فارسٹ گمپ اور اس کا فلسفہ Film Review

فارسٹ گمپ اور اس کا فلسفہ

فارسٹ گمپ اور اس کا فلسفہ
ہائیڈیگر نے انسانی وجود کو Being-toward-death کے تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ فارسٹ گمپ کی سادہ زندگی اسی وجودی تنہائی کو تھوڑے مختلف اسلوب میں بے نقاب کرتی ہے۔ یہ فلم اس بات کی دلیل ہے کہ سادہ لوحی کبھی کبھی شعور کی معراج ہو سکتی ہے۔
“زندگی چاکلیٹ کے ڈبے کی مانند ہے۔ تمہیں کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ تمہیں کیا ملے گا۔”
یہ جملہ جبر و اختیار، اتفاق و ارادہ اور شعور و فطرت کی کشمکش کا نچوڑ ہے۔ فارسٹ کی زندگی خطِ مستقیم کی طرح نظر آتی ہے مگر درحقیقت وہ اک دائرہ ہے جس کے ہر موڑ پر کئی سوالات کھڑے ہیں۔ کیا فہم ہی سب کچھ ہے؟ کیا جذباتی سچائیاں اُن عقلی سچائیوں سے کمتر ہیں جن پر دنیا کی عمارت کھڑی ہے؟ زندگی کو سمجھنے کے لیے شعور کی پیچیدگی ضروری ہے؟ سادہ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں یا وہ حقیقت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں؟
خدا نے جو دنیا پیدا کی ہے وہ تمام ممکنہ حالتوں میں بہترین ہے۔ فطرت کی خوبصورتی یہی ہے کہ کیسے ہمیں سب کچھ پہلے سے طے شدہ لگتا ہے لیکن ہماری انوکھی شخصیتیں اپنے تحرک سے اسے نیا رنگ و آہنگ دیتی ہیں۔ فارسٹ کا سادہ لوح رویہ اسی قبولیت کا استعارہ ہے۔ وہ ہر حادثے کو موقع سمجھتا ہے۔ ہر انجام کو نیا آغاز۔ وہ ان گنت امکانات کو روزمرہ کے عمل میں جیتا ہے۔ اس کے افعال نہ کسی شعوری فیصلے سے جڑے ہیں نہ کسی طے شدہ منصوبے سے۔ وہ فطرت کے بہاؤ میں زندہ ہے بغیر کسی مزاحمت کے۔ اس کی بے عملی بھی کامل ہے۔ وہ ردعمل سے آزاد ہے اور یہی اس کا سکون ہے۔ وہ اپنے حالات سے بغاوت نہیں کرتا بلکہ ان سے ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کا وجود اسپینوزا حیثیت کا مظہر ہے یعنی جو کچھ ہے، وہ جیسا ہے، اسی میں خیر ہے۔ اسی میں سب جمالیاتی معانی ہیں۔
فارسٹ وہ وجودی پیکر ہے جو ڈیکارٹ کے
‘میں سوچتا ہوں اس لیے ہوں’
کے بر خلاف یہ باور کرواتا ہے کہ
‘میں جیتا ہوں اس لیے ہوں۔’
اس کی موجودی ہائیڈیگر کے being-in-the-world کی عملی صورت ہے۔ اس کی ہر حرکت، ہر فیصلہ اور ہر تعلق وجودی انتخاب ہے جو شعور کے بوجھ سے آزاد ہے لیکن اس آزادی میں ہی ماورائی معنویت چھپی ہے۔ اس کے سراپے میں سارتر کا تصورِ انتخاب و ذمہ داری درپردہ موجود ہے۔ وہ نہ اپنے ہونے کو دلیل سے ثابت کرتا ہے نہ ہی اسے رد کرتا ہے۔ اس کی عقل محدود ہے مگر وجود بے کنارہ۔ وہ خدا سے شکوہ کرتا ہے نہ دنیا سے۔ لیکن اس کا ہر فعل اک اخلاقی پیرایہ رکھتا ہے جیسے وہ خیر کی کڈی کامل جبلت کی تصویر ہو۔
ایسی دنیا میں جہاں سب کچھ جاننے کا خمار ہے وہاں فارسٹ کا نہ جاننا ایک نعمت ہے۔ اس کی معصومیت دوسروں کے چہرے میں اپنے ہونے کو تلاش کرنے کا عمل ہے۔ اس کا تعلق دوسروں سے ہمیشہ خالص اور بغیر شرائط کے استوار ہوتا ہے۔ جینی، بوبا، ڈین سب کے لیے وہ ویسا ہی ہے جیسا ان کا وجود تقاضا کرتا ہے۔ شاید اس کے نزدیک دوسروں کی موجودگی ہی حقیقی اخلاقی بنیاد ہے۔ انسان کوئی مرکز نہیں بلکہ مختلف بہاؤ کا مجموعہ ہے۔ فارسٹ کی شخصیت مستقل بہاؤ میں ہے۔ وہ ایک دن فٹبالر ہے، دوسرے دن سپاہی، تیسرے دن دوڑتا ہوا آدمی، چوتھے دن کاروباری تو آخری دن نکتہ رس فلسفی۔ اس کے لیے شناخت کوئی ساکن چیز نہیں، مسلسل ارتقاء ہے۔ وہ متحرک سبجیکٹ ہے جو ہر تجربے سے گزر کر بھی خود کو مرکز میں نہیں رکھتا۔ فارسٹ کی سادگی اس کی ابدی متاع ہے۔ وہ جینی سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے لیکن کبھی نہیں پوچھتا کہ وہ اسے کیوں نہیں ملتی؟ وہ ویتنام میں لڑتا ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچتا کہ کیا یہ جنگ صحیح ہے؟ وہ تاریخ کا پیچھا نہیں کرتا، تاریخ اس کا پیچھا کرتی ہے۔ جینی کی موت اور اس کا بیٹا، فارسٹ کے لیے سوالات کا خاتمہ نہیں، وجود کے نئے دائرے ہیں۔ نئے کائناتی رقص ، نئے سفر اور نئی بھول بھلیاں !
جینی، فارسٹ کی ضد ہے۔ اس فلم کا ضدی پینڈولم ! اس کی آزادی، اس کا عذاب ہے۔ وہ معاشرتی زنجیروں کو توڑتی ہے مگر ان کے بغیر خالی ہو جاتی ہے۔ وہ محبت کو برہنگی میں تلاشتی ہے۔ وہ انقلابی بنتی ہے۔ جسم کی بغاوت سے روح کو آزاد کرنا چاہتی ہے مگر ہر قدم پر وہ خود کے صحرا میں اور زیادہ گم ہوتی جاتی ہے۔ اس کی زندگی مسلسل انکار ہے ذات کا، خاندان کا، سماج کا لیکن یہ انکار کسی تخلیقی نفی میں تبدیل نہیں ہوتا۔ وہ شعور و آگہی کی ہر سطح سے گزرتی ہے۔ آزادی، جنسی استحصال، بغاوت، خود کی دریافت، اور آخر میں رضا و سپردگی کے جذبات۔
جینی کی شخصیت اس جدید عورت کی علامت ہے جو آزادی کے نام پر خود کو وجودی خلا میں کھو بیٹھی ہے۔ اس کی جدوجہد دراصل اس معاشرے کے خلاف ہے جو عورت کو یا تو ماں کے قالب میں دیکھنا چاہتا ہے یا طوائف کے مگر وہ ان دونوں خانوں سے نکل کر کچھ اور بننا چاہتی ہے اور یہی ‘کچھ اور’ اس کی شکست کا پیش خیمہ ہے۔ اس کا موت سے پہلے فارسٹ کی جانب پلٹنا اس شخصی محرومی کا نتیجہ ہے کہ جب سب راستے بے معنی نکلے تو وہ فارسٹ کی سچائیوں میں ، اس کی سادگی و معصومیت میں پناہ لینے چلی آئی۔
جینی کے متضاد فارسٹ ایسے فیصلے نہیں کرتا۔
وہ رکتا نہیں، چونکتا نہیں، سوال نہیں کرتا۔
یہی اس کا وجودی احتجاج ہے۔
جہاں دوسرا انسان خود کو ڈھونڈتا ہے
وہاں فارسٹ خود کو بھول جاتا ہے۔
یہ بھولنا نجات ہے۔
یاد ایک قید ہے۔
اور وہ قید جسے ہم شناخت کہتے ہیں
وہی سب سے بڑی جعل سازی ہے۔
ان زنجیروں کو توڑ کر دوڑنا ہی فارسٹ کا سچا فلسفہ ہے۔ جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، تاریخی، سب سطحوں پر۔ جب وہ دوڑتا ہے تو وہ زمان و جہان سے ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے۔ یہ دوڑ ابدی سفر کی علامت ہے اور اس بات کا استعارہ کہ حرکت وجود پر مقدم ہے۔ یہ بظاہر بے مقصد دوڑ وہی باطنی تلاش ہے جسے ہائیڈیگر نے being-toward-death کے طور پر سمجھا۔
ویتنام جنگ، واٹرگیٹ اسکینڈل اور امریکی سماجی تغیرات جیسے پس منظر اس فلم کو مہابیانیے کا روپ دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فارسٹ خود ان بیانیوں میں شرکت نہیں کرتا بلکہ اس کا کردار فقط خاموش تماشائی کا ہے۔ یہ خاموشی پوسٹ ماڈرن فکر کی ترجمانی ہے۔ جس کے بقول مرکزی بیانیے ٹوٹ چکے ہیں اور سچائی اب ذاتی تجربے اور جذباتی و احساساتی ادراک و شعور میں جاوید ہے۔ برگساں کے تصورِ دوراں (Duration) میں وقت کی روانی کی جو کیفیاتی اور داخلی تعریف ملتی ہے وہ فارسٹ کی زندگی میں عیاں ہے۔ اس کے لمحے منطقی تسلسل سے خالی ہیں۔ کہانی کا وہ ٹکڑا فلسفہ ء عمل اور خاکی جبلت کے درمیان کشمکش کا اظہار ہے جب فارسٹ بغیر کسی ارادے کے دوڑنے لگتا ہے۔ یہ بھاگ دوڑ ایک عہد کے بوجھ سے بیک صورت فرار و بقا کا مظہر ہے۔
لیفٹیننٹ ڈین جو معذوری کو توہین سمجھتا ہے، نطشے کے سپر مین کی ضد ہے۔ وہ خود کے خلاف بغاوت کی اذیت میں مبتلا ہے۔ جب تقدیر انسان کو گرا دیتی ہے تو وہ یا تو فارسٹ بن جاتا ہے یا ڈین۔ ایک قبول کرتا ہے، دوسرا لڑتا ہے۔ لیکن دونوں ہی وجود کے دو ممکنہ ردِعمل ہیں۔ ڈین طاقت اور مقصد کی تلاش میں جنگ میں جاتا ہے مگر معذوری اسے اُس مقام پر لا پھینکتی ہے جہاں ارادے اور حقیقت کی جنگ اپنی انتہا پر ہے۔ اس کی معذوری صرف جسمانی نہیں یہ اس تصور و زعم کی موت ہے جو انسان اپنی عظمت کے بارے میں رکھتا ہے ۔ ڈین آسانی سے شکست کو قبول نہیں کرتا۔ وہ اس نظام کا نمائندہ ہے جو فتح اور قوت کو مطلق مانتا ہے۔ مگر جب وہ بالاخر خدا سے صلح کرتا ہے تو یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی عبثیت کو قبول کر کے نئی اخلاقی قدروں میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا جنم جو شکست کو قبول کر کے ہی ممکن ہوتا ہے۔
فارسٹ کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ فلسفہ صرف سوال کرنا نہیں۔ بعض اوقات محض ہونا بھی اک نظریہ ہے اور یہ ہونا بلا سبب، بلا مزاحمت، بلا دعویٰ _ شاید وہ سچ ہے جسے ہم سب پانے کی جستجو میں دوڑ رہے ہیں۔
Forrest Gump 1994
پراگندہ فلمی سوچیں

فارسٹ گمپ اور اس کا فلسفہ Film Review

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *