شہرزاد ایران Drama Series Review

شہرزاد: ایک ایرانی ڈرامے کا موجودہ پاکستانی ڈراموں سے تقابل
(روزنامہ 92 سنڈے میگزین بتاریخ 11 دسمبر 2022ء)
شہرزاد ایران کی ایک رومانوی و تاریخی ڈرامہ سیریز ہے، جو 3 سیزنوں اور 59 اقساط پر مشتمل ہے، ہر قسط لگ بھگ ایک گھنٹے پر محیط ہے۔ یہ ریاستی ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے آزاد ایک نجی پیشکش تھی، جس کی ہدایت کاری حسن فتحی نے دی، ہدایت کار نے ہی ڈرامہ نگار اور یونیورسٹی پروفیسر نغمہ سمینی کے ساتھ مل کر اسے لکھا، جبکہ محمد امامی نے پیشکش کے فرائض سرانجام دیے۔ ڈرامہ 2015ء سے لے کر 2018ء تک ڈی وی ڈی کیسٹوں اور سی ڈیز کے ذریعے گھر گھر میں دیکھی گئی، تاہم یہ فراہمی غیر قانونی نہیں تھی، بلکہ ایران کی وزارت فرھنگ و ارشاد اسلامی (منسٹری آف کلچر اینڈ اسلامک گائیڈنس) سے باقاعدہ منظوری لی گئی تھی۔ شہرزاد کو موجودہ ایرانی ڈراموں و سیریز میں سب سے زیادہ مہنگی اور عمدہ و اعلیٰ پیشکش گردانا جاتا ہے، جس کے سبب نہ صرف ایران بلکہ دیگر ممالک میں بھی اس کا شہرہ اور چرچا ہوا، اور اسے کئی ممالک میں ڈبنگ اور سب ٹائٹلز کی مدد سے دیکھا گیا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایک ایرانی سیریز کا موجودہ پاکستانی ڈراموں سے تقابل کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دیگر پڑوسی و غیر پڑوسی ممالک کے برعکس ایرانی فلم و ڈرامہ ہی وہ واحد انڈسٹری ہے جو ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار سے قریب تر ہے۔ اس کی وضاحت یوں دیکھیے کہ انگریزی و دیگر مغربی ڈراموں کو تو آپ کسی صورت پاکستانی ڈراموں کے ساتھ رکھ کر ان کا جائزہ نہیں لے سکتے، مشرقی ہمسائے ہندوستان کے ڈراموں میں اگرچہ فیملی و خاندانی معاشرت کی جھلک ملتی ہے، لیکن مذہبی مخالفت کی بنا پر ان سے تقابل بھی نہیں کیا جا سکتا، پیچھے رہ گیا ترکیہ کا ڈرامہ تو وہاں کا جدید ڈرامہ جدیدیت، یعنی مغربیت، کے زیر اثر ہے، جس کی نقالی کی ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس درجے پر نہیں پہنچے، چنانچہ یہاں بھی ہمیں معذرت کرنی پڑے گی، پیچھے صرف ایک ایرانی ڈرامہ انڈسٹری بچتی ہے، جس کے ساتھ اکثریتی مسلک، وہاں کی معاشرت، ثقافت اور روایات کے اختلافات کے باوجود ہم موازنہ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی جان لیجیے کہ یہ پوری ایرانی ڈرامہ انڈسٹری کا پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری سے تقابل نہیں ہے، بلکہ وہاں کے ماضی قریب میں بننے والے سب سے مشہور اور بہترین ڈرامے کی چند خصوصیات اور خوبیوں پر مبنی جائزہ ہے، جو موجودہ پاکستانی ڈراموں میں عنقا نظر آتی ہیں۔ شہرزاد کی کہانی اور خصوصیات پر بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت بھی اہم ہے کہ راقم، بطور ڈرامہ بین، کی نظر میں یہ کامل و مکمل ڈرامہ نہیں ہے کہ جس کی کہانی اور کردار نگاری سمیت دیگر تکنیکی امور میں جھول نہ ہوں، منطقی کمزوریاں نہ ہوں۔ نہیں! ایسا نہیں ہے، بلکہ راقم کی طرح کوئی دوسرا بھی کم یا زیادہ ان کی نشاندہی کر سکتا ہے، لیکن ان کی تعداد خوبیوں کے مقابلے میں اتنی کم ہیں کہ ڈرامہ بین کا ذہن منتشر نہیں ہوتا اور توجہ برقرار رہتی ہے۔ اس تقابل اور موازنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستانی ڈرامہ ساز اور انٹرٹینمنٹ چینل مالکان متوجہ ہوں کہ اگر ایک اچھا ڈرامہ بناتے ہوئے ان درج ذیل نکات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کیا ہی بات ہے۔
کہانی/پلاٹ
شہرزاد کے خصوصی نکات کے بیان سے قبل ڈرامے کی وجہ تسمیہ، کہانی کی ابتدا اور مرکزی کرداروں پر روشنی ڈال لینا بہتر ہے تاکہ بعد ازاں حوالہ دیتے ہوئے مشکل نہ رہے اور قارئین آسانی سے بات سمجھ سکیں۔
ڈرامے کا یہ نام دو بنیادوں پر ہے، اول عربی ادب و قصہ گوئی کی مشہور کتاب ‘اَلْف لیلہ و لیلہ’ (جسے ہمارے ہاں اَلِف لیلوی داستانوں کے نام سے جانا جاتا ہے) میں شہرزاد ایک نسوانی افسانوی کردار ہے، جس کی کہانی میں بیان کردہ ساری کہانیاں اسی کی زبانی بیان کی جاتی ہیں، اور ڈرامے کے ایک خاص موڑ پر اس کا حوالہ اور مماثلت جابجا ملتی ہے۔ دوم ڈرامے کا سب سے اہم اور مرکزی نسوانی کردار بھی اسی نام سے موسوم ہے۔
ڈرامے کی کہانی رضا شاہ پہلوی کے دورِ شہنشاہیت میں ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے سے ذرا پہلے شروع ہوتی ہے۔ شہرزاد (ترانہ علی دوستی) اور فرہاد (مصطفی زمانی) ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، ان کی فیملیاں اس محبت و عاشقی سے آگاہ اور راضی ہیں۔ فرہاد بائیں بازو اور قوم پرستانہ نظریات کا حامل جوان ہے، جو فارسی ادب و شاعری کا طالب علم ہے، اور مصدق حکومت کی واضح حمایت کرنے والے اخبار میں بطور صحافی کام کرتا ہے، جبکہ شہرزاد طِب ( یعنی میڈیکل) کی طالبہ ہے۔ دونوں کے والد ہاشم (مہدی سلطانی) اور جمشید (محمود پاکنیات) بچپن کے دوست ہیں، اور تہران کی ایک بااثر شخصیت بزرگ آغا (علی نصیریان) کے زیر احسان ہونے کے ناطے اس کے معتمد خاص حلقے کے رکن ہیں۔ بزرگ آغا کے بیشتر غیر قانونی دھندے ہیں، لیکن چونکہ اس کا اشرافیہ، سیاست دانوں، اور پولیس وغیرہ میں کافی اثر و رسوخ ہے تو کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، تاہم زیادہ سے زیادہ طاقت اور دولت کے حصول اور ارتکاز کی دوڑ میں اس جیسی اور بھی بااثر شخصیات دشمنی و مخالفت کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ بزرگ آغا کی ایک بیٹی شیریں (پریناز ایزدیار) ہے، جو والدہ و بھائیوں کے ایک حادثے میں وفات اور بانجھ پن کا شکار ہونے کے سبب چڑچڑی اور خود سر طبیعت کی مالک ہے، جبکہ قوباد (شہاب حسینی) اس کا بھتیجا اور گھر داماد ہے ( کیونکہ قوباد کے والدین بچپن میں مر گئے تھے، چنانچہ اس کی پرورش بزرگ آغا کے زیر سایہ شیریں کے ساتھ ہی ہوئی تھی)۔ بزرگ آغا اور شیریں کے مسلسل دباؤ اور زچ کرنے والی طبیعت کے زیر اثر قوباد کی شخصیت ایک کمزور اور بے بس مرد کی سی ہے۔
اُدھر ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹایا جاتا ہے تو ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں، اور بائیں بازو خیالات کے حامل افراد کی پکڑ دھکڑ کے دوران شہنشاہ کے حامی گروہ کا ایک رکن اس حالت میں مارا جاتا ہے جب فرہاد اپنے بچاؤ کی تدبیر کر رہا ہوتا ہے۔ قتل کا الزام اسی پر آتا ہے اور سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے، فرہاد اور شہرزاد دونوں کی فیملیوں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے، ہاشم بزرگ آغا کے پاس جان بخشی کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرنے کی استدعا لے کر آتا ہے، بزرگ آغا واضح جواب نہیں دیتے، لیکن پس پردہ کوشش کر کے وہ فرہاد کو بچا لیتے ہیں، فرہاد باہر آتا ہے تو اس کی والدہ مرضیہ خانم جلد شادی کی دہائی دے دیتی ہے، طرفین کے باقی اہل خانہ ابھی تیار نہیں ہیں لیکن آخرکار مان جاتے ہیں، شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، مگر جمشید کو فرہاد والے منظرنامے کی وجہ سے بیٹی کے مستقبل کی فکر ہے، وہ خفیہ طور پر بزرگ آغا کے پاس جاتا ہے اور شادی رکوانے کی درخواست کرتا ہے۔ بزرگ آغا کچھ دیر سوچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک ہی حل ہے کہ شہرزاد کی شادی قوباد سے کر دی جائے۔ اگرچہ بزرگ آغا شیریں کو بہت عزیز رکھتے ہیں، تاہم ان کے پیش نظر اپنے اعلی حسب و نسب والے خاندان ‘دیوان سالار’ میں آگے چل کر ایک عدد وارث کا ہونا بھی ضروری ہے۔ حکم نامہ جاری ہوتے ہی سہ طرفی کھلبلی ایک بار پھر مچ جاتی ہے۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ شہرزاد، فرہاد، اور شیریں کی مرضی کے عین برخلاف اور قوباد کی مرضی و رائے جانے بغیر ہی، شادی وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد آگے ڈرامہ کیسے چلے گا اور کیا موڑ لے گا اس کے لیے قارئین کو ڈرامہ دیکھنے کی زحمت کرنی پڑے گی۔
شہرزاد ڈرامے کی خصوصیات اور خوبیاں دو پہلوؤں میں مضمر ہیں، ایک اس کی جان دار کردار نگاری، اور دوسری کثیر الجہتی کہانی۔ باقی خصوصیات کا ذکر ضمنا آئے گا، چلیے ان دو خصوصیات پر الگ الگ بات کرتے ہیں۔
جان دار کردار نگاری
شہرزاد کی سب سے بڑی اور متاثر کن خصوصیت اس کی جان دار کردار نگاری ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے پہلے پاکستانی ڈراموں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستانی ڈرامے کے بمشکل دو یا تین موضوعات ہیں۔ خالص رومانوی ڈرامہ، جس میں گھریلو جھگڑے اور خاندانی سازشیں بدرجہ اتم موجود ہوں گی، یا پھر مزاحیہ رومانوی ڈرامہ، جس میں اول الذکر کی طرح جھگڑے اور سازشیں تو نہیں ہوں گی، تاہم مزاح کے نام پر مذاق ہو گا، اور کہانی اکثر چل چلاؤ ہو گی، اس کے علاوہ تیسری قسم معاشرتی و سماجی مسئلے کو اجاگر کرتا ڈرامہ، جس میں زیادہ زور شناعت پر ہو گا، معاشرے کا مسخ چہرہ دکھایا جائے گا، لیکن سنجیدہ اور قابل عمل حل پر روشنی کم ڈالی جائے گی۔
ہمارے ہاں کے ان ڈراموں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پورا ڈرامہ دو یا تین، زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ، کرداروں کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ رومانوی ڈراموں کے ‘لو ٹرائی اینگل’ یا ‘کواڈ رینگل’ میں ہیرو اور ہیروئین واضح ہوں گے، جبکہ ان کی محبت کے دشمن اور سازشی عناصر مخالف سمت میں صاف کھڑے نظر آئیں گے، اسی طرح معاشرتی مسئلے پر بحث کرتے ڈرامے میں بھی ہیرو، ہیروئین اور ولن نشان زد ہوں گے، یعنی یہ ان ڈراموں کے مرکزی کردار ہو گئے، ان کے علاوہ باقی سب معاون کردار اضافی (ایکسٹراز) معلوم ہوتے ہیں۔ یہ سب معاون کردار، جو اکثر ہماری ڈرامہ انڈسٹری کے ماضی میں جگمگاتے ستارے رہے ہوتے ہیں، ہیرو اور ہیروئین کے والدین، یا کسی دوسرے کردار میں، مرکزی کرداروں کے سامنے پانی بھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، مطلب ان کی اپنی کوئی زندگی اور حیثیت نہیں ہوتی، بلکہ تمام کی تمام کہانی مرکزی کرداروں کے گرد چکر لگا رہی ہوتی ہے۔
شہرزاد میں ایسا نہیں ہے! شہرزاد میں بڑے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاون کردار کی ایک حیثیت اور وقعت ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مصنفین نے ہر ہر کردار کو باقاعدہ عرق ریزی سے لکھا اور پھر اسے اس کی کہانی سونپی، جو مرکزی کہانی میں ضم ہو کر ایک خوبصورت گلدستہ بن گئی۔ ڈرامہ دیکھتے ہوئے ناظرین محسوس کریں گے کہ کئی کرداروں کے لیے ‘مرکزی’ یا ‘معاون’ کردار کی لکیر دھندلی ہے، وہ انھیں مرکزی ہی محسوس ہوں گے۔
یہاں بطور مثال دو کرداروں کا ذکر کرنا فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ ایک ہے ہاشم داماوندی (فرہاد کا والد) اور دوسرا ہے اکرم بوربوران (گلہرے عباسی، شیریں کی خادمہ خاص) کا کردار۔ ہاشم داماوندی کو فرہاد کے والد، بزرگ آغا کے معتمد خاص، اور اپنی فیملی کے سربراہ کے طور پر جس طرح پیش کیا گیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اس میں بڑا حصہ مہدی سلطانی کی اپنی شاندار اداکاری کا بھی ہے۔ دوسری طرف اکرم بوربوران، جو پہلے ایک درزن (1950ء کی فیشن ڈیزائنر) کے پاس ملازمہ ہوتی ہے، وہ کیسے اپنی چرب زبانی، چالاکی، اور مخبرانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بزرگ آغا کے محل نما گھر میں شیریں کی خادمہ خاص بن جاتی ہے، یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، یہاں بھی گلہرے عباسی نے اس کردار کو انتہائی مہارت سے سرانجام دیا ہے۔
اب موازنہ کر لیں کہ پاکستانی ڈراموں میں تو ہیرو اور ہیروئین کے والدین پھر بھی کسی معمولی کردار کے حامل ہوتے ہیں، آیا گھریلو ملازمین، خدام، اور ماتحتوں میں کبھی کسی کو اتنا اہم کردار سونپا گیا ہے؟ بلکہ اہم کو ایک طرف رکھیں سرے سے کوئی کردار ہوتا ہے؟، وہ محض اضافی اور نمائشی کردار ہوتے ہیں جن کی طرف راقم سمیت کسی کی بھی نظر نہیں جاتی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گلہرے عباسی کوئی نامور اداکارہ بھی نہیں ہے، ناظرین کو شہرزاد کے وکی پیڈیا صفحے پر گلہرے کا نام نیلے لنک کے ساتھ جلوہ گر نہیں ملے گا۔
کردار نگاری کے حوالے سے ایک اور پہلو قابل توجہ ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں کردار سیاہ و سفید ہوتے ہیں، جو اچھا ہے وہ تمام محاسن و خوبیوں کا مالک ہے، جو برا ہے وہ ہر قسم کی برائیوں و رذائل کا حامل ہے۔ ہمارے ڈراموں میں سلیٹی (گرے) کردار نہیں ملتے، جو اچھے اور برے کی تقسیم کے باوجود اسی چلتے پھرتے معاشرے کے محسوس ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ کوئی سراپا فرشتہ یا شیطان نہیں ہوتا – اچھے اچھوں میں کمی کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں، اور بروں میں کہیں نہ کہیں انسانیت پنہاں ہوتی ہے – شاید قارئین کا اعتراض ہو کہ ڈرامے کی تصوراتی و افسانوی دنیا میں حقیقی کرداروں کی تلاش چہ معنی دارد؟ تو اس پر جوابی سوال ہے کہ آیا تمام ڈرامہ مصنفین اپنے تئیں اسی معاشرے کے کرداروں کو سامنے رکھ کر کہانی نہیں لکھ رہے ہوتے؟ انھیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جو نیکی و بدی کے بیچ کا انسان ہو؟
اس حوالے سے شہرزاد کو پرکھا جائے تو اس میں اچھے اور بروں کی کہیں واضح اور کہیں غیر واضح تقسیم ہے، لیکن اس کے باوجود یہ سب سیاہ و سفید کی سرحدوں پر نہیں کھڑے ہوئے، بلکہ ان سے پڑے ہٹ کر وسط سے قریب اور بعید ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ شہرزاد دیکھتے ہوئے ایک ناظر کے ذہن میں ہیرو، ہیروئین، اور ولن کے تصورات نہیں ابھرتے، بلکہ وہ کہانی کی رَو میں بہتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
کثیر الجہتی کہانی
پاکستانی ڈرامہ رومانوی ہو یا معاشرتی و سماجی مسئلے کو منظر عام پر لاتا، وہ یک رخی ہی ہوتا ہے۔ بیس، پچیس، یا تیس جتنی مرضی اقساط ہوں، وہ یا تو رومانس کے ہیر پھیر پر مبنی ہو گا یا معاشرتی مسئلے کی گھمبیر صورتحال کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہو گا۔ نتیجہ یہ کہ ہر دو قسم کے ڈراموں میں چلتے پھرتے جیتے جاگتے پاکستانی معاشرے کی کہانی مفقود ہو گی، اس کی جگہ ایک مصنوعی اور خیالی دنیا ناظرین کا منہ چڑا رہی ہو گی۔ رومانوی ڈراموں کی مثال لی جائے تو اس میں ہیرو اور ہیروئین کا ماسوائے شادی کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے کوئی کام نہیں ہے، اور اگر شادی ہو چکی ہے تو اس رشتے کو اندرونی و بیرونی سازشی عناصر سے محفوظ رکھنے کے علاوہ کچھ درپیش نہیں ہے۔ کہنے کو ہیرو بھی کوئی کام دھندا کرتا ہے، اور ہیروئین بھی کچھ سگھڑاپا رکھتی ہے، لیکن جن مناظر میں یہ دکھایا جاتا ہے وہ برائے نام ہوتے ہیں۔
شہرزاد کی کہانی اس کے بالکل برعکس کثیر الجہتی ہے! بڑے عنوانات دو ہیں، یعنی رومانوی اور کرائم ڈرامہ، لیکن ان کے ساتھ ساتھ تاریخ و سیاست (ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے و مابعد کے ایران۔۔۔ بالخصوص تہران)، اور قدیم و جدید فارسی ادب و شاعری کو بھی وافر حصہ دیا گیا ہے۔
مرکزی کردار ہو یا معاون وہ پورا دن و رات گھروں میں، یا باہر سڑکوں پہ آوارہ گردیوں میں مصروف عمل دکھائی نہیں دیتے، بلکہ اپنے اپنے معمولات زندگی بھی مکمل کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ہاشم داماوندی اپنے ایرانی قالینوں کے کاروبار کو دیکھتا ہے، تو جمشید سعادت اپنے ریسٹورنٹ پر وقت دیتا ہے۔ بزرگ آغا اور قوباد گھر کے مہمان خانے یا اپنے اسنوکر کلب میں، جو غیر قانونی دھندوں کے لیے مختص خفیہ مراکز بھی ہیں، مختلف شخصیات سے ملاقات کرتے ہیں، اور معاملات طے کرتے ہیں۔ فرہاد اور شہرزاد یونیورسٹی اور بعد ازاں بالترتیب ملازمت اور ہسپتال جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہے۔ یہ چند مرکزی و معاون کرداروں کی مثالیں ہیں، وگرنہ باقی تمام کردار بھی کسی نہ کسی طور پر مصروف رہتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ یہ کردار باہر گھومتے پھرتے نہیں ہیں، ریستوران و کیفے پر نہیں جاتے، رومانوی باتیں نہیں کرتے، نہیں! یہ سب ہوتا ہے، لیکن سب ایک قسم کے اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے، جس سے ناظر یہ تو سوچ سکتا ہے کہ ڈرامہ دیکھ رہا ہوں، مگر وہ اسے بالکل غیر حقیقی و مصنوعی دنیا نہیں سمجھتا۔
اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بنیادی کرداروں کے چوبیس گھنٹے باقاعدہ تقسیم ہیں، جس میں ہر معاملے کو مناسب وقت دیا جاتا ہے، اکثریت کی مربوط خاندانی زندگی ہے، جہاں ہر رشتہ دوسرے رشتے سے جڑا ہوا ہے، ایک دوسرے سے بات کرتا ہے، ان کے مابین مفید مکالمے ہوتے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں کی طرح نہیں جس میں مرکزی کردار ہر منظر میں دخیل ہوتے ہیں، بلکہ معاون کرداروں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کو بھی برابر کی اہمیت اور وقت دیا جاتا ہے، جس سے کبھی کبھار کوئی مرکزی کردار منظر سے کچھ دیر کے لیے بالکل ہو غائب ہو جاتا ہے، اور ناظر سوچنے لگتا ہے کہ وہ کردار کہاں گیا، کب واپس آئے گا۔
آخر میں صرف اتنی گزارش اور تجویز ہے کہ اگر پاکستانی فلم و ڈرامہ انڈسٹریاں ایرانی طرز سے متاثر ہو کر اپنے حساب سے عام فہم، سادہ، گھریلو و معاشرتی اقسام کی فلمیں اور ڈرامے بنائیں، جن میں گلیمر نہ ہو، فضول کے لچڑ گانے نہ ہوں، اندرونی و بیرونی سازشوں پر زور کم سے کم ہو، مزاح کے نام پر پھکڑپن نہ ہو، تو کتنا اچھا ہو۔ ایک جیتے جاگتے کسی پاکستانی گھرانے، علاقے، یا معاشرے کو سامنے رکھ کر مضبوط کہانی اور اعلی کردار نگاری پر مبنی پیشکش ہو، جس میں فکشن کا محض ہلکا پھلکا تڑکا ہو، تو کتنا بہترین ہو۔ ہے کوئی جو اس پر صاد کرے!؟
نوٹ: ڈرامہ شہرزاد (Shahrzad) یوٹیوب پر (Lotus Plus) نامی چینل پر انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
احمد خالق / Film Walay فلم والے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *