نانا جان کا بھائی

Featured-image-افسانہ-نانا-جان-کا-بھائی-از-سعید-اشعر-1.webp

A beautiful Afsana by Saeed Ashar نانا جان کا بھائی

اب میں یہ تو نہیں بتاؤں گا کہ اچانک مجھے خدا بخش کی ضرورت کیوں پیش آ گئی. ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں اس کے بارے میں چند باتیں بتاتا چلوں. پھر آپ خود ہی سب کچھ جان جائیں گے.
مجھ سے پہلے میرے والد صاحب گاؤں کے ملک تھے. اس وجہ سے اپنے گاؤں کے علاوہ دوسرے دیہاتوں کے لوگ بھی مجھے تھوڑا بہت جانتے تھے. سکول زمانے کا واقعہ ہے ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک دوسرے گاؤں اس کے گھر چلا گیا. اتفاق سے اس کا والد ملک ایوب بھی اس وقت مردانے میں موجود تھا. وہ بھی اپنے گاؤں کا ملک تھا. اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا.
“نثار یہ لڑکا کون ہے؟”
“بابا جان یہ جاوید ہے ملک خدا بخش کا نواسہ.”
نثار کا جواب سن کے بجائے اس کے کہ ملک ایوب مجھ سے کوئی بات کرتا اس نے اپنے بیٹے سے کہا.
“بیٹا آئندہ اسے اپنے گھر نہ لانا.”
اس کے علاوہ بھی اس نے بہت کچھ کہا. اگرچہ مجھے بڑی سبکی محسوس ہوئی لیکن میں خاموش رہا.
بات یہیں تک محدود نہیں رہی اس کے بعد بھی خدا بخش کی وجہ سے کئی جگہوں پر مجھے رسوا ہونا پڑا. اتفاق دیکھیے خدا بخش سے میری کبھی بھی باقاعدہ ملاقات نہیں ہو پائی.
والد صاحب کی وفات کے بعد اب میں گاؤں کا ملک ہوں. آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ایسی پوزیشن میں ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے. بہت سارے کام دل نہ چاہتے ہوئے بھی کرنے پڑتے ہیں. ایسی ہی ایک مجبوری درپیش ہونے پر مجھے اچانک خدا بخش یاد آ گیا. اس کا گھر دوسرے ڈسٹرکٹ کے ایک پہاڑی گاؤں میں تھا. اب مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے کہ مردہ.
یہ پچھلے مہینے کی بات ہے. میں اپنی واحد خالہ کے گھر پہنچ گیا. ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد میں اپنے مدعا پر آ گیا.
“خالہ آپ ڈانٹ نہ پلائیں تو ایک بات کروں.”
اس نے اپنے سارے وجود کو جیسے کان بنا لیا ہو.
“ہاں ہاں. میں کیوں کچھ کہوں گی. تم کوئی بچے تو ہو نہیں. اوپر سے گاؤں کے ملک بھی ہو. سوچ بچار کے بعد ہی کوئی بات کر رہے ہو گے.”
خالہ کے جواب سے میری ہمت بندھی.
“در اصل مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں ایک پروفیشنل چور کی ضرورت پڑ گئی ہے. ایسا چور جو اپنے پیچھے چوری کا کوئی سراغ نہ چھوڑتا ہو.
آپ کا ایک چچا بھی تو چور تھا نا.”
وہ کچھ دیر حیرت سے میرا منہ تکتی رہی.
“تو اب تم اپنے کسی کام کے لیے چور کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہو؟”
“نہیں. آپ کے چچا کی خدمات لینی ہیں. کوئی رابطہ شابطہ کریں؟ اگر زندہ ہے تو … “
“زندہ ہے. لیکن اب اس میں دم نہیں. صرف گائیڈ کر سکے گا.”
“چلیں ٹھیک ہے. وہ گائیڈ کرتا رہے. باقی کام میرے اپنے لوگ کر لیں گے. آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات بتاؤں.”
“کیا بات ہے ملک جاوید. کھل کے بولو.”
خالہ جب سنجیدہ ہوتی ہے تو مجھے ملک جاوید کے نام سے مخاطب کرتی ہے.
“پرانی بات ہے. ایک بار میں ایک دوست کے ساتھ اس کے گھر گیا تھا. اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا یہ کون ہے. اس نے اپنے والد کو بتایا کہ یہ خدا بخش کا نواسہ ہے. اس نے فوراً اپنے بیٹے سے کہا. اللہ دا واسطہ اے، ایسی چیزوں کو اپنے گھر کبھی نہ لانا. ان کا ایک رشتے دار اتنی صفائی سے چوریاں کرتا تھا پولیس بھی نہیں ڈھونڈ سکتی تھی. یہ بھی ویسا ہی ہوگا. اس نے یہ سب میرے منہ پر کہا.”
“ملک مصطفٰی تو اس کا نام نہیں؟”
“نہیں. ملک مصطفٰی کے بیٹے ملک ایوب کا گھر تھا وہ.”
“ایک دن ملک مصطفٰی کے گھر چچا پہنچ گیا. اس کا خیال تھا کہ گاؤں کا ملک ہے تگڑا ہاتھ مار لوں گا. سارا گھر چھان مارا. صرف پانچ سو روپے ملے. یہ 1980 کی بات ہے. اگلے دن اس نے خود جا کے ملک مصطفٰی کو بتایا کہ وہ اس کے گھر چوری کرنے آیا تو صرف پانچ سو روپے ملے. ساتھ ملک کو طعنہ بھی دیا. اوپر سے ملک بنتے پھرتے ہو اور اندر سے کتنے کنگلے ہو. ملک نے رجھ کے اس کی درگت بنائی. جب وہ تھک گیا تو اسے پولیس کے حوالے کر دیا. جاتے جاتے چچا نے ملک سے کہا. اب کی بار میں نے تیری گھر والی کی شلوار چوری نہ کی تو میرا نام بدل دینا.”
خالہ یہ سب کچھ اتنے تیقن سے بتا رہیں تھیں کہ سننے والا کچھ دیر کے لیے اگر یہ سوچنے لگے کہ ضرور یہ خاتون بھی اس کی ساتھی رہی ہوگی تو غلط نہ ہوگا. خالہ نے چند سیکنڈوں کے توقف کے بعد کہنا شروع کیا.
“بلا کا ذہین تھا. کاش کوئی ڈھنگ کا کام کرتا. چوریاں کر کے نام کمایا. جہاں بھی ہمارے خاندان کا نام لیا جاتا. ہمارا سر شرم سے جھک جاتا. ایک بار ہمارے شہتیر چوری کر کے لے گیا. زندگی بھر میری اماں اسے بد دعائیں دیتی رہیں. کیا فائدہ. شہتیر تو پھر نہ ملے نا.”
“بے شک اس کے سارے واقعات بہت دل چسپ ہیں. کسی کو پتہ چل جائے کہ ہم خدا بخش کے دور پار کے بھی رشتے دار ہیں. تو وہ ہمیں اپنے گھر آنے سے روک دیتا تھا. میرے ساتھ تین بار ایسا ہو چکا ہے. پھر میں کسی نئی جگہ بتاتا ہی نہیں تھا کہ میں کس خاندان سے ہوں۔ خدا بخش کے ذکر پر میں اس سے لا علمی کا اظہار کر دیتا تھا.”
میری اس بات پر خالہ بے ساختہ ہنسنے لگی تو اس پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا. جب اسے قدرے سکون ملا تو کہنے لگی.
