Afsana Mubarak ho by Saeed Ashar

Afsana-Mubrak-ho-by-Saeed-Ashar-featured-image

Afsana-Mubrak-ho-by-Saeed-Ashar-blog-post-image

 اس بار ہمارے گروپ کے اونرز نے فیصلہ کیا بجائے اس کے کہ تمام ڈویژنز الگ الگ افطار پارٹی کریں۔ بہتر ہے کہ پورے گروپ کی ایک ہی جگہ ایک ہی بار افطاری کا انتظام کیا جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے الغسیبی ہوئل کو منتخب کیا۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس افطاری میں نہیں جاؤں گا۔ میرا خیال تھا کہ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ہر قسم کے ملازمین اکٹھے ہوں گے۔ اں سے گریز ہی بہتر ہے ۔ ویسے میں پچھلے سال اپنے ڈویژن کی طرف سے ہونے والی افطاری سے بھی غیر حاضر رہا۔ حالانکہ آخری وقت تک میں اس کے منتظمین میں بھی شامل رہا تھا۔ چھٹی سے کچھ دیر پہلے میں زاہد اشفاق کے روم میں تھا۔ آج آپ کا کیا اردہ ہے؟“ میں تو چلوں گا۔ وہاں بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ البتہ آپ کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ پچھلے سال بھی آپ مین ٹائم پر غیر حاضر ہو گئے تھے۔“ میں واقعی نہیں جارہا۔ وہاں سینکڑوں لوگ ہوں گے۔ افراتفری کا عالم ہو گا۔ خوامخواہ روزہ خراب ہوگا۔ وہاں سے اٹھ کے یوں ہی میں شکیل بھائی کے کمرے میں چلا گیا۔ شکیل بھائی! آج کا کیا پلان ہے؟“ میرا خیال تھا شکیل بھائی بھی بیزاری کا اظہار کریں گے لیکن ان کی رائے اس کے  بالکل برعکس تھی۔

ارے بھائی چلیں گے۔ بلکہ اس بار تو لازمی چلیں گے۔“ اچھا! یہ کیسا ہوٹل ہے جس میں افطاری دی جارہی ہے؟“ یہ مہنگے ترین ہوٹلوں میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر یورپین وزیٹر ٹھہرتے ہیں ۔ شکیل بھائی کی اس بات نے میری سوچ بدل دی ۔ وہاں سے اٹھ کے میں واپس زاہد اشفاق کے روم میں آگیا۔ شکیل بھائی کی باتوں نے میرا ارادہ بدل دیا ہے ۔ اچھا ہے اب ساتھ چلیں گے۔ ٹھیک پانچ بجے میں آپ کو پک کرنے آجاؤں گا۔ آپ نے تیار رہنا ہے۔ میں نے اپنی گاڑی دو سال پہلے فروخت کر دی تھی نئی مینجمنٹ کی اپنی ترجیحات تھیں۔ ہر تیسرے ماہ دو چار لوگوں کو فارغ کر رہے تھے۔ ایسی بے یقینی میں گاڑی بیچ دینا ہی بہتر تھا۔ اب تو میرا ڈرائیونگ لائسنس بھی ایکسپائر ہو چکا تھا۔ ویسے بھی آفس سے میری رہائش دس منٹ کے واکنگ ڈسٹینس پر تھی۔ ٹھیک ساڑھے تین بجے میں نے آفس چھوڑ دیا۔ گھر آ کے عصر کی نماز پڑھی کپڑے بدلے اور بستر پر لیٹ کر یوٹیوب پر مختلف وی لاگرز کے تازہ ترین تبصرے سننے لگا۔ اس دوران کب آنکھ لگی ، پتہ ہی نہیں چلا۔ جب میری آنکھ کھلی تو سب سے پہلے میں نے دیوار سے چپکی گھڑی کی طرف دیکھا۔ پانچ بج کے دومنٹ ہو رہے تھے ۔ ایک دم موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ زاہد اشفاق کی دومس کالیں اور ۔ ایک وٹس ایپ میسج موجود تھا۔ فوراً اسے کال ملائی ۔ جی زاہد بھائی ! کہاں ہیں؟“ میں نیچے کھڑا ہوں ۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔

” اوکے میں نیچے پہنچ رہا ہوں “ ٹھیک پانچ بج کے دس منٹ پر میں اس کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ہوٹل کارنش پر تھا۔ ہم پہلی دفعہ اس طرف جارہے تھے ۔ زاہد نے وقت ضائع ہونے سے بچنے کے لیے گوگل میپ آن کر لیا۔ اس لیے ہمیں کوئی دقت پیش نہیں آئی مشکل سے دس منٹ کا راستہ رہا ہو گا۔ ہمارے سامنے ایک محل نما بلڈ نگ تھی۔ ہوٹل کے احاطہ میں بہترین رستہ بنا ہوا تھا۔ رستے کے دونوں طرف پھولوں کی کیاریاں، ہری گھاس کے تختے اور صاف ستھرے فوارے تھے۔ ہم مین دروازے سے ہوٹل کے لاؤنج میں داخل ہو گئے ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئے ہوں جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ ہو۔ اسے اگر خوابوں کی دنیا کہیں تو بھی غلط نہ ہو گا۔ نیا بندہ تو کچھ دیر کے لیے مسحور ہو کے رہ جاتا ہو گا۔ اونچی اونچی دیواروں پر قیمتی پینٹنگز ، ایل ای ڈیز اور انتہائی خوبصورت لائٹیں تھیں۔ فرش پر مناسب فاصلوں پر قیمتی پودے اور ڈیکوریشن پیس رکھے تھے۔ ایک جگہ چھوٹی سے آبشار بھی فضا کو خوابیدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔ چھت پر انتہائی دلکش فانوس اور نفیس کام تھا۔ ہر طرف فرش پر دبیز قالین بچھے ہوئے تھے۔ وہاں کا مجموعی رنگ سنہری تھا۔ اس وقت جس جس گروپ کی طرف سے افطاری کی دعوت تھی ، سب کی وہاں تختیاں لگی ہوئی تھیں۔ جن سے رہنمائی ہو رہی تھی کہ کس ہال میں کس گروپ کے لیے بکنگ کی گئی ہے۔ ہم پہلے دائیں طرف مڑے اور تھوڑا آگے جاکے پھر بائیں طرف مڑ گئے ۔ جس ہال میں ہماری افطاری کا بندو بست تھا اس میں داخل ہونے سے پہلے میں نے دیکھا کہ دائیں طرف دیوار کے ساتھ لکڑی کے بنے ہوئے عجیب و غریب قسم کے انٹیکس رکھے ہوئے تھے اور دیوار پر ایک انتہائی قیمتی پھولدار قالین لٹک رہا تھا۔ ہم ہال میں داخل ہوئے تو ہوٹل کی انتظامیہ نے ہمارا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ ایک ایک انعامی کو پن بھی ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا۔ بہت ہی بڑا ہال تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق بھی وہاں پانچ سو سے اوپر کرسیاں رکھی ہوں گی ۔ بائیں طرف سٹیج بنا ہوا تھا ۔ ہم دونوں مختلف لوگوں سے سلام دعا کرتے ہوئے دائیں طرف بڑھتے چلے گئے ۔ کافی آگے  جا کے ہم دونوں ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ پاس کی دوسری ٹیبل پر ہمارے اکاؤنٹس مینجر سلمان اختر اور ریزن پلانٹ کے مینیجر انور فہیم پہلے سے موجود تھے ۔ ہر ٹیبل پر چھ چھ لوگوں کے حساب سے چھری کانٹے اور گلاس رکھے تھے ۔ شیشے کے ایک جنگ میں یہاں کا بہترین شربت پہلے سے ڈال کے رکھا گیا تھا۔ افطار کے لیے شیشے کے ایک برتن میں کجھوریں تھیں ٹیبل کی ایک سائیڈ پر گہوے کا فنجان اور چھوٹے چھوٹے کپ رکھے گئے تھے۔ منرل واٹر کی بہت ساری بوتلیں بھی پہلے سے موجود تھیں ۔ ہر لائن میں چار میزیں رکھی گئی تھیں۔ درمیان میں وقفے وقفے سے الگ الگ سلاد کھانے اور میٹھے کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ کہیں کسی وی آئی پی یا کسی ڈیپارٹمنٹ کے لیے کوئی ٹیبل یا ہال کا کوئی حصہ مخصوص کر کے نہیں رکھا گیا تھا۔ اونرز، ڈائرکٹرز مینیجرز ، سٹاف اور لیبرز سب مکس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس طرح کی گیدرنگ میں نے یہاں اپنی بیس سالہ نوکری میں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہر سال ہر ڈویژن اپنا اپنا افطاری کا الگ سے انتظام کرتا۔ باقیوں کا تو مجھے نہیں پتہ لیکن ہمارے ڈویژن کا جب بھی ایسا کوئی فنکشن ہوتا تو وی آئی پیز، مینجرز اور آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے پہلے سے ٹیبلز مخصوص کر دی جاتی تھیں۔ ہال میں وال ٹو وال قیمتی کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ دیواروں پربھی بڑی بڑی سکرینوں پر مقامی چینلز کی نشریات آرہی تھیں۔ چھت پر ایک خاص ترتیب سے چھوٹی بڑی لائٹیں اور فانوس لگے ہوئے تھے۔ یہاں کی فضا پر بھی سنہری رنگ حاوی تھا۔ اگر کرسیوں کو ٹیبلز ہٹا کے ان کی ترتیب بدل کے لمبائی میں لگا دیا جائے تو یہ ہال اپنی شان و شوکت میں کسی شہنشاہ کے دربار سے کسی طور کم نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہمارے باس وقاص عزیز اور پراڈکٹ مینیجر منیب بادی بھی آکے انور فہیم والی ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔ ہم نے ایک دوسرے کو ہاتھ ہلا کے اپنی موجودگی کا بتایا۔ وہاں ایک فوٹو گرافر بھی گھوم رہا تھا لیکن وہ زیادہ تر اونرز اور مقامی لوگوں کی تصویریں لے رہا تھا۔ سعید بھائی ! اگر افطاری کے بعد کھانے میں دیر ہوئی تو ہم زیادہ دیر نہیں رکیں گے تا کہ تراویح شروع ہونے سے پہلے واپس پہنچ جائیں ۔ زاہد اشفاق نے تشویش کا اظہار کیا۔ آپ چلے جانا۔ میں تو اب کھانا کھا کے ہی جاؤں گا چاہے آدھی رات کو کھلے۔ آپ میری طرف سے بے فکر ہو جائیں میں پیدل چلا جاؤں گا۔ میری استقامت کے سامنے وہ خاموش ہو گیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے افطاری کے لیے پکوڑے سموسے، چاٹ اور دہی بڑے لانے کے بجائے اذان ہونے سے پانچ منٹ پہلے کھانے کے برتنوں کے اوپر سے ڈھکن اٹھا دیے۔ پھر کیا تھا تمام لوگوں نے اپنے قریب کے سٹال کا رخ کیا۔ البتہ کچھ میجر ٹائپ لوگوں اور خود ساختہ مدبروں نے توقف کیا تا کہ رش کم ہو جائے ۔ آذان شروع ہوئی تو میں نے کھجور سے روزہ افطار کیا۔ ہم دونوں کی طرح انور فہیم کی ٹیبل کے لوگ بھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے کھانے کے سٹال کی طرف ابھی نہیں بڑھے تھے۔ میں ایسی دعوتوں میں چاول، روٹی اور مختلف اقسام کے سالن لینے کے بجائے سلاد اور ایک آدھ چکن یامٹن پیسں پر اکتفا کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم عام طور پر اپنے گھروں میں ہر طرح کے کھانے بناتے رہتے ہیں لیکن یہاں جتنی قسموں کے سلاد دستیاب ہوتے ہیں ان میں سے اکثر ہم کتنی بھی کوشش کر لیں گھر میں نہیں بنا سکتے ۔ یہاں تو سلاد کا پورا ایک اسٹال لگا ہوا تھا۔ جہاں طرح طرح کے سلاد سجے ہوئے تھے۔ میں آرام سے اٹھا اور سلاد کے اسٹال کی طرف بڑھ گیا۔ دو تین قسم کے سلاد ڈالے ۔ ساتھ ہی کچھ مکرونی اور نوڈلز ڈالے ۔ ایک عدد چکن پیس لیا اور اپنی جگہ واپس آگیا۔ ہر چیز بہت عمدہ اور لذیز تھی۔ سچ تو یہ ہے بھوک ختم ہونے کے بجائے مزید چمک اٹھی۔ مجھے ایک بار پھر سلاد کے اسٹال پر جانا پڑا۔ خوش ذائقہ شربت نے بھی طبیعت کو بشاش کر دیا۔ میٹھا لینے گیا تو میری پسندیدہ کھیر ختم ہو چکی تھی۔ کھانا تو ہو گیا، کیوں نہ اب چلیں؟ تراویح پر پہنچنا ہے ۔ زاہد اشفاق نے اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔

ابھی رکیں ۔ پہلے کچھ لوگوں کو نکلنے دیں ۔ ورنہ سب کی نظروں میں آجائیں گے ۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ کھانا ختم کر کے ہم سب ایک جگہ کھڑے ہو گئے تھے۔ باقی سب انتظامات تو بہت اچھے تھے البتہ ایک خامی رہ گئی تھی ۔ وقاص عزیز نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ وہ کون سی سر؟” ری فلنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جب میں کھانا لینے گیا تو تقریبا میری پسند کی ہر چیز ختم ہو چکی تھی ۔ آپ درست کہہ رہے ہیں ۔ مجھے بھی یہ بات شدت سے محسوس ہوئی ہے ۔ ابھی ہم وہاں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ سٹیج کی طرف سے عربی میں کوئی اعلان کیا گیا۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آئی۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟“ ہمیں جو

ٹوکن دیے گئے تھے اب ان کی قرعہ اندازی ہوگی اور انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔“ سلمان اختر نے مسکراتے ہوئے انکشاف کیا۔ سب نے اپنی اپنی جیب سے کوپن نکال کے اس پر درج نمبر ذہن نشین کر کے کو پن دوبارہ جیب میں ڈال لیے ۔ بہت سارے لوگ اس اعلان کے بعد سٹیج کے سامنے اکھٹے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا زاہد اشفاق اب پر سکون تھا۔ زاہد بھائی ! چلیں ۔ ہمارا کون سا انعام نکلنا ہے ۔ میں نے زاہد اشفاق کو چٹکی بھری۔ تھوڑی دیر رکیں تراویح میں ابھی کچھ وقت ہے ۔ ذرا تماشا دیکھتے ہیں ۔ اتنی دیر میں کسی نے انگلش میں پہلا نمبر بنایا۔ انور فہیم نے دوبارہ اپنی جیب سے کو پن نکال کے چیک کیا۔ ہم میں سے کسی کا وہ نمبر نہیں تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں بہت پیچھے موجود کمرشل ڈویژن کے ایک منیجر نے شور مچاتے ہوئے سٹیج کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔

یہ میں ہوں ۔۔۔ یہ میں ہوں ۔ ساتھ ساتھ وہ جس جوش اور خوشی سے کو پن ہوا میں لہراہا رہا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مل گئی ہو ۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم سب ہنسنے لگے ۔ ایسے بھاگ رہا ہے کہ ایک سیکنڈ کی دیر ہو گئی تو اعلان منسوخ ہو جائے گا۔ انعام لے کے جب وہ واپس آیا تو اس کا پیکٹ ایک سائڈ سے پھٹا ہوا تھا۔ ” کیا اندازہ ہے اس میں کیا ہو گا ؟“ زاہد اشفاق نے تججس سے پوچھا۔ مجھے تو یہ کوئی تولیہ لگ رہا ہے ۔ منیب ہادی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہاں ! مجھے بھی تولیہ ہی نظر آرہا ہے ۔ وقاص عزیز نے مزہ لیا. وقفے وقفے سے سٹیج  کی طرف سے جب کسی نمبر کا اعلان ہوتا۔ انور فہیم دو تین بار اپنے کو پن کو غور سے دیکھتا۔ میں نے جو پیچھے مڑ کے دیکھا۔ وقاص عزیز کا سیکریٹری مصعب بھی ایک کرسی پر بیٹھا اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کو پن کو گھور رہا تھا۔ اس دوران ہمارے ایک ویئر ہاؤس انچارج ذوالفقار اور آٹو ڈویژن کے تھامس کا بھی انعام نکلا۔ ہم میں سے کسی کا ابھی تک کوئی انعام نہیں نکلا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ وقاص عزیز کے کو پن نمبر سے ایک آگے کا نمبر پکارا گیا۔ سٹیج سے آخری نمبر پکارا گیا تو جیسے مجھے جھٹکا لگا ہو۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن دوسری بار پکارنے پر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میرا ہی نمبر ہے۔ میں نے جیب سے کو پن نکال کے اس کی تصدیق کی۔ ” آپ کا ہی نمبر ہے۔ سوچنے کے بجائے جاکے اپنا انعام وصول کریں ۔ زاہد اشفاق نے میری بے یقینی ختم کی۔ میں سٹیج کی طرف بڑھ گیا۔ وہاں موجود انتظامیہ نے ایک پیکٹ میرے حوالے کیا۔ کیمرا مین نے دو تین تصویریں بھی لیں ۔ اسٹیج کے سامنے کھڑے لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اس طرح اس تقریب کا آخری انعام میرے حصے میں آگیا۔ جب ہم ہال سے باہر نکلے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی سینما کا شو ختم ہوا ہو۔ زاہد اشفاق نے مجھے میری رہائش کے سامنے ڈراپ کیا۔ میں نے پیکٹ کھولا تو اس کے اندر سے کافی میکر نکلا۔ اگلے روز جب میں آفس پہنچا تو مجھے ایک گھنٹے کی تاخیر ہو چکی تھی۔ صبح آنکھ ہی نہیں کھل رہی تھی۔ ہفتے میں ایک آدھ بار میرے ساتھ ایسا ہوتا رہتا تھا۔ میں نے روٹین کے مطابق کمپیوٹر آن کیا۔ ای میلز دیکھنے لگا تو ایک میل دیکھتے ہی جیسے میرا فیوز اڑ گیا ہو ۔ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے میرا ٹرمینیشن لیٹر بھیجا تھا۔ اس میں صرف ایک سبب لکھا گیا تھا کہ میں ساٹھ سال سے اوپر کا ہو چکا تھا۔ اس لیے وہ نئے قانون کے مطابق بغیر کسی بھی وجہ کے مجھے ٹرمینیٹ کر سکتے تھے ۔ میں ششدر ہو کے بیٹھا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ ہیلو! بہت بہت مبارک ہو بھئی ! کہاں ہو؟“ اس سے پہلے کہ میرے منہ سے مغلظات نکلتیں ۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔ سنا ہے کل تمہارا بڑا انعام نکلا ہے۔ کیا انعام ہے؟ کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ ۔ اس خوشی میں اب تو پارٹی ہونی چاہیے ۔ ہیلو! – ہیلو!۔۔۔ آواز نہیں آرہی ۔“ میں نے کال کاٹ کے موبائل آف کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *