80کی دہائی کا شاید ہی کوئی ناظر ہوگا جس کو ڈرامہ سیریز”چھوٹی سی دنیا” یاد نہ ہوگا۔۔۔
وہ جانو جرمن (آفتاب عالم)، وہ انگریزی بولنے کا مقابلہ یا انگریزی بولنے کا ملاکھڑا، جانو جرمن کے سامنے مراد علی خان (محمد یوسف) کا کوٹ اور ہیٹ پہنے مسکرانا، اور مقابلے کا فیصلہ کرنے والا جھونا چاچا جج (سندھی میں بوڑھے آدمی کو پیار سے جھونا کہتے ہیں) جو اپنے مخصوص اور معصوم سے انداز میں مقابلے کے شرائط و ضوابط سب کو بتاتا ہے اور آخر میں بڑی ہی “دانشمندی” اور سوچ بچار کے بعد جانو جرمن کو فاتح قرار دیتا ہے۔۔۔ جبکہ جانو جرمن تو صرف انگریزی میں بکواس ہی کرتا ہے۔۔۔ لیکن جھونے جج چاچا اور دیگر گاؤں والوں کے پیمانے پر بالکل کھرا اترتا ہے۔۔۔
وہ جھونا چاچا جو اس منظر میں مقابلے کا “جج یا ریفری” بنا تھا۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ سندھی زبان کے مشہور اداکار “نور محمد لاشاری” تھے۔۔.جو اپنے فنی کیریئر میں مختلف مراحل پار کرکےPtv Prime Time پر پہنچے اور پورے پاکستان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔
ڈرامہ سیریل “چھوثی سی دنیا” میں انگریزی زبان کا جو ملاکھڑا دکھایا گیا۔۔۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس منظر کو وزیراعظم محمد خان جونیجو کو ان کی فرمائش پر live اسٹیج پر پرفارم کیا گیا۔۔۔ جس میں ملک کے تمام کابینہ اراکین بھی موجود تھے۔
وزیراعظم صاحب نے ذاتی طور پر آفتاب عالم، محمد یوسف اور نور محمد لاشاری کو داد دی!!
نور محمد لاشاری اپنے شروعاتی دنوں میں ایک اسکول ٹیچر تھے۔۔۔ لیکن اپنے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں جب کوئی اسٹیج ڈرامہ یا تھیٹر وغیرہ ہوتا تھا تو لاشاری صاحب وہاں ہمیشہ ایکٹنگ کیلیے مدعو کیے جاتے تھے۔۔۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سی کشش تھی اور ریڈیو کیلیے تو ان کی آواز بالکل ہی آئیڈیل ثابت ہوئی اور یوں وہ ریڈیو پاکستان کے مستقل سندھی زبان کے صداکاروں میں شامل ہوگئے۔۔۔
کوئی اگر ریڈیو پر کام کرتا ہے تو اس کی ایکٹنگ کی نہیں بلکہ آواز کی دھوم مچ جاتی ہے۔۔
لاشاری صاحب کو بھی اپنی اس مخصوص لہجے والی آواز کی دھوم کی وجہ سے Ptv کے علاقائی پروگراموں میں کام کرنے کا موقعہ مل گیا اور اس طرح انہوں نے سو سے زائد سندھی ڈراموں میں کام کرکے اپنی علاقائی پہچان تو مظبوط بنا دی تاہم صوبہ سندھ کے سوا ان جیسے بہترین اداکار کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
تو پھر آئے Ptv Prime Timeکے تین شاہکار ڈرامے، دیواریں، جنگل اور چھوٹی سی دنیا۔۔۔
اور “نور محمد لاشاری” جیسے ماہر کریکٹر ایکٹر کو پاکستان کے کونے کونے میں موجود لوگوں نے جانا بھی اور سراہا بھی۔۔
ان تین ڈراموں کے بعد لاشاری صاحب کو ان کی ایکٹنگ اور بولنے کے انداز کی وجہ سے کافی اردو ڈراموں میں دیکھا گیا، جیسہ کہ:
بدلتے موسم، چاند گرہن، دشت، خان صاحب، ماروی وغیرہ
اردو اور سندھی ڈراموں کے علاوہ لاشاری صاحب نے متعدد سندھی اور بلوچی فیچر فلموں میں بھی کام کیا اور کئی ایوارڈز حاصل کیے۔ حکومت پاکستان نے بھی ان کی شاندار فنی کارکردگی کے عیوض ان کو 1992 میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔
سندھی زبان کے عظیم افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈرامہ نویس “علی بابا” نے Ptv کیلیے ایک خاص ڈرامہ “دنگی منجھ دریا” (دریا میں کشتی) لکھا۔ وہ ڈرامہ سندھ کے مچھیروں اور ماہی گیروں کی معاشی اور سماجی حالات اور تکالیف کے بارے میں تھا۔ وہ ڈرامہ پہلے تو سندھی میں لکھا گیا اور نامور پروڈیوسر “ہارون رند” نے اس ڈرامے کو ڈائریکٹ کیا تھا۔
اس ڈرامے کو 1976 میں جرمنی کے شہر میونخ میں بین الاقوامی فلمی میلے میں دکھایا گیا، جہاں پر 96 ملکوں نے شرکت کی تھی۔ اس ڈرامے کو دنیا کا تیسرا بہترین ڈرامہ قرار دیا گیا۔
اس ڈرامے کی کاسٹ میں “نور محمد لاشاری” بھی شامل تھے۔ اس ڈرامے کو بعد میں اردو اور انگریزی زبانوں میں بھی بنایا گیا تھا۔
نور محمد لاشاری بہت پرانے ذیابیطس کے مریض تھے۔۔ اور 1997 کو 66 سال کی عمر میں انکا کراچی میں انتقال ہوا۔
کریکٹر ایکٹنگ میں لاشاری صاحب ایک الگ مقام رکھتے تھے اور ان کے حصے کے کردار کوئی اور نہیں بلکہ خود لاشاری صاحب ہی ادا کر سکتے تھے۔۔۔ اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد ان کے خلا کو کوئی دوسرا اداکار پر نہ کر سکا ۔
گلاب رائے لوہانہ / Film Walay فلم والے
