وٹس ایپ پر گزشتہ رات والی میری تصویر بھیجی۔ میں حیران رہوگیا کہ یہ تصویر اس کے پاس کیسے پہنچ

گئی۔ شاید اس بندے کے ساتھ شاہد کی کسی محفل میں ملاقات ہوئی ہے لیکن اب ٹھیک سے یاد نہیں آرہا۔ کے میں نے جواباً اپنے شک کا اظہار کیا۔ ان کا نام سعد ہے اور یہ ہمارے پاس اومیگا میں ہوتے ہیں فیصل آباد سے ان کا تعلق ہے۔ بہت پڑھے لکھے اور نفیس آدمی ہیں ۔ شاہد میرا بہنوئی ہے اور ماجد اس کے پاس اس کی اپنی اومیگا میں پر چیز کی پوسٹ پر کام کرتا ہے ۔ ماجد جب کسی بندے کی تعریف کر رہا ہو تو اکثر میں گڑ بڑا جاتا ہوں کہ یہ اس کی تعریف کر رہا ہے یا بین السطور کسی شرارت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ نفیس آدمی“  سے مجھے اپنے دور پار کے ایک رشتہ دار یوسف چاچا یاد آگئے۔ قصور شہر میں تھانے دار تھے۔ انہیں جب بھی گاؤں جانا ہوتا تو ہری پور سے گزرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے ہمارے گھر ضرور تشریف لاتے ۔ بہت خوش طبع، خوش وضع اور خوش لباس تھے۔ ایک ایک سے اس کی عمر اور رتبے کے مطابق اس کا حال احوال پوچھتے۔ تکلفات کے قائل تھے کہیں خالی ہاتھ جانا ان کو گوارہ نہیں تھا۔ جہاں بھی جاتے موسمی پھل کی باسکٹ یا مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لیے ہوئے ہوتے۔ میں نے ایک بار ان کے ساتھ ایبٹ آباد کا سفر بھی کیا تھا۔ بڑے کیئرنگ تھے ۔ ہر جگہ ویگن اور سوزوکی کا کرایہ خود دیا۔ دن کے وقت ایک بہترین ہوٹل میں کھانا کھلایا۔ بہت سلجھے ہوئے اور نفیس طبع انسان تھے ۔ چند سال پہلے میرے بڑے سالے احمد کی شادی تھی۔ میں اپنی فیملی سمیت ان کے پاس کراچی پہنچ گیا۔ بارات سے دو دن پہلے یوسف چاچا بھی آموجود ہوئے ۔ وہاں بھی ان کا وہی 

وتیرا تھا۔ ہر ایک سے جیسے ان کی پرانی دوستی ہو کبھی ایک کے پاس بیٹھے ہوتے اور کبھی دوسرے کے پاس۔ پتہ ہی نہیں چلا پورا ایک دن ان کے ساتھ خوش گپیوں میں گزر گیا۔ اس دوران ہم دونوں چپکے سے شادی والے گھر سے نکل کے ایک ہوٹل میں دودھ پتی بھی پی کر آئے۔ کراچی

والوں کا یہ بہت اچھا طریقہ کار ہے کہ جہاں شادی یا مرگ کی صورت ہو وہ اپنے گھر کے سامنے کی گلی میں دونوں اطراف قناتیں لگا کر کرسیاں بچھا لیتے ہیں ۔ ارد گرد سے آئے مہمان مزے سے ان کرسیوں پر بیٹھ کے اپنی اپنی محفل جما لیتے ہیں کسی کی بھی شادی میں موڈ بننے کی صورت میں ڈھول کی تھاپ پر اپنا علاقائی رقص کرنے کا شوق پورا کر لیتے ہیں ۔ فلیٹ تنگ ہونے کی صورت میں یہ سب کچھ اندرون خانہ کہاں ممکن ہے۔ بارات سے ایک دن پہلے بعد از عصر میں فرسٹ فلور پر یوسف چاچا کے پاس بیٹھا تھا۔ میرے سسر صاحب بھی وہیں موجود تھے ۔ اچانک پہنچے گلی سے شور شرابہ سنائی دیا۔ یوسف چاچا اٹھے اور برق رفتاری کے ساتھ سیڑھیاں اتر کے نیچے گلی میں چلے گئے۔ میں اور میر سسر حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے مشکل سے پانچ یا سات منٹ گزرے ہوں گے یوسف چاچا اسی رفتار سے واپس کمرے میں داخل ہوئے ۔ بے اختیاری میں ان کے منہ سے نکل رہا تھا۔ ان کی ماں کی۔۔۔ ان کی بہن کی ۔۔۔ چا چا ! خیر تو ہے نا ؟” میں نے متعجب ہو کے پوچھا۔ اوئے وہاں تو کھسرے ناچ رہے تھے ۔ تو آپ کیا سمجھ کے نیچے گئے تھے؟“ مجھے ایک اور دھچکا لگا۔ میں سمجھا تھا زنانیاں ناچ رہی ہوں گی ۔ پچھلے سال یوسف چاچا بھی فوت ہو گئے۔ اللہ بخشے بہت نفیس آدمی تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *