افسانہ آخری کال از سعید اشعر اردو ادب کی ایک بہترین تخلیق ہے
کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ اپنی پچھلی زندگی کے واقعات مصالحہ لگا لگا کے دوسروں کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کوئی بہت ہی قابل فخر کارنامہ ہو۔ میرا خیال ہے یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس کا کوئی مناسب علاج ہونا چاہیے۔ اب تو یہ ہمارا مجموعی مزاج بنتا جا رہا ہے۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں یہاں جو واقعہ پیش کرنے لگا ہوں اسے میں ہر طرح کی آلودگی سے پاک رکھنے کی کوشش کروں گا۔
یہ تقریباً تیس سال پرانی بات ہے۔ صبح نو اور دس بجے کے بیچ کا کوئی وقت تھا۔ میں آفس میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس وقت موبائل فون نہیں ہوتا تھا۔ میز پر رکھے فون کی گھنٹی بجی۔
“ہیلو”
کوئی آواز بدل کے بول رہا تھا۔
“ہیلو! کون؟”
“تم مجھے نہیں جانتے۔”
“میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟”
“میں نے تمہیں صرف اس لیے فون کیا ہے کہ تمہیں بتا سکوں کہ ایک پارٹی نے ہمیں تمہاری سپاری دی ہے۔”
اس نے مفروروں کے کسی گینگ کا نام لے کر اس سے اپنی وابستگی کا بھی بتانا ضروری سمجھا۔
“اگر ایسا ہے تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں۔”
اس سے زیادہ اس سے بات نہیں ہوئی۔
اگرچہ اس دن میرے آفس میں کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ میرے ساتھ کچھ مختلف ہو چکا ہے۔ لیکن میں اندر ہی اندر سے کافی پریشان ہو چکا تھا۔ فکرمندی نے مکمل طور پر مجھے اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جس کی وجہ سے میرا کوئی نامعلوم دشمن اس حد تک جا سکتا ہے۔ مستقبل میں ہونے والے واقعات میں بھی میرا کوئی خاص سیاسی یا سوشل کردار نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ کسی بھی زمانے میں میرا کردار مثالی نہیں رہا۔ دادا گیری، قبضہ گروپ، مذہبی انتہاپسندی، مالی غبن، لین دین میں ہیرا پھیری، جوا، منشیات، لونڈے بازی، خاندانی دشمنی وغیرہ جیسا کوئی معاملہ بھی دور دور تک اپنے ساتھ نہیں تھا۔ مختلف لوگوں سے چھوٹے موٹے اختلافات تو ویسے بھی زندگی کا حصہ ہیں۔ عاشق مزاج ہونے کی وجہ سے چھوٹا موٹا آنکھ مٹکا کرنے سے بھی کبھی خود کو نہیں روک پایا۔ لیکن یہ سب کچھ ایسا نہیں تھا کہ کوئی میرے لیے پیشہ ور قاتلوں کی خدمات حاصل کر لیتا۔
اس دن میں بڑا چوکنا ہو کے گھر لوٹا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ کسی ویران سڑک یا گلی سے نہ گزروں۔ پاس سے گزرنے والے ہر شخص کا بغور جائزہ لیا۔مجھے تو کچھ بھی مشکوک نظر نہیں آیا۔ شام کے وقت کی آوارہ گردی اور دوستوں سے میل ملاپ بھی موقوف کر دیا۔
اگلی صبح میں اپنی روٹین کے مطابق آفس گیا۔ صبح کے وقت سکول اور کالج جانے والوں کی اتنی رش تھی کہ کسی بھی فرد کا جائزہ لینے کے قابل ہی تھا۔ سارا دن اس کرائے کے قاتل کے بارے میں سوچتے ہوئے گزر گئی۔ اس کی بدلی ہوئی آواز سے اندازہ بھی نہیں لگا پا رہا تھا کہ کون ہے۔ جب بھی ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی تو میرا دل زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیتا۔ کئی بار یہ خیال بھی آیا کہ اس بارے میں کسی قابلِ اعتبار دوست سے مشورہ کر لوں۔ لیکن میں خاموش ہی رہا۔
اسی ہیجان میں دس دن گزر گئے۔ رسی کا کوئی سرا میرے ہاتھ نہ آیا۔ دن کے تین بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس وقت بھی میں آفس میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ ٹیلیفون کی گھنٹی نے مجھے ایک بار پھر ہلا کے رکھ دیا۔
“ہیلو ۔۔۔ مجھے پہچانا؟”
وہی مصنوعی آواز والا دوسری طرف تھا۔
“ہاں پہچان لیا۔ کچھ دن پہلے بات ہوئی تھی۔”
“ہم نے دس دن تمہیں مسلسل نظر میں رکھا۔ بڑے چوکنے ہو کے اپنے آس پاس کا جائزہ لے رہے تھے۔
ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ پارٹی نے کیا دیکھ کے تمہاری سپاری دی ہے۔ تم تو ویسے ہی ایک مرے ہوئے چوہے ہو۔ تمہیں مار کے کسی کو کیا حاصل ہو سکتا ہے۔”
“اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔”
“ہمارا بالکل جی نہیں چاہتا کہ ہم تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔ اس لیے ہماری ایک تجویز ہے۔ ہمیں واپسی کا کرایہ دے دو۔ ہم واپس چلے جاتے ہیں۔ میں پھر کسی وقت فون کروں گا۔ تب تک سوچ لو۔”
میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے لائن منقطع کر دی۔
بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
“اللہ تیرا لکھ لکھ شکر اے”
تیسرے روز صبح صبح اس نے کال کی۔
“ہیلو۔ ہاں بھئی تم نے کیا سوچا ہے۔”
“جس نے آپ کو سپاری دی ہے اس کو کیا جواب دیں گے۔”
“اسے ایسا جواب دیں گے کہ وہ ساری زندگی ایسا دوبارہ نہیں سوچے گا۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔”
“آپ لوگوں کا کتنا خرچ ہے؟”
اس نے مجھے ایک معمولی سی رقم بتائی۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ کوئی بڑی رقم اینٹھنے کے لیے وہ ڈرامہ بازی کر رہا ہے۔ اتنی رقم میں تو تین آدمی زیادہ سے زیادہ ایک عام بس میں بیٹھ کے ہری پور سے پشاور تک جا سکتے تھے۔ اس نے شہر سے باہر ایک ویران سے پٹرول پمپ پر اسی وقت پیسے پہنچانے کا بھی کہا۔
“اب تم ہماری طرف سے بے فکر ہو جاو۔”
کال ختم ہوتے ہی میں نے بغیر کسی تاخیر کے اپنے ایک ملازم کو مطلوبہ پیسے دے کر وہاں بھیج دیا۔ اسے پٹرول پمپ کے باہر کھڑے ہو کر ایک طے شدہ رنگ کا رومال اپنے ہاتھ میں پکڑنا تھا۔
دو تین ماہ گزر گئے۔ ایک دن اچانک اس کی کال آگئی۔ اس نے اپنی مصنوعی آواز ابھی تک نہیں چھوڑی تھی۔
“ہیلو۔ مجھے پہچانا۔ تم کیسے ہو؟”
“آپ کی آواز کہاں بھولنے والی ہے۔ آپ کیسے ہیں۔ اور آج کیسے یاد کیا۔ پھر تو کسی نے میری سپاری نہیں دے دی۔”
“ہا ہا ہا۔ اب اگر کسی نے آپ کی سپاری دی تو سمجھو وہ گیا۔ ویسے آبادی کی طرف آیا۔ سامنے ٹیلیفون رکھا دیکھا تو کال کرنے کا خیال آ گیا۔”
“بہت مہربانی۔ آپ ایک بہت اچھے انسان ہیں۔ کسی طرح اس دنیا سے باہر نکلیں۔ اللہ خیر کرے گا۔”
“اچھا پھر بات ہو گی۔”
میں ڈر گیا تھا کہ پھر نہ کوئی مصیبت کھڑی ہو گئی ہو لیکن بات وہیں پہ رک گئی۔
زمین اپنے محور کے گرد گھومتی رہی۔ دن اور رات ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے۔ میں بھی اپنے کام دھندے کے جھمیلوں میں گم ہو چکا تھا۔ جانے زندگی کی کشمکش میں کتنے ماہ گزر گئے۔ اچانک ایک دن پھر اس کی کال آئی۔
“ہیلو۔ کیسے ہو۔”
“ہیلو۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ سنائیں کیسے ہیں۔”
“میں بھی ٹھیک ہوں۔ جب جی اداس ہوتا ہے اور اپنی ارد گرد کی زندگی سے تنگ ہوتا ہوں پتہ نہیں کیوں جی چاہتا ہے تم سے ذرا سی بات کر لوں۔”
“آپ کا جب جی چاہے آپ بے فکر ہو کے بات کریں۔ آپ کی ہر بات میرے پاس امانت رہے گی۔”
“میں تمہارے شہر کے قریب ہی ایک جگہ ہوں۔ اگر ملنا چاہو تو جگہ کا بتاؤں۔”
“نہیں نہیں بھائی میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ کیا پتہ کب آپ لوگوں کی نیت بدل جائے۔”
“ہا ہا ہا۔ ایسا سوچو بھی نہیں۔ ہاں ہمارے لائق ایسی کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔ دیر نہیں لگائیں۔”
“او نہیں۔ مجھے ایسا کوئی کام نہیں کروانا۔ ویسے ابھی تک آپ نے بتایا نہیں کہ میری سپاری کس نے دی تھی۔”
“اچھا ہے پردہ ہے پڑا رہے۔ اچھا میں چلتا ہوں۔ اللہ حافظ”
اس بار بھی اس نے اپنی آواز بدلی ہوئی تھی۔ میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ بے شک وہ مجھ سے دوستانہ ماحول میں بات کر رہا ہے لیکن وہ احتیاط کا دامن کسی طور نہیں چھوڑ رہا تھا۔ اس دوران ایک لمحہ کے لیے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اس سے ملنے کی حامی بھر لوں۔ ٹھکانہ معلوم ہو گیا تو اسے پکڑوانا کون سا مشکل کام ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وجود میں ہر طرف خطرے کے گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ میں سمجھ گیا کہ غیب سے مجھے کوئی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایسی کسی بے وقوفی کا کام کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ لازمی اس نے اپنی حفاظت کا مکمل بندوبست کر رکھا ہوگا۔ جو شخص اپنی اصلی آواز میں بات کرتے ہوئے اتنا محتاط ہے وہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہے۔ ویسے بھی ان لوگوں کے پولیس میں سہولت کار موجود ہوتے ہیں۔ عام طور پر علاقے کا کوئی با اثر آدمی ہی ان کا میزبان بھی ہوتا ہے۔
کچھ ماہ کے بعد پھر اس کی کال آئی۔ دعا سلام کے بعد کہنے لگا۔
“پتہ نہیں کیا بات ہے میں تم سے بات کر کے ایک طرح کا سکون محسوس کرتا ہوں۔ تھوڑی سی یہ بات چیت کئی دنوں تک میرے لیے کافی ہوتی ہے۔”
“
“آپ یہ دنیا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اس میں سوائے اندھیرے اور بربادی کے کچھ نہیں۔ ہر وقت پولیس اور مخالف گروپوں کی طرف سے موت کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ آپ چاہیں تو میں آپ کی تھوڑی بہت مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کراچی چلے جائیں۔ وہاں روزگار کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔”
“بس تم دعا کرو کہ میں یہاں سے کسی طرح دور نکل جاؤں۔ میں اب بھاگ بھاگ کے تھک چکا ہوں۔ اچھا پھر بات ہو گی۔ اللہ حافظ۔”
میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ہمیشہ مختصر کال کرتا تھا۔ شاید اسے خوف تھا کہ فون کسی طرح ٹریس ہو کے اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بن جائے۔
اس بار تین دن کے بعد ہی اس کی کال آ گئی۔ اس کی آواز میں شدید درد کی آمیزش تھی۔
“اللہ خیر کرے۔ آپ کو کیا ہوا ہے۔”
“ایک مقابلے میں شدید زخمی ہو گیا ہوں۔ تمہارے علاوہ میرا کوئی بھی اپنا نہیں۔ سوچا تمہیں اطلاع کردوں۔ اگر میں بچ گیا تو پھر کال کروں گا۔ ورنہ یہ میری آخری کال ہے۔”
“زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گے ان شاء اللہ۔ آپ چاہیں تو اس وقت میرے دل پر جو بوجھ ہے وہ اتار دیں۔ میری سپاری کس نے دی تھی۔”
“وہ تمہاری آستین میں رہتا ہے۔”
پھر اس نے نام بتا دیا۔ وہ میری آستین کا سب سے خوبصورت سانپ تھا۔
اس نے آخری بار مجھے اللہ حافظ کہا اور پھر اس کے بعد کبھی اس کی کال نہیں آئی۔
For more English Literature Notes Visit Our Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit Here.