“جب میں چھوٹی تھی. یہ صبح کی نماز پڑھ کے آ رہا تھا. ہم مدرسے جا رہے تھے. ہم سب آگے آگے تھے۔ سیدوں کا ایک لڑکا پیچھے رہ گیا تھا. چچا نے ایک دم مڑ کے اس کے کندھے پہ ڈانگ مار دی. اس سید زادے نے چیخ کے کہا. اللہ کرے تیرا جنازہ بھی رسوا ہو بشکنڑ کے بچے، مجھے بے گناہ مارا ہے. کہتے ہیں. اس کے بعد بہت بیمار ہو گیا تھا. پھر شاید اس نے کوئی چوری بھی نہیں کی۔ ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا.”
“لیکن اس نے ایسا کیوں کیا. کیا وہ پاگل تھا.”
“اصل میں بچوں میں سے کسی نے پیچھے سے نعرہ لگایا تھا. بشکنڑ چور. بعد میں اس نے اس سید زادے کی ماں سے معافی بھی مانگی تھی. اسے لگتا تھا کہ وہ اس سید زادے کی بد دعا سے بیمار ہوا ہے.”
مجھے اچانک یاد آیا کہ ہم کہیں اور پہنچ گئے ہیں. میں دوبارہ خالہ کو ملک مصطفٰی کے واقعہ کی طرف لایا.
“خالہ پھر کیا ہوا؟ جب خدا بخش نے ملک کو دھمکی دی تو.”
“ہاں. رات کے وقت تھانے دار نے اسے اپنی لاتیں دبانے کے لیے کہا. تھوڑی دیر کے بعد تھانے دار خراٹے لینے لگا. اگرچہ بہت فاصلہ تھا. لیکن یہ گولی کی طرح ملک کے گھر پہنچا. اس کی بیوی کی شلوار اڑائی اور واپس تھانے پہنچ گیا. تب تک تھانیدار خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا. اگلی صبح ملک پھر تھانے پہنچ گیا. اور تھانیداد کے سامنے رولا ڈالنا شروع کر دیا کہ یہ کنجر کا بچہ میری بیگم کی شلوار لے آیا ہے. یہ سن کے تھانیدار نے پہلے تو اپنی ہنسی کو روکا. پھر حیرت سے پوچھا کہ یہ کب کا واقعہ ہے. ملک نے جب بتایا کہ آج رات کو یہ انہونی ہوئی ہے تو تھانیدار بھونچکا کے رہ گیا. اس نے ملک کو سمجھانے کی کوشش کی. یہ ممکن ہی نہیں. یہ کنجر تو کہیں گیا ہی نہیں بلکہ رات کے وقت میرے پاؤں دبا رہا تھا. لیکن ملک پُر یقین تھا کہ یہ حرکت اس نے ہی کی ہے. آخر کار تھانیدار نے زچ ہو کے چچا سے پوچھا دیکھو خدا بخش مجھے سچ سچ بتا دو میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گا. جب اسے یقین ہو گیا تو اس نے قبول کرتے ہوئے کہا. جب تم سو گئے تھے تب میں نے اس کی بیگم کی شلوار چوری کی اور واپس تھانے آ گیا. ملک ہونقوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہا تھا. اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا. اب میری بیگم کے کپڑے تو واپس کر دو. چچا نے اسے ایک کھیت کا پتہ بتاتے ہوئے وہاں موجود شیشم کے درخت کے نیچے ایک گڑھے کے اندر کپڑوں کی موجودگی کا اعتراف کیا. ملک فوراً نشان دہی کی گئی جگہ پر پہنچا. جب اس نے گڑھے میں ہاتھ ڈالے تو وہاں مطلوبہ کپڑے تو نہیں تھے. البتہ اس کے ہاتھ انسانی فضلے سے بھر گئے.”
اب خالہ کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی. وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا. اس پر دوبارہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا. اس بار اسے سکون ملنے میں کافی وقت لگا. پانی کے دو گھونٹ پی کے اس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا.
“جس زمانے میں وہ چوریاں کرتا تھا. علاقے کے بڑے بڑے خان، زمیندار، ملک اور معتبر خود اس کے گھر حصہ پہنچاتے تھے. تاکہ وہ ان کے گھر چوری کے لیے نہ آئے. وہ بھی پوری چیز تھا. چوری بھی کرتا اور حصہ بھی لے لیتا تھا.”
“ہاں نا خالہ. کتنی بے عزتی کی بات ہے کہ چور کسی کی زنانی کی شلوار اٹھا کے لے جائے.”
تھوڑی دیر کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی.
……..
اگلے دن میں خدا بخش کے گاؤں میں پوچھتا پچھاتا اس کے دروازے پر پہنچ گیا. مغرب کا وقت ہو چکا تھا. اس کی کمر جھکی ہوئی تھی. وہ سوکھ کے تیلا بن چکا تھا. مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے میں کوئی پچھاواں ہوں. اس کا مطلب ہے کہ لوگ اس کے بارے میں ٹھیک ہی کہہ رہے تھے. کہ وہ بہت کمزور ہو چکا ہے. نظر نہ ہونے کے برابر ہے. آواز سے دوسروں کو پہچانتا ہے. اونچا سنتا ہے. چلنے پھرنے سے بھی کسی حد تک معذور ہے. کبھی کبھار بڑی مشکل سے جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد جاتا ہے. سلام دعا کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا.
“اچھا اچھا. خیر سے آنا ہوا نا؟”
اس نے خوش طبعی سے پوچھا.
“جی خیریت ہی ہے. مجھے آپ سے ایک کام ہے.”
کچھ کہنے کے بجائے وہ مجھے گھر کے اندر ایک کمرے میں لے گیا. بڑا سا کمرہ تھا. رنگین پایوں والی تین چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں. جن پر صاف ستھری چادریں تھیں. سرہانے اور تکیے سلیقے سے رکھے ہوئے تھے. دروازے کے دونوں طرف برآمدے میں کھلنے والی کھڑکیاں تھیں. جو بند تھیں اور ان کے آگے پردے لٹک رہے تھے. کمرے کی ایک سائیڈ پر لکڑی کے بنڈوں پر اوپر نیچے لوہے کے صندوق رکھے ہوئے تھے. ان کے اوپر مڑھنی تھی. جس پر بہت سارے بستر ایک موٹی سی چادر کے نیچے موجود تھے. کم از مجھے ایسا ہی لگا. دروازے کے سامنے والی دیوار پر مناسب اونچائی پر کارنس تھی جس پر سٹیل کے برتن چم چم کر رہے تھے. وہ مجھے ایک چارپائی پر بٹھا کے دروازے سے باہر نکل گیا. کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں ایک ٹرے تھی. آگے بڑھ کے اگر میں اسے سنبھال نہ لیتا تو شاید وہ اسے گرا دیتا. چائے کے ساتھ ابلے ہوئے انڈے اور بیکری کے تولویں بسکٹ تھے. میں نے کمرے میں موجود واحد میز پر وہ ٹرے رکھی اور میز اٹھا کے خدا بخش کے سامنے رکھ دی. خود بھی اس کے پاس بیٹھ کے پیالیوں میں چائے ڈالنے لگا. چائے کی پہلی چسکی لیتے ہوئے اس نے کہا.
“میں نے مناسب سمجھا کہ باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ چائے بھی اگر ہو جائے تو بہتر رہے گا. کھانا کچھ دیر کے بعد کھائیں گے.”
“آپ کسی قسم کا تکلف نہ کریں.”
“تکلف کیسا. آپ کا اپنا گھر ہے.”
“اصل میں مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے. بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مجھے ایک سلسلے میں آپ کی مدد چاہیے.”
میں نے ایک بار پھر اپنا مدعا بیان کیا.
“ہاں ہاں آپ حکم کریں. میرے بس میں اگر کچھ ہے تو مجھے خوشی ہوگی. لیکن شاید میں آپ کے اب کسی کام نہ آ سکوں گا. دماغ ہے اور نہ جان. دکھائی بھی کچھ نہیں دیتا. اونچا سننے لگا ہوں. یوں سمجھیں وقت پورا نہیں ہو پا رہا.”
میں سمجھ گیا کہ وہ مہذب طریقے سے اپنی معذوری کا اظہار کر رہا ہے. لیکن میں اتنے دور اس کا انکار سننے نہیں آیا تھا. میں اس کے مزید قریب ہو گیا.
“مجھے صرف آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے. در اصل بات یہ ہے کہ … “
……….
تین دن کے بعد رات کے دس بجے کے آس پاس میں اور خدا بخش اس کے گھر کے دروازے سے باہر نکلے. اس کے گلے میں ایک چھوٹا سا بیگ بھی تھا. میں مغرب سے ذرا پہلے طے شدہ منصوبے کے مطابق اس کے گھر پہنچ گیا تھا. راستہ بالکل سنسان تھا. گاؤں سے باہر نکلتے ہی مجھے اس وقت ایک جھٹکا لگا جب میں نے دیکھا کہ خدا بخش کی کمر سیدھی ہو چکی ہے. اس کی رفتار بھی تیز ہو چکی تھی. ہلکی ہلکی چاندنی میں اسے سب کچھ واضع دکھائی دے رہا تھا. پھر وہ راستہ چھوڑ کے ایک جنگل میں داخل ہو گیا. بظاہر وہاں کوئی راستہ نہیں تھا.
میں نے قدرے دھیمی آواز میں پوچھا.
“جنگل میں راستہ بھولنے کا خطرہ تو نہیں نا؟”
“آہستہ بولیں. آپ بے فکر ہو کے میرے پیچھے پیچھے چلتے رہیں.”
اس نے سرگوشی کی. اس کی قوتِ سماعت کے بارے میں جان کے مجھے ایک اور جھٹکا لگا. اب اس کی سپیڈ مزید تیز ہو چکی تھی. جنگل سے نکل کے پھر وہ ایک خشک برساتی نالے میں سے گزرنے لگا. ہلکی پھلکی چاندنی میں ہمیں چلنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آ رہی تھی. کبھی جنگل، کبھی برساتی نالوں اور کبھی کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے. چلتے چلتے ہمیں ضرور دو گھنٹوں سے اوپر ہو چکے تھے. ایک جگہ رک کے اس نے اپنے بیگ میں سے چمڑے کی دو تھیلیاں نکال کے مجھے دیں اور سرگوشی کی.
“انھیں اپنے بوٹوں پر چڑھا لیں.”
اس نے بھی ویسی ہی تھیلیاں اپنی چپلوں پر چڑھا لیں. فرلانگ ڈیڑھ مزید چلنے کے بعد ہم ایک حویلی کے باہر کھڑے تھے.
“غور سے دیکھیں یہی حویلی ہے نا؟”
میں نے بڑے غور سے حویلی کی طرف دیکھا. اور اس کے کان میں بہت ہی آہستہ سے کہا.
“یہی ہے.”
“ٹھیک ہے. کسی مناسب جگہ بیٹھ کے میرا انتظار کریں. میں ابھی آیا.”
یہ کہہ کے وہ حویلی کی باؤنڈری کی طرف بڑھ گیا. پھر جیسے کوئی جھماکا ہوا ہو. میری آنکھیں اب تک یقین کرنے پر آمادہ نہیں. خدا بخش نے کسی بندر کی طرح جست بھری اور آٹھ فٹ سے بھی اونچی دیوار پر جا بیٹھا. میری آنکھ جھپکنے سے پہلے پھر وہ غائب بھی ہو گیا. میں زمین سے چپک کے لیٹ گیا. میری نظر مسلسل دیوار کی جانب تھی. پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے. میں نے اس کی سرگوشی سنی.
“چلیں. کام ہو گیا ہے.”
میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا. وہ میرے پاس بیٹھا ہوا تھا.
…………….

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *