کھوتیاں  جوگی Best Afsana by Saeed Ashar

Best-Afsana-by-Saeed-Ashar-4.webp

کھوتیاں  جوگی Best Afsana by Saeed Ashar Ever

Best-Afsana-by-Saeed-Ashar-4.webp

 میری ناقص معلومات کے مطابق پورے گاؤں میں دو مردوں کا نام سرور تھا۔ ایک سرور کھوتیاں والا اور دوسرا سرور بد۔ اگر کوئی تیسرا شخص اس نام کا تھا بھی تو میں اس سے واقف نہیں تھا۔ اس وقت ہم سات آٹھ افراد سرور بد کے دروازے پر کھڑے تھے۔ ہمارے ساتھ پانچ آدمی غیر مقامی تھے ۔ ہم ظہر کی نماز پڑھ کے گاؤں کے لوگوں کو جامع مسجد میں عصر کے بعد ہونے والے تبلیغی بیان کی دعوت دینے نکلے تھے ۔ اس جماعت کی قیادت ایک مقامی آدمی عبد القیوم کے پاس تھی جس کا تعلق گاؤں کی لوہار برادری سے تھا۔ دوسری دستک پر سرور بد دروازے سے باہر آیا۔ سلام کے بعد عبد القیوم نے کہا۔ سرور صاحب عصر کی نماز کے بعد بڑی مسجد میں کچھ دیر کے لیے دین مان کی باتیں ہوں گی۔ ہم آپ کو اس میں شریک ہونے کی دعوت دینے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔ تم مجھے کیادین مان کے بارے میں بتاؤ گے۔ دینا ترکھان میری گلی کی نکڑ پر رہتا ہے اور مانا مراثی میرے گھر کے دائیں طرف ہے۔ مجھ سے بہتر ان کے بارے میں کون جان سکتا ہے بھلا ، اور قیومے تم وہی ہونا جس نے پچھلے ہفتے اپنی ساس کو مار مار کے ادھ موا کر دیا تھا۔ کہتے ہیں ، ساس تو ماں کے برابر ہوتی ہے۔ پٹکی باندھ کے مجھے تبلیغ کرنے آگیا ہے ۔ سرور بد کا یہ پرشور بیان سن کے ارد گرد سے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں کھسکتے کھسکتے تبلیغی جماعت کو چھوڑ کے ان لوگوں میں جا کھڑا ہوا۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔ دروغ بر گردن راوی لوگ کہتے تھے آج دن تک دونوں سروروں میں سے کسی ایک کو بھی کبھی مسجد میں نہیں دیکھا گیا۔ سرور کھوتیاں والا ہمارا پڑوسی تھا۔ اس کے پاس پانچ سات قد آور گدھے تھے۔ جن پر وہ لوگوں کا ہر طرح کا سامان ڈھو کر اپنی روزی کماتا۔ ہمارے گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے تمام پتھر بھی اس نے ہی ڈھوئے تھے۔ پتھروں کا نرخ پھڑی کے مطابق ہوتا۔ ایک پھڑی چھ  فٹ لمبی ، چارفٹ چوڑی اور دوفٹ اونچی ہوتی۔ ایک دن اباجی نے اسے کہا۔ سرور بھائی ! اگر کوئی چاہے تو پھڑی بناتے وقت بڑی آسانی سے پتھروں کو کم یا زیادہ کر سکتا ہے ۔ سرور کو اباجی کی یہ بات شاید اچھی نہیں لگی تھی ۔ صاحبو! آپ میرے لیے بہت قابل احترام میں اور اب تو پڑوسی بھی ہیں۔ میں آپ کے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا۔ ” ارے نہیں نہیں میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ اباجی کی وضاحت بھی اسے مطمئن نہ کر سکی۔ ویسے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ پاس والے گاؤں میں آپ جیسے ایک معزز شخص نے مجھ سے پتھروں کا ٹھیکہ کیا۔ اس کا نام نہیں لیتا آپ اسے جانتے ہیں ۔ وہ بہت باریکیاں نکال رہا تھا۔ مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے ایک ایسی پھڑی بنائی جو بظاہر بھر پور نظر آرہی تھی۔ پھر میں نے اس کے سامنے پھڑی کے دونوں طرف سے ایک ایک پتھر نکالا۔ اندر اتنا بڑا خلا تھا کہ بکری کا بچہ آسانی سے گزر جاتا ۔ سرور کا ایک بیٹا تھا۔ رشید ، جو اکثر گھر سے بھا گا رہتا۔ رشید سے چھوٹی اس کی ایک بیٹی نسرین تھی۔ شاید اللہ نے اسے شیشے اور سنگ مرمر کی آمیزش سے بنایا تھا۔ مجھ سے بڑی تھی۔ جلد ہی کسی دوسرے گاؤں میں اس کی شادی ہوگئی۔ آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ سرور کی بیوی کا نام بھی سرور تھا۔ ہمالی بے بے اسے سرور بہن کہتیں ۔ پہلی بار جب میں نے اس کا نام سنا تو اس اتفاق پر مجھے بھی بڑی حیرت ہوئی ۔ ہر ہفتے ان دونوں میاں بیوی کا آپس میں کم از کم ایک دنگل ضرور ہوتا۔ گالم گلوچ ہوتی ۔ مارکٹائی کے ساتھ گھر کے سارے برتن ٹوٹتے ۔ ارد گرد کے لوگ تماشا دیکھتے ۔ جب وہ دونوں نڈھال ہو جاتے تو کوئی بڑا بوڑھا ان کو پر سکون ہونے کی تلقین کرتا۔ اسی طرح کے ایک معرکے میں جب سرور بہن کی ہمت جواب دے گئی تو پناہ لینے کے لیے وہ بھاگ کر ہمارے گھر آگئی۔ اباجی کا سب احترام کرتے تھے اس لیے سرور اس کے پیچھے ہمارے گھر تک نہیں آیا۔ سرور بہن کے ہونٹ ، ناک اور گال سوجھے ہوئے تھے۔ جسم پر جگہ جگہ سونٹے کی ضربوں سے نیل پڑے ہوئے تھے ۔ ماتھے پر ابھرے گھومر دور سے بھی باآسانی دیکھے جا سکتے تھے ۔ بے بے نے نیم گرم پانی میں ہلدی گھول کر اس کے زخموں پر لگائی ۔ ابلے ہوئے دودھ کو ٹھنڈا کر کے پلایا۔ سرور بہن! کیوں فضول میں مار کھاتی رہتی ہو۔ تمہارا میاں تھکا ہوا آتا ہے۔ اسے کیوں غصہ دلاتی ہو؟“ ” آپاجی! میں اسے کچھ نہیں کہتی۔ خود ہی آئے بکواس شروع کر دیتا ہے۔ میں جواب دوں تو کنجر مارنا شروع کر دیتا ہے۔ سارے برتن توڑ دیتا ہے۔ ہمارے گھر میں اب کوئی بھی برتن نہیں بچا۔ بڑی مشکل سے پچھلے ہفتے کچھ برتن خرید کے لائی تھی ۔ میں سمجھ گئی ۔ اب وعدہ کرو میری بات مانو گی ۔ آئندہ وہ کچھ بھی کہے ۔ آگے سے جواب نہ دینا۔ ایک تو مار کھانے سے بچی رہوگی ۔ دوسرا برتن بھی محفوظ رہیں گے۔ ٹھیک ہے آپا جی میں پوری کوشش کروں گی ۔ سرور بہن شام تک ہمارے گھر رہی۔ اگلے دن بے بے نے خالص گھی میں آٹے کا حلوہ بنایا۔ وہ چینی کے بجائے اس میں گڑ ڈالتی تھیں۔ ہم سب گھر والوں کو یہ حلوہ بہت مرغوب تھا۔ پتر! یہ حلوہ سرور بہن کو دے آؤ۔“ بے بے نے مجھے مخاطب کیا۔ میں سمجھ گیا کہ انھوں نے یہ حلوہ سرور بہن کی ٹکور کے لیے بنایا ہے۔ حلوے سے بھری ہوئی ایک بڑی پلیٹ لے کر میں سرور بہن کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے۔ میں اندر داخل ہو گیا۔ تنگ سے صحن میں پانچ سات بڑی جسامت کے گدھے بندھے ہوئے تھے۔ میں ان سے بچتا بچاتا کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ سرور سامنے چار پائی پر لیٹا تھا اور سرور بہن اس کی گود سے ٹیک لگائے چار پائی سے پاؤں لڑکائے بیٹھی تھی۔ دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ جوں ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انھیں دسویں وولٹ کا جھٹکا لگا۔ ہم سب رات کا کھانا مغرب کی نماز کے فوراً بعد کھانے کے عادی تھے۔ اس لیے بے بے مغرب سے پہلے پہلے تنور پر روٹی پکا لیتی تھیں۔ اس کے بعد اس گرم تنور میں دو تین لکڑیاں جلا کے سرور بہن بھی اپنی روٹیاں پکاتی۔ اس دن ابھی سورج نہیں ڈوبا تھا۔ تنور جل رہا تھا اور ہم سب باری باری سلائیڈ ویوور میں خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی تصویریں دیکھ رہے تھے۔ یہ ڈیوائس ہمارے بڑے ماموں سعودی عرب سے لائے تھے۔ ایک دن پہلے انھوں نے اسے ہمارے گھر بھجوایا تھا تاکہ ہم بھی ان مقدس مقامات کو دیکھ سکیں ۔ اسی دوران سرور بہن بھی اپنا گوندھا ہوا آٹا اور کچھ لکڑیاں لے کے آگئی۔ سرور بہن ! ادھر آؤ تمہیں کچھ دکھاؤں ۔ بے بے نے ڈیوائس اس کی آنکھوں سے لگا دی ۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی ۔ آپا جی ! یہ کیا ہے؟“ سرور بہن! یہ ایک ایسی دوربین ہے۔ جس میں مکہ مدینہ کے فوٹو نظر آتے ہیں ۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سرور بہن کے حلق سے چیخ نکل گئی۔ استافا استافا استافا پھر اس پر رقعت طاری ہوگئی ۔ اس کا سارا وجود کانپ رہا تھا۔ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔ بے بے نے اسے پاس ہی رکھے ہوئے ایک مونڈھے پر بٹھا کے پانی پلایا۔ کچھ دیر بعد جب اس کی طبیعت ذرا بحال ہوئی تو اس نے آہ بھر کے کہا۔ ” آپا جی! دعا کریں۔ میں بھی وہاں جاؤں ۔ مکہ بھی دیکھوں مکرمہ بھی دیکھوں ۔ مدینہ منورہ بھی دیکھوں ۔ ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ہنسی روکنا مشکل ہو رہی تھی سرور بہن اپنی روٹیاں پکا کے جوں ہی دروازے سے باہر نکلی ہمارے منہ سے قہقہوں کے فوارے ابل پڑے ہنس ہنس کے پہلوؤں میں درد ہونے لگا۔ کسی نے پوچھا۔ یہ استافا کیا ہوتا ہے؟“ ہنسی کا ایک اور دور شروع ہو گیا۔ بے غیرتو تھوڑا ہنسو کیا پتہ اللہ کواس کی یہ ادا کتنی پسند آئی ہو۔ وہ بے نیاز ذات لفظوں کو نہیں، نیتوں کو دیکھتی ہے۔ میرا خیال ہے وہ استغفر اللہ کے بجائے سبحان اللہ کہنا چاہتی تھی۔ اس لیے شدت جذبات میں اس کے منہ سے استافا استافا نکل رہا تھا ۔ بے بے ہماری بنسی مدہم کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ کچھ دنوں بعد جب ہم مسجد سے عصر کی نماز پڑھ کے واپس آئے تو سرور کے گھر سے زور زور سے رونے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ ہم دوڑ کر وہاں پہنچے کسی نے بتایا۔ ابھی ابھی سرور رضائے الٰہی ہو گیا ہے ۔ شاید دل کا دورہ پڑا ہے ۔ اللہ بخشے پورے علاقے میں کبھی اس نے کسی کے ساتھ جھگڑا یا دھوکہ نہیں کیا تھا۔ اگلی صبح دس بجے اس کا جناز ہ ہوا۔ سوئم کے بعد رشید نے گھر اور گدھے سنبھال لیے لیکن کب تک۔ کتے کی دم بھی بھلا نہیں سیدھی ہوئی ہے۔ چند ماہ کے بعد وہ جولاہوں کی ایک لڑکی کو لے کے کراچی بھاگ گیا۔ سرور بہن گھر میں اکیلی رہ گئی۔ کمائی والا کوئی نہ رہا۔ اوپر سے اس کے کاندھوں پر سات گدھوں کو پالنے کی ذمہ داری مجبور ہوگئی۔ جونہی ساتھ والے گاؤں سے اس کے بھائی اسے لینے آئے وہ انکار نہ کر سکی۔ ہمارا پڑوس ویران ہو گیا۔  ہم لوگ نئی ضرورتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو کے شہر آگئے ۔ دن اور رات چھت کے پیچھے کی طرح گھومتے رہے۔ میری کنپٹیوں کے بال بھی سفید ہونے لگے ۔ شاید فروری کا مہینہ تھا ایک دن گیارہ بجے کے قریب میں اور بے بے صحن میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔ ایک بڑھیا گلی کے دروازے سے گھر کے اندر آئی۔ سمیر ! ماسی کو یہ پیسے دے دو۔ میں نے قریب ہی گیند کے ساتھ اکیلے کھیلتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو آواز دی۔ بڑھیا دس کا نوٹ مٹھی میں دبائے آہستہ آہستہ ہماری طرف آرہی تھی۔ آپا جی ! میں سرور ہوں ۔ کچھ دیر تک ہم دونوں اسے بے اختیاری کی حالت میں دیکھتے رہے۔ اس کا چہر بھی کھنڈر سے مشابہ تھا۔ آنکھیں اجڑی ہوئی جھیلیں ۔۔۔ اور بھاری بھرکم جسم سوکھ سوکھ کے کسی درخت کی پتلی سی ٹہنی ہو چکا تھا۔ سرور بہن ! تم ؟” بے بے نے اسے اپنے قریب رکھی ایک کرسی پر بٹھایا۔ ” بڑی مشکل سے آپ کا گھر ڈھونڈا ہے ۔ ہاں دوسرا شہر ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو کم ہی پہچانتے ہیں ۔ اب تو ہمیں یہ تک نہیں معلوم ہوا کہ ہمارا پڑوسی کون ہے۔ قیامت کی نشانیاں ہیں ۔ بے بے خاموش ہوئیں تو میں نے سمیر کو پاس بلایا۔ پتر ! ماما کو بولو پانی اور چائے دے دیں ۔ کچھ دیر ہم ویسے ہی ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف رہے۔ چائے کے دوران اچانک بے بے نے سرور بہن کو مخاطب کیا۔ زمانہ گزرگیا ہے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ سرور بہن! تم کیسی ہو ٹھیک تو رہی ہونا ؟“ میں بھائیوں کے پاس چلی گئی تھی۔ کچھ عرصہ بعد رشید بھی اپنی بیوی کو طلاق دے کر وہاں آگیا تھا کھوتے اس وقت تک پاس تھے ۔ کچھ عرصہ تک وہ لوگوں کا سامان ڈھوتا رہا۔ ایک دن چھوٹے ماموں کی کسی بات پر بھڑک اٹھا۔ ایسا بھا گا کہ آج تک اپنی شکل نہیں دکھائی ۔ اسے گلہ تھا کہ میں نے اس کی طرف داری کیوں نہیں کی۔ آپا جی ! میں ایسا کیسے کر سکتی تھی ؟“ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔ پچھلے ہفتے میرا چھوٹا بھائی بھی فوت ہو گیا ہے ۔ کیا کھوتے اب بھی تمہارے پاس ہیں؟“ مجھے ایک عرصہ تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ بے بے نے اس موقع پر یہ سوال کیوں کیا تھا۔ ناں آپا جی ! میں بہت بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہوں ۔ اب میں کہاں کھوتیاں جوگی رہی ہوں ۔

If you want to read variety of Afsana, Click Here.
For more English Literature Notes Visit this Website
If You Want to get Free Translated Pdf Books of foreign Writer Visit our Here.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *