Afsana CHOUR by saeed ashar

Afsana-Chour-by-Saeed-Ashar-featured-image.webp

Afsana CHOUR by saeed ashar is A Heartfelt Reflection

Afsana-Chour-by-Saeed-Ashar-blog-post-image.webp

 مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ چوری اس نے کی ہوگی۔ اب وہ تقریبا چار سال کا ہے ۔ اس کی پیدائش سے چند دن پہلے اس کی فیملی میرے فلیٹ کے برابر والے فلیٹ میں شفٹ ہوئی تھی۔ میں آج تک اس مغالطے میں رہا ہوں کہ ساجد نے اس کا نام ایان رکھا ہے یاریان – خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ابھی وہ ایک ہفتے کا نہیں ہوا تھا کہ ساجد اسے پہلی بار میرے پاس لایا تھا۔ وہ بہت ہی صحت مند تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اسے کھلو کہوں لیکن میں نے اسے جانی کے نام سے پکارا۔ جانی نے مجھ سے مانوس ہونے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ وہ جب بھی آتا سکون سے میری گود میں لیٹا رہتا۔ کچھ دنوں کے بعد اچانک میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اپنے ننھے ننھے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے بڑا اچھا لگا۔ جوں ہی وہ ذرا سا بڑا ہوا۔ میں نے اسے گود میں لٹانے کے بجائے بٹھانا شروع کر دیا۔ جتنی دیر تک وہ میرے پاس رہتا بالکل پرسکون اور خاموش رہتا۔ عام طور پر اس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے ٹی وی کی طرف دیکھتا رہتا۔ رونا تو جیسے اسے آتا ہی نہیں تھا۔ وقت غیر محسوس انداز سے آگے بڑھتارہا۔ جانی بھی اسی انداز سے بڑا ہوتا گیا۔ اس نے میرے ساتھ کشتی بھی کرنی شروع کر دی کبھی وہ میرے بازو مروڑنے کی کوشش کرتا اور کبھی وہ مجھے نیچے گرا کے قہقہے لگا تا۔ اب وہ گود میں بیٹھنے کے بجائے میرے ساتھ گدے پر بیٹھنے لگا تھا۔ گدے پر اس کی مکمل اجارہ داری تھی۔ وہاں ہم دونوں کے علاوہ کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔اگر اس کے بہن اور بھائی میں سے کوئی بھی وہاں بیٹھنے کی کوشش کرتا تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ جیسے ہی اس نے چلنا شروع کیا اسے قابو کرنا مشکل ہو گیا۔ جب بھی آتا پورے کمرے کا نقشہ بدل کے رکھ دیتا کوئی چیز اس کی دسترس سے محفوظ نہیں تھی ۔ صوفوں کی گدیاں تک زمین پر پھینک دیتا۔ دو چار بار میں نے اسے آنکھیں بھی دکھائیں لیکن دس بارہ منٹ سے زیادہ اس نے اثر لینا مناسب نہیں سمجھا۔ٹی وی کے علاوہ ہر ضروری چیز میں نے وہاں سے ہٹا دی تھی ۔ ایک دو بار اس نے ٹی وی کو بھی زمین بوس کرنے کی کوشش کی لیکن میری بر وقت مداخلت سے وہ محفوظ رہا۔ پھر وہ پاکستان چلا گیا۔ ساجد کی تنخواہ میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ وہ یہاں تین بچوں اور بیوی کا خرچ پورا کر سکے۔ اس لیے اس نے اپنی فیملی کو پاکستان بھیج دیا۔ بچوں کی جدائی نے ساجد کو اچھا خاصا اپ سیٹ کر دیا۔ وہ کم کم ہی اپنے گھر میں رہتا۔ زیادہ تر میرے پاس بیٹھا رہتا۔ میں بھی جانی کو بہت مسں کر رہا تھا۔ جیسے گھر پر ویرانی قابض ہوگئی ہو۔ درو دیوار سے سناٹا ٹپک رہا تھا۔ گاہے گاہے میں ساجد سے اس کی خیر خیریت بھی معلوم کرتا رہتا۔ سال ڈیڑھ گزرنے میں ایک پل لگا۔ ساجد نے فیصلہ کیا کہ اپنی فیملی کو مستقل ویزے کے بجائے اس بار وزٹ ویزے پر بلائے۔ چند دنوں کے بعد اس کی فیملی وزٹ ویزہ پر یہاں پہنچ آئی ۔ حسب سابق اس کے تینوں بچے شام کو میرے ہاں آن پہنچے ۔ جانی کو دیکھ کے میرا دل تڑپ سا گیا۔ وہ سوکھ کے تیلا ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر پہلے جیسی بشاشت موجود نہیں تھی۔ جیسے پھول مرجھا گیا ہو۔ وہ مجھے بہت تڑپ کے ساتھ ملا۔ میرے لیے وہ پتیسہ بھی لایا تھا۔ جانی اب ساڑھے تین سال کا ہو چکا تھا۔ وہ اپنے بہن اور بھائی کی بہ نسبت قدرے خاموش طبع تھا۔ وہ سکون سے بیٹھا کارٹون دیکھتا رہتا۔ اس کے علاوہ میں نے اسے بھی کوئی شرارت، افراتفری ، ضد یا نقصان کرتے نہیں دیکھا۔ ساجد اور میری آپس میں اتنی انڈرسٹینڈنگ تھی کہ ہم بغیر کسی جھجھک کے ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں مانگ لیتے ۔ کھانا بناتے ہوئے اچانک اگر میں نے دیکھا کہ ادرک مرچ یا ٹماٹر موجود نہیں تو میں نیچے دکان کی طرف بھاگنے کے بجائے ساجد کے دروازے پر دستک دینے کو تر جیح دیتا۔ اسی طرح چائے بناتے ہوئے اگر ساجد کے ہاں چینی یا دودھ کم پڑ جاتا تو سیدھا آ کے مجھے آواز دیتا۔ حاجی صاحب ! ایک پیالی دودھ چاہیے ۔ یار ! ادھر فریج میں دیکھ لو ۔ جس قدر چاہیے خود ہی لے لو ۔“ میں جہاں ہوتا وہیں سے جواب دے دیتا۔ اس کے علاوہ ہماری یہ بھی عادت رہی کہ جب بھی کھانے میں کچھ خاص بناتے خود کھانے سے پہلے دوسرے کے ہاں پہلے پیش کرتے۔ اسی ادل بدل میں ایک دن انکشاف ہوا کہ جانی کو میرے ہاتھ کا بنا ہوا قیمہ، گوشت کا شوربہ اور چپلی کباب بہت پسند ہے۔ پھر کیا تھا میں اکثر اس کی پسند کا خیال رکھنے لگا۔ اس دوران اس نے کئی بار اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز فرمائش کر کے بنوائی۔ دو تین بار اپنے گھر سے کچا قیمہ اٹھ لایا تا کہ میں خاص طور پر اس کے لیے قیمہ کریلہ بناؤں۔ ان دنوں میں اپنی کسی کتاب کی پروف ریڈنگ کر رہا تھا۔ اس مقصد کے لیے میں ایک خاص طرح کا باریک پوائنٹ والا سرخ بال پین استعمال کر رہا تھا۔ اس حوالے سے میری طبیعت بہت اچھی ہے کہ پڑھنے لکھنے کے کسی عمل میں مجھے کوئی مخصوص ماحول یا اشیاء در کار نہیں ہوتیں۔ میں ٹی وی دیکھتے ہوئے اور بچوں کے شور شرابے میں بھی مکمل اطمینان سے اپنا کام کرتا رہتا ہوں ۔ حسب معمول میں ایک صوفے پر سکون سے بیٹھ کے موبائل فون میں موجود مسودہ پڑھتا اور ساتھ ساتھ ایک کاغذ پر غلطیاں نوٹ کرتا رہتا تھا۔ تینوں بچے مزے سے اپنے کارٹون دیکھتے رہتے۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد میں باقی تمام چھوٹے موٹے کاموں سے فارغ ہو کے تسلی سے ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موبائل پر مسودے کی فائل  کھولی ۔ میز کی طرف نگاہ ڈالی تو غلطیوں والا کاغذ تو موجود تھا البتہ بال پوائٹ غائب تھا۔ میں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ پہلے پورے کمرے میں اسے تلاش کیا۔ اس کے بعد بیڈ روم کی مکمل تلاشی لی۔ یہاں تک کہ باورچی خانے میں بھی جاکے اچھی طرح تسلی کی۔ وہ بال پوائنٹ نہیں ملا۔ اتنے میں ساجد اور جانی بھی آگئے۔ حاجی صاحب خیر تو ہے نا؟ کچھ الجھے الجھے اور پریشان پریشان سے لگ رہے ہیں ۔ ساجد شاید میری پریشانی بھانپ گیا تھا۔ یار کیا بتاؤں؟ ایک ریڈ بال پوائنٹ تھا، وہ نہیں مل رہا کہیں تم تو اٹھا کر نہیں لے گئے تھے؟“  میں نے اسے چٹکی بھرنی ضروری سمجھی ۔ ارے ! میں نے اس کا کیا کرنا تھا۔ پھر وہ یک دم جانی کی طرف متوجہ ہوا۔ ” انکل کا پن آپ نے تو نہیں لیا ؟“ جانی نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میرے دل میں بھی شک کے کیڑے نے سر اٹھایا کہ بال پین ضرور جانی کو پسند آیا ہو گا۔ اس لیے اس نے لے لیا ہو گا لیکن میں نے اپنے شک کی پرچھائیں اس پر نہیں پڑنے دی۔ ویسے مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ چوری اس نے کی ہوگی۔ چلیں چھوڑیں! میں کوئی دوسرا بال بین استعمال کر لیتا ہوں ۔ میں نے ان کی توجہ اس طرف سے ہٹانے کی کوشش کی۔ خلاف معمول دو تین منٹ کے بعد جانی اٹھ کر چلا گیا۔ اس دوران میں نے نوٹ کیا باقی سب لوگ تو میرے پاس اسی روٹین سے آرہے تھے لیکن جانی دو تین دن میری طرف نہیں آیا۔ دو تین روز سے جانی نظر نہیں آرہا ٹھیک تو ہے نا ؟ ” ایک دن میں نے ساجد سے پوچھا۔ ”ٹھیک ہے۔ پتہ نہیں کیوں نہیں آیا ۔ ساجد نے عمومی انداز میں جواب دی۔ اتفاق سے اس شام مجھے کہیں باہر جانا پڑ گیا۔ جانی اپنے ادھ کھلے دروازے میں کھڑا تھا۔ جوں ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ پورا ہفتہ گزر گیا جانی میرے پاس نہیں آیا۔ اس دوران آتے جاتے ایک دو بار میری اس پر نظر بھی پڑی ۔ وہ مجھ سے گریز پا رہا۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی چوری افشا ہونے کی وجہ سے شرمندہ ہے اس لیے مجھ سے کنی کترا رہا ہے ۔ ایسی سچویشن میں مجھے بھی اسے بلانا مناسب نہیں لگا۔ وہ مزید شرمندگی محسوس کرتا۔ اتفاق دیکھیے، اگلے جمعہ کو جوں ہی صوفے پر پڑی ہوئی چادر میں نے جھاڑنے کے لیے اٹھائی میرا گم شدہ ریڈ بال پوائنٹ اس کی کسی سلوٹ سے نکل کے نیچے قالین پر جا گرا میرا دھیان جانی کی طرف چلا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ شرمندہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ اس بات پر رنجیدہ تھا کہ اس کی ذات پر شک بھی کیوں کیا گیا تھا۔ اس کا بھروسہ زخمی ہوا تھا کم از کم وہ مجھ سے اس طرح کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ اتفاق سے جب میں شام کو کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلا تو وہ اپنے ادھ کھلے دروازے میں کھڑا تھا۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ اس وجود پسینے سے بھیگ گیا تھا۔سے پہلے کہ اس کی نظر مجھ پر پڑتی میں نے ایک دم پیچھے ہٹ کے اپنا دروازہ بند کر لیا۔ میرا پورا

وجود پسینے سے بھیگ گیا تھا۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *