Afsana MOLA PUR by saeed Ashar a Heartfelt reflection

مولا پور
جوں ہی عائشہ کی نماز جنازہ مکمل ہوئی۔ عبد الشکور نے کہا۔ میت کو شمشان گھاٹ کی طرف لے جائیں ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ عبد الشکور نے کیا کہا۔ دو چار اشخاص کو لگا شاید بے دھیانی میں اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ محمد یوسف ! میت کو شمشان گھاٹ لے جائیں ۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ جس جس کے کان میں یہ آواز پڑی وہ بے چین ہو گیا۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ صبح اذان کے ساتھ عبد الشکور کے خاندان کے سارے افراد جاگ اٹھتے تھے۔ ان کی تعداد ہی کتنی تھی۔ عبد الشکور کی ضعیف والدہ زلیخا، بیوی رضیہ، نیم پاگل بیٹا محمد یوسف، فرسٹ ایئر میں پڑھتی ہوئی بیٹی عائشہ اور ساڑھے تین سال کی پوتی مائرہ۔ اس کی بہو صدیقہ پچھلے سال فوت ہو گئی تھی۔ آدھے سے زیادہ گاؤں بلقیس دائی کے ہاتھوں میں پیدا ہوا تھا۔ پتہ نہیں اس بار ایسا کیا ہوا کہ زچہ وبچہ دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے محمد یوسف اسی صدمے سے نیم پاگل ہو گیا۔ اس نے اچھا خاصا دکان کا کام سنبھال رکھا تھا۔ اس سانحے کے بعد سارا بوجھ دوبارہ عبدالشکور کے بوڑھے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ مولا پور ایک عام سا پر امن قصبہ تھا مختلف قوموں پر مشتمل ملی جلی آبادی تھی۔ کچھ گھر ہندو اقلیت کے بھی تھے۔ قصبے کا ہر چھوٹا بڑا فرد عبد الشکور کو مولوی صاحب کہتا تھا۔ ان کے والد مولانا
قاسم مولا پور کی واحد جامع مسجد کے امام تھے ۔ عبدالشکور نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ تک مسجد میں چھوٹے بچوں کو ناظرہ بھی پڑھایا۔ اس کے علاوہ جب تک اس کے والد حیات رہے ۔ وہ قصبے کی ختم پڑھنے والی ٹولی کا با قاعدہ حصہ رہا۔ ختم پڑھنے کا بڑا آسان طریقہ تھا کسی بھی گھر کا کوئی ذمہ دار فرد مولانا قاسم کو آکر کہتا۔ مولانا ! اس جمعہ کو پہلے وقت ہمارا ختم پڑھنا ہے۔ اگر کسی اور سے وعدہ نہ کیا ہوا ہوتا تو مولانا حامی بھر لیتے ۔ ورنہ اس دن شام کا یا اگلے دن کا کوئی وقت دے دیتے صبح کے وقت ختم سے مراد تھی کہ نماز فجر کے بعد مولانا سمیت چھ آدمی مسجد میں بیٹھ کر پانچ پانچ سپارے پڑھیں گے۔ سورج نکلنے کے ساتھ ہی ختم والے گھر سے عام طور پر خالص گھی میں تر تراتے پراٹھے اور چائے لائی جاتی ۔ ہر آدمی ایک دو سپارے پڑھ کے گھر چلا جاتا۔ بارہ بجے کے قریب ختم ٹولی کے ارکان دوبارہ مسجد میں اکٹھے ہوتے اور ختم والے گھر سے آئے ہوئے کسی فرد کے ساتھ اس کے گھر چلے جاتے ۔ جہاں عام طور پر دن کے کھانے میں تنور کی خمیری روٹی کبھی شکر شور بے والی دیسی مرغی اور سوجی کا حلوہ ہوتا کبھی کبھی مرغی کی جگہ دال بھی ہوتی۔ شام کے ختم میں بھی تقریبا یہی مینو ہوتا۔ البتہ عصر کے وقت چائے کے ساتھ پر اٹھوں کے بجائے رس اور ابلے ہوئے انڈے ہوتے۔ لیکن اس بار معاملہ ذرا مختلف ہوا۔ جمعرات کی شام ایک شخص نے مولانا قاسم کو جمعہ کے دن پہلے وقت کے ختم کا کہا۔ صبح نماز کے بعد ساری ٹولی مسجد میں بیٹھ کر سپارے پڑھنے لگ گئی۔ سورج کافی اوپر تک آگیا لیکن ختم والے گھر سے کوئی ناشتہ لے کر نہ پہنچا۔ مولانا نے ٹولی کے ایک رکن جہانداد کو ختم والے گھر بھیجا۔ جائے پتہ کرو ابھی تک ناشتہ کیوں نہیں آیا۔ وہ تو کہہ رہے ہیں ہم نے کسی سے ختم کا نہیں کہا۔ اس نے واپس آکے سب کو متعجب کر دیا۔ سب نے اپنے اپنے سپارے بند کر دیے ۔
کوئی بات نہیں ہم نے آج جو ختم پڑھا ہے۔ اس کا ثواب اپنے بزرگوں کو ایصال کر دیتے ہیں مولانا نے یہ کہنے کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کر دیے ۔ باقی افراد بے دلی سے آمین آمین کرتے رہے ۔ دن بارہ بجے ایک دن پہلے ختم کا کہنے والا شخص دوبارہ مولانا کے پاس آیا۔ مولانا! کھانا تیار ہے آپ لوگ تشریف لائیں ۔ مولانا نے ایک بار پھر ختم ٹولی کٹھی کی اور ختم والے گھر کی طرف رخ کیا۔ پتہ چلا صبح کے وقت جہانداد نے ان کے پڑوس والے ایک گھر سے جا کر ناشتے کا پوچھا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے ٹولی کے تمام ارکان دل ہی دل میں قہقہے لگا ر ہے تھے۔ حلوہ ختم ہوا تو مولانا نے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ یا اللہ! آج ہم نے جو کلام پاک پڑھا ہے اس کا ثواب اس گھر کے جتنے بزرگ فوت ہو چکے ہیں ان سب کو بھی پہنچا۔ شاید میزبان کو بھی سنائی نہیں دیا تھا۔ دسویں کے بعد عبد الشکور کچھ ماہ تک فارغ رہا۔ پھر مولانا قاسم نے اپنی بہن کی بیٹی رضیہ سے اس کی شادی کروادی گھر میں ایک فرد بڑھ گیا لیکن زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہی۔ گھر میں چار بکریاں، آٹھ دس مرغیاں اور بطخیں تھیں۔ اس لیے دودھ اور انڈے ضرورت سے زیادہ تھے۔ گرمیوں سردیوں میں لسی پڑوس میں موجود ملک صاحب کے گھر سے آجاتی۔ گھر کے ساتھ ملحقہ ایک چھوٹے سے پلاٹ پر مولانا نے گھر کی ضرورت کی تمام سبزیاں اگا رکھی تھیں۔ پلاٹ کا مالک کئی سالوں سے کراچی میں ملازمت کر رہا تھا۔ تمام قصبہ اس بات کا پابند تھا کہ سال میں ایک اوڈی (پانچ سیر ) گندم اور ایک اوڈی مکئی فی گھر ان کو فصلا نہ دے گا۔ جن کی زمین نہیں تھی وہ اوڈی کی قیمت کے برابر پیسے دے دیتے۔ چھوٹی عید پر سر سایا ( فطرانہ ) بھی ان کے حصے میں آتا۔ اتنا اناج اکٹھا ہو جاتا کہ وہ گھر کی ضرورت محفوظ کر کے باقی سارا بیچ دیتے ۔ ہونے والی کمائی سے گھر کی دوسری ضرورتیں پوری ہو جاتیں ۔ صدقے اور حقیقے کے جانوروں کے چمڑے، پائے اور سر بھی مولانا کاتسلیم شدہ حق تھا۔ بڑی عید پر قربانی کے چمڑوں کی وجہ سے بھی مناسب رقم مل جاتی۔ جس گھر میں موت ہو جاتی وہ جنازے کے وقت حیلے ( اسقاط ) کے علاوہ مرنے والے کے استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کا ایک ایک جوڑا اور چالیس دن تک ایک فرد کے لیے صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا مولانا کے گھر دیتا۔ چپل اور کپڑے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ اسی طرح نکاح اور کچھ دوسرے مواقع پر بھی تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی۔ محمد یوسف کی پیدائش پر عبدالشکور نے مولانا کو راضی کر لیا کہ گھر کی بیٹھک میں کریانہ کی دکان کھول لی جائے۔ عبد الشکور سمجھدار تھا۔ اس نے دکان میں کریانہ کے سامان کے علاوہ پلاسٹک کے چپل ، سبزیاں اور پھل تھوڑا بہت کپڑا اور ضروری ضروری سٹیشنری بھی رکھ لی ٹھیک ٹھاک دکانداری ہونے لگی۔ ادھار کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو اناج کے بدلے بھی سامان فروخت کرتا۔ عائشہ کی پیدائش ہوئی تو وہ مزید سنجیدہ ہو گیا۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ اسے اس وقت احساس ہوا جب ایک دن اچانک مولانا قاسم کو دل کا دورہ پڑا۔ وہ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز ختم ہونے سے پہلے ہی وہ خود ختم ہو گئے۔ لوگ ان کی میت کو چار پائی پر ڈال کر گھر لے کے آئے۔ فوتیدگی کے تیسرے دن قصبے کے کچھ معززین اکٹھے ہو کر عبد الشکور کے پاس آئے۔ فاتحہ کے بعد ملک خالق داد نے کہا۔ مولوی صاحب ! آپ ہمارے لیے سب سے بڑھ کے ہیں ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ مسجد کی امامت اب آپ سنبھا لیں ۔ اس پر آپ کا حق بھی بنتا ہے ۔ عبد الشکور نے فرداً فرداً ہر شخص کا شکریہ ادا کیا اور سوچنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی مہلت تو اس نے صرف معززین کے احترام میں مانگی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ امامت کی ذمہ داریوں میں دکانداری برباد ہو جائے گی۔ ویسے بھی وہ امامت کے بدلے سر سایا اور قربانی کی کھالوں کو لینا نا جائز تصور کرتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ غرباء اور مساکین کا حق تھا۔ مہلت ختم ہونے پر اس نے امامت کرنے سے معذرت کرلی۔ قصبہ والوں نے نئے امام کا بندو بست کر لیا۔ دسویں کے بعد محمد یوسف بھی دکان پر کام کرنے لگا تھا۔ اس سے عبد الشکور کو کافی سہولت ہونے لگی تھی کبھی بھی وہ محمد یوسف کو دکان کا سودا لینے شہر بھی بھیج دیتا محمد یوسف نے وہیں دکان میں پہلی بار صدیقہ کی آنکھوں میں روشن ہوتے ہوئے ستارے دیکھے تھے۔ اس سے پہلے کہ گھر کی بات پورے قصبے میں عام ہوتی۔ عبد الشکور نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا۔ قوم قبیلے کی لڑکی تھی۔ بغیر کسی تماشے کے محمد یوسف اور صدیقہ کا ملاپ ہو گیا۔ سال بعد مائرہ کی پیدائش نارمل طریقے سے ہوئی ۔ حالانکہ پہلی ڈیلوری کافی حساس ہوتی ہے۔ پورا علاقہ بلقیس دائی کے ہنر کا قائل تھا۔ پھر پتہ نہیں دوسری ڈیلیوری پر ایسا کیا ہوا تھا کہ زچہ و بچہ دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ محمد یوسف اس صدمے سے نیم پاگل ہو گیا۔ اچھا خاصا اس نے دکان کا کام سنبھالا ہوا تھا۔ مڑ کے سارا بوجھ دوبارہ عبد الشکور کے بوڑھے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ قصبے کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حاسدوں سے اس گھرانے کی خوشیاں دیکھی نہیں گئیں کسی نے ان پر کالے جادو کا عمل کروادیا تھا لیکن عبد الشکور کو ان باتوں پر یقین نہیں تھا۔ مائرہ نے اپنی پر دادی زلیخا کی ٹھنڈی ہڈیوں میں پناہ ڈھونڈھولی ۔ رضیہ اپنے بیٹے محمد یوسف کی فکر میں گھل گھل کے آدھی ہو چکی تھی اس کا ایک ہی تو بیٹا تھا۔ عائشہ مولا پور کے ہائر سکینڈری سکول میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر نے اس کے دل میں سوراخ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ عبد الشکور سوچ رہا تھا کسی دن اسے شہر کے سب سے بڑے ماہر امراض دل کے پاس لے جائے گا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ حسب معمول ایک رات گھر کے تمام افراد اپنے وقت پر سوئے ۔ عبدالشکور کا یہ اصول تھا کہ صبح اذان سے پہلے اٹھ کر مسجد پہنچ جاتا۔ نماز اور ایک رکوع کی تلاوت کے بعد گھر آکے ناشتہ کرتا۔ اس وقت تک گھر کے باقی افراد بھی نماز پڑھ کے ناشتہ کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہو چکے ہوتے۔ اس صبح عائشہ کمرے سے باہر نہیں آئی۔ مولوی صاحب ! ذرا عائشہ کو دیکھیں۔ کافی دیر سے آواز میں دے رہی ہوں ۔ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ عبد الشکور کے گھر پہنچتے ہی رضیہ نے کہا۔ عبد الشکور نے بھی عائشہ کوکئی آوازیں دیں لیکن وہ ٹس سے مسں نہیں ہوئی نبض چیک کی تو وہ خاموش تھی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ آوازیں سنتے ہی پاس پڑوس کے سب خواتین و حضرات نے عبد الشکور کے گھر کا رخ کیا۔ مسجد میں اعلان ہوا تو پورا قصبہ عبد الشکور کے ہاں اکٹھا ہو گیا مختلف افراد نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ کچھ لوگ قبر کی کھدائی کے لیے قبرستان کی طرف چلے گئے۔ مہمانوں کے کھانے کا بندوبست ملک عبد الخالق نے اپنے ذمہ لے لیا۔ پتہ ہی نہیں چلا پانی اور چار پائیوں کا بندو بست کس نے کیا مختلف علاقوں میں بر وقت جنازے کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔ قصبے کا ہر فرد عبد الشکور کے غم میں برابر کا شریک نظر آرہا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد ٹھیک وقت پر گھر سے جنازہ نکلا۔ کلمہ شہادت جنازے میں شامل سب افراد باری باری میت کو کاندھا دے رہے تھے۔ کلمہ شہادت جنازے کے ساتھ کافی لوگ تھے ۔ ارد گرد کے دیہات سے تقریبا ہر اہم آدمی جنازے میں شریک تھا۔ دس منٹ میں سب جنازہ گاہ پہنچ گئے۔ وہاں پہلے سے بہت سارے لوگ صفیں بنائے کھڑے تھے ۔ یہ لوگ بھی صفوں میں شامل ہو گئے ۔ انتخابات کے دن ہوتے تو جنازہ مزید بڑا ہو جاتا ۔ کسی نے بے موقع تبصرہ کیا۔ ارے کوئی صفیں گنے ۔ طاق ہونی چاہیں ۔ تقریبا ہر آدمی اپنے آگے پیچھے دیکھنے لگا۔ پوری گیارہ صفیں ہیں ۔ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں۔ اپنی اپنی نیت حاضر کریں ۔ سب نیت حاضر کریں ۔ امام صاحب کے اللہ اکبر کہتے ہی ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ السلام عليكم ورحمة الله ” جوں ہی عائشہ کی نماز جنازہ مکمل ہوئی۔ عبد الشکور نے کہا۔ میت کو شمشان گھاٹ کی طرف لے جائیں ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ عبد الشکور نے کیا کہا۔ دو چار اشخاص کو لگا شاید بے دھیانی میں اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے تھے ۔ محمد یوسف ! میت کو شمشان گھاٹ لے جائیں ۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ جس جس کے کان میں یہ آواز پڑی وہ بے چین ہو گیا۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ مولوی صاحب ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟“ امام صاحب نے عبدالشکور کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں امام صاحب ۔“ یوسف ! شمشان گھاٹ کی طرف چلو عبد الشکور کے لہجے میں پختگی تھی۔ تقریبا ہر آدمی نے اپنے سر پر آسمان اٹھا لیا۔ کوئی بھی کسی دوسرے کی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔ ملک عبد الخالق نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو مشتعل ہونے سے روکا اور طے کیا کہ جب تک سب کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ جاتے میت کو اس وقت تک قریب کے کسی گھر میں رکھ دیا جائے۔ تھوڑی دیر میں قصبہ کے تمام معززین ایک جرگے کی صورت ملک عبد الخالق کی ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے تھے ۔مولوی صاحب ! آپ ایک شریف اور معزز آدمی ہیں ۔ آپ کے والد صاحب اسں گاؤں کے امام رہے ہیں ۔ آپ ایک با شرع مسلمان ہیں ۔ پھر آپ بیٹی کی میت کو شمشان گھاٹ کیوں لے کر جانا چاہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں ہندو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں ۔ آپ ناراض نہ ہوں ۔ میں آپ سب سے معافی مانگتا ہوں ۔ یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ براہ کرم آپ اس میں مخل نہ ہوں ۔ عبد الشکور اپنے موقف پر قائم تھا۔ اپنے اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ جرگے میں موجود ایک جذباتی شخص پھٹ پڑا۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ مجھے اللہ کو کیا جواب دینا ہے ۔ کسی کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ۔ دیکھیے مولانا! یہ آپ کا ذاتی مسئلہ نہیں ۔ پورے علاقے کے مذہبی جذبات مشتعل ہو رہے ہیں۔ دین کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں ۔ یہ ایک اجتماعی نظام کا نام ہے ۔“ امام صاحب نے قدرے تحمل سے وضاحت کی۔ پولیس چوکی کا انچارچ فیروز اپنا توازن کھو بیٹھا۔ دیکھو مولوی ! ہوش کے ناخن لو۔ ایسا نہ ہو کہ میت ہمیں اپنی تحویل میں لے کر تمھیں حوالات میں بند کرنا پڑے ۔ فیروز کے ایک جملے نے جرگے کی فضا کو آلودہ کر کے رکھ دیا۔ نتیجے کے طور پر عبدالشکور کے بھی کئی حمایتی پیدا ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ مختلف افراد میں ہاتھا پائی شروع ہو جاتی تین چار سفید ریش بزرگ کھڑے ہو گئے ۔ سب کو اللہ کا واسطہ دے کر پر امن رہنے کے لیے درخواست کی۔ طوفان کچھ کم ہوا تو خانقاہ کے متولی احمد شاہ نے کھڑے ہو کر عبد الشکور کو مخاطب کیا۔ ”مولوی صاحب ! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے کھل کے بتائیں ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں کوئی غیر نہیں ۔ آپ کی پردہ پوشی کی وجہ سے ابھی خون خرابہ ہونے والا تھا۔ یہ ایک پر امن علاقہ ہے اس پر رحم کریں ۔ شاہ صاحب ! آپ کا اور اس جرگے میں موجود ہر فرد کا میرے نزدیک بہت احترام ہے۔ میرے دل میں جو بات ہے وہ میں اس لیے نہیں کرنا چاہ رہا تھا کہ مجھے معلوم ہے آپ لوگوں کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ۔ آپ نے مجھے مجبور کیا ہے تو سنیں ۔ پچھلے مہینے بھی اس مولا پور میں ایک جوان لڑکی فوت ہوئی تھی۔ اس کی میت کو قبر سے نکال کے کسی نے بے حرمتی کی تھی۔ جس کا مجرم ابھی تک نہیں پکڑا گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی کے ساتھ کوئی یہ سلوک کرے۔ اس لیے میں نے یہ بہتر سمجھا کہ اس کی میت کو شمشان گھاٹ لے جا کر جلا دوں ۔ عبد الشکور خاموش ہوا تو جرگے پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص کی نظریں زمین میں گڑھ رہی تھیں ۔
If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.