
فرحت نے جوں ہی دسویں کا امتحان دیا اس کے والدین نے اس کے ماموں کی بیٹی شاہدہ سے اس کی شادی کروادی۔ ان کو بڑا چا تھا کہ ان کے اکلوتے بیٹے کی دلہن آجائے لیکن فرحت کو کراچی جانے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ جوں ہی ایبٹ آباد بورڈ نے دسویں کا نتیجہ نکالا۔ وہ پاکستان نیوی میں بھرتی کے لیے پر تولنے لگا۔ انتظار ختم ہوا اور وہ ایک دن دسویں کی سند اور ڈومیسائل لے کے نیوی کے بھرتی آفس پہنچ گیا۔ سینکڑوں امیدواروں کی موجودگی کے باوجود وہ بھرتی کر لیا گیا۔ فرحت کا والد فرید خان بھی پاکستان آرمی کا ایک ریٹائرڈ فوجی تھا۔ پنشن اور کہل ڈیم کے شمال میں اپنی بارانی زمینوں کی فصلوں کی کمائی سے وہ گھر کا نظام چلا رہا تھا۔ دودھ، دہی اور گھی کے لیے اس کے پاس کچھ گائیں اور بھینسیں تھیں۔ اگر چہ وہ گاؤں میں رہائش پذیر تھا لیکن جانوروں کی گوبال زمینوں میں ہی تھی۔ بقر عید پر وہ پنجاب سے بہت سارے جانور لے آتا اور جاننے والوں کو معقول منافع کے ساتھ بیچ دیتا۔ لوگوں کی نظر میں وہ خوشحال سمجھا جاتا تھا۔ چھوٹا خاندان ہونے کی وجہ سے اس کے اخراجات بھی کافی حد تک کم تھے۔ پچھلے سال اس کی بوڑھی والدہ بھی وفات پاچکی تھی۔ فرحت اپنی روانگی کے دن بہت پر جوش تھا۔ اس کے لیے وقت گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ شاہدہ دوپٹہ کی آڑ میں وقفے وقفے سے سسکیاں لے رہی تھی۔ فرحت کی ماں نے ایک دن پہلے ہی سوجی کی مٹھائی میٹھی گوگیاں اور گندم کے دانوں کے مرنڈے تیار کر لیے تھے ۔ خالص گھی اور آم کا اچار پہلے سے تیار تھا۔ روانگی کے وقت فرحت نے بیگ اٹھایا اور فرید خان نے اس کا بھاری بھر کم بکسا۔ سوزوکی گھر سے کچھ دور راستے پر کھڑی تھی۔ فرحت کی ماں دروازے میں کھڑی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ چٹکی بجاتے دو ماہ گزر گئے ۔ ایک دن فرید خان کے نام ایک خط آیا۔ فرحت نے بھیجا تھا۔ شاہدہ کے لیے اس میں الگ سے لفافہ رکھا گیا تھا۔ ہاتھ میں لفافہ آتے ہی اس کی انھیں بھیگ گئیں ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خوش ہے یا اداس ۔ اپنے کمرے میں جا کے اس نے لفافہ کھولا لکھا تھا۔ پیاری شاہده! میں خیر خیریت سے کراچی پہنچ گیا تھا کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی ۔ ابھی ٹرینگ کی تھوڑی سختی ہے۔ پھر روٹین ٹھیک ہو جائے گی۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی شہر اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ سارے ملک سے بے شمار نسلوں اور ذاتوں کے لوگ یہاں آباد ہیں ۔ سب مصروف ہیں۔ ہر ایک کوئی نہ کوئی کام کر رہا ہے۔ پچھلے ہفتے ہم کچھ لڑ کے صدر بازار گئے ۔ بہت بڑا علاقہ ہے ۔ ہری پور سے بھی زیادہ بڑا۔ بے شمار چھوٹی بڑی دکانیں اور مارکیٹیں ہیں ۔ اونچے اونچے پلازے بنے ہیں ۔ دنیاکی ہر چیز یہاں ملتی ہے ۔ ایک پوری مارکیٹ تو گھڑیوں کی ہے۔ جگہ جگہ کھانے پینے کی چیزوں کے ٹھیلے لگے ہیں ۔ چاٹ، دہی بڑے گولگپے اور رنگ برنگی شربت ۔ اور ہاں پہلی بار میں نے پپیتا بھی کھایا۔ مجھے ذرا پسند نہیں آیا۔ البتہ یہاں کے امرود خاصے اچھے ہیں۔ حبیب بنگ پلازہ صدر سے ذرا فاصلے پر تھا وہ نہیں دیکھ سکے ۔ اگلی بار کیماڑی جائیں گے۔ ابھی ذرا جلدی ہے پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا۔ ماں کا بہت خیال رکھنا۔ کوشش کرنا کہ وہ زیادہ کام نہ کرے ۔ بہت بہت پیار تمہارا فرحت روتے روتے شاہدہ کی کنگھی بندھ گئی۔ ایک سال بعد فرحت اپنی پہلی چھٹی گزار نے جب گاؤں آیا تو اس کے ساتھ بہت سارا سامان بھی تھا۔ پراندے بلپ مہندی، ٹافیاں، چیونگم سوہن حلوہ تولیے، بنیانیں ازار بند، ایکسٹینشن اور رنگ برنگی سٹیشنری وغیرہ۔ فرید خان کی فرمائش پر کچھ دانے پپیتے اور ناریل کے بھی لایا۔ حیدر آباد سٹیشن سے چوڑیاں اور گاڑی میں بکنے والے کاٹن کے کھیس بھی ایک بیگ میں موجود تھے۔ اس کی ماں اسے دیکھ دیکھ پھولے نہیں سمارہی تھی۔ اس کے لیے خاص طور پر پڑوس کے گاؤں سے خالص گھی منگوایا۔ شکر اور اچار کا بندو بست کیا۔ اسے معلوم تھا کہ فرحت کو گھی میں شکر ڈال کے روٹی کھانا بہت پسند ہے۔ اس شام اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے لیے شوربے والا دیسی سوپ بھی پکایا ۔ شاہدہ نے اس کے لیے کیک والا کسٹرڈ بنایا۔ فرحت کی آمد سے اس کے پرانے یار بیلی اور لنگوٹیے بھی بہت خوش ہوئے۔ ایک ساتھ کھیتوں اور گاؤں کے باہر پھلائی اور بیری کی جھاڑیوں سے ڈھاپنی ہوئی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھومنے لگے ۔ اس دن بھی منور، رشید، فراز ، ابرار اور تنویر اس کے ساتھ تھے۔ اچانک فراز نے اعلان کیا۔ اس اتوار کو کہل ڈیم پر پکنک کے لیے چلتے ہیں کھانا میری طرف سے ہو گا۔ سب نے آنے کے لیے حامی بھر لی۔ مقررہ دن سارے دوستوں نے کھانے پینے کا سامان، پانی کا کولر، چٹائیاں اور کچھ دوسری چیزیں لیں اور کہل ڈیم کے شمالی کنارے پر پہنچ گئے ۔ دن دو بجے کا وقت تھا ہر طرف گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ ڈیم کا شفاف پانی مزے سے ہلکورے لے رہا تھا۔ آپ لوگ جب تک سیٹنگ کریں ۔ میں بند کے اوپر سے نچلے علاقے کا نظارہ کر کے آتا ہوں ۔ بڑا عرصہ گزر گیا ہے دیکھے ہوئے “ فرحت نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ منور بھی اس کے ساتھ ہو گیا۔ بند پر پہنچ کر جب اس نے ترائی کی طرف نگاہ کی تو منظر کی خوبصورتی نے جیسے اُسے ہپناٹائز سا کر دیا ہو۔ کچھ دیر کے لیے وہ سانس لینا بھی بھول گیا۔ پانی کی گزرگاہ کی دونوں اطراف سبز ریشمی گھاس سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ دائیں کنارے کی چراگاہ میں دو سفید گھوڑے گھاس چرنے میں مصروف تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک لڑکی چھ سات بکریوں کے گھیرے میں بیٹھی تھی۔ اسے لگا وہ کوئی انگلش رومانی فلم دیکھ رہا ہے ۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں جب باقی دوستوں میں واپس پہنچے تو چٹائیاں بچھ چکی تھیں اور ہر چیز سلیقے سے رکھ دی گئی تھی۔ تھوڑی سی گپ شپ ہونے کے بعد تنویر نے اپنی سائیڈ کی جیب سے بانسری نکال لی۔ فرحت نے اسے پہلی بار اس وقت سنا تھا جب وہ چھٹی جماعت میں تھا۔
کوئی سنجڑی پہاڑ پکی
دکھاں کولوں غم ڈاہڈے
جناں جندڑی وی ساڑسٹی
بانسری کی گونجدار آواز کہیں سے ٹکرا کے واپس لوٹ رہی تھی۔ عجیب سماں پیدا ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد سب نے مل کے کھانا کھایا مٹن پلاؤ چکن بوٹی، اچار، کٹا ہوا ٹماٹر پیاز اور تندور کی خمیری روٹیوں نے سب کی بھوک چمکا دی۔ برتن سمیٹنے کے بعد تنویر نے ایک تھیلے میں سے ڈوریاں اور کانٹے نکال لیے۔ ہمیشہ سے وہ مچھلی کے شکار کا شوقین تھا۔ فراز کو زمین میں سے کینچوے نکال کر لانے کی مہارت تھی۔ تنویر
نے بغیر فشنگ راڈ کے پانچ چھ جگہ کانٹے پھینکے۔ شاید یہ مناسب وقت نہیں تھا۔ چال ہی نہیں بن رہی تھی۔ کافی دیر گزر گئی۔ ایک بھی مچھلی نہیں آئی۔ واپس آجا تویر خواہ مخواہ اپنے آپ کو خجل نہ کر کوئی مچھلی و چھلی نہیں آئی ۔ رشید نے ہانک لگائی۔ بس تھوڑی دیر اور تنویر اپنے محاذ پر ڈٹا رہا۔ اچانک ایک ڈوری میں کھنچاؤ پیدا ہوا۔ تنویر نے ایک ماہر شکاری کی طرح ڈوری کو کھینچنا شروع کیا مشکل سے سو گرام کی مہاشئیر ہوگی جو کانٹے کے ساتھ تڑپ رہی تھی۔ سارے بھاگ کے تنویر کے پاس چلے گئے اور اونچے اونچے نعرے لگانے لگے جیسے بہت بڑی کامیابی حاصل ہوگئی ہو۔ کچھ فاصلے پر دو اور شکاری کانٹا لگا کے بیٹھے تھے وہ بھی بھاگ کر آگئے۔ کہاں کہاں ہے مچھلی؟ کہاں ہے مچھلی ؟“ ان میں سے ایک بے صبری سے بولا۔ یہ رہی ۔ تنویر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی مچھلی دکھائی ۔ وہ دونوں شرمندہ ہو کر واپس اپنی جگہ کی طرف پلٹ گئے۔ شاہدہ فرحت کو رجھ کے دیکھ بھی نہ سکی تھی کہ اس کی چھٹی کا مہینہ گزر گیا۔ حالانکہ ابھی فرحت کی نوکری کو صرف بارہ سال ہی گزرے تھے لیکن اس نے ڈاکٹر سے مل ملا کے میڈیکل گراؤنڈ پر ریٹائرمنٹ لے لی۔ اگرچہ اس کی وجہ سے اسے کافی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بھی کیا کرتا اس کا والد لوکاٹ کے درخت سے گر کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا تھا۔ اگرچہ ایک ہڈیوں کے ماہر نے ٹانگ کو اپنی جگہ ٹھیک طرح سے بٹھادیا تھا لیکن اب زمینوں اور گھر کی ذمہ داری فرید خان کے بس سے باہر تھی۔ اس کی والدہ کب تک اپنے کمزور کندھوں پر اس بوجھ کو سنبھالتی۔ شاہدہ بھی نہیں تھی جو مددگار ہوتی۔ پچھلے سال ہیضے نے اسے منوں مٹی کے نیچے پہنچا کے چھوڑا۔ اس نے اپنے ساس سسر کی خدمت کا پورا پورا حق ادا کیا تھا۔ فرحت کے ساتھ کراچی بس دو سال ہی رہی ۔ باقی تمام عرصہ وہ اسی گھر میں صبر شکر سے رہی۔ پتہ نہیں اللہ کی اس میں کیا حکمت تھی کہ اس کی کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی۔ وقت پر جو روکھی سکھی ملتی اللہ کا شکر ادا کر کے کھا لیتی۔ فرحت کی ماں کو اس کی موجودگی سے بڑی سہولت رہی تھی۔ سارا گاؤں اس کی شرافت اور قناعت پسندی کا معترف تھا۔ گاؤں پہنچتے ہی فرحت نے زمینداری اور گھر کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ فرید خان کی جان خلاصی ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔ ابھی ایک سال گزرنے میں چند دن باقی تھے۔ ایک دن اس کی ماں نے بڑے ارمان سے کہا۔ بیٹا! مجھے پتہ ہے شاہدہ جیسی ہو مجھے کبھی نہیں مل سکے گی ۔ وہ اللہ کی بندی تھی لیکن پھر بھی تو کہیں شادی کرلے گھر بالکل ویرانہ بنا ہوا ہے ۔ فرحت نے شادی کر لی۔ سائرہ اس کی پہلی بیوی شاہدہ کے بالکل برعکس ثابت ہوئی ۔ وہ ایک خوش طبع خوش لباس، خوش گفتار، خوش خوراک اور چنچل طبیعت کی مالک لڑکی تھی۔ ہر وقت مسکان اس کے کھلے ہوئے چہرے پر بھی رہتی ۔ پہلے ہی ہفتے اس نے سب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ فرحت پہلی بار زندگی کے کچھ نئے رنگوں اور ذائقوں سے آشنا ہونے لگا۔ سائرہ اس کا بڑا خیال رکھتی۔ جوں ہی وہ باہر سے آتا اسے پانی دیتی۔ اس کے لیے تازہ چپاتیاں بناتی۔ ہر وقت اس کے کچھ جوڑے استری کر کے رکھتی۔ جوتے پالش ہوتے گھر کی ہر چیز اپنے ٹھکانے پر ملتی ۔ اس کے طرز عمل اور اطوار کی وجہ سے کافی دنوں کے بعد فرحت کی ماں نے بھی ذہنی آسودگی پائی۔ فرحت اچھی طرح جان گیا تھا کہ سائرہ کو چٹ پٹی چیزیں اور بھنا ہوا گوشت بہت پسند ہے۔ وہ جب بھی ہری پور جاتا بکرے کا گوشت اور مچھلی خاص طور پر خریدتا۔ عام دنوں میں وہ گاؤں سے کچھ فاصلے پر پھیلے جنگل میں جاتا اور دو تین پرندے یا جنگلی خرگوش شکار کر کے لے آتا۔ مہینے میں ایک آدھ بار کہل ڈیم سے مچھلی بھی پکڑ لاتا۔ فرحت اس بار مچھلی پکڑنے کا سامان لے کر جب کہل ڈیم پہنچا تو صورت حال کافی مختلف تھی۔ ڈیم کے کنارے پر وقفے وقفے سے نو فشنگ کی تختیاں لگی ہوئی تھیں ۔ اسے لگا جیسے کوئی شخص چیکنگ کے لیے بھی گھوم رہا ہو۔ فرحت کو بڑی مایوسی ہوئی ۔ وہ کافی دیر یونہی بیٹھا رہا۔ کچھ پرندے پانی کی سطح پر خاموشی سے تیر رہے تھے اور کچھ کنارے پر بیٹھے بے فکری سے کسی خوشگوار سوچ میں مگن تھے۔ یک دم فرحت وہاں سے اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گاؤں کی طرف جانے لگا۔ اگلے روز جب وہ کہل ڈیم پر آیا تو اس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ اس نے کنارے پر بیٹھی ایک مرغابی کا نشانہ لیا۔ وہ سات آٹھ میٹر سے زیادہ نہیں اڑ سکی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ وہ پانی میں گھس کر اس کی پہنچ سے دور ہو جاتی۔ فرحت نے بھاگ کر اسے دبوچا۔ سائرہ نے پہلی بار مرغابی پکائی تھی۔ اس لیے وہ بہت پر جوش تھی۔ گھر کے چاروں افراد دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جوں ہی سائرہ نے اپنے منہ میں پہلا لقمہ ڈالا۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ ارے واہ یہ تو بہت لذیذ ہے۔ مزہ آگیا۔
f you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.